Friday 27 November 2015

Islamic Lineage


سورۃ بقرۃ کی آخری تین آیات
284 تا 286
لِلہ ما فی السمٰوت و ما فی الارض ۔۔۔۔۔۔۔اَنت مولٰنا فانصرنا علی القوم الکافرین0
1۔ جو کچھ بھی اسمانوں اور زمینوں میں ہے سبھی اللہ کا ہے ۔
2۔ چاہے اگر تم اپنی باتوں کو ظاہر کرو یا چھپاو اللہ تم سے حساب ضرور لے گا۔
3۔ پھر جس کو چاہے معاف کردے گااور جس کو چاہے عذاب دےگا۔
4۔اللہ ہر شی پر قادر ہے۔ یہاں لفظ 'قدیر' سے مراد قدرت والا مالک ہے جس نے ہر ایک ذی روح کا پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔
  5،رسول کریم ﷺ پر جو اللہ کی طرف سے کتاب نازل کی گئی مومنون یعنی صحابہ اس پہ ایمان لے آئے۔
 6۔ ان مومنین میں سے ہرکوئی اللہ اسکے فرشتوں کتابوں اور رسولوں پر ایمان لے آیا۔
7۔ نیز وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں وہ اس میں کوئی فرق نہیں کرتے۔
8۔ اور مزید کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی بات سُن لی اور اس کی اطاعت کر لی۔
9۔ مومنین کہتے ہیں کہ ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
10۔ اللہ تعالٰی کی ذات کسی نفس پر وہ ذمہ داری نہیں ڈالتی جس کی کہ اس میں طاقت نہ ہو۔
11۔ اس کو اجر ملے گا اس بات کا جو اس نے نیک عمل کیا اور اس پر وبال ہوگا جو برا عمل اس نے کمایا۔
12۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم دعا گو ہیں کہ یا باری تعالٰی کہ اے ہمارے رب اگر ہم بھول بیٹھیں یا خطا کر دیں تو ہمیں نہ پکڑنا۔
  13۔ اے ہمارے رب ہم پہ بھاری بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔
14۔ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔
15۔ اور ہمیں معاف کردے۔ اور ہمیں بخش دے اور ہم پہ رحم فرما۔
16۔ تو ہی ہمارا اللہ ہے۔پس کافرین کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
 تشریح سورۃ بقرۃ
یہ دونوں آیات دعائیہ طرز ہیں، جب مکہ کے کافروں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا توہجرت سے ایک سال پہلے معراج النبیﷺ کے موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ اللہ نے مسلمانوں کی دلی تسلی وتشفی کے لیے یہ ابدی سکون و قرار والی آیات نازل کیں۔ یہ قرآن کی سب سے لمبی سورۃ ہے۔ اس سورۃ میں 286 آیات ہیں۔ مسلمانوں کے لبوں تک دعائیہ کلمات لانے سے پہلے اللہ تعالٰی کی ذات ان کو ایمان لانے کی ضرورت پہ زور دیتی ہے۔ نہ صرف کہ وہ اللہ پہ بلکہ فرشتوں کتابوں اور رسولوں پہ بھی ایمان لے کے آئیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ چاہے تو کوئی کتنا ہی اپنی بات کو چھپا لے یا اپنے انداز سے ظاہر کردے تو اللہ ہی  جس کو چاہے گا معاف کرے گا یا عذاب دے گا۔ اللہ ہی ہے جو اپنی اس تخلیق کا کلھم مالک ہے۔ وہ ایسی ک،ال قدرت کا مالک ہے کوئی بھی شے اس کی پہنچ سے باہر نہیں ہے۔ ان تبدوا و او تخفوا میں حساب لینے والا اکیلا اور واحد ہے۔۔ جب مسلمان یعنی مومنین ایمان لے آئے تو انہوں نے اللہ سے مودبانہ طور پر یہ دعا کی کہ وہ ان کو بخش دے ان کی بھول چوکو خطا کو معاف   ان پہ ایسا بوجھ نہ ڈالے یعنی ایسی کوئی ذمہ داری نہ ڈالے جس کے وہ متحمل ہی نہ ہوسکیں۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اپنے رب ہی طرف لوٹ کے جائیں گے۔یہ صحابہ کرام کی اس طرح تربیت کی گئی کہ وہ رسولوں میں کوئی بھی فرق نہیں کرتے بلکہ اللہ کی پوری تخلیق کو من و عن مانتا بھی ہے۔آخر میں اس بات پہ زور ہے کہ اللہ کافروں کے خلاف مسلمانوں کو برپور حمایت اور طاقت سے نواز دے۔
سوال
 سورۃ البقرۃ میں مسلمانوں کی کن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا ڈر اور خوف کے بارے میں کیا ببیان ہے؟
ایمان کے بارے میں آپ کیا جان پائے ہیں ۔سورۃ البقرۃ کے حوالے سے لکھیں؟
سورۃ المومنون آیات 1 تا 11
قد افلح المومنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُولئک ھم الوارثون
 بالتحقیق ان مومنوں نے فلاح پائی
 ۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں۔
۔ اور جو لغو باتوں سے خواہ وہ قولی ہو فعلی برکناررہنے والے ہیں۔
۔اور جو اعمال و اخلاق میں اپنا تزکیہ کرنے والے ہیں۔
۔ اور ایسے مومنین جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
۔ لیکن اپنی بیبیوں یا اپنی شرعی لونڈیوں سے حفاظت نہیں کرتے کیونکہ ان پر اس میں کوئی الزام نہیں ہے۔
۔ ہاں جو اس کے علاوہ کسی اور جگہ شہوت رانی کا طلبگار ہوتو ایسے لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں۔
۔ اور جو اپنی سپردگی میں لی ہوئی امانتوں اور وعدوں کے خیال رکھنے والے ہیں۔
اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔
اور یہی لوگ وارث ہونے والے ہیں۔
