Tuesday 19 April 2016

Fans Of Mysticism - Dastan e Amee

 مصری شاہ لاہور شہرکاایک مشہورومعروف علاقہ جو ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ہے اس علاقے سے  گزرتے ہوئے کچھ آگے ایک نہایت مقدس ومقدم علاقہ میراں دی کھوئی ہے جہاں ایک عظیم الشان عالی مرتبت اللہ کا شیر متمکن ہے جن کے نام نامی سے ایک عالم واقف ہے جی ہاں میرا مطلب حضرت میراں زنجانی ؒ ہے جو حضرت داتا گنج بخش ؒ کے پیر بھائی ہیں۔سبحان اللہ۔
ذکر اولیاء اللہ باعث برکت ہے اللہ کی ذات فرماتی ہے کہ جب تم میرے ان پیاروں کا ذکر کرتے ہو تو میں بہت خوش ہوتا ہوں۔انہی اولیاءاللہ کے پاک نفوس کے صدقے میں ہم ہدایت و تلقین پاتے ہیں اور اللہ تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہ سلسلہ حضور نبی اکرم ﷺ سے چلتا ہوااصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور ان سے آئمہ کرام جن میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور دیگر اماموں کی خدمات اور تعلیم کا کسی کو بھی انکار نہیں۔ جب اللہ نے ہر ذی نفس کو زندگی میں ایک ہی بار موقع دیا ہے اوراس کا وقت معین ہے اور یہ بھی کہ اُس نے اس جہان فانی کو چھوڑکے جانا ہے اوراس کی جگہ کسی اور نے لینی ہوتی ہے کیونکہ یہ دین اللہ کا لایا ہوا ہے کسی اور کی ایجاد یا ترکیب سے نہیں بنا۔
انہی اولیاء اللہ میں سے ایک حضرت معروف کرخی ؒ ہیں جنہوں نے اس کار خیر کو بخوبی آگے بڑھایا۔ اب یہ ہی سلسلہ رشدوہدایت ہندوستان کے راستے سے ہوتا ہوا لاہور شہر کے علاقے جیون ہانہ ،گارڈن ٹاون میں متمکن ہوا اور اللہ کی تجلیوں اور تابانیوں کی روشنی نے لوگوں کے دلوں کو سرشار کرنا شروع کردیا۔ میری مراد شاہ شکور المعروف تاج الاولیاءؒ ہے۔ اسی دوارے سے ایک اور پھول خوشبو دینے لگا اور مالی کو معلوم ہو  گیا کہ یہ اپنے سہانے موسم کے آنے پر ایک تناور درخت بن جائے گا جی ہاں میں حضرت الشاہ محمد علاء الدین المعروف شمس العارفین ؒ کی بات کر رہا ہوں جن کا مزار اقدس شور کوٹ، ضلع جھنگ ہےآپ سرکار عالی کا آخری پڑاو ہے۔ آپ سرکار ؒ نے دین کی سربلندی کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ گھر بار کو چھوڑااور اپنے پیرو مرشد کی امانت کو بہت محنت اور خندہ پیشانی سے سر انجام دیا۔ الحمد للہ۔
حضرت شاہ علاء الدین ؒ نے اس سلسلہ کی اشاعت ترویج کے بہت کام کیا ہے جو کسی لحاظ سے کم نہیں کہ اس بات کے باوجود کہ آپؒ کو لاہور کو خیر باد کہنا پڑا پھر بھی آپؒ کی تابناکیوں سے کوئی نہ بچ سکا اور آپ ؒ کے اتنے قریب ہو گیا کہ آپؒ نے ان کو ان سے مانگ لیا۔ کہتے ہیں کہ ولی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگتا وہ تو جو بھی چاہتا ہے تو اللہ ہی سے مانگتا ہے اور شاید یہ مانگنا بھی اسی رب کریم کی جانب سے تھا۔ مانگا بھی تو کیا مانگا ایک پیر نے دوسرے پیر کی محبت کو نہ مانگا بلکہ چاہا۔ یہ جملہ آج بھی لازوال ہے " چوہدری صاحب آپ ہمارے بیٹے بن جائیں"۔ قدرت کاملہ سے یہ تو نہ ہوسکا مگر یہ رشتہ ناطہ ایک لازوال داستان اپنے پیچھے چھوڑ گیا جس کے نشان و نقوش آج بھی اپنا حال خود ہی بیان کرتے ہیں۔ جن کو بیٹا بنانے کا عہد کیا وہ بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں یعنی حضرت شاہ محمد امین شاہ ؒ بخاطب غیبی فخر المتوکلین ۔
آپ سرکارؒ مصری شاہ میں عزیز روڈ پر کورنر والے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ آپ کی تعلیم تو اتنی نہ تھی اپ صرف آٹھ جماعتیں پڑھے ہوئے تھے لیکن شکل و شباہت سے ایسا نہ تھا۔ لانبا قد اوررُخ انور بہت ہی پُر وجیہہ تھا۔ اپ کی آنکھوں میں ایک خاص تابناکی تھی جو بھی دیکھتا تو تاب نہ لا سکتا۔ جو بات کہ ایک بزرگ و درویش میں ہونی چاہیے کہ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ اس کو دیکھ کر ہمیں اللہ کی یاد آتی ہے اسی طرح کا معاملہ آپ سرکار عالی کے ساتھ بھی تھا۔پیشے کے اعتبار سے آپ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ سارا کاروبا عین شرعی اصولوں کے مطابق تھا۔
آپ سرکار کو اپنے والد بزرگوار سے بہت پیار تھا۔ ایک لمحہ بھی برداشت نہ کرتے اور آپ حضورؒ کی محبت یہ رنگ لائی کہ جب آپ کے والد محترم وفات پا گئے تو میرے سرکار ہر وقت انہی ہی قبر انور احاطہ میراں دی کھوئی قبرستان پہ بیٹھے رہتے اور آنسووں کی لڑیاں بہاتے ۔ حضورؒ کو اور کچھ نہ سوجھتا بس ایک باپ کی محبت ہی میری سرکار کا کل خزانہ تھا۔ وہ سرکار جس نے کل آنے والے لمحات میں غیروں کو سینہ اقدس سے لگا کر تسلی و تشفی سے آرام دینا تھا۔ جس پیر نے جد امجد بننا تھا آج وہ اپنے والد صاحب کی محبت میں گرفتار تھا۔ ہائے ہائے کل کا کس کو پتا تھا کہ اس ایک ولی حق نے کئی لوگوں کی نیند اُڑانی ہے کیونکہ جب عشق بڑھتا ہے تو کسی کو نہیں دیکھتا جلا کے راکھ کر دیتا ہے۔اسی ولی اعظم نے کئی دلوں کی دھکن بننا ہے۔کئی دلوں کا قرار بننا ہے۔اور کیا پتا کہ لوگ ان کا نام لے کر مدد الہٰی کے لیے خواستگار ہونگے۔ جو خزاں کے لیے بہار ثابت ہونے والے ہیں ۔آج جہاں جا رہے ہیں وہاں ان کے پیچھے چلنے والی لوگوں کی جماعت ہوگی۔ کوئی ان پہ مرنے اور مٹ جانے والا ہو گا۔ کسی کو ان سے نسبت ہو گئی تو وہ بخش دیا جائے گا۔ سُبحان اللہ سُبحان اللہ  
 دل میں لگی ہوئی اسی چنگاری کو شعلہ ہارا بنانے کے لیے اللہ نے خود ہی سامان پیداکر دیا۔
حضور عالی قدرؒ کو اسی یکساں حالت میں دیکھ کر آپ کے دو دوستوں نے آپ سرکار کو کہا کہ وہ ان کے ساتھ اللہ کے بزرگ سے ملنے چلتے ہیں۔ آپ چونکہ دوست کی بات کا برم رکھنے والے تھے اس لیے آپ نے ان کی بات کورد نہیں کیا اور ان کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔ یہ تینوں ہما ہما شہر جھنگ پہنچ گئے اور اس ہستئی بے بہا سے آنکھیں چار ہوئیں جو پہلے ہی سے اپنے والد بلکہ پیرو مرشد کے عشق میں گرفتار تھے۔ جیسے ہی دونوں کی آنکھیں ملیں تو سب راز کھل گئے حضرت الشاہ محمد علاء الدینؒ سب کچھ ایک ہی نظر میں بھانپ گئے کہ اصل بات کیا ہونی چاہیے۔ میری سرکار جب ککی نو مکان شریف پہنچے تو دادا حضرت مسجد کی سیڑھیوں پہ تھے۔ آپ نے وہی کھڑے ہو کر میری سرکار کی ساری بپتا ان دو آدمیوں سلیم اور بشیر سے سنی اور میری سرکار کو پہلے گلے لگا کر پوچھا کہ کیا اب کوئی سکون ہوا چوہدری صاحب؟ سرکار نے فرمایا کہ نہین پھر گلے لگایا اور دریافت کیا کہ اب ؟ سرکار نے کہا کہ نہیں پھر تیسری بار جب گلے لگایا تو اس بار کہ میری سرکار کچھ کہتے تو ہمارے داداحضرتؒ نے فرمایا کہ اب کسی اور کی محبت کبھی چوہدری صاحب کے دل میں نہیں رہے گی۔ ہوا بھی ایسا ہی کہ سرکار کو صرف صرف حضرت الشاہ علاءالدین علیہ رحمہ کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں تھی۔ دوسرے سلاسل کے پیر عظام سے سرکار کو عقیدت تھی۔ جن میں حضرت پیر مکی صاحبؒ، حضرت بابا شاہ جمالؒ، حضرت سُلطان باہُوؒ، حضرت بابا چھتریؒ، حضرت بابا فریدالدین شکر گنجؒ، حضرت محکم الدین المعروف حجرہ شاہ مقیمؒ اورحضرت ابو شاہ نقیب ؒ۔  
اب اس دل کی محبت نے جو تلاطم مچایا تو میری سرکار کے لیے جھنگ لاہوری اور بھاٹی بن گیا۔ اُٹھے تو ارادہ ہو گیا کہ یار کی گلی ہیی اچھی ہے چل چلیے جتھے عشق نے ڈیرہ لایا اے۔ اسی ذوقشوق کو دیکھ کر اور اس کے علاوہ آپ کی نیت اورارادہ بھی تو اس میں کارفرما تھا جو آپ کو مزار پاک حضرت الشاہ علاءالدین ؒکو بنانے کی اجازت خود آپ کی سرکار نے دی۔ آپ سرکار کے کئی پیر بھائی اس بات پہ حسد میں مبتلا ہو گئے۔ اب یہاں کوئی کیا کرے کہ جب پیر صاحب کا آرڈر ہے وہ خود ہیکہتے ہیں کہ چوہدری صاحب آپ ہی ہمارا مزار بنائیں گے اس کے بعد آپ آزادہیں۔
سرکار نے بھی خوب ذمہ داری نبھائی۔ مزار مبارک کی کل تعمیر کے بعد ہی سُکھ کا سانس لیا۔ آپ کو اس کام میں بہت سے مراحل سے گزرنا پڑا مگر آپ سرکار سب کچھ سہتے رہے اور حکم پیر پہ ہی گامزن اپنے کام کے ساتھ کام رکھا۔ کسی کی نہیں سنی۔ حضرت الشاہ علاءالدینؒ کا وصال 1969 جنوری میں ہوا۔ میری سرکار نے چار برس اپنے پیر کی خدمت میں گزارے اور آپ کی سیرت و کردار کا ایک حصہ بن گئے۔ مرید ہمیشہ جزو پیر ہوتا ہے وہ یہ با جانتا ہو یا نہ جانتا ہو تو یہ ایک الگ بحث ہے۔ اگر ہم محبت و عشق کے دریا میں تیرنا جانتے ہیں تو یہ بات آسان ہے ورنہ تیراکی سکھا دی جاتی ہے۔
سلسلہ عالیہ کی بھاگ دور جب مکمل اپ کو سونپ دی گئی تو آپ نے خوب محنت و لگن سے اس کو آگے بڑھایا۔ سرکار اپنے گھر میں ہر ماہ کی گیارھویں تاریخ کو ختم پاک غوثیہ دلاتے جس میں چند اصحاب اور مریدین بھی آجاتے اور اپنی اپنی  عقیدت کے مطابق حصہ لیتے اور شیرنی بھی لاتے مغرب کی نماز کے بعد ختم پڑھا جاتا اوردعائے خیر کی جاتی۔ جس طرح کے کچھ لوگ اپ کی تعمیر و ترقی مزار جھنگ سے نالا تھے اسی طرح یہاں بھی معاملہ کچھ زیادہ مختلف نہ تھا ۔ میری سرکار کے سامنے تو کچھ نہ کہتے مگر گھر جا کر خوب پیٹتے کہ ہمیں کام ہوتے ہیں بھئی جن کا کھاتے ہو انہی کو باتیں بنتے ہو تو جاو کوئی اور در آستان ڈھونڈ لو اور ایسا ہی ہوا سرکار نے محفل ہی ختم کر دی۔ اب ان سمجھداروں سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا تم اللہ کے پیغام اور دعوت کو ایک عام اہمیت دیتے ہو کیا وہ کوئی تمہاری طرح کے عام سے آدمی ہیں کہ تم سارا دن دولت کمانے میں اور رات کھانا کھا کر تو خراٹوں میں گزار دیتے ہو، یار کوئی تو شرم ہوتی ہے جہان میں۔
کچھ تو محفل میں  اس لیے آتے تھے کہ شاید آج ہی کرم ہوجائے اور ہمیں کوئی بات مل جائے تو کچھ بس خاموش رہتے تھے اور دانشوروں کی طرح دوسرے پیر بھائیوں کو ڈانتے رہتے تھے کہ تم کیا کرتے ہوخود ہی پیر بنے ہوئے تھے۔ اب وہ بھی چُپ ہین کیا کر سکتے ہیں اب کس کو ڈانٹے گے پیر بھائی تو ہیں نہیں۔ اب ان کی کوئی بات نہیں بنتی اب مارے غصے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ان جیسوں کی کوشش ہےکہ کسی طرح سلسلہ ان کی مرضی کے ساتھ چلایا جائے۔ کیونکہ سرکار نے تو اپنی حیات طیبہ میں کسی کو بھی اجازت نہیں دی تھی اس لیے اب معاملہ مشکل بھی ہے اور ٹیڑھا بھی اب ان کی سمجھ، فہم و فراست کیا کرے وہ بہت ہی زیادہ پریشان ہیں۔ سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہؒ کے یہ مرید جنہوں نے اپنے پیر کی زندگی میں کوئی ایسا فعل انجام نہیں دیا کہ وہ فخر کرتے تو اب کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔پہلے کوئی کام نہیں کیا اب سب کچھ پیر کا ہے کیونکہ پیر نے اپنی زندگی میں تو اجازت دینی نہیں تھی۔
اگر آپ کی نیت صرف اور صرف پیر کی ذات اور سلسلسہ عالیہ کی خدمت ہے تو پھر اپ کو کوئی عار نہیں۔ سلسلہ عالیہ میں آنکر میری سرکار کی تو اپنی 34 مرلے زمین تھی وہ بھی نہ رہی وہ صرف سلسلے کی خدمت کے لیے تھی۔ مگر پھر بھی آپ حضور عالیؒ کی شرکت ہی ہم سب کے لیے عافیت ہی عافیت ہے۔ سُبحان اللہ
  سرکار کی آخری آرامگاہ میانی صاحب قبرستان ہے۔
  



