Monday 13 August 2018

Quran Translation and Tafseer- Fateha- Silsila Alayia Shakooria Ameenia


 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ان ھوالا ذکرٰی للعلمین


اَمینُ القرآن
قرآنی ترجمہ و تفسیر
ریحان بشیر ایم اے سجادہ نشین

الٰہی بحُرمتِ رازونیاز حبیب َربۤ العالمین عاشق رسولُ الثقلین زُھدۃ العارفین قدوۃ السالکین قُطب
العارفین غوث الکاملین الفانی فی اللہ والباقی وسیلتنا و فضیلتنا فی الدارین بخطاب غیبی فخرالمتوکلین
اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ قادریؒ علائیؒ
شکوریؒ چشتیؒ منعمیؒ دامت برکاتہم عالیہ
                                          امین پبلیکشنز- علامہ اقبال ٹاون، لاہور                    

                                                                                                                


تعارف
سلسلہ عالیہ نے ہمیشہ علمی جستجو اور ترویج کو سراہا ہے، ہمارے پیران آباواجداد میں ویسے بہت بڑے نام ہیں مگربرصغیر پاک و ہند میں جو سلسلے کی خدمت اور تعلیمی سفر کو حضرت مولانا عبدالحی سرکارؒ چاٹگامی نے جاری وساری کیا اس کی چراغ لے کر بھی مثال نہیں ملتی، اسی طرح ان ہی کے مریدوخلیفہ حضرت شاہ نبی رضا حانصاحبؒ، حضرت شاہ عبدالشکورؒ، حضرت الشاہ علاءالدینؒ ، حضرت شاہ محمد صفدر شاہ صاحبؒ اور پیرومُرشد خواجہ خواجگان شاہ محمد امین شاہ صاحب دامت برکاتہم عالیہ شامل ہیں۔ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، وقتِ حاضر کے مریدین کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ قرآنی علوم سے استفادہ کریں، تاکہ ان کی سلوک کی راہ آسان ہو۔ قرآن انسان کو تدبرونصیحت سے نوازتا ہے، تدبیر وتلقین کے راہ سے اس کی ہر وقت راہنمائی کرتاہے، اس کا ذکر دلوں کے لیے اطمینان ہے،اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے،انسان کو بہت سی گمراہیوں سے بچاتا ہے، اللہ کا انسان سے کیا ہوا وعدہ یاد دلاتا ہے، زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں یا کوئی ایسی حقیقت نہیں جو اس کا مضمون نا ہو۔تحقیق کی بات ہویا نفسیات کا ، یا سیاست کا کوئی پہلوہو ہر ایک معاملے میں انسان کو مشعل راہ دینا اسی کلام پاک کا کام ہے۔
 قران کے بارے میں بہت سے علماء کرام نے اپنے علم اور شعور سے اس میں بہت محنت سے کام کیا ہے اور بہت ایسے حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے کہ جو ایک عام انسان کے ذہن و دماغ میں فی الفور نہیں آتے، کیونکہ عربی زبان و یان کی ایک خاصیت ہے جو اسی کی معاشرت کو لب بام لاتی ہے، اس کو خاص ا لخاص حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہ و بارک وسلم پر تاراگیا جو آپ سلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی طرح ہر ایک کے سینے میں محفوظ ہوتا گیا اور اس کے معنی و تاثیر بھی لوگوں میں آنے لگی، اس کی ایات میں جس سچائی کی اشارہ کیا گیا ہے اس کے بارے میں اہل کتاب بھی گواہ ہیں۔ قرآن ایسی کتاب ہے جو پڑھ کر سنائی گئی، جس کوبار بار پڑھا گیا،جو ووقتاً فوقتاً لوگوں کے احوال پر نازل کی گئی۔ یہ ہماری نماز کا باقاعدہ حصہ ہے، نمازتراویح میں اس کی تلاوت ایک لازمی جزو ہے۔
قرآن پاک کو سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اس کا ترجمہ پڑھ کر اس کی تفسیر کو سمجھا جائے،بے شک یہ ہماری کورس کی کتاب نہیں مگر اس کو پڑھ کر، تھام کر ہم گمراہی سے بچ سکتے ہیں۔
واللہ بالتوفیق
الحمدللہ و سُبحانہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و صلی اللہ علیہ وسلم وآلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین۔     

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھُوالقادرُ      ھُوالشَۤکورُ      ھُوالمعینُ
ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ-وکفی باللہ شہیدا- محمد رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم علیہ۔
 ۔ترجمہ۔ وہ اللہ ایسا ہے کہ جس نے اپنے رسول برحق علیہ الصلٰوۃ و التسلیم کو ہدایت کا سامان (قرآن) اور سچا دین (اسلام) دے کر دنیا میں بھیجا، تاکہ ان کو سب دینوں پہ غالب کردے، ، اللہ کافی گواہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ سورۃ فتح ، القرآن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
شروع اللہ کے نام سے جو مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
اس سورۃ بلکہ قرآن کی ہر ایک سورۃ کا سوائے توبہ کے بسم اللہ سے ہی آغاز ہوتا ہے۔اب پہلے بسم اللہ شریف کو سمھجنا ضروری ہے اس کے علاوہ اس کی اہمیت اور فوائد بھی ان گنت ہیں۔
ہمارے ہادی و مُرشد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ اپنا ہر کام اللہ کے پاک نام سے ہی شروع کیا کرو، اس میں خیروبرکت ہے ، اللہ تعالٰی کی ذات خوش ہوتی ہے۔  
  حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کو جب خط لکھا تو وہ یوں تھا،
انہ من سلیمان و انہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، لا تغلوا علی واتونی مسلمین۔
یہ نامہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بے شک اس اللہ کے نام سے شروع ہے جو مہربان اور رحیم ہے کہ تم مجھ سے سرکشی نہ کرو اور مطیع ہوکرمیرے پاس چلی او۔
تسمیہ کے فضائل میں سے ایک بات حدیث شریف سے ثابت ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ جب بسم اللہ کا نزول ہواتو بادل اور مشرق کی جانب بھاگتی ہوئی ہوا ٹھہر گئے، سمندروں میں موج آئی، جانور کان لگا کر سننے لگےاور شیطان لعین پہ آسمان سے آگ کے انگاروں کی مار پڑی،اللہ نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھائی کہ جس بیمار پراس کا نام لیا جائے گا وہ اس کو ضرور شفا دے گا اور جس بھی چیز پر اس کو پڑھا جائے گا اللہ اس میں برکت فرمائے گااور جو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھے گا اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے انیس حروف ہیں اور جو شخص یہ چاہے کہ دوزخ کےانیس فرشتوں کے آگ میں گھسیٹنے سے بچ جائے تو وہ خوب کثرت سے اس کا ورد کیا کرے اس کو بہت مقدم جانے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اس مییں تین اسم اعظم ہیں جو ہر مسلمان ایک ہی بار میں ادا کرتا ہے تو وہ اللہ کی تین صفات کا ذکر کرتا ہے، اللہ ، رحمٰن اور رحیم۔
اللہ کے اس نام کو کسی طرح کوئی فنا نہیں۔ اگر پہلی الف گرابھی دی جائے تو للہ اور دوسری لام بھی خذف کردیں تو لہ اور لام کو ختم کردیں تو ھُو باقی رہ جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے صرف وہی۔
جب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا نزول حضرت آدم علیہ السلام پر ہوا تو آپ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں بتایا کہ حضرت آدم نے کہا کہ جب تک میری نسل اس کی تلاوت کرتی رہے گی تو جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گی۔اس کے بعد اس کو اُٹھالیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو آگ میں پھینکے جاتے وقت پڑھا تو آگ ٹھندی ہوگئی۔ پھر اس کو اُٹھا لیاگیا، جب حضرت سلیام علیہ السلام کی حکومت تمام ہوئی تو اسکو اٹھالیا۔ اب جب یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ملی ہے تو اس کی برکت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ اس کو اپنی کتابوں اور تحریروں میں لکھا کرواور اونچی آواز اے بھی پڑھا کرو۔
اللہ کا رحمٰن ہونا دنیا غرض و غایت سے ہے جبکہ اس کا رحیم ہونا آتش جہنم سے انسان کو دور کرنا ہے۔ اللہ نے انسان کو جو اس دنیا میں نعمتوں اور قدرتوں سے نوازا ہے ہے تو یہ اسکی رحمانیت کے تحت ہے، رحمٰن کا معنی ہے کہ ہر کوئی ذی جاندار اس کی مہربانی کا حقدار ہے وہ ہی رازق و مالک کُل ہے اس کے سوا کوئی اور اس کائنات کو چلانے والا نہیں ، اگر کافر، مُشرک، زندیق یہ بات نا جانتے ہوں تو اس سے اس کی رحمانیت کم نا ہوگی اور نا کبھی ہوئی ہے، سارا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بات اس کے چاہنے پر ہے بس جس کو جتنا دینا چاہے، وہ مختارکُل ہے اور سب مخلوق اس کے تابع ہے۔
اللہ کا رحیم ہوناخاص مومنین کے لیے ہے، جو اس کے انبیاء کرام پہ اور سب سے بڑھ کر رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں۔ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ سورۃ انساء، جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اللہ جب دنیا والوں پہ مہربانی کرتا ہے تو لفظ خاص ہے اور معنی عام ہے جبکہ رحیم لفظ عام ہے مگر اس کے مطلب خاص۔ ٍ
  سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہ کے چشم و چراغ پیرومُرشدؒ اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ ؒ فرماتے ہیں کہ جس نے شیطان کی مخالفت سے بچنا ہو تو وہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا کرے۔ یہ ذاکروں کا ذخیرہ، طاقتور کی عزت، کمزور کی ڈھال، مجبور کے لیے نور اور مشتاقین کے لیے سمندر ہے، عاشق کو یہ آیۃ دنیا سے بے نیاز کردیتی ہے۔
بسم اللہ پڑھا کرو گویا اس میں دونوں عالم رحمت اور قدرت شامل ہیں۔ لفظ بسم اللہ جلال در جلال ہے، جبکہ الرحمٰن الرحیم جمال در جمال ہے، جو جلال کا نظارہ کرتا ہے تو وہ فنا ہوجاتا ہے اور جس نے جمال کو دیکھا وہ زندہ ہوگیا۔ اللہ کی ہر بات میں حکمت و بصیرت ہے، اس کی مشیت ایزوی کی کوئی بھی بات مصلحت سے مبراء نہیں۔ جس نے اپنے برگزیدہ بندے رسول مقبول سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل کی جو سب پہلی کتابوں کی تصدیق کردہ ہے، اس ایک کتاب میں زبور، تورات اور انجیل کی وہ تمام باتیں جو اپنا اصل کھو چکی ہیں عمدہ شکل میں موجود ہیں۔اس کتاب الہٰی کا آغاز ہی اللہ کے بابرکت نام سے ہوتا ہے۔
سورۃ فاتحہ
قرآن حکیم فرقان حمید کی سب سے پہلی سورت فاتحہ ہے۔ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، اس کا ایک رکوع ہے، اس کی سات آیتیں ہیں،اس کے الفاظ 25 ہیں اور حروف 23 ہیں۔ احادیث مبارکہ کے حساب سے اس سورۃ پاک کے بہت سے اسماء ہیں جن میں سے اُم الکتاب، اُم الدعا،اُم القرآن، الشفاء، الصلاۃ، الفاتحہ، فاتحہ الکتاب، السبع المثانی وغیرھا۔
الحَمدُ للہ رب العالمیں۔ الرحمٰن الرحیم۔ ملک یوم الدین۔ ایاک نعبدو ایاک نستعین۔
 خاص تعریف اللہ کے لیے جو رب ہے عالمین کا۔ رحمان اور رحیم ہے۔ آخرت کے دن کا مالک ہے۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
عربی زبان کے قاعدے سے دیکھا جائے تو لفظ حمد کا معنی تعریف و توصیف ہے۔ جب بھی نماز کو شروع کیا جاتا ہے تواپنےرب کی تعریف کی جاتی ہے۔اللہ کا اس بات سے متصف ہونا یہ نہیں ظاہر کرتا کہ وہ ہم سے اضطراری یا غیر اختیاری طور پہ ہمکلام ہے کہ ہم اس کی حمد بیان کریں، نہیں بلکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ارادہ قدرت سے یہ چاہتا ہے کہ اس کی شان کو بیان کیا جائے، کیوں کہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے، وہی احد ہے۔ انگریزی زبان کے قاعدے کے مطابق جب بھی کسی نام کو خاص کرنا ہوتو اس کے سٹارٹ پہ ٹی ایچ ای یعنی دی یا دا لگا دیا جاتا ہے، ہم اسے پروپر ناون کا نام دیتے ہیں، یہاں اللہ کریم مجدہ نے پہلے ہی الحمد سے شروع کیا، پھر کیامطلب ہواکہ خاص تعریف ہے اللہ کے لیے جو سب جہانوں کا رب ہے۔ الحمد کلمہ شکر ہے، ایک حدیث مبارک میں لا الہ الا اللہ کو افضل الذکر اور الحمد للہ کو افضل الدعا کہا گیا ہے۔ ایک اور جگہ حدیث ہی میں الحمد للہ میزان کو بھر دیتا ہے۔ میرے حضرت پیرومرشد اس بات پہ بہت زور دیتے کہ کھانے کے بعد الحمد للہ کہہ دیا کرو کہ اللہ کی ذات اس پہ بہت خوش ہوتی ہے۔   
اب لفظ رب کے معنی ہیں کہ جوہر چیز کو پیدا کرے، اس کی ضروریات مہیا کرے اور اس کے بعد اس کو پایہ تکمیل تک پہچائے،  انسان کو اس کی پیدائشی عطا کردہ صلاحیتوں اور خصوصیات کی بنا پر پروان چڑھائے۔ اللہ کی ذات ایک مربی و مشفق کی طرح انسان کو پالتا ہے، اسے اس کی استطاعت کے مطابق رزق دیتا ہے، اسی رزق میں اس کا کھانا پینا، علم، لباس، ہوا، پانی اور دیگر سب چیزیں شامل ہیں جن کے ساتھ وہ اپنی حیات کا موت تک سفر طے کرتا ہے۔ عالم انسان کے علاوہ عالم جن، ملائکہ اور عالم چرند و پرند ہیں وہ ہرایک کو اس کے حال، ظرف ،طبیعت اور جسم کے عین مطابق وہ تمام ضروریات فراہم کرتا ہے جن کی بنا پر وجود قائم رہے۔
لفظ عالمین عالم کی جمع ہے، عربی کی گرائمر کے مطابق اس میں واحد، تثنیہ اور جمع کے صیغے ہوتے ہیں۔ ایک ہے تو عالم دو ہیں تو عالمون اور اگر زیادہ ہیں تو عالمین۔ اب یہ معلوم نہیں کہ ایک ہے یہ عالم یا دو ہیں یا چار ہیں یہ ان گنت ہیں، یہ علم اللہ اور اسکے برگزیدہ بندگان با صفا کے پاس ہے یا اللہ جس کسی کو توفیق دے۔ جیسا کہ ولادت معنوی و تاثیری کی بحث میں سات عالموں کا ذکر ہے، کچھ علماء کا خیال ہے کہ عالم ارواح، عالم دنیا، عالم برزخ اور عالم حشر ہیں، ان کی بات بھی ٹھیک ہے، مگر زیادہ علماء جنہوں نے اپنا وقت اولیاء اللہ کی صحبت خاص میں بسر کیا وہ سات کا اقرار کرتے ہیں، ان سب کو چلانے والی اللہ واحد کی ذات کبریا ہے۔
الفاظ رحمٰن و رحیم کی توضیح و تفسیر پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں ہو گئی ہے یہاں بھی وہی مطالب ہیں جن کا پہلے ذکر کیاگیا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے رحمٰن الدنیا والاخرۃ اور وہ رحیم خصوصی طور پر مومنین کے لیے ہے۔
مالک یوم الدین، اس میں مالک کہتے ہیں جو اپنی بنائی گئی سلطنت میں مکمل اختیا ر رکھتا ہو، وہ جو اور جیسے چاہے کرے کسی کی بات نا مانے، صرف اپنے مختار کُل ہونے کی   بنیاد پرفیصلہ کرے، اللہ کی ذات سورۃ البقرۃ میں آیت 384 میں فرماتی ہے، فیغفرلمن یشاءو یعذب من یشاء۔ واللہ علی کل شئی قدیر۔ ترجمہ ہے کہ پھر بخش دے گا جسے چاہے گا، اور عذاب دے گا جسے چاہے گا وہ بے شک ہر ایک چیز پر قادر ہے۔