اور جو فردوس کے وارث ہونگے اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔  
 تشریح
سورۃ المومنوں کے آغاز میں جو کہ پارہ 18 کا بھی ستارٹ ہے اس میں کامیاب  لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح  کچھ حقائق سورۃ الفرقان میں بھی بیان ہیں یہ ایسے لوگ ہیں جو نبی مکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں شامل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید ہے اس میں موجود دقیق مسائل کے حل کے لیے بنی نوع انسان کا انتخاب کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ رب ذوالجلال نے بغیر مقصد کے کسی بھی شے کو پیدا نہیں کیا۔ لحاظ ہر ایک چیز اپنے اپنے ٹھکانے پہ بالکل با مقصد ہے۔ اسی طرح سے اللہ کے یہ مومن بھی اسی کے معیار کے عین مطابق ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ وہ تو ساری ساری رات اور دن بھی اسی ایک واحد کی یاد میں گزاردیتے ہیں۔ والزین یبیتون لربھم سجدا و قیاما۔سورۃ الفرقان
جس بھی فرد نے چاہے مسلمان مرد ہو یا عورت اپنی شرمگاہ کی خوب حفاظت کی تو اللہ کی ذات اسی کو اپنا وارث کہتے ہوئے شرم نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ اور بہت سی خوبیاں ہیں کیونکہ صرف یہی کافی نہیں وہ تو ایسے ہیں جو اس کی نماز میں پابندی کے ساتھ خاضر ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں سے ہی مراسم رکھتے ہیں اور ذرا برابر بھی اپنی حد کو نہیں چھوتے۔ زکوٰۃ کے طریقے کو اپنا کر اپنے مال کو معصیت سے پاک کرلیتے ہیں۔ خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ الہٰی میں جاتے ہیں۔ اور عاجزی کے ساتھ اپنے نامہ اعمال رب کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔
سوال
سورۃ المومنون میں مومن کن خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔
 صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنھما کی کیا پہنچان ہے۔بحوالہ سورۃ بیان کریں۔
سورۃ الفرقان
آیات 63 تا 77
و عباد الرحمٰن الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُولئک ھم الوارثون۔
1۔ اللہ کے خاص بندے جو اس کے عبادت گزار ہیں جب بھی زمین پر چلتے ہیں تو فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل ملتا ہے تو اسے السلام علیکم کہتے ہیں۔



Bait e Peer

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سلسلہ عالیہ شکوریہ علائیہ امینیہ ؒ میں اولیاء اللہ کی دعوت و برکات
 صرف وہی لوگ سلسلہ عالیہ میں داخل ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالٰی کی ذات چاہتی ہے کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ من یشاءبغیر حساب والا معاملہ لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ قابل غور نکتہ کہ اگر لوگوں کو من جانب اللہ کوئی بات حاصل نہیں تو وہ اپنے ارادے، اختیار یا عقیدے کے بل بوتے پر کچھ کر لیں گے یا ذرا سا عمل وجود میں لے آئیں گے تو قطعا ایسی کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ آج تک دنیا میں جتنے بھی کام ہوئے وہ سب کے سب اللہ کی ذات کریمہ کے واسطےاور وسیلے سے ہی سرانجام دیے گئے ہیں۔
بعض لوگ جو دین سے ہٹے ہوئے ہیں یا زبان سے تو اظہار کرنے کی قوت نہیں رکھتے مگر عملی طور پہ بڑے تیقن کے ساتھ اپنے اس عقیدہ ہائے پہ قائم ہیں تووہ بالکل ہی سراسر غلط ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری جسمانی طاقت تھی کہ جس کی وجہ سے ہم نے اس کام کو کیا اور وہ تو اس حد کو بھی پھلانگتے ہوئے کوئی عار نہیں گردانتے کہ حیوانی طاقت انسان کی خوبی ہے، وصف ہے اس کی پہچان ہے اور جو خود سے عمل کرے تو وہ بنی نوع انسان ہے۔
یہ جسمانی طاقت کا جوہر بھی تو اسی خدائے بزگ و برتر کا ہی دیا ہوا ہے اور کون ہےاس کے سوا وہی تو اکیلا معبود برحق ہے۔
 شیطان نےاپنے حربوں سے اپنی ذریت میں کافی لوگوں کو شامل کر لیا ہے کہ بنی نوع انسان ہوتے ہوئے بھی ہم یہ تک بات نہیں سمجھ پاتے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کا بھی توایک الگ وجود ہے۔
 ہندو مذہب والے دوسری زندگی کا حال بیان کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ روح دنیا سے رخصت ہو نے کے بعد جب دوبارہ جنم لیتی ہے تو اب وہ قیامت تک رہے گی باقی معاملے اور ہیں۔ عیسائی حضرات بھی ہماری طرح ہی تدفین کرتے ہیں آخر وہ اہل کتاب ہیں۔ ہندو تو اپنے مردے کو جلا ڈالتے ہیں یعنی پاکی کے عمل سے گزارتے ہیں۔