   


Friday 15 April 2016

hazrat shah mohammad ameen shah

منم محو جمال اُو، نمی دانم کُجا رفتم
شُدم غرق وصال اُو، نمی دانم کُجا رفتم
سبحان اللہ شاعر بھی تو کوئی عام نہیں حضرت بُو علی قلندرؒ ہیں۔ اسی طرح اللہ کے ان اولیاءرحہم اللہ کی شان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان پاک ہستیوں پہ جان و دل سے فدا ہونے والے اس شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ' میں اس کے جمال میں گم ہوں اور پتا نہیں کہ کہاں جارہا ہوں۔جو اپنے یار کی اداوں کی کیفیت لیے ہوئے ہو وہ اس دنیا و مافیہا کو کیاسمجھتا ہوگا جس کے لیے اس کا یار ہی سب کچھ ہو جائے اور ایسا ہوناکوئی اچنبے کی بات  بھی نہیں یہ بات ایک عام آدمی کے لیے معیوب ہو گی کہ یہ کیا بات ہوئی جناب کہ اب سارا سارا دن ایک ہی حالت میں رہنا اور ہونا بھی فارغ تو وہ ان جیسے لوگوں کو سست الوجود اور کاہل کا نام دے کر ان سے تعلق کم کر دیا جاتا ہے۔
شاعر آگے بیان کرتا ہے
سارا دن و رات اپنے اسی یار کے تصور میں غرق یہ لوگ نا معلوم راہوں میں بھٹلتے پھرتے ہیں۔ظاہر میں لوگوں میں مگر ان کی باطنی دنیا اپنے یار کی ہستی اور وجود کا احاطہ کیے ہوتی ہے۔
دل دریا سمندروں ڈھونگے تے کون دلاں دیاں جانے ھُو
وچ ای بیڑے وچ ای جیہڑےوچ ای ونج مہانے ھُو
حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ دل ایک ایسی آماجگاہ ہبے جو اوربہت سی چیزوں کی آمدورفت ہے۔ جہاں شکوک شبہات بھی ہیں بری نیتیں بھی ہیں مگر اسی میں خیال یار بھی ہے جو تمام باتوں پہ حاوی ہے۔ایک عام آدمی جب اس طرح کی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے تو اس کی کیفیت بدل جاتی ہے اب وہ اس کو جلد سمجھ لےتو اس کے لیے بہتری ہی ہوتی ہے اگر دیر کرتا ہے تو بازی کوئی اور لے جاتا ہے۔
جب بھی کوئی مرید اپنے پیرومرشد کے جمال کو ایک ہی نظر میں جان لیتا ہے تو اس کی اندرونی و بیرونی تمام کیفیات میں تغیر وتبدل آجاتا ہے ۔وہ اصل میں اتنی منزلیں طے کرلیتا ہے جس کا کہ وہ خود حامل نہیں ہوتا۔ اسے خود یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ وہ اس قابل ہے یا نہیں اور در حقیقت اس بات کا پتا دینا بھی اس کے یار کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا کہ وہ مرید کس سیڑھی پہ ہے۔ شاعر نے ایسے ہی تو نہیں کہا کہ اگر خدا کو ملنا چاہتے ہوتو ان پاک ہستیوں کی صحبت میں رہا کرو جو اپنا ہر کام شرع محمدﷺ کے مطابق بنانے نبھانے اور سنوارنے کی جدوجہد میں رہتے ہیں۔
ہر کہ خواہد ہم نشینی با خُدا
او نشیند در حضور اولیاء
مطلب کہ اگر اللہ کی صحبت میں رہنا چاہو تو ان اولیاء اللہ کر  درآستان پہ چلے آو تمہیں اللہ بھی مل جائے گا اور اس کے ساتھ جو عظمت و برکت اس در کی چوکھٹ پہ آتی جاتی رہتی ہے وہ بھی تمہارے وجود کا حصہ بن جائی گی۔
کئی ایسے لوگ جو ان آستانوں سے اپنا ناطہ جوڑ لیتے ہیں یا یوں کہیں کہ ان کو جوڑ دیا جاتا ہے تو ان کا باطل خیال چونکہ شیطان لعین کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے تو وہ یہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ شاید اب ترقی ہمارا مقدر ہے اب ہم نیکوں کی صحبت میں خود ہی شامل ہو گئے ہم نے بڑی نیکی کی اور ان بز  رگوں کی بھی تعداد بڑھا دی یہاں کون آتا ہے؟ یہ تو بس اپناکام خود نہ کرسکتے جو میں ان کے سلسلے میں نا آتا۔ میں نے ان کی سلسلے کو مشہور کیا لوگوں کو بتاتا ہوں کہ بھئی تم بھی اس سلسلے داخل ہو جاو۔ ان جیسوں سے ایک سوال ہے کہ کبھی اپنے رویے پہ بھی تمہاری اپنہ نظر گئی ہے۔ تم جیسے کیا جانتے ہیں کہ  یہ سعادت تو اللہ تعالٰٰ کی ذات اقدس تو کسی کسی کو ہی نصیب کرتی ہے دیکھو دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور ان میں سے ایسے   جو کسی کی غلامی کا طوق پہنے ہوئے نہیں اور اس کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں یا کروا دیے جاتے ہیں۔
سوچ اچھی رکھو گے تو پھر ہی اچھا صلہ ملے گا۔ساری رات کھڑے ہو کہ ہی اگر اولیائی مل جائے تو بہت سستا ر سودا ہے اور اگر ذکر خفی کی تکرار ہو تب بھی سودا مہنگا نہیں ہے اگر روزہ شرط ہے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں اس طرح تو مکہ مکرمہ کے امام صاحب ہی زیادہ نیکیوں کے حقدار ہوئے۔وہ اللہ کے بندے جو حج نہیں  کو کرپائے ان کا کیا کہتے ہو تو سب سے زیادہ ضروری بات کیا ہونی چاہیے جو تم کوممتاز کر دے وہ ہے عشق یار یعنی یار کی ہر ادا سے پیارہو وہ اُٹھے تو عشق کی آنکھ سے دیکھواور وہ جس طرح چلتا ہے تو تم بھی اسی کی طرح قدم اُٹھاووہ جس طرح کانستا ہو توتم الحمد للہ کہو کہ کیا ہی حسین ادائے یار ہے اور تمہیں اس پہ ناز بھی ہووہ جس طرح کھاتا ہو تو تم بھی اسی کی نقل کرو۔ اس ڈوب جانے کا نام ہی عشق ہے اور کچھ بھی نہیں یہ ہی اصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا طریقہ تھا کہ وہ ہر وقت آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقل کرتے ان کا ہر عمل آپﷺ کے عین مطابق ہوتا۔ ۔

سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہ امینیہ کو  مریدین  جو کچھ بھی جس میں فیض و کرم،مددو استعانت ہے یا کوئی اور انداز کرم ہے تو وہ عبادت کے تحت تو ہے ہی مگر عشقِ یارسے جو کچھ مل جاتا ہے وہ کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں اس بات سے مرید نہ صرف سلسلہ بلکہ پیر کے فیض و کرم کو بانٹنے والوں کی لسٹ میں آجاتا ہے۔منظور نظر ہوجاتا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ صرف اہل دل ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے۔ واللہ اعلم بالصواب      

Friday 8 April 2016

Moreedain ki islah

سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہ امینیہؒ کے مریدین
یہ بات بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ سمجھنی چاہیے کہ جب آپ کو سلسلہ میں داخل کیا جاتا ہے تو آپ سے ایمان مفصل پڑوایا جاتا ہے جس مین ہے کہ میں ایمان لاتا ہوں اچھی اور بری تقدیر پر جو اللہ کی طرف سے ھے۔ ویسے بھی کائنات جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب اللہ سُبحانہُ کے حکم کے تابع ہے یہ ہم لوگوں کی نادانی ہے کہ جی یہ میں نے کیا وہ بھی میں نے کیا۔ مگر ہماری انا ہمیں یہ بات منہ پہ نہیں لانے دیتی۔ کُلھُم ذات تو ایک ہی ہے اور اللہ کو کون نہیں جانتا اب ہم یہ کہیں کہ نہیں یہ تو میرا کارنامہ ہے اور میں نے بڑی محنت سے یہ سب کچھ کمایا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے جب تم دنیا میں نہیں آئے تھے تو دنیا نہیں چلتی تھی فرعون ، نمرود، شداد، یزید، ھامان اور ابرہہ جیسے لوگ بھی اپنی ہی مارتے تھے۔ اتنا تو تم کر نہیں سکتے کہ اپنی کھائی ہوئی خوراک کو پھر خود ہی ہجم کر لو۔ اتنا اختیار رکھتے ہو تو بیمار نہ ہوا کرو۔ اور اگر بیمار ہو جاو تو دوائی نہ کھا یا کرو۔
اچھا یہ بتاو کہ زمین میں بیج ہی کیوں بویا جاتا ہےاور پھر اس سے اس میں جان کون ڈالتا ہے اس میں سے پودا اور پھول اور پھل کون لگاتا ہے۔ تم نے یہ سارا گھر سامان کاروبارخود کیا ہے تو خوراک کا انتظام بھی اپنی طرف سے کر لیتے۔ اس کی بنائی ہوئی دنیا میں بھی رہنا ہے اور اپنی بھی ہانکنی ہیں۔ یہ دوہرا پن ہے اور کچھ نہیں مرنے سے پہلے اس بات کا بھی انتظام کر کے جانا کہ وہاں فرشتے تمہیں ذرا تمیز کے ساتھ بلائیں سر جی سر جی کریں جس طرح تم کو لوگ یہاں پکارتے ہیں۔ اچھے کپڑون کی وصیت کرکے جانا کیونکہ وہاں پہ تم کو کوئی یہ نہ کہیں کہ آج صاف نہیں لگ رہے۔ قبر میں لائٹ کا بھی اچھا انتطام ہونا چاہیے تاکہ جب تم کو اُٹھایا جائے گا تو سب صاف نظر آئے آخر تم ایک اچھی اور اصول والی زندگی جو چاہتے ہو کسی غریب کو دیکھ کر ناک پہ کپڑا جو رکھ لیتے ہو اور اس کے جنازے پہ باتیں بھی تم بناتے ہو کہ دیکھو اتنی اولاد چھوڑ گیا ہے اپنے پیچھے۔اس کی مدد کرنے کی بجائے اپنی علمی ذہانت کو جھاڑنا کوئی ان دنیادارو سے سیکھے۔ ایسے ایسے قلابے ملاتے ہیں کہ بس جیسے ان جیسا تو کسی ماں نے پیدا ہی نہیں کیا/ جب ان ناداروں، یتیموں اور محتاجوں کی کوئی مدد نہیں کرتا تو کیا تم جیسا کوئی اور پاکھنڈی جاتا ہو گا نہیں ان کا صرف صرف وہ لجپال اللہ ہی ہوتا ہے۔ سُبحان اللہ والحمد للہ والاکبر۔
چھوڑ دو یہ باتیں تم سب کی تقدیر اس نے پہلے ہی لکھ رکھی ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے اس بات پہ ایمان لانا از حد لازمی ہے کہ اچھی قدر اس کی طرف سے اور بری قدر تمہارے گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اللہ سے معافی مانگتے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ وہ بہت زبردست اور حکمت والا ہے اگر چاہے تو آن کی آن میں سب کچھ بسم کر دے اور ہماری ہی جگہ پر کوئی اور دنیا لے آئے۔

یہ نعمتوں کا آنا جانا سب اسی کی طرف سے آزمائشیں ہی ہیں اور بلکہ یہ مصیبتوں کا آنا اور مفلسی اوے بیماری کا آنا ان لوگوں کا امتحان ہے جن پہ وہ ناز کرتا ہے وہ تو خود کہتا ہے کہ میں نے اپنے بندوں کے لیے دنیا میں افت اور آخرت میں آرام رکھا ہے لہٰذا گھبراو نہیں جو ملے اسی پہ الحمد پڑھو اور شکر ادا کرو اس ذات باری کا جو بہت طاقتور ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ 

Klame e Ameen

اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ ؒ کا پسندیدہ کلام جو آپؒ اکثر سنا کرتے۔

1۔ بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجاباناں
آ دل میں تجھے رکھ لو اے جلوائے جاناناں
2۔ نسیمہ جانب بطحا گزر کن
از احوالم محمد را خبر کن
 3۔ اس طرف بھی کرم اے رشک مسیحا کرنا
کہ تمہیں آتا ہے بیمار کو اچھا کرنا
۔ شہنشاہاں حسیناں دی شاہی دے آ
خیر منگناں وا میں تیری سرکار وچوں
5۔ عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول
6۔ آ میڈھا ڈھولا کراں بیٹھی زاری
میں مکدی مکاواں تو جتیا میں ہاری
7۔تیرا در رہے سلامت میرے دل کو کیا کمی ہے
تو ہی میری زندگی ہے تو ہی میری سب خوشی ہے
8۔ اے سبز گنبد والے امداد میری کرنا
جب وقت نزاع آئے للہ نظر کرنا
9۔ دل درد تو مانگی نا تھی
درد جگر کیوے ہو طے
10۔ تاجدار حرم ہو نگاہ کرم ہم غریبوں کے دن سنور جائے گے
11۔ تیرا در مل گیا مجھ کو سہارا ہو تو ایسا ہو
12۔ نی او تیرا لگدا جیہڑا بنیا تیری مجبوری
12۔ نا فکر الم ہے نا عقبٰی کا غم ہے
رہو سلامت کرم ہی کرم ہے
13۔ تیرا شیدہ ہوں میرے درد کا درماں تو ہے
میرا ایمان میرا کعبہ میرا قرآن تو ہے
14۔ کس کو سناو حال دل کوئی غم آشنا نہیں
ایسا دیا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں
15۔ تورے چرن لگی اب کت جاوں
16۔ یہی میرا ذوق سجود ہے یہی میرےعشق کا راز ہے
  تیری یاد میں میرا جھومنا میراحج ہے میری نماز ہے
17۔ میں گدائے در ہوں تیرا میری شرم لاج رکھ لے
ایک تو ہی میرا آقا میری شرم لاج رکھ لے
18۔ اے اتھرا عشق نہیں سون دیندا
ساری رات جگائی رکھ دا اے
19۔ میں کنوں کنوں دسا اے راز دیاں گلاں۔ حضرت بابا بلھے شاہ
20۔ کیسے کسی کو چاہو تیرے دیکھنے کے بعد
سب کو میرا سلام تیرے دیکھنے کے بعد
21۔ محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں
22۔ ایسا ماریا نیناں دا مینوں تیر سوہنا وے
23۔ میں کیا بتاو تمنائے زندگی کیا ہے
حضور آپ سلامت رہے کمی کیا ہے
24۔ میں تو روبروئے یار میں تو روبروئے یا ر
میرے ساتھ ہی رہے ہیں گفتگو میں مگن
25۔ وے سانوالا نا جاوی مکھ موڑ کے

اے میں ےیرے نال لائیاں سارا جگ چھوڑ کے
26۔ منم محو جمال اُو، نمئ دانم لجا رفتم
شُدم غرق وصال اُو، نمی دانم کجا رفتم
27۔ اج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں جندڑی اداس گھنیری اے

Monday 4 April 2016

Hazrat shah mohammad ameen shah

اعلحضرت شاہ محمد امین شاہ رح فرماتے ہیں
حدیث مبارکہ- الشیخ فی قومہ کان النبی فی امتہ 
ترجمہ ۔ جس طرح علم ظاہر کے لیے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح علم باطن کے لیے کسی شیخ یعنی پیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم باطن دل سے دل تک اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔ اکثر پیروں کا باطن رابطہ مریدوں کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے۔اتنی بڑی راہبری کے لیے ظاہریت کافی نہیں ہوتی۔ کچھ باتیں اشارے میں اور کچھ کنایوں میں سمجھائیں جاتی ہیں۔ بعض اوقات الفاظ دھوکہ دیں جاتے ہیں۔ یہ سب سلوک کی منزلیں علم باطن ہی طے کرتا ہے۔ مرید میں ایسے خصائل کا یکایک نمودار ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ پیر اس سے کوئی کام لینا چاہتا ہے چاہے دوسرے اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
زیادہ تر کیا بلکہ سب ہی مولویوں کا طریقہ علم ظاہر ہے جو نظر اتا ہے پہ یقین کقمل کرتے ہیں۔ مگر اولیاء کرام رح کا علم باطن کے ساتھ اپنے معتقدوں کی تربیت دیدنی ہے۔ پیرو مرید کا کامل یقین وسیلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لو مولوی بھی پیچھے نہیں ہے وہ بھی یہی کہتا ہے مگر ولی اللہ کے کہنے میں اور مولوی کی بات میں فرق اثر کا ہے ولی اپنی باطن کی انکھ سے جو دیکھتا ہے اس پہ مکمل یقین رکھتا ہے۔پیر نے اپنے ماننے والے کو کامیابی کی سیڑھی کے پار دیکھتا ہے۔مولوی نے بس وعظ کیا اورا س کی ذمہ داری ختم۔ اللہ تو خود کہتا ہے کہ اگر تم نے دین کو سمجھنا ہے تو میرے اولیاء کی صحبت اختیار کرو۔
یہ اللہ والے ہر وقت اس کا قرب، لطف و عنایت ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اس تک جانے کے لیے اسی کے اسم کو وسیلہ بنا کر خوب ااس کی مداومت کرتے ہیں۔ اولیاء اللہ خود اپنی ذات میں ایک وسیلہ ہوتے ہیں۔ان کو بھی تو وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس ضمن میں یہ نماز، قران، نوافل اور سب سے بڑھ کے درودشریف کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ حضور عالی صلی اللہ علیہ وسلم پہ درود کی لڑیاں بھیجنا کوئی کم سعادت نہیں۔ تمام عبادتیں اس ایک عبادت کا مقابل نہیں ۔اپ ﷺ پہ درود پاک بہت بڑا وسیلہ ہے۔ درود پاک کی اہمیت اور فیض کو سمجھنے ے لیے پیر و مرشد کا ہونا ایک ضروری امر ہے اس لیے کہ بعض باتیں سمجھنے کے لیے ایک عارف کامل با وقار کی نظر کسی ان حیات سے 