یوم الدین سے مراد آخرت کا دن ہے جس میں انسانی اعمال و افعال کا حساب لیا جائے گا۔ اسی دن جزاو سزا کا فیصلہ کردیاجائےگا۔ اللہ نے اپنے نبی کریم روف رحیم صلی الللہ علیہ وسلم کو نذیر یعنی ڈر سنانے والا اور بشیر خوشخبری سنانے والا بنا کر بھیجا۔ جس دن اعمال کو پلڑے میں تولا جائے تو انسان اپنے کیے کو جانتا ہو۔ سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہ میں مرید کی حد درجہ تربیت کی جاتی ہے تاکہ مرید اپنے حال و ظرف کو سنوار سکے۔کل کو قبر میں جب اس سے سوالات کی بوچھاڑ کی جائے گی تو وہ بطریق احسن ان کے جوابات دے۔ مرید کی حرکات و سکنات و اعمال و افعال کا ایک مکمل دفتر تیار ہے اور بے شک اک یہ سارا ذمہ اس کے پیر کے اختیار میں ہے لیکن پھر  بھی مرید تو کسی قابل ہونا چاہیے۔ جس دن سےاللہ پاک نے دنیا بنائی ہے تواج تک ساری بادشاہت اور ملکیت کا اختیا اللہ ہی کے پاس ہے، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرآئے اور ان کی امتیں بھی آئیں ان کو ایک پیغام دیا گیا' کہو اللہ ایک ہے صرف اسی کی عبادت کرو، وہی کُلھم ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں'۔روزحشر میں سب اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم اسی ایک اللہ کی طرف پھیر دیے جائے گے۔
ایاک نعبد و ایاک نستعین ، صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، ہم الحمد للہ مسلمان ہیں اوریہ ہمارا یقین کامل ظاہر کرتا ہے ایک عبادت اور دوسرے اس کی مدد مانگنے پہ۔ کون ہے جو قحط اور سوکھے میں آسمان سے بارش برساتا ہے،کون ہے جو ہوا کو چلاتا ہے، کون ہے جو پتھر میں رہنے والے کیڑوں کو زندہ رکھتا ہے، کون ہے جو بے زبان جانوروں اور پرندوں کو اور سمندری مخلوق کے رزق کا سامان کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالٰی جو سب کا مالک و رازق ہے، ہم سب کاموں اور افعال کے لیے صرف اسی ذات اقدس پر یقین کرتے اور رکھتے ہیں۔
جب ہمیں پتا ہے کہ وہی اللہ، رب، رحمٰن، رحیم اور مالک ہے تو اب اس کی عبادت اور اطاعت ہی ہمارا مقصود راہ ہے،وہ اللہ جس نے رب ہوکر تم کو پالا، تم نے گناہ کیے تو اس نے رحمان بن کران پر پردہ ڈالا، جب تم توبہ کرتے ہو تو وہ اس کو رحیم بن کر تمہاری مغفرت کرتا ہے، وہ مالک بنے گا جس دن جزاوسزا کا فیصلہ ہوگا۔ ہم سب اسی ایک اللہ کے محتاج ہیں تو اب اسی کی عبادت و اطاعت بھی کرنی ہماری فرضیت میں شامل ہوگئی، وہ تو خود قرآن میں فرماتا ہے، خلقت جن والانس الا لیعبدون۔ پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے۔
جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ کے گھر کی تعمیر کا کہا گیا وہ اس لیے کہ اللہ کی عبادت کو اس دنیا فانی میں سکونت ہواور اسے قائم کیا جا سکے ،وہ اس لیے کہ اسی کے اوپر اللہ کا بیت المعمور ہے جہاں سارے فرشتگان اللہ کا طواف کرتے ہیں، انسانیت اللہ کے احسان کو مانے کہ اس پروردگار عالم نے ہمیں یہ موقع دیا کہ حج ایک عبادت ہے۔ ان الصفا و المروۃ من شعائراللہ۔ اس آیت سے مراد حضرت آدم علیہ السلام جو صفی اللہ ااور دوسریطرف حضرت حوا ہیں۔ اللہ تعالٰی کی ذات اپنے پیاروں سے کتنی خوش ہے کہ اس نے اپنی عبادت گاہوں کو ان ہی کے ساتھ نسبت دے رکھی ہے، جب نبی اور رسول اس کے حکم کی اطاعت بجا لائے اور اس کے پیغام کو جانفشانی سے پھیلایا تو اللہ پاک نے بھی ان ہی کے ناموں کو ہم پہ عبادت کی صورت میں لازم قرار دے دیا۔
  جتنے بھی انیباء کرام اس دنیا میں معبوث کیے گئے سب کو کعبہ کی طرف رُخ کرنے  کا ہی کہا گیا، اسی کعبہ کی  تعمیر ثانی میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھم السلام کے لیے جنت سے ایک پتھر اتارا گیا جس پر کھڑے ہو کر آپ سرکار علیہ السلام نے اللہ کے گھر کی تعمیر کی۔ اسی پتھر کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے ، سورۃ البقرۃ ایت 125
واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا۔ واتخذوامن مقام ابراھم مُصلٰی۔ و عھدنا الی ابراھم واسمعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعکفین والرکع السجود۔
اور جب ہم نے بنایا اس گھر کو اپنا مرکزلوگوں کے لیے اور امن کی جگہ اورحکم دیا کہ بنالو ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو جائے نماز اور ہم نے تاکید کردی ابراھیم اور اسماعیل کو کہ خوب صاف ستھرارکھنا میرا گھر طواف کرنے والوں اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے۔
اس میں ایک بڑا اہم نکتہ ہے کہ کردیا ہم نے ابراہیم کے کھڑے ہونے  کی جگہ کو نماز پڑھنے کی جگہ، وہ نبی کہ جس نے ہر طرح اللہ مطلق کی اطاعت کو اپنا منصب جانا، سُبحان اللہ، پھر اس اللہ کی عبادت و اطاعت و فرنبرداری کیوں نہ کی جائے۔ کیا نبیاء کرام کی حیات طیبہ سےیہ بات ثابت نہیں کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے کتنی دشواریوں کا سامنا کیا۔ فرعون آج ظلم و جور کی مثال ہے،حضرت نوح علیہ السلام نے جس مصیبت سے کشتی تیار کی کیا یہ اطاعت نہ تھی اور ہمیں تو اپنے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سب کچھ مل گیا، پھر بھی ہم پہ پانچ نمازیں اور دیگرعبادات بھاری ہیں۔ ہم ابھی  تک اسی بات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ کمائے یا ساری رات اللہ اللہ کریں۔
اب معاملہ آجاتا ہے اس سے مدد مانگنے کا تو اپنی ریاضت سے اس کو سمجھ نا پایا تو وہ کیا یقین رکھے گا کہ کیا اللہ مدد بھی کر سکتا ہے یا نہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ ہمارے کاموں میں تو لوگ ہی ہوتے ہیں، ٹیلی فون کا بل جمع کرانا ہو، یا کوئی اور کام ہو تو وہاں لوگوں کا ہی سہارا ہوتا ہے یہ من جانب اللہ کیا ہوا، ہمارے اپنے اعتقادات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ جس  کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مغربی افکار نے ہمارا وہ بیڑاغرق کردیا ہے کہ آج کل کسی کو بھی نصیحت اثر نہیں کرتی، حالانکہ اللہ کے سوا اور کسی طاقت کا اس جہان میں وجود ہی نہیں ہے، مگر ہر ایک نے اپنا خدا بنا رکھا ہے۔ مغربی افکار ہیں کہ لوگ ہی اصل طاقت ہیں۔ پیپل آر پاور۔
سب کاموں کا فاعل اللہ ہی ہے وہ سب کو رزق دیتا ہے تو ملتا ہے۔ وہ زندگی بخشنے اور موت پر حاوی ہے،جب کہ کائنات کی بھاگ دوڑ اسی ایک واحد و احد کے ہاتھ میں ہے تو پھر کس بات کی تشویش لاحق ہے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ ہر کوئی خود خدا بن بیٹھا ہے اسی ایک بات نے دنیا والوں کے ذہن پراگندہ کردیے ہیں ،جو لوگ اللہ کی عبادت سے کتراتے ہیں وہ اس کی مدد پر بھی یقین کامل نہیں رکھتے۔
 حضرت امام غزالی اپنی کتاب ' مکاشفۃ القلوب ' کے باب 26 میں ایک عنوان' تکبر عُجب کی مذمت' میں بیان کیا ہے کہ ہر ایک چیز کی دعاو نماز ہے جس کے تحت اس کو روزی ملتی ہے، سُبحان اللہ و بحمدہ،یہاں تو کبوتر بھی ' اللہ ھُو' کرتے ہیں مگر انسانوں کے تکبر نے ان کے باقی علم کو بھی برباد کرکے رکھ دیا ہے، اپنے اوپر بھروسہ و توکل کرنا کہ ہم نے یہ کردیا تو ہم نے وہ کردکھایا، ایسے شخص کو کیا سمجھ ہوگی جو اللہ کی مدد پر پُر تیقن ہوگا۔ یہ بات ہمیشہ سے دائرہ مشاہدہ میں آئی کہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں اللہ ان کو بار بار کہتا ہے' و ان لیس للانسان الا ماسعی۔ اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔ ایک اور جگہ قرآن حکیم میں بیان آتا ہے۔
یایھاالذین امنواتقوا اللہ وبتغوا الیہ الوسیلۃ و جاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی  راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاسکو۔
یہاں اس جگہ وسیلہ سے مراد مدد مانگنا ہے،استعانت ہے جس کسی کی اللہ سے جتنی نسبت قائم ہوگی وہ اتنا ہی اس پر یقین رکھتا ہے۔  
یہ بات سچ ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور سے مانگنا جائز نہیں مگرواسطہ رحمت الہٰی اور غیر مستقل جان کراستعانت مانگی جاسکتی ہے۔ ان اللہ بالناس لروءف الرحیم ۔ بے شک اللہ لوگوں کے ساتھ بڑا شفیق اور رحم فرمانے والا ہے۔         
  ہر طرف اللہ ہی کی ذات جلوہ گر ہے اس بات کو صرف وہی جانتا ہے جس نے اس سے لو لگا رکھی ہے، وانہ ھو اغنٰی و اقنٰی۔ وہی ہے جو مالدار بناتا اور سرمایہ دیتا ہے۔ سورۃ النجم


اھدنا االصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم۔ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔
ہمیں ہدایت دے صراط مستقیم کی ، اُن لوگوں کے راہ کی جن تُو نے ( اے اللہ) اپنی نعمت کی، ان کی راہ پہ نہیں جو مغضوب اور ضالین ہیں۔
یہاں لفظ اھدنا جو کہ اھد سے ہے مطلب ہدایت یعنی بندہ پھر ایک بار اپنے رب سے التجا کرتا ہے کہ ہمیں ہدایت دے اور کس بات کی گذارش میں مگن ہے کہ اس کو بھی پہلے انبیاء، اصحابہ کرام کی طرح راہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عطا کردی جائے۔ کسی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ یہ الصراط المستقیم کی کیا تفسیر ہے، تو آپ نے کہا ' اس سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں'۔
ہدایت دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو ہے کہ راستہ دکھانا کہ نمازپڑھو، اللہ کی راہ میں روزے رکھو وغیرہ اور دوسرا ہے منزل مقصود تک پہچانا۔ کیونکہ عام مسلمان میں سرکش نفس اور شیطانی قوتوں سے لڑنے کی اتنی سمجھ بوجھ اور عقل محبت چونکہ کم ہوتی ہے اس لیے اللہ سے درخواست کی جا رہی ہے کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا جو تیرے تک جاتا ہو اور ہم کامیاب ہوجائے۔
خیال رہے کہ کافر کا ہدایت مانگنا ایمان ہے، گناہگار کا مانگنا تقوٰی، متقی کا کمال تقوٰی اور مقبول بارگاہ کے لیے قربِ الہٰی اور مقربین کے لیے کمال قربِ ہدایت ہے۔حضور علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے جب جب اس کی تلاوت کی تو آپ سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کے جمع کے صیغے کی وجہ سے ہم سب امتی دعا میں شامل ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تو صراط مستقیم ہیں۔
لفظ الصراط صرط سے ہے مراد ایسا راستہ جو شارع عام ہو اور جس وسیع راستہ پہ چند آدمی مل کر چل سکے۔ یہاں بھی اللہ نے جمع کا ہی صیغہ استعمال کیا ہے تاکہ نبی روف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلی و تابانی سے کوئی خالی نا جائے۔
المستقیم استقامت سے ہے جس کا معنی سیدھا ہے جہاں کہیں مُڑنا نہ پڑے۔ اگر راستہ بل دار ہوگا تو کس طرح کوئی اپنی منزل مقصودتک پہنچے گا۔رب کو بھی یاد کرو اور لوگوں کے حقوق بھی اداکرو تو یہی صراط مستقیم ہے، جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
صوفیانہ تشریح کے مطابق صراط مستقیم سے مراد یہ راستہ عقل و محبت سے گزرتا ہے، جس کو راہ سلوک کہا جاتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عقل عشق والوں کو نہیں مانتی جبکہ دونوں کا ایک جگہ ہونا مطلوب قرار پایا گیا ہے، سلسلہ عالیہ میں بیعت ہوا تو پیرومرشد ؒ کیا فرماتے ہیں کہ اب سالک کی زندگی گزارنی ہے نا کہ مجذوب کی، سالک مجذوب سے بہتر ہے، آئیے اس نقطہ کو سمجھتے ہیں، سالک کا کام دنیا میں رہ کر تمام کام عقل و ہوش کے ساتھ انجام دینے ہوتے ہیں جبکہ سالک جب صرف عشق میں ہوتا ہے تو وہ اپنی دنیا سے بے گانہ ہوجاتا ہے، یعنی اس کی روح ٹرانسمائیگریٹ کسی اور بات کی  منتقلی چاہتی ہے، حضرت موسٰی علیہ السلام تجلی صفات الہی دیکھ کربے ہوش ہو گئے، جبکہ ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا نظارہ کرتے تبسم فرماتے رہے، یہ سلوک ہے۔ دوسری یہ بات کہ بغیر وسیلہ اس راستے کو طے کرنا دشوار ہے۔ کسی راہبر کی ضرورت اُتم ہے جو ہمیں اس راہ سلوک کو پار کروائے۔  
صراط الذین انعمت علیھم۔ایسے لوگ جن پر اللہ نے اپنی نعمت و انعام کیا ہے،یہ لوگ نبیین، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ یہ سلسلہ تمام انبیاء کرام، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،اہل بیت، آئمہ کرام اور اب یہ معاملہ اولیاء اللہ کی جماعت لے کر چل رہی ہے۔ پہلے نبوت و رسالت اس کے بعد امامت اور اب ولایت کا کام صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنا ہے۔ انعمت سے مراد کونسی نعمت کا مطلب لیا جارہا ہے، اس سے مراد وہ نیک راستہ اور طریقت و شریعت ہے جو نیک لوگوں کا طریق زندگانی ہے،اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب ؒ نے اپنی باقی ماندہ زندگی اپنے پیران کی راہ میں ہی صرف کردی۔ اگر تم نیک لوگون کی پیروی کروگے تو نیکی سیکھوگے اور برے کی سنگت تمہیں کبھی بھی نفع نہیں دے گی، اللہ نے ان نیکوں پر کیا نعمت کی کہ ان کو حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر رکھا، اپنی جماعت کے ساتھ، اپنی رضا کے ساتھ، اپنی چاہت کے ساتھ جوڑے رکھا، یہ نعمت و انعام ہے، آج کل کا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اگر سب نے ائیرکنڈیشنر لگوا لیا ہے تو وہ نہیں لگواسکتا، وہ دوسرے سے اس بات میں جلتا اور حسد کرتا ہے، دیکھا تم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے، جنہوں نے نبی ہونے اور معراج کے واقعہ کی تصدیق کر ڈالی، حضرت عمررضی اللہ عنہ کو دیکھا جو اتنا انقلاب لے آئے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی دولت کے منہ کھول دیے کہ کسی طرح الل اور اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوجائیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علمی تدبر و تبحر، شجاعت و بہادری اور ذہانت اور اس سے بھی بڑھ کر نبی روف رحیم سے محبت کا اندازہ لگا سکتے ہو، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا معاملہ آتا ہے تو حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ساتھ چلتے ہیں اور حضرت علی المُرتضٰی رضی اللہ عنہ بستر نبوت پر بے چوں چراں لیٹ جاتے ہیں۔جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی وہی انعمت علیھم ہیں۔قل للہ المشرق والمغرب۔ یھدی من یشاءالی صراط المستقیم۔آپ سلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ مشرق اور مغرب اللہ کاہے، وہ جس کو چاہتا ہےہدایت دیتا ہے سیدھے راستے کی طرف، اسی طرح اہل بیت کا بھی حال ہے، جنہوں نے حُرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ نام نا آنے دیا اور اپنی جانیں اللہ کے سپرد کرنے میں ایک لمحہ بھر بھی نا سوچا، بھوک پیاس برداشت کی، بچوں کو بھی اللہ کے دین کی سلامتی کے لیے قربان کر ڈالا، جو حضرت امامِ حسین علیہ السلام کے سنگ چلا اس کا نام آج بھی بسم اللہ پڑھ کر لیا جاتا ہے۔ یہ ہیں انعمتَ یہ ہیں انعام و اکرام والے جو اللی کی بارگاہ میں قبولیت کے درجہ سے فائز ہیں۔اگر انہی بندگان با صفا کا نام لیا جائے تو اولیاء اللہ ہی کی جماعت کے ایک شہباز حضرت خواجہ معین الدینؒ کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ، آپؒ نے ہندوستان میں اپنا لوہا منوایا اور اس راہ سلوک مییں بہت مشکلات و مصائب کا سامنا کیا۔ یہ لوگ دین کرتے ہیں تو اللہ ان کو بہت سی آزمائشوں سے بھی گزارتا ہے، اللہ خود دوسرے پارے سورۃ البقرۃ میں کہتا ہے،
ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمٰرت۔ وبشرالصبرین۔
اور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ  خوف سے اور بھوک سے اور جان و مال سے اور پھلوں کے نقصان سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشخبری دیں صبر کرنے والوں کو۔
غیر المغضوب علیھم والضالین، ان سے مراد یہودو نصارٰی ہیں جنہون خوب جی بھر کر اسلام کی مخالفت کی، کوئی کسر نا اٹھا رکھی تھی اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے۔ یہود اور نصارٰی جانتے ہوئے بھی اسلام کے منافی تھے، یہود اور نصارٰی تو اہل کتاب تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب پہنچانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی آخرالزمان ہیں اور ان ہی دین غالب آنے والا ہے، اس سب کے باوجود انہوں نے دشمنی اور مخالفت کا بازار گرم کررکھا تھا۔ جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی و پیروکار نہیں وہی ہے جس پر اللہ کا غضب ہے اور جس کو اللہ نے ضلالت میں ڈال رکھا ہے۔
اس سورۃ پاک کے آخر میں آمین کہنا چاہیے یہ حضور عالی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اس لیے کہ یہ دعا بھی ہے التجا بھی ہے،منادی بھی ہے، امتی کی فریاد بھی ہے اور نماز کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس میں اللہ کو رب، رحمٰن، رحیم، مالک، معبود برحق، مدد کرنیوالا، صراط المستقیم پہ چلانے والا، انعام کرنیوالا اور کافروں، فاجروں، فاسقوں، منافقوں سے بچانے والا کہہ کر پھر اسی کی استعانت طلب کی گئی ہے کہ ہماری یہ استدعا مان لے، آمیں ثم آمین


سورۃ البقرۃ
تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آپ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے بہت محبت تھی، اس لیے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی  جائے پیدائش ہے آپ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام رشتہ دار کی سکونت بھی یہیں تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر مبارک کے 40 برس اس وادی مکہ میں ہی گزار دیے، مگر اللہ کے حکم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابہ کرام کو یہاں سے ہجرت کرنی پڑی کیوں کہ یہاں کے کافروں اور مشرکوں نے اسلام کو مٹانے کی کوئی کسر نا چھوڑی  تھی، اللہ کی طرف سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی  گئی کہ وہ فیصلہ انے تک دین کی راہ میں آنے والی سختیوں کو برداشت کریں اللہ ایک دن ضرور انعام و اکرام سے بھی نوازے گا۔ الہٰذا اصحابہ کرام کو حکم ہوا کہ مدینہ کی ہجرت کرجائیں۔
یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی۔یہاں دو قومیں پہلے سے آباد تھیں جن میں یہود اور انصار تھے۔ مدینہ کا پرانا نام یثرب تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا تو اسی شہر مدینہ کے دو قبیلے اوس اور خزرج کے کچھ لوگ مشرف با اسلام ہو کر اور لوگوں کو بھی اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے لگے۔ اوس اور خزرج کے لوگ بھی اہل مکہ کی طرح بُت پرست تھے، ایک اور قوم یہود بھی انہی کے ساتھ  رہتی تھی،یہ لوگ اہل کتاب تھے ان کو اپنے آباواجداد سے یہ بات بہت اچھی طرح سے معلوم تھی کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ یہود اگرچہ کہ تعداد میں کم تھے،مگر ایک لحاظ سے کہ وہ تعلیم یافتہ تھے تو اوس و خزرج پر ان کو ذہنی اور عمرانی برتری تھی۔ مگر یہ قبائل چونکہ یہود کے ساتھ رہ کر یہ ضرور جانتے تھے کہ جن نبی کی یہود خوشخبری دیتے رہے ہیں وہ آپ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
مکہ کے مسلمانوں کو جب مدینہ کی طرف ہجرت کا کہا گیا تو وہاں پہلے سے موجود اوس و خزرج قبیلوں کے لوگوں کو انصار کے لقب سے نوازا گیا۔ آئینی طور پہ نہیں توعملی طور پر یہود ہی کی حکومت تھی۔ یہود معمولی سی بات پر تورات میں واضح طور پر تبدیلی کردہتے، ان کو وہاں کی زرخیز زمینوں، باغات اور ملکیت پر قبضہ حاصل تھا۔مگر پھر بھی کوئی مناسب نظام رائج نا تھا۔ ان حالات میں آپ سیدنا محبوبنا صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں اپنا قدم رنجہ کیا۔
حضور سیدنا نبینا صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وہاں کی یہودی قوم کو دعوت اسلام دی تو ان کے علمی تکبرو دانش نے سر آٹھانا شروع کردیا۔ یہود کے لیے تو یہ بات بالکل کسی طرح بھی قابل قبول نہ تھی، جو اپنے آباواجداد کے مذہب کو چھوڑ دیں، اسی لیے اس سورۃ مبارکہ کے بہت سے رکوع انہی یہود کی اصلاح میں ہیں۔
قرآن پاک کا کام اب یہ تھا کہ وہ ان بلندوباگ اور نام لیواپہاڑوں کی نا صرف اصلاح کرے بلکہ یہ نام مسلمانں کی لسٹ میں شامل کیے جائیں۔مدینہ منورہ میں پہلے سے انصار ایک اچھی خاصی تعدادا میں موجود تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مکہ سے مہاجر بھی جب وہاں اکٹھے ہونے شروع ہوگئے تو اب مسلمان منتشر یا فرقوں میں بٹی ہوئی قوم نہیں رہ گئی تھی بلکہ ایک منظم اور اجتماعی صورت اختیار کرگئی تھی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمانوں کی اخلاقی سیرت کو اور مزید نکھارا جاتا،قوانین،آئین اور سیاسیات کو ایک ایسا عالمگیر رنگ دیا جاتا جو رہتی دنیا کے کیے ایک مستحکم لائحہ عمل بن کر سامنے آتا۔
ہمیشہ کسی بھی سورۃ کا نام اس کے مضامین کی بنا پر رکھا جاتا ہے، اس سورۃ میں گائے اور اسکے ذبح کا ذکر ہے جو کسی اور جگہ قرآن میں نہیں ملتا۔ گائے کے قصے میں ایک مقتول کو زندہ کیا گیا جس کا تفصیلی ذکر اگے آئے گا۔ ان کے علاوہ شراب و جوئے کا بیان، طلاق و عدت، بچوں کی پرورش، حضرت سیدنا ابراہیم علیہ اسلام کو جانوروں کا زندہ کرکے دکھانا اور آسمان سے بارش برسا کے مختلف انواع کے پھل اور سبزیاں اگانا وغیرہ شامل ہیں۔
آلم۔ ذلک الکتاب لا ریب فیہ۔ ھدی اللمتقین۔
آلم۔ بے شک کہ اس الکتاب(قرآن) میں کوئی شک نہیں ہے، یہ کتاب متقین کے لیے ہدایت ہے۔
آلم قرآن کے تین حروف ہیں یعنی الف، لام اور میم۔ اللہ کی ذات فرماتی ہے کہ ایک حرف کے بدلے اہ دس نیکیاں عطا فرماتا ہے، یعنی ان حروف مقطعات کو پڑھ کر قاری انپے دامن میں تیس نیکیاں سمیٹ لیتا ہے۔ان حروف کو آیت کہا جاتا ہے مگر ان کا ترجمہ یہی الف لام اور میم ہے، ان میں ایک راز س کو اللہ اور نبی برحق خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم ہی جانتے ہیں یا اس کے وہ بندے جو اس نے برگزیدہ کردیے ہیں۔صاحب رُوح المعانی کی بابت پڑھیے جو فرماتے ہیں، فلا یعرفہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الا اولیاء الورثہ فھم یععرفونہ من تلک الحضرۃ و قد تنطق لھم الحروف کما کانت تنطق لمن سبح فی کفہ الحصی۔ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام اولیاء اللہ، ان کو یہ علم بارگاہ رسالت سے عطا ہوتا ہے، بعض اوقات یہ حروف خود اپنے اسرار اولیاء کرام سے بیان کردیتے ہیں۔جیسے یہ حروف اس ذات سے گویا ہوتے تھے جس کی ہتھیلی میں کنکریوں نے اللہ کی تسبیح بیان کی تھی۔ بعض علماء دین اس بات بھی اتفاق کرتے ہیں کہ آلم سورۃ بقرۃ کا نام ہے، الف سے مراد اللہ ، لام سے لطیف اور میم سے مجیدہے۔ الف سے مراد انا، لام سے للہ اور میم سے مراد علم میں جانتا ہوں۔پیرومرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہؒ بھی ان حروف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شاید ان کا مطلب الف سے اللہ لام سے للہ اور میم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اللہ للہ محمد یعنی اللہ صرف صرف اپنے محمد صلی اللہ علہ وسلم کا ہی ہے اور ان ہی کے لیے ہے۔ حضور پیرومرشدؒ کی یہ تشریح مجھ ناقص کے دل و دماغ کے بہت قریب ہے، اس سورۃ پاک کی تمام نازل کردہ آیتیں مدینہ میں اتاریں گئیں اور ان میں آپ سرکار رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نظام دیا گیا اسی کے تحت مدینہ نے پوری عالموں کے لیے ایسا دستور دیا جس کی آج تک کوئی اور مثال قائم نہیں کی گئی۔ سارا قرآن ہی آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تفسیرہے، یہ سورتوں کے مختلف نام ان کی پہچان کے لیے رکھے گئے ہیں تاکہ ان کو یاد رکھنا آسان ہو۔  
لفظ ذلک لا ریب فیہ، سے مراد ہے وہ، یہ گرائمر کے اعتبار سے مشارالیہ ہے، جس کا مطلب کسی کی طرف اشارہ کیا جائے،یعنی ایسی چیز جو نزدیک ہومگر اپنے رُتبہ اوردرجہ کے لحاظ سے دسترس سے دور ہو۔یہ وہ ذی شان کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کے سمیت سب سورتوں کے مضامین بہت واضح احکامات اور حکمتوں سے بھرپور ہیں۔ انسان کی ساری زندگی کے متعلق حالات و واقعات، پیشن گوئیاں،کافروں، مشرکوں اور منافقین کی نفسیات کو جس طرح اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ، اب کوئی اس بات سے کیا انکار کرے گا ' لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم'۔ لقد خلقنا الانسان فی کبد۔ انسان واقعی جلد بازہے۔ تاریخ خود اپنے آپ کو دہراتی ہے یعنی ہمیں ثبوت دیتی رہتی ہے۔
'الکتاب' کا معنی یعنی قران پاک جو اللہ کی اتاری گئی خاص کتاب ہے اور اس کی یہ خصوصٰیت آپ نبی مکرم محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کیوں کہ جو کچھ بھی نازل کیا گیا وہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت رکھتا ہے اس لیے اس قرآن کی عزت و حُرمت بھی زیادہ ہے۔ جو رب ہر چیز پر قادر مطلق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کی کس بات میں شک ہوگا۔دوسرا یہ کہ رقآن پاک پچھلے تما صحائف اور کُتب کی نا صرف تصدیق کرتی ہے بلکہ ان کو واقعات کو بھی من وعن صاف طور پر بیان کرتی ہے۔جن تحریفات سے تورات، زبور اور انجیل میں تبدیلیاں کرکے ان کی تبلیغ کی جاتی رہی تو اس بات کی اشد ضرورت تھی عالم اسلام کوئی ایسی مستند اور سچائی والی کتاب سب آنے والے لوگوں کو مشعلِ راہ کے لحاظ سے بخشتا، قرآن اس کی بہتریں مثال ہے۔
ایک جگہ سورۃ النجم میں رب کریم فرماتا ہے
وما ینطق عن الھوٰی۔ میرا نبی تو اپنی ہوا و حرص سے اپنی طرف سے اپنے پاس سے اپنی کوئی بات کہتا ہی نہیں، تو پھر کیا کسی شک کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ ایک یا دو آیت کے بعد اکثر بہت سا وقت اس بات میں گزرجاتا اور ؤحی نا اترتی تو آپ سرکار صلی اللہ علیہ ووسلم کو تشویش ہونا شروع ہوجاتی۔اس بات کی زیادہ تحقیق منافقت کو ہی جنم دے سکتی ہے کہ کوئی قرآن کے اس فرمان کو نا سمجھے بلکہ اس کو ایسے مان لینے سے اس شخص کے اجروثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔
 ھُدًی للمتقین۔ ہدایت ہے متقین کے لیے، جبکہ قرآن فرماتا ہے ھدی اللناس کہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے، مگر یہاں لا ریب فیہ کے فورا بعد کہہ دیا گیا کہ جس کو اس کتاب میں کوئی شک نہیں جو اس کی آیات کو مانتا ہے تو وہی ہدایت یافتہ اور متقی ہے۔
لفظ متقی تقوٰی سے ہے جس کا مطلب حلال اور حرام میں فرق کرنا ہے۔ گناہوں سے بچنے کا نام تقوٰی ہے، ایک حدیث مبارکہ میں فرمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہےتیرا رب تجھے وہاں نہ دیکھے جہاں جانے سے اس نے تمہیں منع کر رکھا ہےاور وہاں تجھے غیر حاضر نا پائے جہاں اس نے جانے کا حکم دے رکھا ہے۔
متقی شخص کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنا محااسبہ خودکرتا ہے، جو بات اس کو شک میں ڈال دے اس کو چھوڑ دیتا ہے، اللہ کی فرض عبادت کو اپناتا اور اس میں سبقت لے جانے میں لگا رہتا ہے، ذرہ بھر پرہیزگاری کو نفلی عبادات سے بہتر جانتا ہے،
خواص کی پرہیزگاری یہ ہے کہ وہ نفس اور خواہش سے اجتناب کرتے ہیں، جو خاص الخاص ہیں ان کا تقوٰی ارادے اور رائے کے شائبہ سے دور رہنا ہے، کیوں کہ گناہ سے دل میں خراش پیدا ہوجاتی ہے اور اس طرح دل کے غیر مطمئن ہونے سے پرہیزگاری پر حرف آتا ہے۔
متقین لوگ کون ہیں جو ہمیشہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ 1۔ غیبت سے زبان کو روکنے والے
2۔ بدگمانی سے دور رہنے والے۔
3۔ کسی کا مزاح نہیں اُڑاتے۔
4۔ نا محرم سے آنکھیں نہیں ملاتے۔
5۔ ان کی گفتگو میں سچائی ہوتی ہے۔
6۔ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں۔

7۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں۔
8۔ دنیا میں عروج اور تکبر کے خواہاں نہیں بنتے۔
9۔ نماز پنجگانہ کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔
10۔ مذہب سُنت و جماعت پر قائم رہتے ہیں۔
الذین یومنون بالغیب و یقیمون الصلوۃ و مما رزقنھم ینفقون۔
  ایسے لوگ جو ایمان لائے ہیں غیب پر اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے خرچ کرتے جو ان کو دیا گیا ہے۔
انہی متقین کا ذکر خیر جاری ہے جو ایمان لے آئے غیب پر، جنہوں نے نماز کو خوب اچھی قائم کر رکھا ہے اور وہ اس میں سے روزی خرچ کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو دے رکھی ہے۔ متقی و پرہیزگاروں کے بارے میں صرف یہی نہیں کہ وہ گناہوں سے بچتے ہیں بلکہ اعمال صالح بھی ان کے کردار و سیرت کا ایک باقاعدہ جزو ہے۔ متقی کا مطلب بیٹھے رہنے کا نام نہیں کہ کہیں جانا ہی نا ہو تو کسی نےکیا گناہ کرنا ہے، یہ لوگ بالکل اپنی زندگیوں کو شرع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق گزارتے ہیں۔جو روزی کہ اللہ ان کو دیتا ہے وہ اس کے معنی بھی سمجھتے ہیں اسی لیے تو وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔
غیب پر ایمان کیا ہے؟ کہ بن دیکھے اللہ کو ماننا کہ وہی اکیلا ہے جو اس ساری کائنات کا اور میرا حامی و ناصر ہے، اس کے سوا کوئی نا میری بات جانتا سمجھتا ہے اور نا اس کے سوا کوئی اس کو حل کرسکتا ہے۔ وہ ہی اللہ الصمد ہے جو کہ کام کرنے کے عوض کچھ بھی نہیں مانگتا، قبل اسلام یہ بات مشہور تھی کہ اہک مکہ اپنی مرادوں کے پورا کرنے کے لیے گائے، بکروں اور حتٰی کہ اپنے پیاروں کی قربانی کردیا کرتے۔ آپ نور سراپا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اعلان و تبلیغ کی بنا پہ یہ سلسلہ اپنا دم توڑنے لگا۔ اور آخر دین اسلام کی جیت ہوئی، جب ہر مسلمان اسی سوچ و بچار کا مالک ہوجائے تو اس کے لیے غیب کو ہضم کرنا اسان ہوجاتا ہے۔