یہ جسمانی طاقت اسی کی دی ہوئی ہے اور یہ کہ اس کا جسم میں رہ کر کام کرنا اسی پہ منحصر ہے۔ یہ اللہ ہی کے کمال کا عکس ہے۔ جب کہ اس مالک کُل نے کوئی اجازت ہی نہیں دینی تو کیا جسم کیا کوئی عمل۔ ہم عطائی لوگ ہیں اس اللہ کریم کے مختاج ہیں جو سب جہانوں کا واحد مالک ہے۔للہ ملک السمٰوات و ما فی الارض۔ اور جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور ایک اور جگہ پہ ارشاد ہے وھو القوی العزیز۔ ہمارا زندہ رکھنا اس کو ذرا سا بھی دشوار نہیں وہ تو اتنی بڑی سلطنت کا مالک ہے جس کا ہم کو تصور نہیں۔
ہم انسانوں کو اس نے جو عنایت و توفیق کی دو بڑی سعادتیں عطا کر رکھیں ہیں ہم انہی کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔ اسی کے ساتھ جڑنا اور وابستہ رہنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ کیا مجال کسی کی بھی کہ جو خالق و مالک کلھم کے خلاف چل سکے۔ اللہ نے آپ سرکار دو عالم محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی قوت و ارادہ عطا فرمایا تھا کہ آپ ﷺ کی ذات عالی ہی وحی قرآن کا بوجھ اٹھا سکی۔ اللہ کی ذات مقدسہ کا بیان ہے اگر ہم یہ قرآن پہاڑ پہ نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے اور اگر سمندروں کے پانی پہ کرتے تو وہ خشک ہوجاتے۔
انسان کو دنیا میں بھیجنے کے سلسلے سے لے کر اب تک یہ بھی تو نظر مشاہدہ میں ہے کہ واپسی کا کام بھی نہیں رکا لوگ اسی طرح اپنے خالق و مالک کے پاس دوسری دنیا میں جا رہے ہیں۔
یہ ضرور سوچ آتی ہے کہ اخر ہم وہاں جانے سے ڈرتے کیوں ہیں۔شاید یہ ہے کہ ہم نے کبھی فرشتوں کو نہیں دیکھا یا اس آخروی جہان کی کوئی بھی بات نہیں دیکھی۔ حیرانی و پریشانی تو ہوتی ہے مگر جانا تو وہی ہے آخر سب نے۔
اس دنیا میں آنکھ کھلی اس لیے بھی کہ ہم نے یہی حواس کے ذریعے دنیاوی اشیا کا مشاہدہ کیا اس لیے بھی اس سے ہماری مانوسیت زیادہ ہے۔ ادراک و شعور جہاں کا ہو تو ذہن بھی اسی کی چیزیں کو مخفوظ کرتا ہے۔ دوسری دنیا جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس کا کچھ نہیں دیکھا اس لیے بھی اس سے کوئی رغبت اور لگاو نہیں۔ وہاں ہم کو زندہ رکھا جائے گا مارا نہیں جائے گا۔ وہ ابدی جگہ ہے۔ یہ دنیا بلکہ عارضی جگہ ہے نہ رہنے والی جگہ۔
کسی بھی پیر کا مرید ہو کر اس دنیا سے رغبت کم اور دوسری دنیا سے رابطہ مضبوط ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف سے پیغامات کا سلسلہ مرید کی طرف رجوع کرنے لگتا ہے۔ اصل سلسلہ جڑنے لگتا ہے یہی انسان کا منقطع رشتہ ہے جس کی چاہت کی گئی ہے۔ عافیت کا یہ سلسلہ ہر ایک کو اپنی طرف مقناطیسی قوت کی طرح کھینچتا ہے۔کچھ لوگوں کے لیے تو یہ تمام معاملات نئے ہوتے ہیں اور ان کو اس لائن میں لطف و سرور بھی بہت حاصل ہوتا ہے۔ بعض جو اس میں کچھ وقت گزار لیتے ہیں تو اس میں ترقی و تغیر کے خواہاں ہوتے ہیں۔
ہر مرید کا تعلق حضور عالی جناب مکرم رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرا دیا جاتا ہے۔ پیر کا کام صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ مرید کو سلسلہ مں داخل کرے باقی مرید جانے کہ اس کا عمل کیا ہے اور یہ بڑی شان کی باتیں ہیں۔ مریدی اختیار کرنے کا اصل راز تو اللہ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کے درمیان واسطہ کو جاننا ہے۔
اس ضمن میں دو باتیں بہت قابل غور ہیں اور مددگار بھی کہ اب راز فنا کو کس طرح حاصل کیا جائے اصل یہی تو ہے کیونکہ اللہ نے دنیا بنادی اور رزق کو تقسیم کر دیا قسمتوں کا بھی فیصلہ کر دیا۔ مرید بھی ہوگئے اب ضروری ہے وہ دو باتیں ایک ہے رابطہ شیخ تو دوسرا ہے حضورﷺ کی سنت مبارک۔
ان باتوں پر موقوف آدمی ہی اصل کامیابی پہ گامزن ہے۔ اس بات کو جس نے بھی جان لیا کہ اللہ اور اس کے رسول مقبول سید المرسلین ﷺ کے درمیان کیا محبت ہے کیا عشق ہے کیا رازداری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی کیا چاہت رکھتے ہیں۔ اللہ  نے یہ سارا کھیل کیوں کر رچایا۔ کیا اس کو اپنے نبیﷺ سے اتنی محبت ہے۔ وہ خود قرآن میں کہتا ہے کہ میں اور اس کے فرشتے اپنے نبی رحمت ﷺ پہ ہر وقت درود پاک بھیج رہے ہیں تو اے ایمان والوں تم بھی نبی عالی مرتبت ﷺ پہ درودپاک کی انتہا کو پہنچو۔ یہ باتیں بڑی تکریم و تحریم کی ہیں عام فہم کی نہیں ہیں۔

یہ دعوت عام نہیں ہوتی بلکہ حضور عالی مرتبت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی جماعت کے ساتھ وہ عھد و پیما ہوتا ہے جو ہم سے پہلے انبیاءکرام سے بھی لیا گیا کہ وہ اپنی امت کے لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دیں اور ان کی نسل میں سے آنے والے اس زمانے کے لوگوں کو آپ ﷺ پر ایمان لانے کی تلقین کریں۔ مزیدبراں یہ ہے کہ آج بھی سابقہ آسمانی کتابوں توریت، زبور اور انجیل میں آپ سرکار دو عالم ﷺکی آمد کی واضح بشارتیں موجود ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ خاتم انبین حضرت محمد ﷺ ان کی نسل میں سے ہوں اور اسی لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ ﷺ کے جد امجد ہیں۔اسی طرح حضرت موسٰٰ علیہ السلام کی بھی یہ دعا تھی کہ وہ بھی امت  محمدیہ ﷺ کے ایک فرد ہوں۔ تبھی توریت اور انجیل کے عالم ورقہ بن نوفل نے آپ سرکار دو عالم ﷺ کی پہلی وحی کے واقعے کی سچائی کو حق تسلیم و قراردیا۔