کم نہیں ہمارے لیے اتم ضروری ہے۔
قطب العارفین غوث الکاملین فخرالمتوکلین اعلحضرت شاہ محمد امین شاہ رح فرماتے ہیں
سستی اور کاہلی غلاموں کا شعار ہے مریدین کا نہیں دنیا میں اس طرح رہو کہ دنیا والوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ تم بے کار ہو اور صرف دین کا سہارا لے کر اپنی زندگی کے دن کاٹو گے۔ دنیا میں رہنا ہے تو دنیاوی لباس پہن کے رکھو جس کسی کو ضرورت ہو گی تو وہ ضرور اللہ تعالی لی رضا سے تمہارے پاس ائئے گا۔ اپ سرکار اکثر دعا کیا کرتے کہ یا اللہ ایسی غربت سے بچانا جو مجھے تیری عبادت سے دور کر دے۔ اپ فرماتے کہ مفلسی اور ناداری بہت بڑی افتیں ہین۔ دنیا داری میں دین کرنا ہی بہادری اور نجات ہے۔ دینداری کے لباس میں دنیاگری کچھ بات سمجھ اتی ہت اور کچھ نہیں۔

قطب العارفین غوث الکاملین اعلحضرت شاہ محمد امین شاہ قدس سرہ العزیز رح فرماتے ہیں 
تمام علوم کی ابتدا اور انتہا کلمہ طیبہ میں ہے۔ کدورت والا دل کلمہ طیبہ کی تجلی کو نہ تو پا سکتا ہہے اور نہ ہی ذاکرین کلمہ کی حقیقت کو جان سکتا ہے۔ جو شخص اپنی زندگی میں سو بار لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ذکر کر لے گا تو اللہ کا وعدہ ہے کہ اس شخص کے خامدان کے سات افراد کو جہنم سے اذادی ہو گی۔جب نجی کوئی اسی طرح یعنی ایک بار بیٹھ کر سو بار کلمہ گو کو بخش دے تا کہ میرا ہلنا بند ہو ندا اتی ہے کہ ہم نے اسے معاف کیا۔ سبحان ا

Who is a leader

اور چاول کھاتے ہوئے کنکر نہ اجائے بھائی ذرا دھیان سےکیا یہ سب اپنے لیے ہے بس اور یہ جو ہمارے اردگرد جو این جی اوز کی صدا بلند ہوتی ہے وہ کیا ہے وہ کون لوگ ہیں بھئی ذرا بتانا؟ ہو ار یو تم کون لوگ ہہو؟
ارے بھائی ایڈئیل بننا ہے تو کیا اپنے لیے بنو گے کیا اپنے اپ کو شیشے میں دیکھ کے خوش ہوتے رہو گے کیا؟ ارے واہ کبھی سوچا نہیں نا یہ سب کچھ بس یہ سوچا ہے کہ پڑھ لکھ کے نوکری کریں گے اور کیا ہے کہ شادی بنا لے گے اور بچے پیدا کر کے دکھا دیں گے کہ ہم بھی مرد ہیں۔ دیٹس ال
پتا ہے کہ ایڈئیل کون ہوتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ صاف پانی میں بھی پیو تو دوسرے بھی میں روٹی سالن کھاتا ہوں تو سب کیوں نا کھائیں۔ چلو یہ بھی مان لی کہ جی اتنے پیسے نہیں ہیں کیونکہ خکومتیں بہت بھوکیں ہیں تنخواہیں قلیل ہیں مان لی بات کہ رقم خرچ ہوتی ہے اور کچھ گھر والے بھی اپنی ضرورتیں اگے رکھ دیتے ہیں کہ یہ پورا کرو اور یہ بھی ہے۔ سب باتیں مان لی اب اتی ہے باری کہ جو کام تم کر سکتے ہو اور وہ کوئی ٹینشن یا دبائو والا کام نہیں وہ ہے اپنے اپ کو سدھارنا۔
وہ کس طرح اب بتا تا ہوں کہ کہاں جانا ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں یہ بات طے ہے کہ قبر میں سوال ہونے ہیں ٹھیک ہے۔ ایک دن میدان حشر لگنا ہے تو کیوں نا اس کے لیے بھی تو تیاری کی جائے کہ نا کی جائے؟ پہلے اس بات کے بارے میں سوچ لو اور یہ نا سمجھ لینا کہ میرا یہ سب بات کا مقصد تم سے کسی بھی قسم کی کوئی ہیلپ یا پیسے مانگنا ہے نہیں نہیں بالکل قطعی ایسا نہیں ۔
دیکھو! اپنا کردار مضبوط کرو جس میں خامی تمہاری ہے اج کل کون نیٹ کا استعمال نہیں کرتا کون ہے جو چھپ چھپا کر فحش فلمز نہیں دیکھتا فیس بک پہ لڑکیوں کے ساتھ باتیں نہیں کرتا۔ اگر کردار اچھا اور منظم ہو تو کیا ضرورت ہے کسی کو اتنا سمجھانے کی تو پھر کیا ہم سچ کہنا اتنے بہادر ہیں اس قابل ہیں کہ میدان حشر میں خود ہی سوال و جواب میں یا قبر میں یا عام زندگی میں بغیر کسی ٹریننگ کے کامیاب ہو جائیں گے۔ جواب ہے شایید نہیں۔
اکثر لوگ بیعت ہونے سے ڈرتے ہیں کہ کہی میں پکڑا نا جائو پہلے میرا بھی یہی خیال تھا کہ وہ رہبر صاحب یہ نا کہہ دیں وہ بات نہ صاف ہی منہ پہ مار دیں تو یہ ہماری بدگمانی ہے۔ایڈئیل بننے میں بھی یہ راہبر مددگار ثابت ہوتے ہیں انا ہو تہ راستے کھلے ہیں سوال ہوں تو میں خاضر خدمت ہوں۔
Rehan Bashir
House No.53 Street No.45 Shareef Park Yateem Khana Multan Road Lahore
03004406465
LikeShow More Reaction