 پہلا کام نماز کی ادائیگی ہے، پھر ہی اس کو قائم کیا جائے گا،یہاں قائم سے مراد ہر رکن نماز کو ٹھہر ٹھہرکر اداکرنا ہے۔ جس میں خشوع و خضوع کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے اور نماز کا خشوع اور خضوع خالص نیت ہے، متقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی نمازوں کو اس طرح ادا کرے کہ وہ واقعتًا خدا تعالٰی کےمشاہدہ میں بلحاظ مجاہدہ استغراقی حالت میں ہو۔ اس کے لیے ساری دنیا و مافیہا ایک طرف اور رب کی ذات ایک طرف، اسی   طرح سے جب اصحابہ کرام نماز کی حالت میں ہوتے تو انہیں اپنی کوئی خبر نا ہوتی، ان کی نماز میں شیطان، خیالات، وسوسوں اور خواہشات کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ جب آپ سرکار نماز کے لیے جائے نماز پر کھڑے ہوتے آپ کا جسم پاک لرزنا شروع ہوجاتا،کئی بار تو پرندے بعض اصحاب کریمین کو سکتے کی حالت میں دیکھ کر کافی دیر تک سر پر آنکر بیٹھ جاتے۔ متقی کی نمازمیں اورعام شخص کی نماز میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ایک عام آدمی کی نماز اس کے اپنے خیالوں میں گُم ہوتی ہے یہ تک بعض اوقات یقین نہیں ہوتا کہ پہلی رکعت میں کونسی سورہ کی تلاوت کی تھی، مگر ایک صالح و متقی کی نماز اس کے دل اور روح پر پورا اثر رکھتی ہے۔
جو متقی لوگوں کوان کی محنت کے عوض ملتا ہے وہ اسی پراکتفا کرتے ہیں۔ جتنی کہ دولت سے وہ اپنا نا ونفقہ چلا سکتے ہیں وہ اسی پر راضی رضا رہتے ہیں، انہیں یہ بات معلوم ہے کہ ان کی حد یہی ہے کہ وہ اتنا کمائے کہ جو ان کو اللہ کی بارگاہ میں بھی رکھے اور خرچ بھی چلتا رہے، اللہ نے ان کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے، یہ ایک رازکی بات ہے جو اللہ اور متقیوں کے درمیان یے، اللہ اپنے ان برگزیدہ بندگان با صفا کو زیادہ اپنی بارگاہ میں ہی رہنے کی طرف جب بلاتا ہے تو یہ اس کے اشارے اور رمزو کنایات کو خوب اچھی طرح سے سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارا رب اب ہم سے کیا چاہتا ہے،اسی لیے وہ اس کی طرف سے عطا کردہ روزی کوہی غنیمت جانتے ہیں۔ یہ کام لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں ورنہ ان کا کام تو اللہ کی عبادت ہے، روزی کمانا ان کا لوگوں کو دکھاوا ہوتا ہے۔ شرع کیوں کہ ظاہری ہے اس لیے بھی یہ اس پر چلنا اپنا فخر سمجھتے ہیں، ان کی روزی میں برکت اللہ کی ذات ہی ڈالتی ہے۔ ساری رات اللہ ھُو کی کوک لگانے والے کس طرح دنیا داروں کی سی عیش و عشرت کی زندگی زارتے ہیں، ان کے دل کی تڑپ میں تو اللہ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم سمائے ہوئے ہیں، وہ تو ان سے الی القاء اور مہ لقا کی بازی جیتنے میں مصروف ہوتا ہے تو اسی لیے ان ہی کے بارے میں ہے کہ جتنا ہم تم کو دیتے ہیں تم اتنا اسراف کرلیاکرو تمہارے لیے بہتر ہے۔
ان ہی مقبولان بارگاہ الہٰی کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے،
یہ جو دیوانے سے  دو چار نظر آتے ہیں    
 ان مں کچھ صاحبِ  اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سوجاتے ہیں
ورنہ   یہ  لوگ  تو    بیدار   نظر اتے ہیں
والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک و بالاخرۃ ھم یوقنون۔   
اور لوگ جو ایمان لائے ہیں اس پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا، اور جو اتارا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور وہ آخرت پہ بھی یقین رکھتے ہیں۔
اس آایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں بیان ہے کہ اے ایمان والوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا اس کو من و عن مان لوکیوں کہ قرآن میں ارشاد ہے ان ھو الا وحی یوحی۔ وہ نبی تو خود کچھ کہتا ہی نہیں،
جن لوگوں کو علم جفراورعلم الاعداد کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں جب وہ متلاشیوں کو علم دیتے ہیں تو اس کو تو بڑے یقین سے سُن کر مان لیا جاتا ہے، پامسٹ جس کو  بھی جو بتاتا ہے ہم اس پہ آنکھیں بند مان لیتے ہیں، حالانکہ اس میں بہت سی باتیں غلط ہوتی ہیں،ہاتھ کی لکیریں ہر تیسرے ماہ بدل جاتی ہیں، مگر لوگ یوں بھاگتے ہیں جیسے یہ کوئی حق سچ ہے۔ اس کے بعد وہی ہوگا جو بابا جی نجوم نے فرمادیا ہے۔اس کو علم غیب کہتے ہیں، جو وہ شخص کسی کے بارے میں بتاتا ہے کہ ہاں تمہاری بیوی ہی نے تم پر تعویذ کروائے ہیں۔
اہل مکہ کے مُشرک اور کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی علم قران کے نزول کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین نہیں کرتے تھے، وہ نعوذ باللہ یہ الزام دیتے تھے کہ یہ تو جنونی ، ساحر اور جادوگر ہیں۔اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نا اترتی تو آپ سرکار شمس الضحٰی پریشان ہوجاتے، وہ لوگ کہتے اور آوازیں بھی کستے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ناراض ہوگیا ہے،یا اپنی طرف سے ہی آیات بنا کر ہمیں سنایا کرتے تھے؟ اللہ تعالٰی کی ذات اس کا جواب دیتی ہے کہ یہ نازل کردہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے ، اگر تم سچے ہو تو ایسی کوئی اور آیت بنالاو۔
جب کفار سرداران قریش نے عتبہ بن ربیعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ جائے اور محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلی مقصد کو جان سکے، عتبہ بن ربیعہ بڑا ساحر البیان اور فصیح و بلیغ خطیب تھا، جب اس نے کہا' مکہ کی سرداری چاہتے ہو تو سرداری لے لو، دولت و عزت کے خواہش رکھتے ہو، تو ہم تیار ہیں، کسی بڑے گھرانے میں شادی کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے بھی تیار ہیں، بس اس کے عوض ہمارے آباواجداد کے مذہب کی مخالفت نہ کرو۔ جب اس خبیث نے اپنی تقریر کرلی تو آپ رحمۃ العالمیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی چند آیات اس کے سامنے تلاوت کیں تو اس لعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک پر اپنا غلیظ ہاتھ رکھ کر کہا ' میں اپنی رشتہ داری کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرا دل اس عظمت والے کلام کی وجہ سے پھٹتا جا رہا ہے۔'
جب وہ لعین اپنے سرداروں کے پاس گیا تو کہاوہ نہ جادو ہے، نہ کوئی کہانی کہتا ہے، نہ شاعری بلکہ کوئی اور ہی چیز ہے، میری تو یہی رائے ہےتم لوگ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو،مگر سرکش سرداروں نے اس کی بات پر کان نہ دھرا۔
دوسری طرف اس بات پر ھی کامل یقین رکھتے ہیں کہ جوآسمانی کتابیں تورات،زبور اور انجیل نازل ہوئیں ان کو بھی مانتے ہیں، کیونکہ ان تمام کتابوں کی تصدیق قرآن پاک میں ملتی ہے۔ ایمان مفصل میں ییہ بات شامل ہے کہ میں ایمان لاتا ہوں  اللہ پر، ملائکہ پر، اس کے سارے رسولوں پر، اس کی تمام کتابوں پر، آخرت پر، خیروشرپر اور مرنے کے بعد زندہ ہونےپر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف مسلمان ہونے کے لیے بلکہ یہ ایمان کا حصہ ہے ہم سب کتابوں پر یقین رکھے اور آخرت کے قائم ہونے پر بھی مکمل پُر یقین رہے۔ یہ متقین کی نشانی ہے کہ بلاتاخیر اللہ کے احکانات کو مانتے ہیں۔
آخرت پر وہی لوگ  یقین رکھتے اور مانتے ہیں جو اپنے عمل و فعل کے دھنی ہیں۔ یہ تمام نشانیاں اور خصوصیات متقی اور پرہیزگار لوگوں کی ہیں۔
اُولئک علی ھدی من ربھم واُولئک ھم المفلحون۔
یہ ہی وہ لوگ ہیں یعنی متقین جن پر اللہ کی ہدایت ہے اور یہ ہی لوگ فلاح والے ہیں۔
اللہ تعالٰی کی ذات واضح انداز سے کہتی ہے کہ ہدایت و فلاح کے مستحق وہی لوگ ہیں جو پرہیزگار ہیں۔ فلاح کوئی ادھوری بات نہیں کہ اس کو بغیر کسی بات کے لیے کسی کے لیے قرار دے دی جاتی ہے، جس کو بھی فلاح حاصل ہے واقعتًا وہ اس کا حقدار ہے۔ یہ سب کطھ ہدایت یافتہ ہونے کی بنا پہ ہے کہ جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا تو اس نے اپنے لیے کامیابی کی راہ کو پکڑ لیا۔ اس ایک لفظ فلاح کے اندر بہت سی خاصیتیں پنہاں ہیں، یعنی جو فلاح کا ارادہ کرتا ہے تو وہ قرآنی علم میں شک نہ کرتا ہو، تقوٰی کا راستہ پکڑے، غیب پر یقین ہو،نماز کو قائم کرے، اللہ کے رزق میں سے خرچ کرے، قرآن اور باقی کُتب پہ بھی ایمان لائے اور آخرت کو مانے۔

  
  ان الذین کفرواسواءعلیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لایومنون۔
 بے شک جن لوگوں کفر کیا یکساں ہے کہ آپ ان کو ڈرائیں یا نا ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
یہاں اس آیت میں اُن بد گمانوں اور کافروں کا تذکرہ کیا جا رہاہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بحث چھیڑ دیتے کہ وہ اپنے آباو اجداد کے دین کو کس طرح ترک کر دیں، یہ کافرین بُت پرستی اور شرک کے دین کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت محنت اور مستعدی سے اللہ کے دین کی دعوت دی، اگر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر توجہ نہ دیتے یا رجوع نہ لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبعیت مبارکہ کریمانہ پر بہت گراں گزرتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مغموم ہوجایا کرتے، اللہ تعالٰی کو اپنے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی و تشفی کا معلوم تھا اسی لیے یہ ایت نازل کی گئی کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ و دعوت میں کوئی کوتاہی وغلطی نہٰیں اورنا ہی ہمارے قرآن میں کوئی نقص ہے۔ لہٰذا ان کا ایمان لانا یا نہ لانا ان کی اپنی بد نصیبی اور محرومی کی وجہ سے ہے۔
الذین سے مراد وہ کافر ہیں جن میں ابو لہب، ابوجہل، اسود بن عبد یغوث، ولید بن مغیرہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط وغیرہ شامل ہیں۔
یہاں ایک خاص نقطہ ہے کہ اللہ کی ذات فرماتی ہے " یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں"، یہہ بات خیروشر اور جبروقدر کے ساتھ ہے۔ جب اللہ نے ہی یہ کہہ دیا تو یہ بات جبروقدر کی ہے کہ جب اللہ نے ہی ان کی قسمت میں ایسا کررکھا ہے تو وہ کس طرح ایمان لاسکتے ہیں۔ مگر اللہ نے ہمیں یہ قوت بھی دے رکھی ہے کہ خیروشر میں قدرت و اختیار رکھ سکیں۔ پیرومرشد اعٰؒحضرت شاہ محمد امین شاہؒ فرمایا کرتے کہ جو پائیدارہو اس کو اختیار کیا کرو، یعنی پانچ وقت کی نمازیں اور دیگر عبادات کو اختیار کرنا۔
اگر اسی کو مان لیا جائے کہ وہ ایمان نہ لائیں گے تو پھر اس میں ان کا کیا قصور؟ مگر اس سے بیشتر کہ وہ اس کو مان لیں اس بات پہ غور ضروری ہے کہ رسول کریم نبی آخرالزمان ختم الرسل شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم جب خودآنکر ؤاضح اور روشن دلائل کے ساتھ کافروں کی گمراہی کو اسلام کی روشنی سے بدل دیتے ہیںتو پھر یہاں خیروشر یا جبروقدر کی بحث ہی نہیں رہتی۔ جاء الحق و زھق الباطل حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔
جبکہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نورومبین بنا کر بھیجا ہے اور قرآن دے کر بھیجا ہے تو یہ ایسا نبی نہیں ہے جو تمہیں صرف آیتیں ہی پڑھ کر سناتا ہے بلکہ آپ حضور سیدنا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات طیبہ مبارکہ عملی زندگی کا نمونہ ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات میں بھی حصہ لیا اور ایک غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے۔ اس با ت کا اعتراف تو وہ کافر بھی کرتے تھے جنہوں نے دین اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد کبھی ختم نا کی۔جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر زندگی گزاری اور جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقتًا فوقتًا دعوت کے علاوہ بہترین مشوروں سے بھی نوازتے۔ اس کے بعد بی ان لوگوں کی بچت ایسی نہیں ہوسکتی جن کے لیے ایسے معتبر و مقدس نبی پاک رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی صعبتیں اور مشکلات برداشت کیں۔ اللہ تعالٰی کی ذات نے ان کافرین کی نفسیاتی حالت کو بیان کیا ہے کہ وہ اتنی تبلیغ و دعوت کے باوجود اسلام کو ماننے میں کج فہمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کا ایمان لانا یا نا لانا یکساں ہے۔ کفر کا لفظ یہ معنی ادا کرتا ہے جب ہم کسی چیز کو ڈھک دے یا چھپا لیں، شریعت کے مطابق اس کا مطلب اللہ کی توحید اور سکی نبی کی نبوت کا انکار کردینا۔ جو ان کو مان لیتا ہے وہ مسلمان ہے ۔
ختم اللہ علی قلوبھم و علی سمعھم۔ و علی ابصارھم غشاوۃ و لھم عذاب عظیم۔
مُہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کی سماعت پر اور ان کی بصارت پر اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔
یہ کفار اب تو بالکل ایمان نہیں لاسکتے کیوں کہ ان کی ہٹ دھرمی اور ضد کو دیکھ کر اللہ نے ان کے دل،کان اور آنکھوں پر مہر لگادی ہے، اب ان کی روحانی صحت مفقود ہو گئی ہے، ان کی ساری قوتیں ان کے کسی کام کی نہیں رہیں کہ وہ ہدایت کو قبول کریں، انہوں نے سکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جودشمنی، تعصب اور حسد روا رکھا اسی کی بنیاد پراللہ نے بھی ان کو اپنے ہاں سے نکال دیا، ابولہب آپ سرکارنورورحمت سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا چلا کر کہتا کہ میرا بھتیجا جھوٹا ہے، تم اس کی بات نہ سنو۔(معاذاللہ)
کافر جب جب اور جیسے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر سرگرم ہوتے گئے تب تب اللہ نے بھی ان کے دل، کان اور آنکھوں کی صلاحیت ختم کرنا شروع کردی، ہوا یوں کہ سورج چاند اور ستارے جن سے روشنی ادھار لے کر دنیا کو چمکاتے ہیں تو اللہ کے نورمبین سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا اور وہ کوئلے کی مانند کالا سیاہ وجود لے کر مکہ کی وادی میں برباد زندگی کے مستحق ہوئے۔ جب مکہ فتح ہوگیا تو آپ سرکاربدرالدجٰی نور الخدارحمۃ العالمین محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کردیا، ان دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپ کریم و رحیم روف صلی اللہ علیہ وسلم کی جان تک لینے کی کوشش کی، ان ہی میں ایک وحشی بھی تھا جس نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ککو جان سے مار ڈالا تھا،بس آپ سرکار عالی مرتبت شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میرے سامنے نہ آیا کرو اور میں نے تمہیں معاف کیا،ہے کوئی ایسا نبی جس نے ہند بنت عتبہ کو معافی دے دی، ابو سفیان کو معافی مل گئی، اور تو اورفتح مکہ کے بعدجدہ فرارہوجانے والے صفوان بن امیہ کو بھی بلا کر معافی دی یہ اسلام لانے سے پہلے بہت بڑے دشمن تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمۃ اللعالمینی کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کافروں کو تو قتل کرنے حکم اللہ پاک نے دے رکھا تھا اور آپ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم یہاں لوگوں کی اصل بدل رہے ہیں، سب کافر اپنی اپنی رہائی اورآزادی کا سن کرفرط ندامت میں گڑ گئے اور ان کافروں کی انکھوں سے آنسوبہہ نکلےاور پورا مکہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے گونج اٹھا۔ کیا کوئی فاتح ایسا بھی ہوتا ہے جیسے میری سرکار ہے، اللھم صل علی سیدنا محمد وعلی آل سیدنا محمد واصحاب سیدنا محمد و بارک وسلم علیہ۔ اگر اب بھی کافر اسلام نہ لائے تو یہ ان کی غلطی، لغزش اور بگ بلنڈر تھا۔