آپ سرکار دو عالم ﷺ کے ذکر مبارک کے ساتھ ساتھ چار خلفائے راشدین کا ذکر پاک بھی آیا ہےجس میں حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضی رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین کا ذکر آیا ہے۔قرآن مجید بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے ' اے نبیﷺ ہم نے آپﷺ کو آپ کے ساتھیوں کے ذریعے تقویت بخشی۔' جن سے مراد یہی چاروں خلفاء کرام اور باقی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین شامل ہیں اور ان کے بعد آنے والے آئمہ اور اولیاء کرام اکو بھی اسی زمرے میں شامل ذکر کیا جاتا ہے۔    ان حقائق کے پیش نظر اس متبرک و مقدس ہستی کی جماعت کے ساتھ تعلق و واسطہ رکھنا کسی عظمت سے کم نہیں کہ جس میں جلیل القدر انبیاء کرام علیھما السلام بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔  اس جماعت سے جڑنے والے فزکس کے بھی ماہر ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر ممکنہ شعبے سے متعلق ہوتے ہیں اور ایک آسان زندگی بسر کرتے ہیں مگر ایک واضح فرق حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ نسبت کا ہوتا ہے۔
اب جن لوگوں نے آپ سرکار دو عالمﷺ کی جماعت کے ساتھ نسبت کو قائم کیا تو ان کی مثال سورۃ  کوثر کی طرح ہے۔ وہ لوگ آپ ﷺ کے صحابہ کرام و اولیاء اللہ کی طرح اگر اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں گے تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ 
 اس جماعت میں شامل سب سے سر فہرست تو آقائے نامدار سرکار دو جہان سید الانبیاء شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین خاتم النبین حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم ہیں۔
حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہ الکریم  رضی اللہ عنہ
حضرت امام حسین علیہ السلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام
حضرت امام علی رضا ابن موسٰی کاظم علیہ السلام
حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
حجرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت رحیم الدین عیاض رحمۃ اللہ علیہ
حضرت عبد العزیز یمنی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ابو یوسف طرطوسی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ابو الحسن علی الھنکاری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ابو سعید مبارک رحمۃ اللہ علیہ
پیران پیر دستگیر حضرت محمد عبدالقادر جیلانی گیارویں شریف والے رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت میر نظام الدین،میر مبارک غزنوی،نجم الدین قلندر، قطب الدین ،میر فضل اللہ، میر محمود، میر نصیر الدین،میر نظام الدین،میر اہل اللہ،میر جعفر، خلیل الدین، منعم پاک باز، مخدوم شاہ حسن علی، مخدوم شاہ حسن دوست المقلب شاہ فرحت اللہ، شاہ مظہر حسین،
شاہ محمد مہدی الفاروقی القادری، شاہ امداد علی بھاگلپوری، شاہ مخلص الرحمان، فخر العارفین محمد عبدالحی، شاہ نبی رضا شاہ ،حضرت شاہ محمد عبدالشکوررحمہا اللہ علیھم اجمعین
الہٰی بحرمت رازونیاز امام العارفین حبیب رب العالمین راھت العاشقین منھاج الکاملین فخرالمتوکلین شمس الاولیاء سیدنا و مولانا الشاہ محمد علاء الدین ؒ
الہٰی بحرمت رازونیاز حبیب رب العالمین عاشق رسول الثقلین زھدۃ العارفین قدوۃ السالکین قطب العارفین غوث الکاملین الفانی فی اللہ و الباقی فخر المتوکلین اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ۔۔۔۔۔۔۔
سر پرست اعلٰی و سجادہ نشین دربار شریف اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ قادری چشتی شکوری علائی منعمی قدس سرہ العزیز  ریحان بشیر قادری شکوری علائی امینی
 



Tuesday 17 November 2015

waseela or approach o GOD through saints

بفیضان نظر بندگان با صفامرشد حق حضرت شاہ محمد امین شاہ فخرالتوکل الاولیاء قادری علائی شکوری منعمی رحمۃ تعالٰی علیہ
سوال۔ کیا آپ وسیلے کو مانتے ہیں؟
جواب۔ جب بھی یہ سوال  کیا جاتا ہے  تو ہر سمت سے اس کے خلاف زیادہ اور اس کے حق میں بہت کم لوگ منظرعام پر آتے ہیں۔ مختلف اوقات میں لوگوں سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے اپنے علم و ادراک کے مطابق جوابات سے مرحمت کیا۔ وسیلے کی ضمن میں صاحبا ن کے دیے گئے جوابات ملاخظہ ہوں۔