God sent us

Q. Why did God send us the creation to the Earth and did not keep us with in Heavens?
میں نے کافی لوگوں سے سوال کیے کافی نے ان کے جواب بھی دیے پر وہ تمام باتیں کچھ حد تک درست تھیں پوری طرح نہیں۔ اگر ہم باقی اسمانی کتب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ علیہ والہ وسلم کی رسالت کو مان لینے ہی نہیں بلکہ اس پہ پختہ تیقن کا حکم ہے اور یہ حکم انبیاء کرام کو دیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے فنا سے بقا کی طرف زندگی پائی ہے تو اس کا پہلا کام میرے نبی کی رسالت پہہ ایمان لانا ہے۔ ہر نبی کو معبوث کیا تو اسے اس کی رسالت دی مگگر یہ حکم نامہ دے کر کہ اگر اس کے ماننے والے اگر نبی مکرم ہادی مرسل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دور پا لے تو ان پہ ایمان لاے بغیر کچھ ایمان نہ لاے۔تو جب نبیوں کا انا کچھ معنی نہ رکھتا ہو۔وہاں کس کی جاہ ہے کہ ایسے ارفع اور اولی کے بارے میں کوئی لب ہلا سکے۔ وہ اصل معموں میں خدا کا جایا ہے۔ 
خدا روٹھ جائ تو سجدے کروں
جو صنم روٹھ جاے تو پھر کیا کروں
اللہ اپنے محبوب کے لیے تو مخفل سجانا کوئی عار نہیں سمجھتا تو اس نے تو سارا جہاں بنایا پتا نہیں کیا کچھ کیا ہے اتنی مخلوق بنائی جتنی کہ انسانی انکھ نے دیکھی یہ نہ ہو۔ یہ ہے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور پذیرائی اس کو کہتے ہیں عشق اللہ کہ اس کو اپنے پیارے سے محبت کے لیے کسی بھی اشتہار کی ضرورت نہیں ۔ اور نہ ہی کسی کو بتانے کی خواہش ہے۔ 
وہ خود قران میں کہتا ہے کہ 
بے شک اللہ اوار اس کے فرشتے نبی پہ درود و سلام بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو تمم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔ 
معلوم نہیں یہ حقیقت کہ رب کی ذات اقدس کب سے یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو وہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ انداز کرم کر رہی ہے سبحان اللہ سبحان اللہ ۔
عالم خضرات اس بات کو جانتے ہیں کہ اللہ کی ذات اقدس نے خضور عالی کے نور سے ہی ساری کائنات کی تکلیق کی ہے سب کو اسی ایک نور سے پیدا کیا ہے۔ مزید براں یہ ہے کہ اللہ اور خضور عالی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پتا نہیں کتنی دیر مقام احد پہ رہے۔ دونوں کے عشق کی انےہا دیکھیے کہ ان کا اپس کا عشق و وارفتگی کن حدوں کو چھو چکی ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ انسان نے نہ تو کبھی اس چرح کا عشق کیا ہے اور نہ ہی کبھی اسے ایسے تجربے کا احاطہ ہوا ہے۔ جس خدا نے ساری کائنات کو اپنے محبوب کے لیے بنایا ہو اس کا کیا کہنا کہ وہ کتنی وسیع طاقت کا مالک ہے۔ 
میں نے جن لوگوں سے سوالات کیے اور انہوں نے جو جوابات دیے وہ ذرا ملاخظہ کریں۔ 
خالد صاحب / میرے خضور ہی جانتے ہیں کہ اس کا کیا جواب ہے میں نہیں جانتا۔۔
اویس۔ استاد/ خدا کہتا ہےا کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔دوسرا جواب/اس لیے بھیجا کہ زمین پہ زندگی کے اثرات ہیں۔ 
اویس۔سٹوڈیٹ/ وہ انسان سے ستر مائووں سے زیادہ پیار کرتا ہے اس لیے اس نے اپنی اولاد کو دور رکھا ہو اہے۔ تاکہ اس کے پیار میں مزید اضافہ ہو۔ 
اطہر۔ سٹوڈنٹ/ کیونکہ اللہ کو ہم سے بہت پیار ہے اس لیے ہم کو اپنے سے دور رکھا ہو ہے۔ 
حافظ عبدا لباسط/ ہم انسان اس قابل نہیں کہ اس طرح کے وسالات کا جواب دے سکیں۔ 
احمر سٹوڈنٹ/ ہم شاید اس قابل نہیں کیونکہ گناہگار ہیں اسی لیت اپنے پاس رکھنا نہ چاہتا ہو اس لیے ہمیں اپنے سے دور رکھا ہے۔ 
عقیل۔سٹوڈنٹ/ اللہ نے یہ دیکھنے کے لیے ہم میں کون اپنے رب کی تسبیح کرتا ہے اور کون دنیاوی کوشیوں میں اپنا وقت گزارتا ہے۔ انسانوں کو ازمانے کے لیے بھیجا ہے مفت میں جنت نہیں ملے گی۔
اسی طرح بہت سے جواب ائے جن کا جواب گناہ کے اور ثواب کت بارے میں تھا۔
MY ANSWER
ایک وحدت پاک اور جوہر اعجاز سے ہی ساری کائنات کی تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی نور نبی پاک محترم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
جب بھی اللہہ نے کسی مخلوق کو بنایا تو پیدا کرنے کا مطلب اس میں زندگی بھرنا بالکل نہیں جب بھی کسی کو بقا دینا اللہ نے مقصود رکھا تو اس کو ایک جسم میں قید کیا۔ خضرت ادم علیہ السلام کی روح پاک کو بھی جس قالب میں رکھا گیا وہ مٹی سے تھا اللہ کو یہ مقصود تھا کہہ وہ جنوں اور فرشتوں کیی پیدائش کے بعد ایسی مخلوق کو لائے گا جو ایک نفس بھی رکھتی ہو اس کی بناوٹ نور نہ ہو فرشتوں کی طرح نہ ہو بلکہ اپنی قدرت کاملا سے انسان ہی اس کے نبی پاک عالیہ کے اسوہ حسنہ پہ عمل پیرا ہو اور اسی لیے انسان کو صورت محمد پر ہی عبادت کا سلوک دیا۔ اب جب انسان کا قاالب بنانے کے لیے جو گوندھنی لی گئی وہ اسی مٹی کی تھی جس پہ اج ہم ہیں اس ا نام پہلا نام کیاٹک پلیس تھا یعنی مایوسی اور اداسی کی جگہ۔ اسی کیاٹک کی چیزون سے انسان کے قالب کو بنا کر اس مہں خدا نے اپنی روح اور نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھا جب اپ سرکار کا نور پیدا کیا گیا تو اس کے چار حصے کیے گئے۔ اس سے پہلے نور مصطفی سلی اللہ علیہ وسلم کو دس ہزار سال تک اس کو قرب خاص میں رکھا۔ اس کے چار حصوں سے ایک سے عرش، دوسرے سے کرسی تیسرے سے حاملان عرش اور چوتھے کو بارہ ہزار سال تک مقام محبت مین رکھا۔ اسی طرح اس چوتھے حصے کو تقسیم کر کے ایک سے قلم دوسرے سے لوح اور تیسرے سے جنت کو تخلیق کیا۔ پھر اس چوتھے حصے کو مقام خوف میں بارہ ہزار سال تک رکھا۔ اس کے بعد ملائکہ سورج اور چاند کو بنایا اور چوتھے نوری حصہ کو بارہ ہزار سال تک مقام رجا میں رکھا۔ 
اپنے نبی مکرم کے ساتھ یہ والہانہ عشق کہ اس کے نور کو اتنی بار تقسیم کرنے کے باوجود بھی وہ کائنات کی تخلیق کرتا رہا۔ کسی اور چیز کا سہارا لیے بغیر وہ اتنی وسیع حکومت کا مالک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ سبحان اللہ۔ واللہ اعلم 
جب چوتھے حصے پر نظر التفات کیا تو اس سے عقل ، علم و حلم اور توفیق و عصمت کو بنایا اور چوتھے حصے کو مقام حیا میں رکھا۔ اس خاص مقام پہ انکر بہت خاص الخاص نظر کی تو حیا سے ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرے ٹپکے جن سے انبیائ کرام کی روحوں نے جنم لیااور جب ان انبیا کی ارواح نے وجود میں انکر سانس لیا تو اولیا اتقیائ اور صالحاء کی ارواح نے جنم لیا۔ 
خضور علیہ الصلوۃ ولسلام کے نور کا چوتھا حصہ ہی حضرت ادم علیہ السلام کی پیشانی کا حصہ بنا جو اخر میں اپ سرکار سلی اللہ علیہ وسلم پہ ہی اختتام ہوا۔ 
زمین پہ پہلے جنوں کو اباد کیا گیا تو وہ غلط کاریوں میں پڑ گئے لہذا ان کی دننیا کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ اور ان کی جگہ ہم انسانوں کو ایک موقع دیا گیا ہے اب دیکھنا تو یہ ہے کہ کون بنی ادم اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرتا ہے درودو سلام میں پہل کرتا ہے کہ ایک خاکی کیا کرتا ہے نوریوں کے مقابلے مہن۔ فرشتوں نے بھی تو اعتراض کیا تھا کہ جس زمین کو ہم نے پاک کیا تو نے وہاں اب نفسانی کو بھیج دیا جو قتل و غارت کرے گا۔ مگر نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے کرشمے کسی کے مختاج نہیں

why do we need peer(sufi)