کافر لوگ صرف اپنے کفروانکار کی بنا پہ اسلام کے دائرہ سے خارج ہوئے۔اسی لیے ان کو ایک لحاظ سے ڈرایا بھی گیا ہے کہ ان کے لیے بڑا عذاب عظیم ہے تو جو ہدایت کی دعوت و تبلیغ سن کر اسلام کے سردار سید العالمیں صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانتے، ان پر اس عذاب کے ڈرانے کا کیا اثرہو، سورۃ یٰس میں بھی ایک ایسی ہی آیۃ مبارکہ ہے جس کا معنی و مفہوم " اور آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیںدونوں برابر ہیں،یہ ایمان نہیں لائیں گے۔"
وسواء علیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لا یومنون۔ سورۃ یٰس آیت 10
ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمومنین۔
اور ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور رز قیامت پر اور وہ مومن نہیں ہیں۔
اس طرح کے لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اللہ تعالٰی کی ذات پراور آخری دن پریہ ان کا منافقانہ جواب ہے، جتنا نقصان ان منافقین نے اسلام کو پہنچایا اتنا کسی نے نہ کیا ہوگا۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے تو اسلام لاتے ہیں مگر ان کے دلوں میں جو کجی ہے اس کی وجہ سے یہ پورے پورے داخل نہیں ہوتے، ان کو منکر کہنا کچھ غلط نہ ہوگا۔ ان کے باطن میں جو بدی ہے اس کا سدباب ایک انتہائی مشکل امر ہے۔ان لوگوں نے ہمیشہ کوئی بہانہ کرکے اپنے آپ کو جہاد سے دور رکھا۔
مومن تنہائی پسند ہوتا ہے جبکہ منافق ہجوم اور مخلوق پسند ہوتا ہے۔مومن دین کرتا ہے تو منافق اس کے دین میں اس مومن کی غلطیاں اور کیڑے نکالتا ہے، مقمن خاموش اور منافق شور پسند ہوتا ہے اور اگر تھوڑی دیر چُپ رہ جائے تو ساری عمر ڈھینگے مارتا رہتا ہے۔
اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہؒ سے ایک بار پوچھا گیا کہ سرکارؒ منافق کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیے کہ معلوم ہو کہ یہ کون ہیں، آپ علیہ الرحمۃ سراپا نورؒ اس طرح گویا ہوئے' جھوٹ بولنے والا، وعدہ خلاف کہ جی میں سلسلہ میں بہتری کے لیے کیا کرسکتا ہوں آپ حکم کریں، بات کرے تو بدکلامی سے شروع و ختم کرے، خیانتی، سلسلے کے لوگوں کو جب ملا ہوا دیکھے تو حسد کرے، ساری زندگی اس کو سوال نہیں چھوڑتے، دور رہ کر ہی پوچھ گچھ کرتا ہے، ملاحظوں سے گھبراتا ہے، ہربات کی نفی کرتا ہے،اپنے آپ کو پیشن گوئی کا ماہر سمجھتا ہے، اپنے پیر کے کسی مشورے اور نصیحت پر کان نہیں دھرتا، جاسوسی کرنا اس کا شعار بن جاتا ہے، یہ پیر کو دھوکہ دیتا ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، پیربھائیوں سے بغض و عناد رکھتا ہے، آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرتا بلکہ منہ دوسری طرف کرلیتا ہے، پیر کے سوال پوچھنے کو اہمیت نہیں دیتا، اس کی ظاہری حالت اس کے پیر کا احوال نہیں بتاتی، وہ ہر وقت جدت کی باتیں تو بہت کرتا ہے مگر اس کی گفتگر کا اختتام دنیاوی عزت و شہرت پہ ہوتا ہے، حتٰی کہ پیر اس دنیا سے گزر جائے تو وہ خاصہ آزادنظر اتا ہے اس کا ہر وقت ایک ہی سوال ہے کہ کیوں نہ وہ اپنے طریق پر سلسلہ کو جدید لائنوں پر چلائے مگر یہ اس کی ایک بھول ہے، روپے پیسے گن گن کر رکھتا ہے، مال کسی کو مانگے نہیں دیتا،جب بھی سلسلہ عالیہ کو اس منافق کی ضرورت پڑی تو اس طرح کے لوگ دیر سے اور کام ہونے کے بعد ہی آتے ہیں،
آپ سرکار عالی علیہ الرحمۃ دامت برکاتہم العالیہؒ نے فرمایا کہ جب بھی ہم نے کسی مرید کو کوئی مشورہ دیا تو کسی نے تو مان لیا تو سکی نے اپنی مرضی کی یہ جنہوں نے ہمیں اہمیت نہ دی وہ ہی منافق ہیں۔ اب ہم یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتے کہ لوگوں کی دلازاری ہوتی ہے مگر ان لووں کے حسد اور جلنے کی وجہ سے آج سلسلہ کو کوئی نقصان تو نہیں ہے قطعًا ایسی بات نہیں مگر یہ لوگ ہماری نظر سے گر چکے ہیں۔اسلام کو بھی انہی دیمک کے کیڑوں نے کمزور کیا ہے۔ ہم نے بہت سے ایسے مریدین جنہوں نے ہماری بات کو اہمیت نہ دی سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہؒ سے خارج کرتے ہیں۔ روزِ حشر ان کو معلوم ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا کہ ان کا کیسے پتا چلے توآپ رحمۃ اللہ علیہ نے برجستہ جواب دیا کہ ان باتوں کو باربار پڑھو۔
منافق ادمی دین کی نہیں بلکہ اپنی انا کی پرواہ میں لگا رہتا ہے۔ وہ اپنی مارنی زیادہ صحیح خیال کرتا ہے، وہ یہ ہی کہتا ہے کہ جو اس نے کہا وہ ٹھیک ہے باقی تو بس بات کو سمجھتے ہی نہیں، اصل میں اس کا دماغ جو خمار میں مبتلا رہتا ہے وہ اس کی کوئی اپنی جسمانی بیماری کی وجہ سے ہے جن کو آپ سرکا کریمانہ، محبوبنا امیننا ؒ مزاح کے طور پربوٹی باز فرماتے،" جی لگدا اے اینے جیوے کوئی بوٹی پیتی ہوئی اے ایدا دماغ حاضر نہیں ہوندا،"
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھی اسی طرح بڑی ڈھٹائی سے منافقین آتے اور وہ بے عقل یہی سمھجتے ہیں کہ (معاذاللہ) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پتا ہو کہ وہ دل میں کیا عزائم رکھتے ہیں،یہ منافق لوگ اکثر ہجوم میں پایے جاتے ہیں، جب اسلام اپنے ابتدائی دور سے گزر رہا تھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جی جان سے سے ساتھ نبھایا، ان کو مدینہ میں دیکھا گیا اور یہ  زیادہ تر یہودی تھے جو اسلام کے پھلنے پھولنے سے نفرت کرتے تھے، یا یہ کہہ لیں کہ ان میں مکہ و مدینہ کے ملحقہ علاقوں سے شامل لوگ تھے۔ ایک بدکردارنجدی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا' کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ڈرتے ہیں؟یہ تو حال ہے منافقین کا۔ ان کی فریب کاریاں مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں بلکہ یہ خود ہی اپنی فریب کاری میں پھنس گئے۔ ان کے کہنے اور کرنے میں فرق ہے۔
یخدعون اللہ والذین امنواوما یخدعون الا انفسھم وما یشعرون۔
جو لوگ اللہ اور ایمان والوں کوفریب دیتے ہیں اور وہ سوائے اپنی جانوں کے ان کو فریب نہیں دیتے مگر ان کوشعور نہیں۔
منافقین کی ایک اور کاوش اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دینا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں حالانکہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ اصل میں اسلام اپنی راہ میں قربانی مانگتا ہے جس میں مسلمانوں نے جان ، مال اور اولاد کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے گریز نہیں کیا، جب بھی کسی جنگ کا وقت آتا تو اصحابہ کرام سب کچھ بھول کر اپنے راہبر کے ہمراہ دشمن کی گردن اُڑانے چل پڑتے مگر منافق لوگ گھر میں چھپ جاتے یا بیماری کا بہانہ کردیتے۔
لفظ خدع کا مطلب ہی چھپانا ہے اور اگر اس کو اصطلاحًا سمجھا جائے تو مراد ہے کہ برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا،جب غزوہ میں فتح ہوتی تو منافق آنکر مبارک بادیں دیتے اور اگر شکست ہوتی تو کہتے کہ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ یہ جنگ مسلمان ہار جائیں گے۔ منافق کسی بھی بات کو دل سے نہیں مانتا، اسلام کو سب سے زیادہ نقصان منافقوں نے ہی دیا ہے،
 اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منافق کے نفاق کو عیاں کردیتے تو آج منافقین کی پہچان بہت آسان ہوجاتی،ان کے عیبوں کی پردہ پوشی کی گئی اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ وہ آزاد ہیں جس طرح مرضی آئے گا تو کریں گے، یہ اپنے اپکو ہی دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ حق کو جانتے ہیں مگر اس کو قبول نہیں کرتے،منافق حج کرتے، روزے رکھتے، زکوٰۃ دیتے اور مسجد نبوی میں جا کر نماز بھی پڑھتے تھے مگر جب ان سے اسلام کا کوئی کام یا ذمہ لگایا جاتا تو وہ صاف مکر جاتے، مال لگانے کا وقت اتا تو حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح اپنا مال و متاع لا کر ڈھیر نہ لگاتے بلکہ بیٹھ کر حساب کرنے لگتے کہ ان کا کیا فائدہ ہوگا اور ان کو کیا بچے گا۔ ہر بات میں نفع و نقصان کو ملحوظ حاطر رکھتے۔ آج کے دورحاضر میں منافقین کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہر جگہ باآسانی مل جاتے ہیں۔
مسلمان کی وضح و قطع اور روپ کو دھارلینے سے کوئی سچا امتی نہیں بن جاتا جب تک کہ تم حیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح اپنا نہ لو، جو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منع فرماتے ہیں تو اس سے منع ہوجائے اور جس کو اختیار کرنے کا حکم ہو اس کو من وعن مان لینا ہی اصل عبادت و ریاضت الہٰی ہے اور اطاعتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم ہے جو ان منافقین کا وطیرہ نہیں۔
فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا۔ولھم عذاب الیم،بما کانوایکذبون۔
ان کے دلوں میں بیماری ہے، اللہ نے ان کے مرض کو بڑھا دیا ہے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے،اس کے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔
منافق لوگوں کی بات کی جا رہی ہے کہ ان کے تضاد کو اللہ نے بیماری کہا ہے، اور اس مرض کو ان کے لیے بڑھا دیا تا کہ وہ اسی میں پڑے رہے، صرف یہی نہیں بلکہ ان کو ایک دردناک عذاب کی وعید بھی سنا دی کہ اگر یہ بیمار مر کے  اس کے پاس جائے گے تو ان کو ان کے اعمال کا بدلہ عذاب کی صورت میں دیا جائے گا ، اس سب کے ساتھ ان کی نفسیاتی حالت بھی بیان کردی کہ وہ جھوٹ بولتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور ایسا نہ تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے جہاں ان کا سکہ چلا یہ شیطان اور سرکش نفس کے ساتھ ہولیے۔ جو لوگ کہ دن و رات حق کی شمع کو بجھانے کے لیے امن و صلاح کو تہس نہس کرنے سے گریز نہیں کرتے تو ان ہی دل میں بیماری ہے۔ منافق آدمی کی روح و قلب سکون کی حلات میں نہیں ہوتے وہ ہر وقت اضطراب کی کیفیت میں رہتا ہے، یعنی کہ اس میں ٹھہراو نہیں پایا جاتا، نفاق ہی کی وجہ سے لڑائی جھگڑا جنم لیتے ہیں اور یہ منافق لوگوں کی بنا پہ غیر مذہب لوگ اسلام کو ایک اشتعالی دین سمجھنا شروع ہوگئے ہیں، جب کوئی رول ماڈل ہی  نہ ہوگا تو کسی نے انکر سیکھنا نہیں کہ پہلے اس کو آپ اسلام کی تعلیم دیں تو پھر وہ سلسلہ میں آئے گا۔ اللہ یہاں برملا کہتا ہے کہ ان کے دل میں جو نفاق کی بیماری ہے وہ اس نے بڑھا دی ہے۔
واذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض، قالواانما نحن مصلحون۔
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو، تو وہ کہتے ہیں ہم ہی تو سنوارنے والے ہیں۔
بات یہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ تو زمین میں لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے والے ہیں اور جب ان کی نشاندہی کی جاتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو کچھ ایس اکیا ہی نہیں تم دیکھنا کہ ہم تو سنوار کے رکھ دیں گے۔یہاں ان کو فساد سے منع کیا گیا ہے کہ تم تو صریحًا گناہ کرنے سے نفرت نہیں کرتے تو اس عادت کو دوسرے لوگوں تک ایک موذی مرض کی صورت میں نہ پھیلاو، ایک اور مطلب یہ کہ منافق جا کر کافروں کو مسلمانوں  کے رازکی اطلاع دیتے کہہ اب وہ آئندہ کیا کرنے والے ہیں، یہ اس طرح فنکارانہ طریقے سے کفار سے ملتے کہ اگر کہیں پکڑیں بھی جائیں تو ان پر نام نہ آئے، مسلمانوں کو اپنی کفار سے ملاقات کا جواب یہ دیتے کہ تم تو خون ریزی کرتے ہو اور ہم تم میں اور ان میں صلح کروانا چاہتے ہیں مگر ان کے عزائم کو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوب جانتے تھے۔
الا انھم ھم المفسدون و لکن لا یشعرون۔ واذا قیل لھم امنو کما امن الناس قالوا انومن کما امن السفہاء، الا انہم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون۔  
 یاد رکھو(خبردار) بے شک یہ ہی مفسد(فسادی) ہیں اور مگر ان کو اس بات کا شعور نہیں ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لیں آئیں کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے، خبردار! بے شک یہی احمق ہیں مگر نہیں جانتے۔
یہاں ایک بات بہت واضح اور صاف ہے کہ یہ منافق ایمان لانے کو بےوقوفی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آخرت کس نے دیکھی ہے وہاں جو ہوگا تو دیکھا جائے گا، ہمیں تو کسی مرنے والے کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس کو جنت ملی یا جہنم، یہ سب علم غیب ہے کیوں پھر اس دنیا کی نعمتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، تو پہلے یہاں کی دنیا سے خوب لطف اندوز ہوجائیں۔ دنیاوی لذت و شہوت کی ان کے نزدیک بہے اہمیت ہے۔
 ان کو اصحابہ پاک کا ایمان لانا بہتر عمل نہیں لگا، تو پھر یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پہ کیا یقین رکھتے کیوں کہ قران یہاں خود ہی توضیح پیش کررہا ہے۔ ان اصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بات کی جارہی ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک لمحہ بھر کی جدائی کو زندگی کا ﷽را غم جانتے تھے، یہ منافق کہتا ہے کہ ان کے راستے کو اپنانا عقلمندی نہیں، اس منافق سے پوچھا جائے کہ اس نے اصحابہ کی قربانیوں کو شاید جانا نہیں، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے جو سختیاں سہی ہیں ، حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مالک ان کو اتنی مار مارتا کہ خود بھی تھک جاتا مگر آپ ' احد، احد' کہتے جاتے، یار غارِ مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایمان لانے کو بغیر تذکرہ کیے جانے دیا جائے جن لوگوں نے اپنی جانیں صرف اور صرف حضور عالم منور دوجہان صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مسکراہٹ کے لیے قربان کر ڈالیں یہ منافق بڑی آسانی سے ان کے ایمان کے ذکر کو عام سا کام گردانتے ہیں۔بے وقوف اور جاہل یہ خود ہیں، یہ لوگ اس وقت بھی تھے اور آج کل تو یہ عام کھلے پھرتے ہیں، جو یہ جانے کہ وہ نفاق سے پاک ہے وہ اپنا محاسبہ کرکے دیکھے۔    
حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کے پاس تین چیزیں لے کر ائے اور کہا کہ آپ ان  تین علم، عقل اور حیا سے کوئی ایک کا انتخاب کریں، تو حضرت نے عقل کو لے لیا، جبرائیل نے علم و حیا سے کہا کہ تم واپس جاو، انہوں نے کہا کہ ہم عالم ارواح میں ساتھ ہی تھے، لہٰذا علم دل میں اور حیا انکھ میں بس گئی۔ منافقین نے اصحابہ کرام کو بے وقوف کہا تو اللہ نے ان کو علم نہ رکھنے والا جاہل قرار دیا۔ اب یہاں ایک اور نقطہ بھی ہے ایک تو ان کی آنکھ میں حیا نہیں اورنہ دل میں علم اور نہ ہی دماغ میں عقل۔ جہاں جنت سے ایک آیا تو دو بھی ساتھ ائے، علم  عقل اور حیا۔
واذالقواالذین امنواقالوامنا۔واذا خلواالی شیطینھم قالوا انا معکم انما نحن مستہزءون۔ 
اور جب ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم ایمان لے آئیں ہیں، اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو اپنے شیطانوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان کا مذاق اُڑارہے تھے۔
منافقت کی یہ نشانی بھی ہے جو نہ صرف کہ زمانہ اقدس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھی بلکہ اب بھی ہے کہ منافق لوگ مسلمان کومل کر اس کے منہ پر اس کے اور تنہائی میں کفار سے ملتے تو ان کی چاپلوسی کرتے۔ ان کا یہ قول دین سے دشمنی ہے کہ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں کہ ہمایمان والے ہیں، ان منافقین کے گروہ نے دنیاوی عیش و عشرت کو ترجیح دی ہے اور ہمیشہ اسی کو مقدم جانا ہے۔
منافق ادمی کا ایک اور کام ہوتا ہے جس کے بارے میں پیرپیراں حضرت میراں شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ  مسلمان کے ساتھ ملاقات کے وقت خود خاموش رہتے ہیں اور دلی ارادوں اورخاص مشوروں سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ اپنے جیسے ہم نوالا کو جا کر بتائے کہ دلکھو اس کا یہ ارادہ ہے اور اب اسلام میں یہ انقلاب آنے والا ہے تاکہ ان ہی کے حامی ان کے علم کو سراہیں اور یہ اپنی تعریف سن سکیں۔اگلی ایت ملاحظہ کریں،
اللہ یستھزیء بھم ویمدھم فی طغیانہم یعمہون۔
اللہ ان سے استہزاکرتا ہے اور ان کو ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے ہیں۔       اگر منافق اللہ اور اس کے رسول کریم روف رحیم تاجدار الانبیاء سید المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحابہ کرام سے مذاقًا ملتے ہیں ان کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں تو کیا اللہ بھی ان کو ایسے ہی چھوڑ دے گا اللہ کی ذات مبارک ان کی سزا کا ذکر کررہی ہے، اس آیہ کا آغاز لفظ اللہ سے ہورہا ہے جس کا مطلب و معنی یہ ہے کہ اب اللہ خود ڈائریکٹ شامل ہے مسلمانوں کو ان سے انتقام لینے کی ضرورت نہیں ہے اللہ ہی کافی ہے،
اللہ ان کو ڈھیل دیتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کیا خوب مسلمانوں کو اپنے داو کا معلوم ہی نہیں ہونے دیا، ہم نے ان مسلمانوں کو اپنی باتوں میں ان کو ایسا اُلجھایا کہ وہ بے وقوف یہ بات ہی نہ جان سکے کہ ہم ان کے بارے میں دل میں کیا رکھتے ہیں۔ ان کی یہ سوچ ہے کہ اللہ نے ہمیں دولت ، مکان اور اولاد کی نعمت سے بھی نوازا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا وہ رب ہم سے ناراض نا ہوجاتا۔ اس نے کافروں کو بھی بہت دیا ہے، ہجرت سے پہلے مدینہ کے یہودی بہت سی نعمتوں یعنی مال و دولت و اسباب سے مزین تھے۔یہ منافقین جب مسلمانوں کی مالی حالت پہ نظر دوڑاتے ہیں تو ان کو گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید ان کی غُربت و مفلسی اور عجیب و غریب حالت زار اس بنا پر ہے کہ یہ اپنے رب کو اس طرح خوش نہ کرپائے جس طرح وہ حکم دیتا ہے مگر ان کے چہروں کی شادابی،  تروتازگی اور اطمینان ان کو حیرہ کیے رکھتا ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے اس مالی بحران کے باوجود یہ اسی دنیا میں خوش و خرم ہیں، یہ اللہ اور اس کے برگزیدہ بندگان با صفا کے درمیان ایک ایسا سربستہ راز ہے جو ان منافقین کی سمجھ میں کبھی نہ آئے گا۔ یہی ان کی سرکشی ہے کہ اللہ نے ان کو اس میں بہت خود کفیل کررکھا ہے۔
اولئک الذین اشتروالضللۃ بالھدی فما ربحت تجارتہم وما کانوامھتدین۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی خرید لی ہے مگر ان کی یہ تجارت ان کے لیے نفع بخش نہ ہوئی اور یہ کہ وہ ہدایت پانے والے نہ تھے۔
اللہ تعالٰی کی ذات ابھی ان کا ذکر کرتی ہے کہ یہ وہ گمراہ ہیں جو سودا کرنے میں غلطی پر ہیں اور ہدایت کے عوض اپنی بربادی کا سامان لیتے ہیں۔عربی قاعدہ کے مطابق اشتراء کو استحبوا بھی کہا جاتا ہے جس کے معانی پسند کرنے کے ہیں کیونکہ یہاں ایمان کی بات ہورہی ہے، ان منافقین کا یہ کام جان بوجھ کر ہے، جس کو انہوں نے خریدا وہ اس بات کی بابت نہیں جانتے کہ اس خریداری کا کیا انجام ہوگا۔ اللہ تعالٰی نے ان کی اس خرید کو تجارت سے تشبیہہ دی ہے۔ مگر ان کو اس بات سے ہدایت کبھی ان کا مقدر نہیں بن سکتی۔اس کی وجہ ان کی اسلام دین سے بے رغبتی کی وجہ سے ہے۔ اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھنا ہی ان کی غلط فہمی ہے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ اس لیے ملتے تھے  تاکہ ان سے دنیاوی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
مثلھم کمثل الذی استوقد نارا، فلما اضاءت ما حولہ ذھب اللہ بنورھم وترکھم فی ظلمت لا یبصرون۔
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے اگ روشن کی اور جب اس کا اردگرد جگمگا اُٹھا تو اللہ اُن کا نور لے گیا اور اُن کو گھُپ اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔
منافق ادمی کی مثال بیان کی جا رہی ہے کہ ان کی جلائی گئی اگ دکھاوے والی ہے نہ اس میں کوئی حرارت ہے نہ ہی کچھ صلاحیت کہ کوئی چیز اس پر تیار کی جا سکے۔ ان کی جلائی گئی آگ میں نور تو اللہ نے ختم کردیا اور باقی رہ گیا ظلم۔کیوں کہ نور کی ضد ظلم ہے۔ جب منافق لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت میں داخل ہوتے تو اس کے بعد ہی ان کی منافقت سامنے آجاتی،اور وہ اسلام سے دور ہوجاتے۔ اسی طرح کہ ایک بار آگ جلی اور بعد میں سب بے نور ہوگیا۔ اللہ تعالٰی کی ذات ہی یہ نہیں چاہتی کہ ان منافقین کے پاس نورمبین کا فیض ہو۔
پیرپیراں حضرت میراں شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ کئی مریدین سلسلہ بھی ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں ان کا حال من جانب اللہ کھولنے کی اجازت نہیں، جو لوگ کہ بیعت ہوئے، وعدے کیے، عہدوپیمان لیے گئے اور وہی لوگ بعد میں منحرف ہوئے ان کی مثال بھی ایسے ہی ہے، سلسلوں میں رہنے کے لیے پیر کی تقلیدو پیروی ایک لازم حصہ ہے،کیا اصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اسلام میں بیعت حاصل کرکے کام نہ کیا،یہاں تک کہ وہ اسلام کا پیغام لے کر پوری دنیا میں گئے، حتٰی کہ پاکستان میں پنجگور، پاکپتن شریف، سکھر اور پشاور میں اصحابہ کرام کی قبریں ہیں۔ یہ وہ پاک نفوس ہیں جنہوں نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ اعلیہ وسلم کے مشن کو جاری وساری رکھا او دنیا کے ہر حصہ میں دعوت اسلام کے لیے اپنا نام درج کروایا۔
صم بکم عمی فھم لا یرجعون۔
یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں سو وہ نہیں رجوع کریں  گے۔
ان کی یہ بیماری تو پہلے روحانی سطح کی تھی،پھر یہی جسمانی بن گئی، یعنی یہ بہرہ ، گونگا اور اندھا پن تو جسمانی ہیں۔اب ان کو نہ تو کوئی ہدایت کی بات سنائی دیتی ہے، نہ ان سے بات زبان سے ادا ہوپاتی ہے اور نہ ان کو دکھائی دیتا ہے، اللہ نے ان کی عطا کردہ قوتیں بھی ان سے چھین لی ہیں۔اب تو روحانی بات کے ساتھ ساتھ باقی جسم کو اللہ نے بے کار قرار دے دیا۔  
 اوکصیب من السماء فیہ ظلمت ورعد وبرق یجعلون اصابعہم فی اذانہم من الصواعق حذرالموت، واللہ محیط بالکفرین۔
یا بادل سے زور کا مینہ برستا ہے جس میں اندھیرے ہوں اور گرج و چمک ہو تو وہ اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھوستے ہیں کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
یہ آیت علامتی ہے، اس میں زور کا مینہ، بادل، اندھیرا، گرج، چمک اور کڑک شامل ہے۔ اس میں زور کا مینہ اسلام ہے، بادل اور اندھیرا مصیبتیں ہیں، چمک اور کڑک اسلام کی فتوحات ہیں، یہ سب اسلام کو اس وقت ملیں جب ابھی لوگ اسلام میں داخل ہورہے تھے ابھی ابتدائیہ کام تھا، مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابہ کو بہت ہمت و حوصلہ سے چلنا تھا۔ جب بھی اسلام پہ کوئی آنچ اتی تو یہ منافق ہل جاتے اور اسلام کو چھوڑنے کے در پہ ہوجاتے، اور جب اسلام کی فتح ہوتی تو یہ فورًا انعام لینے پہنچ جاتے۔ منافقین کی حالت ڈاواں ڈول تھی یہ لوگ کبھی بھی مُستحکم نہ تھی۔ ان کو اپنی موت کا ہر وقت ڈر رہتا کہ کہیں کسی حملہ میں وہ  مارے نہ جائیں، اور ان کی ایسی کیفیت دیکھ کر اللہ نے کہا کہ وہ ان کافروں کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے ہے۔
یکاد البرق یخطف ابصارھم کلما اضاءلھم مشوا فیہ، واذا اظلم علیھم قاموا، ولوشاء اللہ لذھب بسمعھم وابصارھم ، ان اللہ علی کل شی ء قدیر۔
قریب ہے کہ اللہ ان کی بینائی اُچک لے جائے، جب چمکنے لگتی ہے تو یہ چلنے لگتے ہیں اس کی روشنی میں، اور جب اندھیرا چھا جاتا ہے ان پہ تو کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہے تو لے جائےان کے سننے کی قوت اور بینائی، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس آیۃ میں منافقوں اور منکرین اسلام کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ اسلام کی چمک دھمک کو دیکھتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھاگتے لیکن جب وہ کسی اور قوت کا اسلام پر بلوا اور غلبہ ہوتے دیکھتے تو وہ اپنے شیطینھم یعنی کافروں کی طرف رُخ کرتے، اللہ کی ذات ان کی یہ دورُخی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ وہ چاہے تو ان کی بہنائی اور سماعت کی قوتیں ان سے چھین لے پھروہ کسی قابل نہ رہے، اللہ کے لیے یہ بات مشکل نہیں۔ اسلام کی ترقی و عروج پر تو یہ ہلے ہوئے بہت خوش ہوتے کہ اب مال غنیمت میں سے ان کا بھی حصہ ہوگا اور جب کوئی مصیبت ٹوٹ پڑتی تو یہ یا تو منظر سے دور ہوجاتے یا کھلم کھلا دین کا انکار کردیتے۔
پیرومرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ دامت برکاتہم العالیہؒ فرماتے ہیں کہ طالب مُولٰی کو چاہیے کہ وہ مستقل مزاج ہو، ہر کوئی محنت کرکے تھک جاتا ہے لیکن وہ اپنا کام کیے جائے، کسی جگہ رکے نہیں ، اللہ کے دربار گوہر پاک سے جڑے لوگ اس کی رحمت سے بالکل نا امید نہ ہوں، اس راستہ میں مشکلات اتی ہیں لہٰذا مرید کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اب اس راستے میں ناکام ہے، وہ لوگ جنہوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ملا وہ ایک اعتبار سے بہت خوش قسمت تھے کہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیی مصاحبت ملی، مگر افسوس کافی لوگ اس مرکزروحانی فیض و تجلیات سے کوئی ثواب یا اجر کے حقدار نہ ہوئے۔ اسی لیے تو اللہ کی ذات بار بار قرآن میں کہتی ہے کہ جو میرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اس کا مان لو، اور جو مانے تو وہ کیوں نہ ساری قوتیں اُچک لے جائے۔
جب ہم اس کے نبی پاک برگزیدہ ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جن کے نور کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ نور کو بارہ ہزار سال تک کبھی عالم محبت،خوف، رجا اور حیا وغیرہ میں رکھتا ہے، کیا تم رب کریم کے اس نبی کا انکار کرتے ہو یہ تو غنیمت جانو کہ حضرت محمد مُصطفٰی احمد مُجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم رحمۃ اللعالمین ہیں ورنہ جس طرح لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت نہیں جانتے یہ دنیا کب کی الٹادی گئی ہو۔
یا ایھا الناس اعبدواربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون۔
اے لوگو اللہ کی عبادت کرو جس نے تمہیں  اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاو۔
اس آیہ مبارکہ میں اللہ کی عبادت، اس کا لوگوں کو خلقنا اور تقوٰی کا بیان ہے۔پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے ک لفظ اعبدوا کے معنی و مطلب کیا ہیں، یہ لفظ عَبَدَ سے ہے جس کا معنی ہے اس نے عبادت کی، اللہ کے فرائض کو ادا کرنا اوراللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی اطاعت کرنا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو ایک مانے، اسی سے خوف اور اُمید باندھنا کہ وہی ہمارا خالق و مالک ہے، یہ ساری کائنات کا وہی ایک واحد آقا و مولٰی ہے۔وہ قدیم بھی ہے اورآخر بھی ، اس کے حکم کے کچھ ممکن نہیں۔ تبھی انسان کا ایمان لانا کارگرہوتا ہے، اگر ان خصائل کے بغیر ایمان لایا جائے تو پھر انسان کا ایمان مکمل شکل اختیار نہیں کرتا،اگر کسی کو اپنے رب کا علم نہیں تو اس کو اقرار عبودیت بھی حاصل نہیں،اور اگربندے کا خلوص، توکل اور رضا خالص اللہ کے لیے ہے تو اسے سب کچھ حاصل ہے۔ایک ہی بات کافی ہے کہ بندہ اپنے رب کے دینے یا نہ دینے کے بارے میں مُطمئن ہو کہ جب اس نے پیدا کیا ہے تو وہی ہے جس نے رزق کا وعدہ بھی کیا ہے، لیکن اپنی تئیں کوشش کرتا رہے اور بھروسہ اسی پہ رکھے۔
کلمہ اول جس کو افضل الذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہا جاتا ہے نفی کرتا ہے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول ہیں اللہ کے۔ تو انسان کے کامل یقین کی بدولت کمال عبدیت سر چڑھ کے بولنا شروع ہوجاتا ہے۔ انسان کو عروج مل بھی جائے تو اسی ایک بات کو پکاتا جائے کہ جو ہے وہ میرا اللہ ہے میں کچھ نہیں اپنی نفی کرے۔جو ہو تو وہ بھی اپنے مالک کی راہ میں قربان کرڈالے، یہ جو قربانی کا کام ہے اس میں بھی تو حجرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ وہ اپنے بیٹے کو قربان کریں تو وہ خلیل اللہ فورًا تیار ہوگئے، اصل حقیقت ہی قربانی ہے کیا حضرت امام حسین علیہ ا لسلام نے اپنی اور اہل بیت کی قربانی نہیں دی، کیوں نہیں ساری کائنات اس کی گواہ ہے اور یہ ہے عبادتی کا اصل کام۔