میں وسیلے کو مانتا ہوں۔
محمد امین۔ بینکر الفلاغ بینک
جی وسیلہ ہونا چاہیے اگر وسیلے کی ضرورت نہ ہوتی تو خدا تعالٰی پیغمبر اور نبی نہ بھیجتا۔سید فرمان احمد شاہ۔ بی ایس ٹیک انجینیئر
جی مانتا ہوں۔ ذیشان قادری شکوری علائی۔بی ٹیک انجینیئر
جی مانتی ہوں۔ معصومہ نثار۔ ڈی فارمیسی
جی مانتا ہوں 100 فی صد۔بلال انور۔اکاوٹنٹ۔ یو ایس اے یونیورسٹی
خالد اقبال قادری شکوری علائی۔ علیم ڈی اے ای۔ احمر ڈی اے ای۔ اویس بی ایس سی انجینیئرنگ ۔ خافظ ابو بکر بی ٹیک انجینیئرنگ۔ وقاص ڈی اے ای۔ قیصر صاحب یو ای ٹی چیف لیب آفیسرحسن بصری میڈیسن آفیسر۔ ریحان مصطفٰی  قادری نقشبندی اکاوٹیٹ واپڈا
جی ہاں قرآن میں وسیلے کا ذکر ہے۔فواد یونس  ایم بی اے
قرآن و حدیث کا ٹھیک مفہوم سمجھنے کے لیے ہمیں کسی کنسرڈ پرسن کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیٹ سی وائی ہم لوگ پیروں کے پاس جاتے ہیں۔ عمران ارشاد بی ایب ٹیک انجیننیئر سول
وسیلے سے ہی حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے خدا کو خوش کرنے کے لیے قربانی کا سہارا لیا اور سارا ثواب سمیٹ لے گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک بڑا وسیلہ ہیں کہ جن کے  دم سے دنیا وجود میں لائی گئی۔حضور عالی ﷺ کی ذات اطہر ایک وسیلہ ہیں محمد اویس قادری شکوری علائی امینی۔
یعنی اللہ کا شرک ہےوسیلہ۔ ارسلان بی ایس ٹیک
میں ذاتی طور یہ مانتا ہوں کہ ہم سب اللہ کے  بندے ہیں۔ اور ہم کو ڈائریکٹ اللہ سے مانگنا چاہیے۔ نہ کہ پیر سے اور اللہ ہماری عبادت قبول کرتا ہے۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ لیکن وسیلہ یہ ہے کہ ہم کسی نیک بندے کو دیکھے اور اس سے یہ کہے کہ ہمارے لیے دعا کرنا۔عقیل حیدر بی ایس سی انجینیئرنگ
میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح وسیلہ کو نہ مانتا اگر میں نے بے اولاد جوڑوں کے گھروں میں اولاد ہوتے نہ دیکھی ہوتی۔ یہ بات ایسے ہے کہ جن لوگوں کو ڈاکٹر اس بات کا سرٹیفیکیٹ دے دیتے ہیں کہ بچہ نہیں ہوسکتا تو اللہ کی ذات ان لوگوں کو اپنے کسی محبوب کے قدموں کے صدقے اولاد ہی نہیں بہت کچھ نواز دیتا ہے۔ حضرت عبدالقادر جیلانی جب اپنے بچپن میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیلتے تو عجیب و غریب مناظر روپذیر ہوتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت کا بچہ مر گیا۔ وہ بھاگی ہوئی آئی اور فریاد کرنے لگی کہ اس کو بچے سے بھت محبت ہے اس کے سوا اس کا ا کوئی نہیں۔ حضرت کی والدہ ماجدہ نے کہا کہ جب عبدالقادر سب بچوںکو کہے کہ لیٹ جاو تو تم بھی اپنا لڑکا وہاں لٹا آنا۔ تمہارا کام ہوجائے گا۔ وہ عورت ورطہ حیرت میں اپنا مرا ہوا بچہ وہاں لٹا کر ایک جگہ چھپ کے کیا دیکھتی ہے کہ جب آنکھیں بند بچوں کو آپؒ نے اٹھنے کے لیے کہا تو وہ مردہ بچہ بھی اٹھ گیا۔
اللہ تعالٰی کی ذات نے جب بھی انبیاء کرام علیھم السلام سے کوئی  بات کرنی یا پیغام دیا تو فرشتوں کو ہی اس کام پہ معمور کیا۔ اس بات سے یہ پردہ بھی فاش ہو جا تا ہے کہ وہ ذات الہٰی ہم عام انسانوں کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ اس کے کلام کو سننے کی قوت رکھ سکیں۔ اللہ حضرت موسٰی سے ہم کلام ہوا ہے۔ وہ تو ہر بات پہ قادر ہے اگر بغیر باپ کے پیدا ہونے والے حضرت عیسٰی علیہ السلام نبی ہیں تو وہ ہر انسان سے خود ہی بات

بھی کر لییتا۔اگر وہ کبھی اپنی قوت و استعداد کے عین مطابق عطا کرنا شروع ہو جائے تو ہم انسان اللہ کا دیا ہوا سنبھال نہ پائے۔ یہ بات ضرور ہے کہ اس کی تخلیق کردہ کائنات ہے اور وسیلہ بھی اسی کی ہی عنایت ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے کوئی بات سیدھی ہم تک پہنچتی ہے تو ہم اس کا بوجھ شاید برداشت نہ کر پائے۔
وہ کلھم ہے جو چاہے اور جیسے چاہے۔
فیغفر من یشاء و یعذب من یشاء کییونکہ لللہ ما فی السمٰوات و ما فی الارض۔سورۃ البقرۃ۔ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے صرف اللہ ہی کا ہے۔ محمد ثوبان قادری شکوری علائی امینی
یہ لفظ جس پہ آج ہم اپنے خیالات کا تبادلہ کر رہے ہیں کسی بھی تعارف کا مختاج نہیں ہے پر پھر بھی ہر لفظ کی کوئی پہچان اور جانچ ہی اس کا اصل پتا دیتی ہے۔ اس کے معنی ہیئت کو اگر دئکھا جائے تو اس کا مطلب وجہ، سبب اور ہاتھ ملانے کے ہیں۔ یعنی ایسے ذرائع جو آپ کو قریب کر دے۔ اب ان حضرات سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا وسیلہ کوئی بری بات ہے کہ جس کا مطلب ہی قرب کے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قریب اور رسول اکرم ﷺ کے قریب۔ وہابیوں کے ہادی اعظم جناب مولانا اشرف علی تھانوی کے مطابق لفظ ' وسیلہ ' کی تشریح و توضیح بیعت مرشد ہے۔ کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں خود اللہ کی ذات ارشاد کرتی ہے