سوال: کیا قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے ایک مسلمان کو پیروں کے پیچھے جانے کی کوئی ضرورت ہے؟
جواب: میں نے یہ سوال 14 اگست 2015 کو کیا تو مختلف لوگوں نے اپنی لگن اور عقیدہ کے عین مطابق جوابات مرحمت کیے جن کا میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ ہر کوئی یہی چاہتا ہے بلکہ سوچتا کم ہی ہے کہ آیا کہ اس کا دیا گیا جواب کیا قرآن و حدیث کے ممنافی تو نہیں ۔ ہمارے پرکھنے کی کسوٹی تو آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم کی ذات مطہر ہے ہمارا اپنا علم نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ کون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تقلید میں ہے۔
محمد ثوبان قادری شکوری امینی۔
اللہ تعالٰی نے اگر انسان کو سمجھنے کی قوت اس قدر دی ہوتی کہ وہ اُس کی تعلیمات از خود سمجھ لیتا تو ایک لاکھ چوبیس ھزار انبیاء کرام علیھم السلام معبوث نہ کیے جاتے۔ لیکن کیونکہ انسان میں اتنی عقل و شعور نہیں کہ پیغام ربانی کو سمجھ سکے اور اس کی تاب لا سکے اس لیے اس پیغام کو پھیلانے کے لیے انبیاء کرام علیھم الصلواۃ السلام دنیا میں تشریف لائے۔ ہر نبی نے اپنی اُمت کو سچائی کا پیغام دیا حتٰی کہ نبی کریم روف رحیم آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کو قرآن پاک کی تعلیم سمجھانے میں اپنی پوری حیات طیبہ وقف کر دی۔ سرکار عالی دو جہاں ﷺ کے بعد یہ کام اصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اہل بیت نے سر انجام دیا۔ جس ضمن میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقاء کربلا معلٰی کی داستان ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اھمعین سے اور اہل بیت اطہار سے تحصیل علم کرنے والے اولیاء کرام رحمہا اللہ نے بعد ازاں یہ فرض ادا کیا اور آج یہ بزرگ ہستیاں اس کام میں پیچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے نہ صرف کہ اس بات کو روز روشن کی طرح دنیا پہ ثابت کیا کہ دین اسلام صرف پرانا دین نہیں ہے بلکہ قیامت تک کا دین ہے۔ اللہ کا پسندیدہ اور حضور عالی مقام سیدنا محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ذریعہ نجات و بخشش کا دین ہے۔ ایشیاء و افریقہ میں ان اولیاء اللہ کے مریدین کی تعداد ان گنت ہے اور وہ اپنے انہی رہبروں کے نقش کف پا پہ گامزن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات صرف عبادات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ نے پوری دنیا کو ایک مرببوط نظام سے متعارف کروایا جس میں سب ہی اقدار جیسے معاشی، معاشرتی، اخلاقی، قانونی، سیاسی اور تعلیمی شامل ہیں۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر اولیاء کرام کی موجودگی قطعی ہے۔
حافظ محمد ایاز۔ پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ
پیروں کے پیچھے اس لیے جاتے ہیں کیونکہ ہر ایک کا ٹیچر ہوتا ہے اور ان کا ٹیچر پیر ہوتا ہے۔ جو ہمیں سیدھی راہ پہ چلاتے ہیں۔
محمد اویس قادری شکوری امینی
سیترۃالنبی ، قرآن و حدیث کافی ہے مگر پڑھ تو سارے لیتے ہیں مگر سمجھتا کوئی کوئی ہے۔ مرشد سب بتاتا ہے۔ عشق کی مدد سے سمجھاتا اور حقیقت بیان کرتا ہے۔ روحانی طور پر اس کے پاس بہت علم آ اجاتا ہے۔ پیر کا ہونا لازم ہے۔ مگر پیر وہ ہو جو علم کو عشق سے سمجھے اور سمجھائے۔
محمد ارحم۔ پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹییوٹ
پیروں کے پیچھے نہ بھاگے تو شاید ھم نماز بھی نہ پڑھ پائے۔ آج تک ھم نے قرآن و سیرت و حدیث کھول کے دیکھی ہے کیا ، سوال ہے میرا سب کو باتیں تو بہت کرتے ہیں سب لیکن پڑھی کسی نے نہیں یہ تمام باتیں رہنے دیں۔ جو کچھ بھی ھم کرتے ہیں سب اماموں کا سُنا ہوا ہے۔ وہ امام سب باتیں ھمیں محبت سے کرتے ہیں اسی لیے ھم بھی ان کی باتوں پہ چلتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا دین ھم کو مُفت میں مل گیا اس کی قدر نہیں ہے ھم کو۔
محمد حارث خالد قادری شکوری امینی
یہ ایک علیحدہ بات ہے جو پیر اور بزرگ ہوتے ہیں ان سے انسان فیض حاصل کرتا ہے وہ اللہ کے نیک بندے ہوتے ھم ان کے وسیلے سے دعا وغیرہ بھی قبول کرواسکتے ہیں۔ مطلب کہ بہت سی ایسی باتیں ہیں۔
قیصر صاحب ۔یو ای ٹی
پیروں کے پاس جانے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں۔ لوگ ان کو خدا مانتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس جائے گے تو ہمارے سارے کام ٹھیک ہو جائے گے۔
معصومہ نثار۔ ڈی فارمیسسٹ
قرآن و حدیث ہی کافی ہے پیر کی کوئی ضرورت نہیں ان سے بڑھ کے اور کیا رہنمائی ہو سکتی ہے ، یہ اصل میں ایمان کی کمزوری ہے۔
احمد معراج قادری ، ٍمحمد عارف خوشی۔ میڈیکل آفیسر ، محممد بلال قادری شکوری امینی۔ محمد دانش قادری شکوری امینی، حسنین احمد قادریی شکوری امینی، محمد احمد، محمد عادل پاشا قادری عطاری ، علیم احمد، علی رضا قادری نقشبندی ، حافظ محمد اسد قادری چشتی اویسی عطاری علی بشیر رفاعی قادری ، محمد حسن بصری قادری نوشاہی، محمد حسین قادری نوشاہی، حافظ محمد ذیشان قادری شکوری امینی، محمد امین قادری، عثمان قیوم قادری شکوری امینی
یہ سب حضرات اس بات پہ ہی متفق ہیں کہ پیر کی موجودگی کے بغیر آج کل کے اس افراتفری کے دور میں دین سیکھنا اور پھر اس کا پھیلنا ایک لامحالہ بلکہ ناممکن بات ہے۔
جب اس سوال کو دوبارہ دہرایا گیا توکچھ اور حضرات نے اس پر لب کشائی کی اور کہا۔
عقیل حیدر بی ایس ٹیک الیکٹریکل انجینئر
جی بالکل یہی بات ہے کہ ڈائریکٹ نہیں جانا چاہیے ان پیروں کے پاس۔ اللہ نے قرآن و حدیث کے ذریعے اپنا پیغام رسول کے ہاتھ پہ بھیجا۔ رسول کے علاوہ کوئی اور پیغام دینے والا نہیں بنایا گیا ایسا نہیں ہے کہ کوئی پیر اللہ سے کوئی بھی بات پوچھ کے ہم کو بتا سکتا ہے یہ پیر لوگ ھم سے بہتر ہیں مگر پیغمبر نہیں ہیں۔ اب جیسے ایک مسئلہ یہ ہے کہ اعتکاف میں موبائل استعمال کیا جائے یا نہ کیا جائے اب اس پہ کوئی پروپر جواب نہیں پتا۔ اور اگر ہم کہیں کہ پیر اس کا صحیح سلوشن دے سکتے ہیں تو یہ غلط ہو گا۔ کیونکہ پیر صاحب نے اپنے استعمال کے لیے کہنا ہے کہ کر لو یا نہ کر لو۔
محمد عبداللہ ڈی اے ای
قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے اور اس پر عمل کرنا ھم کو نہیں آتااس لیے ہمیں اللہ کے نیک بندوں یعنی پیروں کی رہنمائی چاہیے اس لیے ہم ان کے مختاج ہیں۔
محمد احمر ڈی اے ای
کبھی بھول کے بھی نہیں جانا چاہیے ان کے پاس شرک ہوجاتا ہے۔ ہر مسئلے کا حل قرآن میں ہے۔
راشد رزاق ڈی اے ای
ہمارا ایمان اللہ اور قرآن کے احکامات پر ہونا چاہیے البتہ باقی سب وسیلے ہیں ان کے توسل سے دعا مانگ سکتے ہیں۔ لیکن قبول کرنے والی ذات تو اللہ ہی ہے۔
ریحان بشیر قادری شکوری علائی امینی
اس سوال کے پوچھنے پر دو گروہ سامنے آئے ہیں ایک گروہ کہتا ہے کہ اولیاء اللہ کی قطعی ضرورت نہیں جبکہ دوسرا گروہ اس کی حمایت میں ہے۔ وہ گروہ جو یہ کہتا ہے کہ ولی اللہ ہیی ہے جو کہ رسول اکرم ﷺ و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے عمل اور قرآن و سنت کو ہم تک پہنچاتے ہیں۔ مگر ان دونوں گروہوں کے لوگ ولی اللہ کے مقام اور خصوصیت سے واقف نہیں ہیں۔
لفظ ' ولی ' کو اگراردو ڈکشنری میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب دوست، مددگار اور بزرگ۔ انگریزی ڈکشنری میں اس کا مطلب سینٹ ہے یا پولی مین ہے۔
ولی اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ایسا عارف ہے جو دنیا و مافیہا سے بالکل بے نیازی اختیار کیے ہوتا ہے۔ وہ صرف نیک ہی نہیں ہوتا بلکہ سچا صادق اور طالب ہوتا ہے۔ عام طور پہ ایک ولی کو بھی عام زندگی گزارنے والوں کے ساتھ شمار کر لیا جاتا ہے۔
انبیاء کرام، رسول اکرم ﷺ و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین اورآئمہ کرام رحمہااللہ کے عمل کو ہم لوگوں تک لانے والے یہی اولیاء اللہ ہیں جنہوں نے اس عمل بیکراں کو اصل معنوی اور صوری انداز میں ہم تک بہم پہنچایا۔
ایک عام شخص کا علم اس کے اپنے تجربات و مشاہدات کی بنا پہ ہوتا ہے۔ جیسے جیسے دور آگے بڑھتا جا رہا ہے اسی اسی طرح سے لوگ دین اسلام سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں ۔ لوگوں کو کمپیوٹر اور موبائل کی ترقی نے حیرہ کر رکھا ہے۔ آج کل انڈرائڈ اور ٹیبلیٹ نے انٹرنیٹ کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ لوگ اگر یہ کہیں کہ ولی تو ایک نیک آدمی ہے تو صرف یہی کافی نہیں۔ یہ فقیر اللہ کے سچے دوست ہیں۔
فقیر چار الفاظ کا مجموعہ ہے جن میں ف سے فقر، ق سے قناعت، ی سے یاد اور ر سے راحت الہی ہے۔ حضرت وارث شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں
وارث شاہ چار چیزاں دا اعتبار نہیں
رن فقیر تلوار تے گھوڑا
یہ ولی اللہ تو کسی صؤرت بھی عام دنیا سے تعلق اور واسطہ نہیں رکھنا چاہتے ۔ ان کا مقصد حیات ایک عام آدمی سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ۔ ایک عام شخص کا بنیادی عقیدہ اچھا لباس، خوراک، رہائش، گاڑی یا موٹر سائیکل ، موبائل خوبصورت عورت سے شادی ، ٹھاٹ باٹھ والی نوکری اور خطیر رقم والابینک بیلنس ہیں۔نفس کے مارے ہوئے ان لوگوں کو کیا معلوم ہو کہ ایک ولی کی کیا حیثیت ہے۔ دنیا کی خواہش کرنے والے اگر ایک ولی کی حقیقت کو جان ہی لے تو بہت بڑی بات ہے بے شک کہ ہم ان اولیاء اللہ کی پیروی نہیں کر سکتے مگر ان کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھنا کہ وہ ضروری نہیں ہیں سراسر جہالت ہے۔ وہ تو ہر دم اللہ کی یاد میں گم ہوتے ہیں ان ہی پاک نفوس کے سانس لینے کی وجہ سے تو زمین پہ رحمت خداوندی ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی کی زات آسمان سے بارش برساتی ہے۔
جان لو کہ وہ اولیاء اللہ جو ذکر خفی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کرتے ہیں تو فرشتے بھی ان اولیاء اللہ کو نہیں دیکھ سکتے۔ حدیث پاک میں اسی ذکر کو افضل ترین ذکر کہا گیا ہے۔ اولیاءکرام بھی تو اسی کلمہ حق کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ کلمہ ہی تو ساری کائنات کا اصل ہے۔ اللہ تعالٰی کی ذات نے جب یہ چاہا کہ میں خزانہ ہوں اور اپنے آپ کو ظاہر کروں تو اس نے پکارا، ' محمد رسول اللہ ' اور اولیاء اللہ بھی تو یہی تبلیغ کرتے ہیں کہ ایک اللہ اورایک رسولﷺ اس کے علاوہ اور کیا کہتے ہیں،
سلسلہ قادریہ میں جب بھی کسی کو مرید کیا جاتا ہے تو اس کو داخل کرنے کے لیے اس سے ایمان مفصل پڑھنے کے لیے کہا جا تا ہے۔ اب یہ ہے کیا ؟ کیا اس میں کوئی غیر شرعی بات ہے یا اس سے کوئی اور کام کروایا جاتا ہے تو پھر تو یہ لوگ قابل نفرت ہوئے اگر نہیں تو کیوں آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے جانا ٹھیک نہیں۔
امنت باللہ و ملئکۃ و کتبہ و رسولہ والیوم الاخر والقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالٰی و البعث بعد الموت ۔
اس میں اب کونسی ایسی بات ہے جو قابل اعتراض ہے۔اللہ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں آخرت کے دن،خیروشر کی قدر اور مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان ہے۔
کیا حضرت خواجہ معین الدین سلطان الہندؒ کی مثال نہیں ہے۔ حضرت بابا فرید الدین ؒ نے اجودھن میں آکر اسلام نہ پھیلایا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی مثال کہ جنہوں نے ہندوستان میں رہ کر اسلام کی شمع بلند کی۔ ان ہی بزرگ ہستیوں کے ساتھ اوروں کی بھی نسبت ہے۔ اولیاء اللہ کی اہمیت کو سمجھنے والے ہی ان سے اکستاب فیض کر سکتے ہیں۔ خالی گھروں میں ختم و درود کروانے سے بھی بات ٹل نہیں جاتی۔
سب پیروں کے پیر حضرت غوث الاعظم دستگیر شیخ محمد عبدالقادر جیلانیؒ کے بارے میں کچھ لوگ بد عقیدہ ہیں۔ توبہ نعوذ باللہ آپ خانگی اعتبار سے حسنی حسینی ہیں۔