اتنی اللہ کی عبادت کرو کہ تمہارا سرکش نفس امارہ اور لوامہ کی منازل کو طے کرکے مُطمئنہ کو جا پکڑے۔ یہی مقام عبدیت ہے کہ جب انسان اللہ کے حقوق کو اچھی طرح پہچان لیتا ہے۔مومن بھی اسی شخص کو کہا جاتا ہے جو اس نفس سرکش کو مہار ڈالے اور اس کو اس کی سرکشی سے لگام میں رکھے۔ ہمت، مجاہدہ، ریاضت، تزکیہ، اوربرداشت ہو تو درجہ کا حصول ہوجاتا ہے۔  حضرت شاہ محمد امین شاہ ؒ کا فرمان ہے کہ سالک کا تو حصول ہی اللہ کی ذات ہوتی ہے۔مزید فرماتے ہیں کہ جس نے نفس پہ قابو پالیا وہ محقق ہوگیا۔
    اب معاملہ اتا ہے کہ ہمارے رب غفورو رحیم نے ہمیں خلق دیا۔ سورۃ نوح میں اللہ فرماتا ہے' وقد خلقکم اطوارا' حالانکہ طرح طرح سے اس نے تمہیں بنایا ہے۔ انسان کی تخلیق کے باقاعدہ درجات اور طریقے ہیں جن کے تحت اس کی پیدائش ہوئی، یہ ایک سائنس ہے جس پہ لوگوں نے کئی کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ پہلے انسان اپنے ماں اور باپ کے صُلب میں ہوتا ہے، دونوں کے ملاپ سے ماں کے رحم میں اتا ہے اور وہاں اس کی نمو کا آغاز ہوتا ہے۔ وہاں اس کو ساری قوتیں اور صلاحتیں درکار ہوتی ہیں جن کی ودیت کے بعد وہ دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ وہ رب چاہتا تو وہی تمہیں مار ڈالتا اس وقت تو انسان اسی کے بس میں ہوتا ہے، مگر انسانی عقل و دانش مرنے تک یہی سمجھتی ہے کہ وہ پہلے بی آزاد تھا یعنی وقت نشوونماو پیدائش اور اب بھی۔ اللہ تو خود ہی ہمیں کہتا ہے اور یہ بات اس آیہ سے صاف ظاہر ہے کہ اے بندو تم میری عبادت کرو تاکہ تم پرہیزگار بن جاو۔ جب اللہ سے رابطہ مضبوط ہوجائے تو تقوٰی کا حاصل ہونا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی لیے تو انسان عقل و محبت کے ذریعے ' شعلہ ہارا باوجودش رابطہ است' کرلیتا ہے۔
یہاں پوری بنی نوع انسانیت سے خطاب ہے، یہاں اسلام کو لوگوں کے لیے پسندیدہ مذہب بھی قرار دینا اللہ کی رضا ہے، اور پھر ان کو ان کا کیا گیا وعدہ یاد کروایا جا رہا ہے کہ تم ہمیں بھول گئے مگر ہم تم لوگوں نہیں بھولیں، کہ ہر وقت تمہارا خیال رکھا کون تھا جو ان کو انکی ماں کی پیٹ میں خواراک دیتا اور ان کی طاقت کو بحال کرتا رہا،ہم نے تمہاری طرف تمہارے واسطے اپنا برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبوث کیا تاکہ ان کے نقش قدم پہ چل کر تقوٰی کو پکڑ لو۔
الذی جعل لکم الارض فراشا و السماء بناء و انزل من السماء ماء فاخرج بہ من الثمٰرت رزقًا لکم فلا تجعلواللہ انداد و انتم تعلمون۔
 وہ جس نے زمین ککو تمہارے لیے بچھونا بنایا اور آسمان کو عمارت، اور آسمان سے پانی اتاراپھر اس سے پھل نکالے تمہارے کھانے کے لیے بس اللہ کے مد مقابل کسی کو نہ ٹھہراو اور تم جانتے ہو۔
جب انسان عبادت کرتا ہے اور اپنی تخلیق کو بھی بخوبی جانتا ہے تو اس کو اس کے صلے میں جو تقوٰی حاصل ہوتا ہے وہ اس کی روحانی قوت ہے، اسی کو اللہ تعالٰی کی ذات بیان کرتی ہے کہ اس نے انسان کو محض پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس کے لیے زمین کو فرش بنایا ، اس نے اس کو نرم بھی کیا تاکہ وہ اس میں کھیتی کر سکے اور اس میں اپنے مکان بنا کر رہائش رکھے، اسمان کو چھت بنایا، اس بات کو یہی ختم نہیں کیا اس سے بارش برسائی جس نے مردہ مٹی زندگی بخشی اور اس میں جان آتے ہی اس میں سے طرح طرح کے لذت سے بھرے اور الگ ذائقہ کے پھل بھی پیدا کیے، جو اپنی جسامت، خوشبو اور خسوصیت میں مختلف ہیں، قابلل غور بات جو اللہ کے نزدیک بڑا گناہ ہے یعنی شرک سے منع کیا کہاللہ کا شریک نہ ٹھہراو یہاں پھر ایک مرتبہ توحیدی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس آیہ کا ایک پہلو جو جسمانی تھا کہ زمین کو اسمان نے ڈھانپ رکھا اس سے بارش برستی اور سیرابی کے اس میں سے پھلوں کا ذکر ہے، مگر دوسرا پہلو روحانی ہے، وہ کیا ہے کہ عبادت کے ذریعہ تیاری ہے تقوٰی کی اور اس کی نسبت نیک بختی، نجات اورقرب الہٰی کے پھل ملتے ہیں، اپنے قلبی تعلق کو اپنے اللہ کے ساتھ مضبوط کرلو، اسی طرح جیسے زمین اور اسمان کا یہاں ذکر ہے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت و رسالت اور رحمۃ اللعالمینی نے ساری کائنات کو گھیرے رکھا ہےاسمان دینے کے لیے اور زمین لیے کے لیے ہے،یہ علامتی باتیں ہیں جو اللہ تبارک و تعالٰی ہم انسانوں کو سمجھھاتا ہے، اس خدا کی عبادت بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ہم تک پہنچائی اور عملًا نماز سکھائی، قرآن کے تلفظ کو ہہہم تک پہنچایا، یہ انزل من السماء ماء فاخرج بہ من الثمرت کیا ہے کہ پھر ان سے توحید کی خوشبو انے لگی، اسی بات کو حضرت سُلطان باہُوؒ فرماتے
الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے مُرشد من وچ لائی ھُو
اندر بوٹی مُشک مچایا جان پکُلن پہ آئی ھُو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہرجائی ھُو
جیویں مرشد کامل باہُو جی ایں بوٹی لائی ھُو
اور حضورپاک رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کا کام تو پوری بنی نوع انسانیت کی ہدایت و سرپرستی کا ہے، اغاز پہ ہی یاایھاالناس کہا گیا یہاں کافر مشرک منافق مومن اور مسلمان سب آگئے کوئی بھی اللہ اور اس کے ببرگزیدہ بندے با صفا کی رحمت سے پرے نہیں خالی نہیں بلکہ ایک ہی آن میں سب کو شامل کرکے خطاب ہے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت تمہارے وجود اور دل پر بارش بن کر برستی ہے تو اس سے رزلٹ لازمی ہے۔ بس تم اس کی کہی ہوئی بات سے انکار نہ کرو کہیں یہ نہ ہو کہ تم شرک کرنے والوں کی لسٹ میں گنے جاو۔
وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ ودعوا شہداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔
اور اگر تمہیں اس میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے خاص بندے برگزیدہ پر نازل کیا تو پس لے آو اس کی طرح کی کوئی سورۃ اور لاو اللہ کے سوا اپنے حمایتیوں کو اگر تم سچے ہو۔
یہ آیۃ مبارکہ عرب و عجم کے لوگوں کو ایک عالمگیر خطاب ہے جس میں ان کی پراگندہ نفسیات کے بارے میں ایسا پردہ اُٹھایا ہے کہ معلوم ہوگیا کہ انسان کا یقین پُختہ نہیں، اور نہ ہی وہ اس قابل ہے کہ اا کا کوئی جواب دے سکتے۔ بس انسانی گیدڑبھبھکیاں بہت ہیں۔
جب پہلے توحیدی مسائل کو اُجاگر کیا گیا تو اب اس آیۃ میں نبوت و رسالت کا مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی ذات کہتی ہے کہ اگر تم لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے کوئی آیت گھڑ کر تمہیں سنا دی ہے تو تم ایسی ہی کوئی اور بنا کر لے آو،یہاں مما نزلنا سے مراد ہی کتاب قرآن ہے، علی عبدنا یعنی اپنے خاص اور مقرب بندہ پر نازل کیا گیا، عرب کے کافر اکثر بیشتر یہی باتیں کیا کرتے کہ کلام الہٰی تو اس شخص پہ نازل کیا جاتا جو مال و دولت رکھتا اور تو اور انہوں نے تو کسی سے علم بھی نہ سیکھا ان پہ یہ کیسے اتر سکتا ہے۔ انہیں یہ بات ہی معلوم نہ تھی کہ خود رب جو مالک ملک ہے، کُل شئی قدیر ہے جو اس کائنات کو تخلیق کرنے والا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استاد ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اللہ نے اپنے پاس رکھی ہے۔ یہ بات اللہ کی ذات با برکات ہی جانتی ہے کہ اس نے پتا نہیں حضور عالی دو جہان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں کس دل سے بھیجا ہوگا کیونکہ دونوں کے عشق کا کیا کہنا کسی کو کیا معلوم ہے کہ یہ دو ہستیاں دنیا کی تخلیق سے کتنی پہلے کی ایک دوسرے کے دیدارمیں رہی ہیں۔ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہر ادا پر فرشتے جھومتے ہیں، بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات کریمہ ہے تو یہ بات بنی ہوئی ہے، ورنہ صدیوں کے بھجے ہوئے دلوں کو کون روشن کرسکتا ہے۔
اصل میں عرب کے شاعر چند اشعار کو جوڑ کے ایک دیوان تیار کر لیا کرتے تھے اور اس وقت کی شاعری کا عنوان شراب،گھوڑا، معشوق اور بادشاہ وغیرہ کی تعریف تھی لیکن یہ بلندوبانگ قصیدے مبالغوں اور تشبیہات سے پُر ہوتے تھے۔ شاعر حضرات سیدھی اور صاف بات نہ کرتے اور جب نزول قرآن ہواتواس کا ہر مضمون واضح ایات کے ساتھ اتارا گیا جو سچائی پہ مبنی تھا۔ عرب کے شاعر دیکھی ہوئی باتوں کاکلام لوگوں کے سامنے پیش کرتے تو لوگ ان کی لچھے دار باتوں پر واہ واہ کی صدائیں لگاتے۔ قرانی ذوق و علم اپنی بصیرت میں اور مشاہدہ فطرت انسانی میں اللہ کی بتائی ہوئی باتیں تھیں، وہ خالق و مالک ہے جس نے یہ کائنات و انسان و جن و فرشتوں کو چوپایوں کو زمین پر بھیجا اس کا ایک خاص مقصد تھا، اس نے تو حضرت آدم علیہ السلام کو اتنا علم عطا کیا کہ جس نے فرشتوں کو عاجز کردیا۔
قران پاک کا یہ اعجاز رہا ہے کہ وہ بے دیکھی چیزوں کی بات کرتا ہے اور اس طرح سے اس نے اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کے دلوں کو مسخر کیا کہ جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان ہی من دون اللہ کے ساتھ رہنے والوں نے جب حضور مطہرو اطہر منور روشن سراج منیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن سنا تو ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوگیا۔ کفا ر کو اپنے حسد اور علمی برتری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بغض و عناد تھا بس اسی کی وجہ سے وہ مخالفت پہ اتر ائے۔
قبول اسلام سے پہلے قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو اسلام کے نام سے ہی بڑی بیزاری تھی مگر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب ان کو قران پڑھ کر سنایا تو ان کا دل پسیج گیااور وہ اتنے متاثر ہوئے کہ اسلام قبول کر لیا۔
نجاشی عیسائی بادشاہ تھا اس نے جب حضرت جعفر بن طیار رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے سورہ مریم کی تلاوت سنی تو وہ دم بخود رہ گیا ، مختصر یہ کہ وہ بھی مسلمان ہوگیا۔
عتبہ بن ربیعہ جو عربی قبیلے کا ایک بڑا خطیب مانا جاتا تھا جب اس نے خود حضور علیہ اللصلوۃ والسلام احمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن سنا تو درخواست کی کہ وہ اس عظمت والے کلام کو نہیں سُن سکتا اس کا دل پھٹ جائے گا۔
مکہ کے بدگمان سردارجو اسلام سے ایک خاص دشمنی رکھتے تھے جب یہ بات ان کے علم میں ائی کہ قبیلہ اوس کے تین اور خزرج کے نولوگوں کو سردار بنا دیا گیا ہے تو وہ بہت اگ بگولہ ہوئے۔ جو بھی قرآن ایک بار سُن لیتا تو وہ اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا، اور یہ لوگ کہتے ہیں 
 کہ ان کو شک ہے۔
 23۔ فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقو النارالتی و قودھا الناس والحجارۃ اعدت للکفرین۔
پھر ایسا نہ کرسکو اور ہرگز ایسا نہ کر سکو گےتو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
یہ آیت کافروں کے مستقبل کی طرف ایک کھلا اشارہ ہے جس میں علم غیب بھی بیان کیا گیا ہے یعنی ولن تفعلوا اور ہرگز نہ ایسا کر سکو گے اور اس میں کیا جھوٹ ہے کہ کافر آج تک اس قرآن عظیم کے مقابلے میں کوئی اور سورت تو کیا ایک آیت بھی نہ لا سکے۔ حضور تاجدار مدینہ نبی مُرسل و ختم الرسل خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ کوثر لکھواکر عرب کے دستور کے مطابق باب کعبہ پر آویزاں کردی یہ سورہ کئی روز تک وہاں لٹجتی رہی مگر کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس کا جواب دے سکتے، آخر ایک شاعر نے ایک فقرہ لکھا" لیس ھذا طاقۃ البشر"۔
قرآن حکیم فرقان مجید نے تو کافی جگہوں پہ کہا ہے کہ اس جیسی کوئی ایت لے او تو رب نے خود ہی فرمادیا کہ لن تفعلوا' ہرگز ایسا نہ کرپاو گے' تو اس کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے جس کی کوشش کی جائے۔اکثر منکرین اسلام کہتے ہوئے پایے گئے ہیں کہ  جی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا تو یہاں یہ جزو آیت کیا آپ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہہ رہے یہ تو اللہ نے جو علم دیا جو عنائیت کی اسی کی پاسداری کی گئی ہے کہ یہ اس طرح کی کوئی بھی ایت نہیں لا سکیں گے۔ تو تیار ہوجائے یہ کافرین اس آگ کے لیے جو پتھروں کے ساتھ سلگائی جائے گی۔
اس سے پہلے کہ وہ اس میں ڈال دیے جائے ان کو وارننگ دی جارہی ہے کہ وہ ایمان لے ائے تا کہ وہ اس کا سامان نہ بنیں۔ اس میں جن پتھروں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مطابق گندھک کے پتھر ہیں جن کے جلنے کی بدبو بی زیادہ ہے، یہاں ایک روحانی نقطہ ہے اور وہ یہ کہ ان کے دماغوں کو جب گندھک کی بدبو چڑھے گی تو ان کا دماغ میں مچا ہوا فتور بھی اس کے ساتھ بھسم ہوجائے گا جو اسلام کے خلاف دنیا میں رکھا کرتے تھے۔ سزا ہر ایک اعتبار سے اپنے آپ میں مکمل دی جائے گی۔ اللہ کا مقابلہ نہ تو اج تک کوئی کرپایا ہے اور نہ کبھی کرسکا ہے جن میں فرعون، نمرود، شداد اور یزید کی مثالیں ہیں۔     
 24۔ وبشر الذین امنوا و عملوا الصلحٰت ان لھم جنت تجری من تحتھا الانھار، کلما رزقوامنھا من ثمرۃ رزقا، قالوا ھذا الذی رزقنا من قبل واتوا بہ متشابھا و لھم فیھا ازراج مطھرۃ وھم فیھا خالدون۔
اور بشارت دیجیے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے ان کے لیے جنت کے گھنے باغات ہیں،جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جب ان کو ان باغات میں سے پھل کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہے جو ہمیں دنیا میں کھانے کو دیا گیا تھا حالانکہ ان کو اس سے ملتا جلتا پھل دیا گیا ہوگا، اور ان کے لیے پاک بیویاں بھی ہونگیں اور وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔
سورۃ البروج میں بھی انہی لوگوں کو ذکر آیا ہے " ان الذین امنوا و عملوا الصلحٰت لھم جنت تجری من تحتھا الانھرا، ذلک الفوز الکبیر۔ سورۃ البروج ۔آیت 11