پارہ نمبر 2 سورۃ مائدہ
یایھا الذین امنواتقواللہ وابتغواالیہ الوسیلہ وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون۔ ترجمہ۔ اے لوگو جو ایمان لے آئیں ہو تو اللہ سے ڈرو اور وسیلہ کی تلاش کرو اللہ کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم فلاح پا سکو۔
اس کے ترجمہ میں  کہا  گیا کہ اے لوگوں جو ایمان لے آئے ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاو یعنی فلاح والے انسان۔ اب اس آیہ مبارکہ میں ایمان لانے تقوٰی اختیارکرنے اور وسیلے کی تلاش میں نکلنے کو کہا گیا ہے۔ اور اس بات کو مشروط کر دیا گیا ہے جہاد کے ساتھ اور جہاد کیا جاتا ہے نفس کے خلاف۔نفس جو کہ سرکش ہو اور وہ بھی ایسا کہ جو اللہ کی یاد نہ کرے اور دنیا کو سر کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔
ایمان، تقوی، تلاش وسیلہ اور جہاد اور اس سب کا اجر فلاغ ہے۔ اسی فلاح کو سورۃ المومنون کے بالکل آغاز مین کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے جو ایمان لے آتے ہیں اور اس پہ قائم رہتے ہیں تو ان کا کیا انعام ہے۔ قد افلح المومنون0 والذین ھم فی صلاتھم خشعون0اس کے علاوہ ایک اور جگہ پہ ان ہی مومنون کے باررے میں کہا گیا کہ وہ اولئک ھم الورثون جو ہمیشہ جنت فردوس میں ہی رہے گے مگر عمل کرنا بھی تو ضروری بات ہے ۔
یہ تو ابھی ایک ایمان والے کی خوبیاں ہیں۔ جو اس کے بعد ھدی المتقین ہیں وہ کیا کیا خصؤصیات لیے بیٹھے ہیں۔ سبحان اللہ
زور اس بات پہ دیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں اگر تقرب چاہتے ہو تو اس کے قریب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے نبی آخری الزماں ﷺ کے دامن کو مضبوطی سے تھام لو بس اس سے بڑا اور کوئی جواب نہیں اس بات کا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔حضورﷺ نے فرمایا وسیلہ ایک درجہ ہےجس کے اوپر کوئی درجہ نہیں۔ ایک اور جگہ آپ سرکار نامدار حق ﷺ فرماتے ہیں ' عند ذکر اصالحین تنزل الرحمۃ۔ ترجمہ۔ اللہ کے نیک بندوں کا ذکر نزول ڑحمت  کا باعث ہے۔ اسی وسیلہ کے معنی کو اور قریب سے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺکی اس بات پہ دھیان دے۔ جسے اللہ کی محبت مطلوب ہو اسے چاہیے کہ اہل ذکر کی مجلس میں بیٹھے۔ ایک اور جگہ پہ بھت ہی واضح اشارہ ہے کہ اولیاء اللہ کے در اللہ سے ملنے کے لیے بہترین آماجگاہ ہیں۔
ہر کہ خواہد ھم نشینی با خدا
او نشیند در حضور اولیاء
اگر کسی بھی فرد کو یہ خواہش ہو کہ وہ خدا سے ملنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان اولیاء اللہ کے در پہ حاضری دے اسے  وہی اس جگہ سے فیض حاصل ہوگا۔
کیا کوئی کتاب اس قابل ہے کہ جو ہمیں براہ راست علم سے منور کر سکے۔ حتٰی کہ قرآن کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے حضور صلی علیہ والہ وسلم کی تشریف آوری کا کون انکاری ہے کوئی بھی نہیں۔ اصل میں انسانی عقل، شعور، حواس، ادراک، فہم اور دماغ اس قابل نہیں بنایا گیا کہ وہ خالق کی نازل کردہ علمی حقائق والی باتوں کو نہ تو سمجھ سکے بلکہ اندھا دھند عمل کرے۔ قرآن کہتا ہے نماز پڑھو ٹھیک پڑھ لی وضو کرو پر طریقہ کہاں ہے؟ قرآن میں جاو بتاو۔ ذکر خفی کرنا ہے کیا ہے وہ کون بتائے گا تم کو کب کرنا ہے اور اگر وقت پہ نہ کیا تو اس کی قضا کیا ہے۔
اُستاد  کے  بغیر کسی بھی کلاس میں رزلٹ لینا بہت مشکل کام ہے چلو مان لیتے ہیں کہ کتاب ہی ہماری لیے کافی ہے تو خود ہی پڑھ لیا کریں گے نہیں کسی استاد کی مدد لیں گے۔ مگر یہ سب ڈھیٹ اور بےکار لوگوں کی باتیں ہیں جو بہت ہی جاہل لوگ ہیں۔
وسیلہ پر اعتراض کرتے ہیں تو جو انگریز ہیں جن میں آلڈس ہیکسلے کا نام آتا ہے وہ تو یہ کہتا ہے کہ ایک صوفی کے پاس سیکس، مذہب اور سائنس کا پورا علاج ہے اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
تھامس کارلائل نے تو محمڈن تھیوری ہی کو اپنا کر کتاب لکھ ڈالی' شارٹ ازم'۔ جو ایک کتاب ہینڈرڈ گریٹ مین ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی سر فہرست ہے کیا وہ لکھنے والا مسلمان ہے وہ تو اہل کتاب ہے۔
ت لوگوں میں ذرا سی سوچ نہیں ہے گاندھی جیسے بندے نے آپ سرکار دو علام کے فلسفہ حیات کو اپنا کر گول میز کانفرنس کے اصول کو متعارف کروایا کہ یہ کامیاب طریقہ ہے بات کو سلجھانے کا اور یہ مسلمان ابھی اسی بات پر اٹکے ہوئے ہیں کہ قرآن یہ کیوں نہیں کہتا کہ خدا سے مانگو۔ ایک بات ہے اگر چلو یہی مقصود تھا تو اتنے نبی بھیجنے کی کیا ضرورت تھی، نہیں پسند کرتی وہ ذات اعلٰی تم سے بات کرنا۔