ایں مراتب قادری را ابتدا
عز و شرفے یافتہ قرب از خدا
جو کوئی مرید حضرت عبدالقادر ؒ کے سلسلہ ارادت سے جڑ جاتا ہے تو اللہ کے دربار سے عزت، شرف اور قرب حاصل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم کے اندر چھپے ہوئے معنوی خزانوں کو خود اپنی عقل سے جاننا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔چلے اگر اتنا ہی علم ہے تو جو حرف مقطعات ہیں ان میں سے آلم کا کیا مطلب ہے آلر کیا ہے؟ طس کیا ہے؟ حم کیا ہے؟ مگر اللہ نے اپنے ان بندگان با صفا کو یہ علمی خصوصیت عطا فرمائی ہوتی ہے کہ وہ باآسانی ان کے مطالب نہ کہ بتا سکتے ہیں بلکہ کھلی آنکھ سے دکھا سکتے ہیں۔
آلڈس ہیکسلے نامی ایک انگلش ادیب تھا وہ اپنی ایک مشہورے زمانہ کتاب میں لکھتا ہے کہ ہر آنے والے زمانہ میں صرف تین مسائل ایسے ہیں جو وجہ اختلاف ہیں ۔ ان میں پہلا مذہب، دوسرا سائنس اور تیسرا جنسیات (سیکس ) ہے۔ اس بات کو ایک حکایت کی مدد سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص جو کہ سائنس کا ماسٹر اور مذہبی سکالر تھا اور اس کے علاوہ اس نے دو شادیاں بھی کر رکھی تھیں۔ دولت کی فراوانی بھی تھی۔ مگر ایک دن صبح کی سیر کے دوران اس کو ایک سنڈی نے بازو پہ کاٹ لیا۔ ایک طرف تو اس کا سائنسی علم یہ کہتا تھا تو آج مر جائے گا کیونکہ یہ بہت زہریلی ہے مگر دوسری اس کی سوچ یہ تھی کہ مذہبی فریضہ بھی ادا ہو گیا اور شادی کی تسکین بھی مکمل ہو گئی ہے اس کی اسی سوچ و بچار کے دوران وہاں ایک شخص آیا جس نے اپنے سر پہ ایک عدد بوری اُٹھائی ہوئی تھی۔ اس نے ماجرا سنا اور اس بوڑھے سے کہا کہ اپنا بازو میری طرف کرے۔ بازو آگے کیا تو اس آدمی نے اس پہ اپنا تھوک لگایا اور کچھ کہے بغیر وہاں سے چل دیا۔
اس تھوک نے جب کام دکھایا اور وہ بوڑھا سائنسدان بالکل صحتیاب ہو گیا تو اس آدمی کی تلاش نے اس کو دیوانہ بنا دیا وہ دن و رات اسی کا تصور لیے راستوں میں بھٹکنے لگا اور ایک دن جب وہ ملا تو بوڑھے کے اصرار پہ وہ یہ جواب دے کے چلتا بنا کہ اس کو صرف اللہ چاہیے اور کچھ نہیں۔ اب مصنف نے اس طرح کے لوگوں کو مسٹک کہہ کر یاد کیا ہے۔ ان لوگوں کے پاس مذہب،سائنس اور سیکس جیسی باتوں کا علاج ہے اور ہماری زبان میں ان کو صوفی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پھر مسائل تو حل نہ ہوئے اگر بوڑھے کو سنڈی کاٹ گئی تھی تو اپنی ترقی کی بنیاد پر اس کا خود ہی علاج کر لیتا۔ مگر آن ہی آن میں ایک منچلا آتا ہے اور صرف اپنے تھوک سے علاج کرجاتا ہے۔ اس بات کے انعام میں اگر وہ سائنسدان کوئی چیز دینا چاہتا ہے تو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے کہ کچھ نہیں چاہیے۔ زندگی کا فلسفہ نفس کی موت کے بعد نہ کہ پہلے سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خواہشوں کو دبانے کا نام موت ہے۔
ان اولیاء اللہ کے لیے موت و زندگی برابر ہو جاتی ہے۔ وہ اس لیے کہ یہ لوگ دنیا اور اس کے گھر والوں سے الگ ہوکر کبھی تو مطالعہ کتب میں تو کبھی اللہ کی یاد میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔ حضرت سلطان باہوؒ انہی کے بارے میں لکھتے ہیں
مرن تھیں اگے مر گئے باہو
تاں مطلب نو پایا ہو
قرآن و حدیث کی رٹ لگانے والوں کبھی ان کو غور سے پڑھو تو پتا چلے کہ قرآن خود ان کے بارے میں کیا کہتا ہے
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم و لا ھم یخزنون۔
ان اللہ مع الصابرین۔
ھدی المتقین الذینن یومنون بالغیب و یقیمون الصلوۃ و مما رزقنھم ینفقون۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔
لفظ ' ؒالا ' کا مطلب ہے خبردار ہوشیار سُن لو کہ جب یہ ایسی تنبیہ ہے تو جو آگے ہے اس میں اللہ کیذات کیا کہتی ہے کہ میرے دوستوں کو نہ خوف ھے اور نہ ہی خزن۔ بے شک اللہ صابرین کے ساتھ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پہ ایمان لاتے نماز قائم کرتےاور للہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔ انہی پہ اللہ کی ہدایت اور اس کی فلح بھی ان کے لیے مخصوص ہے۔
اس زندگی کو تم لوگ سمجھتے ہو کہ آج موبائل خرید لیا تو اللہ ہم سے خوش ہے مکان بنا لیا ہے شادی کرلی ہے اور اچھا لباس پہن لیا ہے روسٹ کھا کے سوئے ہیں اور کل مؤٹر سائیکل چلا کے دفتر جائے گے اور غریبوں پہ تیقید کروگے۔ ان کو یہ کہو گے کہ تم نے اپنے بچوں کے لیے کیا کیا ہے؟ تم لوگ اصل میں ڈینگ باز ہو یہ بتا و کہ کل رات کتنی عبادت کی ہے یہ تک تو تمھیں پتا نہیں کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں کیا تیاری کی ہے؟ وہاں تو روز ہی حساب ہوگا یہ کوئی ایک یا دو دن کا معاملہ نہیں ہے۔ مگر پھر کہتا ہوں کہ یہ اولیاء اللہ اللہ کی عبادت و ریاضت میں مرتاض ہو جاتے ہیں۔ پہلے سونا اور بعد کندن۔
صحبت با اولیاء یک زمانہ
از صد سالہ طاعت بے ریا
صحبت کے بارے میں حضرت نظام الدین اولیاء ؒ فرماتے ہیں۔ ' صحبت کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔' کسی بھی اللہ والے کے ساتھ ایک لمحہ گزارا جائے تو وہ سو سالہ عبادت سے بہتر ہوتا ہے۔
ہر کہ خواہد ہم نشینی با خدا
او نشیند در حضور اولیاء
اگر کسی بندہ خدا کی یہ آرزو ہو کہ وہ اللہ کی تلاش میں نکلے خواہش مندہو تو اس کو کہیں بھی جانے کی کیا ضرورت ہے اللہ تو ان اولیاء کرام کے پاس ہی مل جاتا ہے۔
انسان کو تو اللہ کی ذات نے عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ خلقت الجن ولانس الا لیعبدون۔ عبادت کا مطلب ھے کہ نماز میں مقام سجدہ پہ آواز آنی مقصد ہو ' لبیک یا عبدی ' یہ نہیں کہ عبادت کی اور میچ دیکھنے لگ گئے قرآن پڑھا اور انتظار میں کہ اب کس دن باہر کا ویزہ آئے گا یا نوکری کے لیے کوئی پیغام آئے گا یا بیٹی کی شادی کب ہوگی۔ ہماری نظر میں پیر وہی اچھا ہے جسے کہا اور کام ہو گیا۔ اوہ ! افسوس ہوتا ہے کبھی پڑھو تو تم لوگوں کو معلوم ہو کہ پہلے انبیاء کرام کتنا صبر کرتے تھے اپنی مشکلات پر۔ اور کتنی عمر لگ جاتی تھی دعا کے قبول ہونے میں۔ یہ معاشرہ جس طرح آگے جا رہا ہے جہالت اور بھی آگے ہے یہ پیر حضرات ہماری تمہاری دعائیں قبول کروانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ اصل مقصد حیات لیے ہوئئے ہیں۔ یہ لوگ اہل بیت اطہاراور حضرت زین العابدین علیہ السلام کی وہ جماعت ہیں جن سے تم لوگ دین سیکھ سکتے ہو۔ کیا علامہ اقبال حضرت شیر محمد صاحب شرقپوری ؒ کے پاس نہیں گیا تھا۔ اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو تو تم سب کو کمی محسوس ہوگی وہ اصل ہے جو ان فخر الاولیاء کے پاس ہے وہ ہے اللہ سوھنے کی یاد، تاثیر اور راحت۔
وہ لوگ جو تمہیں تمہارے مسائل کا حل بتاتے ہیں تمہیں پڑھنے کے لیے وظائف اور تعویذات اور پڑھائیاں دیتے ہیں کیا تم ان کو ولی کہتے ہو تو بڑی حیرت کی بات ہے ۔ ہاں مانتے ہیں کہ وہ نماز بھی قرآن بھی زکوۃ بھی حج بھی اور دوسرے سارے ارکان ادا کرتے ہونگے مگر یہ لوگ عامل ہیں۔ یہ علم الحروف، اعداد، الجعفر اور رمل کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو پیسے نہیں مانگتے ان کو اولیاء کے ساتھ متصادم مت کرو۔ ان اولیاء کا انکار کرنے والا تو حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی کا انکار کر رہا ہے جو آپ علیہ السلام نے دی ہے۔
ان اعطینک الکوثر۔فصل لربک ونخر۔ ان شانئک ھو الابتر۔ دیکھو قرآن کا بہانہ کرنے والوں پڑھو قرآن ان کی کیا شان بیان کرتا ہے
ترجمہ۔ بے شک ہم نے یعنی اللہ کی ذات فرماتی ہے کہ اے ؐمحمد ﷺ ہم نے آپ کو کوثر عطا کردی ہے پس آپﷺ اپنے رب کی نماز پڑھے اور قربانی کریں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ ﷺ کا دشمن جڑ کٹا ہے۔ یعنی بے نام و نشان ہی رھے گا۔
حضور نامدار عالی مقام سیدنا محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی ناطق القرآن سید ہر دو جہاں سید العالمین و خاتم النبیین ﷺ کی جماعت اس بات کے باوجود کہ آپ ﷺ کی اپنی کوئی اولاد پاک نہ بچ سکی جو آپﷺ کے نام اور کام یعنی جہاد کو آگے بڑھاتی تو کیا سلسلہ چل نہیں رہا جب اللہ تعالٰی نے فرما دیا ہے کہ ہم نے محمد ﷺ کو کوثر یعنی خوب کثرت سے نواز دیا ہے تو کیا اب یہ اولیاء کرام وہہی لڑی کا حصہ نہیں ہیں۔ کبھی کسی پیر کا شجرہ پڑھنا تو خود بخود جان جاو گے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔یہ سلسلہ در سلسلہ بات ہے
آج کل لیب کے کمرے میں ہونے والے تجربات جب تک ایک بار استاد صاحب کرکے نہ دکھا دیں اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتے۔ کوئی کام جب ہمارے سامنے وقوع پذیر نہ ہو تو سمجھ نہیں آتا۔ رہیی بات کہ پیر ہی کیوں جب پہلے سے قرآن ھے اور حدیث موجود ہے تو میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ مدرسے جو دینی تعلیم دیتے ہیں ختم کر دیے جائے۔ جو ان پہ سلیس زبان میں کتب چھپتی ہیں بند کر دیں جائے ہاں بات تو ٹھیک ہے کیونکہ قرآن و حدیث ہے تو پھر اسی کو پڑھا جائے۔
ویسے ایک بات ہے کہ جب ھم اردو یا انگلش کی ڈکشنری میں کوئی لفظ دیکھتے ہیں تو وہاں بہت سے پہلووں پہ روشنی ڈالی گئی ہوئی ہوتی ہے۔ لفظ ایک ھے مگر مطلب بہت سارے ہیں۔ ہر ایک ممکن پہہلو سے اس ایک لفظ کی وضاحت کر دی جاتی ہے تاکہ اس میں موجود تشنگی نہ رہے۔
جس طرح کہ آئن سٹائن کے بعد کیا کام بند ہوگیا نہیں بلکہ کام تو اسی طرح رواں دواں رہا رائٹ برادرز نے ہوائی جہاز بنایا تو کیا اب تک وہ زندہ ہیں۔ مارکونی نے ریڈیو ایجاد کیا تو اس کے مرنے کے بعد وہ ریڈیو کوئی ساتھ لے گیا نہیں بلکہ اس کے اس کام کو جاری رکھنے والے اور بھی ہیں اسی لیے تو آج یہ جدید شکل میں ہے۔ کیا درختوں کے پتے آج بھی وہی ہیں جو پہلے دن سے تھے نہیں بلکہ کئی ہزاروں لاکھوں اترے اور کئی نئے آئے۔ ایسے ہونے لگے تو موت کا وجود ہی نہ ہو اگر سرکار دو عالم ﷺ ہی پہ قرآن اتارا گیا اور آپ ﷺ پہ ہی سارا معاملہ ختم کر دیا جاتا تو حضرت امام حسین علیہ السلام اور رفقاء نے جان کیوں دی۔ ان ہی آئمہ کرام کے مدرسوں سے یہ اولیاء کرام ہدایت یافتہ ہیں۔ حضرت معروف کرخیؒ حضرت امام علی بن موسٰی رضا علیہ السلام کے مرید تھے۔ جابر بن حیان جیسا بابائے کیمیا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا شاگرد ہے۔
اصل بات جو اپ کو بتانی مقصود ہے کہ رشد و ہدایت کا سلسلہ قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کاسلسلہ حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا ملتا ہے تو ان کے خاندان میں اثرات تو ہونگے۔ اصحابہ کرام دنیا کو فتح کرتے ہوئے پنجگور تک آئے یہ شہر صوبہ بلوچستان میں اب بھی موجود ہے اور اس کی وجہ شہرت پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی قبور ہیں۔ اسلام کی فتح اور غلبہ دین و ایمان کی خاطر کافر قوتوں سے بہت سی جنگیں لڑیں گئیں۔ جس میں شیخ چاولی کا قصہ بہت مشہور ہے۔ پہلے یہ ایک ہندو راجہ چاولی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مگر جنگی قیدی کے طور پر مدینہ لے جانے پہ جب اس راجہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا دیدار کیا تو دنگ رہ گیا اور آپ کی ہستی پاک کو دیکھ کے رہ نہ سکا اور آپ کے قدموں میں شکست پا کی طرح رہ گیا قبول اسلام کے بعد حضرت عالی مقام نے خود اجازت دی کہ پاکستان یعنی ہندوستان جا کے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاو۔ان بزرگ کا مزار عارف والا میں ہے۔ زیادہ تر انبیاء کرام علیھم السلام فلسطین ،عراق،شام ،اومان، اردن اور سعودی عرب میں ہیں۔ اس کی وجہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔اس مالک کی مرضی جسے چاہے اور جو چاہے۔
واعلم بالصواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
LikeSh