 لقد خلقنا الانسان فی کبد۔لقد خلقنا الانسان کفورا۔ اور کیا رہ جاتا ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے کو تو بار بار راہنمائی لینی پڑتی ہے تو کیا دین میں کسی ضرورت نہیں پڑتی ۔ وہاں تو ڈرتے ہو کہ کہیں آفیسر نکال نہ دے تو یہاں کیوں نہیں ایسا ڈر وہ اس لیے کہ یہ کونسی نوکری ہے۔
سمجھو بات کو کہ دعا کیسے مانگو گے تاکہ اپنے اندر وہ خصوصیات بھی تو پیدا کر سکو انسان کو اپنے بارے میں ادراک اور معلومات نہیں ہوتی اور قلابے آسمان کے ملاتا ہے۔ہر کوئی یہی سوال لیے ہوئے ہے جی وہ ولی کی کیا ضرورت ہے؟
اپنی تھوڑی سی عبادت پہ تمہیں ناز ہے تو جب سانس نکل جائے گا اور ہر روز قبر میں سوالوں کے جواب ہونگے تو پھر وہاں پہ بھی یہی کہنا کہ جاو فرشتوں اللہ کو بلاو تمہاری کیا ضرورت ہے۔
کیا اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے نماز کی ضرورت نہیں۔ کیا بادشاہ تک سیدگے ہی چلے جاتے ہو کہ کسی دربان کا سامنا بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔ روٹی سامنے رکھ کر نہ کھایا کرو اس سے کہو کہ روٹی تو خود ہمارے منہ تک پہنچ جا۔
یہ سب آپ سرکار دو عالم کے دین کی اشاعت ہے جس کے لیے پہلے انبیاء کرام کو معبوث کیا گیا بعد میں آپ حضور عالی مقام خود تشریف آور ہوئے پھر آپ ﷺ کے مشن کو آئمہ کرام نے سر انجام دیا اس کے بعد اب اولیاءکرام رحہما اللہ ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
پتا ہے تمہیں یہ اولیاء اللہ کیا کہتے ہیں اپنے ماننے والے مریدین کو تو پڑھو
بڑی وار میں دل نوں ٹھاکیہ سی
بھید غیراں اگے نا کھولیا کر
جدا ہو چکا سدا رو اُس دا
تسبیح یار دے ناں دی رولیا کر
توڑے لکھ مصیبتاں تیری جان اتے
دکھی ہووے تے دلی نہ ڈولیا کر
دائم رکھ اگے یار دا فوٹو
او بولے نہ بولے تو بولیا کر
یہ بات ہے ان اولیاء اللہ کی دیکھا کیا فلاسفی ہے ان کی۔
مزید دیکھو کہ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں
نہ کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آپ حیاتی ہُو
شوق دا دیوا بال ہنیرے متاں لبدی وست کھڑاچی ہُو
کسی کو کیوں الزام دیتے ہو اے نادان جاو اپنی آگ کو جلا کے دیکھو تم خود ہی نعرہ نہ مار بیٹھے تو کہنا کہ یہ سب فراڈ ہے۔
  حدیث سے مروی ہے الشیخ فی قومہ کان النبی فی امۃہ۔ جس طرح کہ علم ظاہر کو جاننے اور سمجنھنے کے لیے ایک عالم یا استاد کی اشد ضرورت ہے اسی طرح علم باطن بھی ایک پیر طریقت اور پیر شریعت کی بھی ڈیمانڈ کرتا ہے۔
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یخزنون۔الذین امنو او کانو یتقون۔
ترجمہ۔ سن لو کہ اللہ کے ولیوں کو نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی ان پر کوئی خزن ہے۔ یہ اللہ پہ ایمان لائے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں۔
لفظ ولی کے معنی قرب اور ولایت کا معنی حمایت کے ہیں۔ اب اگر ان دونوں الفاظ کی حقیقت کو پہنچا جائے جو ایک کٹھن مرحلہ ہے تو معلوم ہوتا ہے ایسے قرب اور نزدیکی والا شخص جو صرف اللہ کی مدد کی طرف ہی دیکھتا ہے کہ کب اس کو رب اپنا دیدار کرواتا ہے ولی کی ہر ہر ادا صرف اور صرف اپنے رب پہ مر مٹنے کی ہوتی ہے۔ پتا نہیں ہم لوگ کن لوگوں کو ولی اللہ کہتے ہیں۔ ارے بھائی وہ ڈبہ پیر ہیں لوٹے ہیں تم نے پھر کبھی ولی حق کی زیارت ہی نہیں کی۔ کبھی خزانہ بھی یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں ہوں خزانہ۔ یہ تو مخلوق سے چھپتے ہیں۔ دنیاوی حاجات سے پاک یہ یگانہ روزگار ہستیاں تو ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب ﷺ سے ملنے کی منتظر رہتی ہیں۔ دنیا سے بیزار یہ لوگ حق کی یاد میں سوختہ جان ہوتے ہیَ
حضرت موسٰی علیہ السلام جو جلیل القدر نبی ہیں اور جن کا لقب کلیم اللہ ہےکوہ طور کے واقعہ کے بعد ان کے چہرے پہ کوئی نقاب نہ ٹھہرتا تھا تو اللہ تعالٰی کی ذات نے آپ سے کہا کہ آپ جنگل میں میرے ایک بندے سے ملے وہ آپ کو جو کچھ دے اس کو پہن لینا۔ جیسے آپ سرکا نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک گھتڑی لیے بیٹھا ہے تو آپ آگے بڑھے اور بات کی اس نے آپ کو ایک لال رومال دیا اور آپ اس کو لے کر وہاں سی آ گئے۔ سرکار نے جیسے ہی وہ رومال اپنے رخ روشن پہ باندھا تو ساری تجلی اس میں سما گئی۔ یہ شان ہے ایک اللہ کے ولی کی۔
اللہ کے ولی اپنے رب کے متلاشی ہوتے ہیں اور اس کے بدلے میں کوئی بات یا وعدہ یا چیز نہیں مانگتے۔ جس کا ایک زندہ ثبوت میں ہوں میرے پیرومرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ ؒ نے اپنی زمین جو سلسلہ عالیہ کے لیے بذات خود خریدی تھی پر اس پہ دنیاوی اعتراضات کی وجہ سے دنیاداروں کو دے دی  گئی۔ کیا یہ 34 مرلے زمین مذاق کے طور پہ لی گئی تھی کیا ولی بھی تم سے ٹھٹھہ کرتے ہیں جو لوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کو لے کر آگے چلتے ہیں جن کا ایک ایک قدم اپنے نبی حقﷺکے پیچھے اٹھانا اپنی سعادت گردانتے ہوں یہ سچے عاشق رسولﷺ ہیں۔ ان کی جیب خالی مگر دل پوری طرح مطمئین ہوتا ہے۔
کیاخسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ان خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
 جو آپ سرکارﷺکی اداوں کو جب تک اپنی باطنی آنکھ سے دیکھ نہ لیں تو ان کو چین نہیں آتا۔ جو ہر وقت حضور عالی مقام سیدنا و محبوبنا و مرشدنا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف کی لڑیاں نچھاور کرتے رہنے میں ایک لذت اور لطف و سرور محسوس کرتے ہیں یہ لوگ اس میں ہی رہنا زندگی کہتے ہیں۔ حضرت جلال الدین سیوطی اور حضرت شاذلیؒ کے نامؤں کو نظرانداز کرنا بے وفائی ہوگی۔ویسے تو ولی کوئی بھی ہو آپ کی اجازت کے بغیر کوئی کچھ نہیں۔ آپ ہی کے وسیلے سے سب ممکن ہے۔
آپ سرکار دو عالمﷺ نبوت سے پہلے بھی وسیلہ تھے اکثر حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ آپﷺ کو کعبۃاللہ کی دیوار کے ساتھ لگا کے بارش کی دعا کرتے تو بارش شروع ہوجاتی۔ ایک مرتبہ بعد نبوت کے کچھ کفار مکہ آپ ﷺکی خدمت عالیہ میں آئے اور بولے کہ بارش نہیں ہو رہی اور قحط کا خدشہ ہے آپ نے اسی وقت دعا کی اور اللہ نے ان کو پانی کی نعمت عطا کی۔
دوسرے انبیاء کرام میں جب حضرت یوسف علیہ السلام نے حضرت یعقوب علیہ السلام کواپنا کرتہ بھیجا کہ اس کو اپنی آنکھوں پہ لگائے گے تو ان کی بینائی آجائے گی۔ایسا ہی ہوا۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک تو آنکھیں اور دوسرا اس وسیلے کے بتانا کہ میں یعنی حضرت یوسف زندہ ہیں۔
یہ وسیلے والے نبی صحابی اور ولی اللہ کے سفیر  ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ اپنی کتاب ' کشف المحجوب ' میں رقمطراز ہیں آپ حضور فرماتے ہیں۔ اللہ تعالٰی روئے زمین کو بغیر سبب قائم رکھے ہوئے نہیں۔ پس وہ ہرگز اس کو بغیر ولی نہیں رکھتا۔ اولیاء اللہ ایسے بھی ہییں جن کو اس نے اپنیدوستی اور ولایت کے لیے مخصوص رکھا ہوا ہے۔ ان کو طبعی حالات و آفات سے پاک کر دیا ہے۔وہ نفس کی پیروی نہیں کرتے۔ اللہ کے سوائے کسی کی اطاعت نہیں کرتے اور اس کے علاوہ کسی سے آسس نہیں رکھتے۔  
علم القرآن اور علم الحدیث کے متوالے یہ اللہ کے نیک بندے یعنی ولی دنیا کو ترجیح نہیں دیتے وہ تو بھاگتے ہیں اس پھنسا دینے والی جگہ سے۔وہ تو خود اللہ کی طرف رجوع کرتے اور ہمیں بھی ان سے محبت کرنی چاہیے تاکہ جان پہنچان کی بنا پہ وہ لوگ یوم آخرت ہمیں پہنچان لیں اور شاید مغفرت کا سامان ہو سکے۔
فازکرونی اذکروکم و اشکرولی ولا تکفرون۔ کے مصداق یہ لوگ کسی ایسے ویرانے کی تلاش میں ہوتے ہیں جہاں انسان ان کا پیچھا نہ کر پائے۔ اگر یہ لوگوں میں رہتے ہیں تو ان پہ بھت کڑی تنقید ہوتی ہے پھر بھی یہ کہتے ہیں
بقول حضرت بابا بھلے شاہؒ
عاشق ہایا اے رب دا تے ہوئی ملامت لکھ
تینوں کافر کافر آخ دے تو آہو آہو آخ
یہ لوگ چاہے تو ان میں حضور اکرم صلی علیہ والہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم ہوں یا صوفیا کرام رحیم اللہ یہ اہل عشق ہیں اور عشق کی یہ آگ ان کو جلا ہی ڈالتی ہے
گل گل گئی تیری گل پچھے
جان جل گئی گھڑا گل گیا
لے کے لشکر ہتھیار فوج ننگے
چاری راہ نمانی دے مل گیا
او چھل اوں تھل پئی پے چناں تڑ تھل پیا
توبہ دائم میں ایس عشق دی اگ کولوں
پانی وچ وی پُتلا جل گیا

  




Monday 9 November 2015

Teachings Of Silsila Alia

  سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہہ علائیہ شکوریہ امینیہ کی روایات کے عین مطابق جو اوراد اور وظائف شامل عبادت و ریاضت ہیں آپکی خدمت میں پیش ہیں ملاخظہ فرمائیں اور خوب سے خوب تر ثواب دارین سے فوائد حاصل کریں۔صرف سلسلہ عالیہ کے لوگ ہی ان سے فیض حاصل کر سکتے ہیں۔ 
سبحان اللہ و بحمدہ 15 بار بعد از ہر نماز
سبحان اللہ۔ الحمد للہ۔ اللہ اکبر 34 بار ہر نماز کے بعد
سورۃ فاتحہ 3 بار۔ سورۃ البقرۃ آیت آلم سے لے کر اُولئک ھم المفلحون تک ایک بار آیت الکرسی 3 بار ۔ سورۃ اخلاص 3بار۔ سورۃ فلق 3 بار۔ سورۃ الناس 3 بار بعد از اس کے 3 مرتبہ درود شریف سلسلہ عالیہ 
الھم صل علی سیدنا محمد و علی آل سیدنا محمد و اصحاب سیدنا محمدو بارک وسلم علیہ۔ 
ان سب اذکار کے بعد چہل کاف کی بھی اجازت ہے۔ مگر ان ہی کے ساتھ بات بن جاتی ہے۔ چہل کاف کے لیے علیحدہ ااجازت طلب کرنا بہتر ہے۔ 
ذکر حفی چار ضربی نفی انفاس 
 یہ ذکر افضل ترین عبادت ہے جو شیطان نفس امارہ اور ملکوتی قوتوں کی نفی کرتا اور مرید کے دل میں ثبت الا اللہ پیدا کرتا ہے۔

لا الہ الا اللہ