Sunday 3 April 2016

to err is human in urdu


 دل نادان تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے یہ شعر بھی مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے مرزا غالب نے انسانی فطرت کو خوب سوچ سمجھ کر ہی ایسا کہا کہ انسان ہے تو نادان ہی کیونکہ جو کچھ بھی کارفرما ہے اس میں غلطیاں تو بہت ہیں اسی لیے تو ہم کو غلطی کا پتلا کہا جاتا ہے اور یہ بات بہت انداز سے درست بھی تو ہے۔ ارے میاں وقت کے دھارے کے ساتھ تو ہر چیز اپنی طاقت کھونا شروع کر دیتی ہے تو ہم ٹھہرے گوشت پوست کے۔ کیوں نا گھسے گے اور خطا کریں گے۔ ویسے ہم غلطی کر کے ہی سیکھتے ہیں۔ مگر ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہم غلط ہیں۔ انہی غلط باتوں کے پیش نظر ہمیں جو درد ہوتا ہے ہمیں جو تکلیف لاحق ہوتی ہے بس ہم یوں ہی کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہماری تو کوئی غلطی نہیں تھی یہ میاں کلو ہی نہیں سمجھا اے ایسا کیا ہے ہمارے اندر ؟
ارے بھائی یہ کوئی ڈر تو نہیں ہے جو تم مان نہیں رہے۔ چلو اگر کوئی کام نہ کر سکے یا یوں کہو کہ ٹھیک نہ ہوا تو مان لو کہ کچھ نہ کچھ تو کہیں کوئی چلو آپ نہیں تو کوئی غلط ہے۔ دوسرے سے پوچھے گے تو وہ آپکو ہی غلط کہے گا ۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یہ کیسا قانون ہے کہ ایک ہی بندہ خراب اعمال سر انجام دیتا ہو اور دوسرا جو براہ راست طور پہ شامل ہے وہ معصوم ہو یا شامل ہی نہ ہو۔ قرآن کریم کا بیان کہ ہم نے انسان کو تقویم سے بنایا ہے یعنی بہت تناسب کے ساتھ تاکہ وہ خوبصورت لگے اور ایسا ہونے میں شک ہی کیا ہے۔ ایک اور جگہ پہ یہ بھی فرمایا گیا کہ انسان کو ناامید پیدا کیا گیا ہے۔ بلکہ جلدباز بھی کہا گیا۔ اور یہ تمام غلطیاں اسی جلد بازی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔جب قانون فطرت کی رو سے ہی ہمارے وجود میں غلطی کرنے کا احتمال ہے تو ہم یہ بات ماننے پر کیوں تیار نہیں ہوتے کہ ' میں غلط ہوں'۔ ہمارا خود کا قصور ہوتا ہے اور ہم اس کا ذمہ دار دوسرے لوگوں کو گردانتے ہیں۔
اس ساری بات کی وجہ ہمارے اندرونی تضادات بھی ہیں اور اپنے خود ساختہ تفرقات بھی ہیں۔ اس کو ملنا ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ملنا کہ وہ غریب ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہے وہ تو بلکہ ہم پہ بوجھ ہی نا بن جائے اور ہمیں لینے کے دینے پڑ جائے۔ یہی تربیت ہم جب اہنے بچوں کی کرتے ہیں اور نتیجہ گڑبڑ ہوتا ہے تو پھر چیختے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ۔ یہ جو نفرت ہے نا بڑا ہی گناونا جرم ہے۔ پیسے کے پیچھے بھاگنے والے یہ بات نہیں سمجھتے کہ اصل حاصل تو وہ رشتہ ہے جو آپ نے بنایا ہے اور جسے قرآن پاک صلہ رحمی کہتا ہے۔ اب جو صلہ رحمی کو نہ سمجھتا ہو تو وہ غلط نہیں ہے ہاں جی یہی غلطی ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ انسان جہاں اپنا فائدہ دیکھتا ہے تو وہی پڑاو ڈال لیتا ہے مانتے ہیں انسان خود غرض ہے چالاک بھی ہے مگر ایک ہی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں تو انسان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔
جس طرح ایک مسلمان کا درجہ ایک مومن سے اور ایک مومن کا درجہ ایک ولی سے کم ہے۔ پھر اس سے بھی اوپر درجے ہیں ابدال، قطب غوث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین۔ کچھ لوگ ان میں ایسے بھی ہیں جس طرح شرعی ولی جس کو اپنی ولایت کا معلوم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالٰٰ کی ذآت اس سے بہت خوش ہوتی ہے اور اس کی ہر دعا قبول کی جاتی ہے۔ اللہ کی ذات اقدس کہتی ہے کہ میرے اولیائ اللہ سے جنگ نہ کرنا کیوں میں ان سے بہت محبت رکھتا ہوں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ان اولیائ کرام سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں تو ایسے لوگ جو ان پاک نفوس ہستیوں سے منسلک ہیں دور ہیں پاس ہیں کچھ نہ کچھ تو حصہ رکھتے ہیں۔ اگر خالی مٹی کو گلاب کا ملاپ حاصل ہو جائے تو وہ بھی کچھ خوشبو پا ہی لیتی ہے۔  
پھر یہ سارا معاملہ تو عطا کا ہے۔ مگر غلطی بھی انسان کے وجود کا حصہ ہے یہ بات نہیں ہے کہ ہم یہ کہۓ کہ ہم سے تو غلطی سرزد ہی نہیں ہوتی یا ہوسکتی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سے غلطی نہ ہو۔ ہم نہ تو نار سے ہیں اور نہ ہی نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔ ہمارا قالب مٹی کا ہے اور یہ مٹی جس جگہ سے لی گئی ہے وہ جگہ قیاس کہلاتی ہہے۔ مطلب تاریک اور مایوسی کی پناہ گاہ۔ یہ ٹھنکتی ہوئی مٹی اپنے اندر خوبیان اور خامیاں لیے ہوئے ہے۔ یعنی کہ اس میں اگر ایک پہلو ٹھیک ہے تو دوسرا پہلو کمزور ہے۔ یا ہم اس کو اگر یوں کہیں کہ اس میں ایک طرح توازن رکھا گیا ہے تو شاید ایسا کہنا کچھ غلط نہ ہو۔
ہر انسان کے وجود میں کسی نہ کسی پہلو یا قدر کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوتی ہے سوائے سوائے ایک ہستی پاک کے اور وہ ہیں ہمارے آقا و مولا سرور انبیاء خاتم النبیبن حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی شفیع الذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم آپ ایک کامل انسان ہیں آپ سرکارعالی کی ذات پاک میں کسی غلطی کو عمل دخل نہیں  ہے۔ سُبحان اللہ والحمدللہ و لا الہ الی اللہ واللہ اکبر۔ آپ ہم سب دنیا والوں کے لیے اصل میں ایک کسوٹی ہیں۔ الحمد للہ رب العالمین۔