اس آیہ مبارکہ میں ان عملی اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی اگر توضیح کی جائے تو وہ ایمان والے اور صالح لوگ ہیں، یہ مقام اتنی آسانی سے نہیں مل جایا کرتا، یہ وہ جانثار ساتھی ہیں جنہہوں نے اپنی مال و دولت، اولادم مکان و جائیداد کی پرواہ نہ کی اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ مکہ کو الواداع کہہ کر مدینہ جا کر اپنا مسکن بنا لیا، انہی اصحاب نے تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خاطر بہت اذیتیں برداشت کیں، یہ پہلے تو ایمان لائے، اتباع کی ، اطاعت میں پیچھے نہ ہٹیں، محبت میں مر مٹے، تعظیم میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے رہتےاور مدحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے علاوہ کسی کا کام نہیں تو کیوں نہ اللہ کی ذات صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو نہ نوازتا، ان کے انعام و اکرام میں ان کو جنت ،اس کے پھل جن کی شکل و شباہت چاہے دنیاوی ہو مگر ان کے ذائقے اور لذت دنیاوی نہیں، بہتی نہریں، باغات،ان کی بیویاں ہر طرح کی نجاست سے پاک ہونگیں۔حضرت سعید بن عامر بن حذیم رضی اللہ عنہ ایک حدیث روایت کرتے ہیں " میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر اہل جنت کی ازراج میں سے کوئی عورت جھنکے تو تمام روئے زمین مُشک کی خوشبو سے بھر جائے اور سورج و چاند کی روشنی ماند پڑجائے۔"
ایمان اور عمل صالح ہمیشہ ایک ہی بات کے دو پہلو ہیں، ان کو الگ بیان نہیں کیا جاسکتا،اگر ایمان لے آیا جائے تو عمل صالح کے بغیر بات ثمر آور نہیں ہوتی، عمل صالح کا تعلق علم ، نیت، صبر اور اخلاص سے ہے۔
علم شریعت کا حصول سب سے پہلے لازمی بات ہے تبھی انسا کے عمل میں سمجھ بوجھ اور بصیرت پیدا ہوتی ہے، سب باتیں اسی وقت ممکن ہیں جب ہم علمی لحاظ سے اس کو پرکھتے ہیں۔علم ہوگا تو نیت کا پایا جانا بھی امکانات نہیں بلکہ ضروری بن جائے گا، نیت ہی اعمال کی شروعات ہے۔ اللہ نے نیت کو عمل سے بہتر کہا ہے۔ اچھی نیت کا اجر فورا انسان کے اعمال نامے میں لکھ دیا جاتا ہے،علم کا حصول کوئی آسان کام نہیں اس میں صبر کرنے کا حکم ایا ہے، صبر ایک کڑوی دوائی کی طرح ہےجس کی تیزی اور تلخی کو اگر ایک بار برداشت کر لیا جائے تو اس کا نفع سالہا سال ملتا رہتا ہے، اصحابہ پاک نفوس تھے انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے ذریعے پوری دنیا میں انقلاب برپا کیا، اب اس میں ایک اور بات ہے س کا نام اخلاص ہے۔
اخلاص صحیح اعتقاد سے ملتا ہے، اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ ہوگی تو اس سے عمل غارت ہوجاتا ہے۔ وہ عبادت جو اللہ کی خوشنودی اور خالص رضا کے لیے کی جائے اس میں جزاوسزا یا دنیاوی غرض و غایت نہ ہو، صرف اسی کی سرشاری میں عمل ہو تو اس کو اخلاص کہا جاتا ہے جن میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے اترتے ہیں۔
اس آیت میں انسانی فطرت بھئ بیان کی گئی ہے کہ انسان تین طریقوں سے جنت کے حصول کے درپے ہے، ایک لالچ، دوسرا ڈرسے اور تیسرا دلیل سے۔ اس ایۃ میں دلیل کے زریعہ بات کی جارہی ہے کہ جنہوں نے اچھے اعمال کیے ہیں اب وہ مستحق ہیں کہ جنت میں رہیں اور طرح طرح کی نعمتوں سے ابدی طور پر لُطف اندوز ہوں۔
جن لوگوں نے اپنے دل کو ایمان اور صالح عمل کا پانی دیا توانہوں نے یہی اس دنیا میں ایسے باغات لگا دیے جن میں قناعت، حیا، زُہد، توکل، تقوٰی، توکل، اخلاص، رغبت، معرفت، وفا، سخاوت، شجاعت، صدق وصفا، نورانیت اور نور کے درخت ہیں۔ ان ناموں میں حضرت فخرالاولیاءؒ چاٹگامی، حضرت نبی رضا خانصاحبؒ رام پور بھنسوڑی، حضرت شاہ عبدالشکورجیون ہانہؒ، حضرت علاءالدینؒ ککی نو اور حضرت شاہ محمد امین شاہؒ لاہوری شامل ہیں۔
25۔ ان اللہ لا یستحی ان یضرب مثلا بعوضۃ فما فوقھا فاما الذین امنوا فیعلمون انہ الحق من ربھم واما الذین کفروا فیقولون ماذا اراد اللہ بھذا مثلا یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا و ما یضل بی الا الفسقین۔
بے شک اللہ شرم نہیں کرتاکہ کوئی بھی مثال بیان کرے وہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر ہوتو جو لوگ ایمان لائے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا کہ ایسی مثال سے اللہ کو کیا سروکار، اللہ ایک ہی مثال کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس طرح سے صرف ان ہی کو گمراہ کرتا جو پہلے ہی نافرمان ہیں۔
رب تعالٰی کی ذات لوگوں کو مثال دے کے کر سمجھانے میں کوئی عار نہیں کرتی وہ نہ تو کسی سے ڈرتا ہے، نہ اپنے کام کو چھوڑتا ہے اور نہ وہ منع ہوتا ہے۔ اصل بات تو حقیقت کا بیان ہے اور اگر اس میں مثال کا ذکر ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اس آیۃ سے پہلے بھی اندھیرے، بجلی، کڑک،گرج، بارش اور چمک کا بیان آیا ہے جس پہمشرکین نے بہت اعتراض کیا کہ اللہ تو بڑی ذات ہے وہ اس طرح کے بیان کیوں دیتا ہے۔عقلمند لوگ تو مثال کو بہت پسند کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ بات میں گتھیاں کھل جاتیں ہیں۔
اللہ پاک نے کائنات میں کوئی چیز بھی بغیر مقصد نہیں بنائی، اس نے مکڑی کے جالے کی وجہ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غارثور میں مدد کی اور پھر ایک بوڑھے مچھر نے نمرود کو ایسی سزا دی کہ جس کا ذکر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم ہوگیا۔
سورۃ القارعۃ میں ایت 4 میں اللہ فرماتا ہے " یوم یکون الناس کالفراش المبثوث" وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہونگے۔ تو کیا یہاں لوگوں کو پروانوں کی طرح نہیں کہا گیا ، یہ رب کریم کا ایک طریقہ ہے کہ لوگوں کو ان کی سمجھ اور حالت کے مطابق سمجھانا چاہتا ہے۔
اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور کافروں کا کفر اور بڑھ جاتا ہے۔یہ سب اللہ ہی کی قدرت اور مرضی کی بنا پر ہوتا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت 115 میں ہے " و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولی ونصلہ جھنم وساءت مصیرا۔" اور جو اس راہ پر چلے جو مسلمان کی راہ سے الگ ہے تو ہم پھرنے دیں گے اس کو اس طرف جدھر وہ خود پھرا ہے اور ڈال دیں گے اسے جہنم میں اور یہ بری پلٹنے کی جگہ ہے۔
اس میں انہی نافرمانوں کا زکر آیا ہے جو اللہ کی آیات کے منکر تھے یعنی کھلم کھلا بازاروں میں لوگوں کو بھڑکاتے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پہ دھیان نہ دویہ کیسا کلام ہے جس میں چھوٹی باتوں کا بیان ہے۔ ظالم کفار اپنے تئیں زور لگاتے رہے مگر اسلام سچا دین ہونے کی وجہ سے پورے عرب و عجم میں پھیل گیا۔
26۔ الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل و یفسدون فی الارض، اولئک ھم الخسرون۔
جو لوگ اللہ کے عہد کو توڑدیتے ہیں پختہ کرنے کے بعداور اس تعلق کو کاٹتے ہیں جس کا اللہ نے حکم دیا ہےکہ اسے جوڑا جائے اور زمین میں فسادکرتے ہیں، یہی لوگ خسارہ اُٹھانے والے ہیں۔
اس میں ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اللہ کے عہد کی پرواہ نہیں کرتے، صلہ رحمی کا کچھ خیال نہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں۔
لفظ ' عہد' سے مراد یہاں وہی مطلب لیا جارہا ہے جو اس نے انبیاء کرام کے ہاتھوں مخلوق تک پہنچائے یعنی اوامرو نہی کہ لوگ کیا اختیار کریں اور کس سے اجتناب کریں، یہ معاملہ اللہ کی مرضیات سے ہے۔ دوسرا وہ عہد جو اہل توریت والوں سے لیا گیا کہ جب میرا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم معبوث ہو تو ان کی تصدیق کرنا اور ان کی نبوت پر ایمان لانا، تیسرا یہ وہ عہد ہے جو ساری ذریت آدم سے لیا گیا 'الست بربکم قالو بلٰی'۔ سورۃ الاعراف،172 اس ایت میں تو واضح بیان ہے کہ اللہ نے ساری ذریت آدم سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب یک زبان ہوکر بولے بالکل رب ہو، اللہ نے اپنے پاس اس بات کو گواہی رکھا تاکہ کل روزقیامت مخلوق اس اقرار کا انکار نہ کرسکے۔
اب جس طرح کہ ذکر آیا ہے کہ اس عہد کو نقض یعنی توڑا جا رہا ہے یا اس کی پرواہ نہیں کی جارہی تو اس میں وہی لوگ نقصان میں ہیں جو اس کو نبھا نہیں رہے، اللہ نے تو اپنی زمہ داری پوری کردی اور اس سے متعلق سامان بھی مہیا کردیا اب اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پہ اسے نہ کرنا انسان پہ ایک بوجھ ہے۔اس میں انبیاء، داعی اور علماء کا کوئی نقصان نہیں۔
ایک اور اہم نکتہ کہ اکثر بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ لوگ یقطعون پائے گئے ہیں ، کاٹنے والے، قطع تعلق کرنے والے، حالانکہ شرع کی تعلیم و تربیت معاشرہ کا سدھار ہے، ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے جھگڑنے میں نہ تو اللہ نے برکت رکھی ہے اور نہ اس میں اتفاق و یگانگت ہے۔جن رشتوں کو توڑا جاتا ہے، ان کی دو اقسام ہیں، ایک جسمانی اور دوسرا روحانی۔
کامل ہے وہ شخص جو ان رشتوں کو اپنائے اور اہنی ذمہ داری کو سمجھے،جسمانی لحاظ سے پہلے ماں باپ اس کے بعد بہن بھائی، بیوی، اولاد اور قریبی لوگ۔ روحانی رشتوں میں اللہ،انبیاء، آسمانی کتابیں، علماء و مشائخ اور عام مسلمان۔
جو لوگ ایمان لے آنے کے بعد بھی ان درج بالا رشتوں سے کنارہ کش ہوتے ہیں تو یہی فسادی ہیں، ان میں وہ افر بھی ہیں جنہوں نے اہل مکہ و مدینہ  کو اسلام قبول کرنے سے روکا، انہیں ہر طرح سے ڈرایا دھمکایا، اذیتیں دیں کہ وہ کسی طرح سے اس راہ للہ سے باز رہے۔قبل اسلام رشتوں کی پاسداری خسارے کا شکار تھی، آپ سرکار رحمت دوجہان بندہ پروردگا صلی اللہ علیہ وسلم کی کیمیاء گری نے لوگوں کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا۔ حضور اکرم والضحٰی کی محبت نے سب کو انمول کردیا، وہ اہل مکہ جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے جب ان کی نظر نگاہِ مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملی تو دل میں پیار ومحبت کا دریا ٹھاٹھے مارنے لگ جاتا۔
جب ہم یہ کہہ کر دین کرتے ہیں کہ یہ دین وہی کس کو ہمارے آقا و ماوٰی حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم لے کر آئے ہیں تو ہم کو سمجھ جانا چاہیے کہ ہم بھی اصحابہ کرام کی طرح خوب شوق و ذوق سے علم دین میں اگے بڑھے۔
پیرومُرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ  اسی تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عہد کی پابندی کرنی ضروری ہے اس کے بارے میں سوال ہونگے، لوگ ہمارے یہاں مرید ہونے اتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے رومال پکڑ کر نہیں بلکہ ہمارے ہاتھ پر بیعت لینی ہے، بیعت ہاتھ پہ کریں یا رومال پر معاملہ تو عہد نبھانے کا ہے کہ اس کے پیچھے محرک کیا تھا۔ سلسلہ کے بارے میں بہت سی باتیں جاننے کی جستجو میں رہتے ہیں ، حالانکہ جو عمل بتایا گیا ہے پہلے اس کو تو مرید پورا کرتا نہیں اور آگے کی باتیں جاننا اس کو ضروری ہوجاتا ہے، حضور عالی قدر مرتبت ؒ نے فرمایا کہ ایک نقض اور دوسرا قطع کا معاملہ انسان کو رہبانیت کی طرف لے جاتا ہے ، ایسا کرنا اس کے دل اور دماغ کو زنگ لگا دیتا ہے، اکثر پیر بھائیوں سے اختلاف کون لوگ رکھتے ہیں جو ہندووں کی طرح سوچتے ہیں تو ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کو اپنی جناب سے ہدایت و توفیق عطا کرے۔ وہ ہر بات کو منفی انداز سے ہی کرتے اور سوچتے ہیں یہاں اگر وہ خاموش رہے تو ان کے حق میں اچھا ہے۔ ہم نے اکثر ان کو سمجھایا کہ اس طرح تم غصہ کی حالت میں کچھ کیا بالکل کورے رہ جاو گے، کئی مریدین سے ہم نے سوال کیا تو وہ جواب بھی نہ دیتے تو ہم نے ان سے پوچھنا چھوڑ دیا اور ان کو ان کے حال پہ خیرباد کہہ دیا۔
حضرتؒ نے فرمایا کہ پیر کا ایک ظاہری مرید ہوتا ہے اور ایک باطنی، ظاہری جو آپ کو سلسلہ میں شامل نظر اتا ہے اور دوسرا سلسلہ میں کوئی کام کرتا ہوا نظر اتا ہے جس طرح کہ اصغر صاحب ہیں ہم نے ان کو نعت گوئی کا کہا اور انہوں نے اس کو خوب نبھایا، ماشاءاللہ۔ اسی طرح اور حضرات بھی ہین جن کی وجہ سے ابھی سلسلہ پہچانا جائے گا، یہ لوگ باطنی مرید و طالب ہیں۔
اولئک ھم الخسرون وہی ہیں جنہوں نے ان تمام رشتوں کو توڑا اور ان سے منحرف ہوئے، ان میں کفار، منافق، مشرک کا شمار ہے۔
27۔ کیف تکفرون باللہ و کنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون۔
تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہواور تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاوگے۔
کفا ر سے حیرت اور تعجبیہ انداز میں پوچھا جا رہا ہے کہ اللہ کی اتنی کھلی نشانیاں دیکھ کر بھی تم اس کا انکار کیے دیتے ہو۔ لفظ ' کیف' کا معنی ہی کس طرح ہے۔
یہ آیہ اللہ کی مالکیت اور حاکمیت کو کھلے لفظوں میں بیان کررہی ہے کہ وہ جیسے چاہے اور جب چاہے ہر چیز پر قادر ہے یہاں موت و حیات کے بارے میں کوئی حصار نہیں باندھا جا سکتا۔یہ اللہ کا ایک سلسلہ ہے جو شروع سے چلتا ارہا ہے، اسی رب کائنات نے انسان کی پیدائش اور موت کے درجے بہ درجے وقت مقام اور حال قائم کر رکھے ہیں۔ آئیے یہ کیا ہیں؟
عالم ارواح- جب انسان کو وجود عنصری نہیں ملا ہوتا، یعنی وہ اپنے باپ کی صلب اور ماں کے رحم میں جاگزیر نہیں ہوتا، ابھی اس کی روح اپنے رب کے پاس ہوتی ہے اس دنیا میں اس کا آنا مقدر ہوتا ہے اگر اس کا مقدور باپ اور ماں میلاپ کریں۔
عالم شہادت-  جب انسان کو حیات عنصری بخش دیا جاتا ہے، یہ دنیاوی زندگی کے اختتام تک رہتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کا دوسرا پہلو ہے،اللہ کی ذات بابرکات فرماتی ہے کہ ہم نے تمہیں ایک نطفے سے پیدا کیا، پھر اس کو گوشت کے لوتھڑے میں بدلا، اسی لوتھڑے میں خون اور ہڈیاں نمو پائی اور بہت سی منازل سے گزار کر تمہیں انسان بنایا، اے انسان تمہیں ہم نے بہت سی حالتوں سے گزارا جن میں بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا ،تندرستی، بیماری، صحت، خوشی اور غمی اور نہ جانے کئی حالتوں سے گزارا، مگر تم یہی کہتے ہو جب تک ہم تمہیں موت نہیں دے دیتے کہ یہ سب تمہاری کارستانی ہے، کیا تم جوانی کو روک سکے اور بڑھاپے کو ٹال سکتے ہو، جب تک ہم نہ چاہے ایسا کرنا نا ممکن ہے۔ جو خدا تمہیں اتنے پیچیدہ مرحلوں سے گزار کرپیدا کرتا ہے اس کے لیے کچھ بھی لا محال نہیں۔  
سورۃ القیٰمۃ میں آیت 40 میں اللہ کا فرمان عالی شان ہے
الیس ذلک بقدر علٰی ان یحی الموتی۔ کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کرے۔
ایسے بے ڈھنگوں کے بارے میں اسی سورہ میں ہے
ولکن کذب وتولی۔ ثم ذھب الی اھلہ یتمطے
مگر اس نے سچ نہ مانا اور نہ نماز پڑھی بلکہ جھٹلایا اور پلٹ گیا، پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا۔
سورہ یٰس میں بھی ہے کہ " کیا وہ جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہہ ان جیسوں کو پھر سے پیدا کردے۔
سورہ مومن میں بھی اللہ عزوجل فرماتا ہے" یقینا آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
عالم برزخ- اس میں قبر کی زندگی مراد لی گئی ہے۔ جب کہا گیا ' ثم یحییکم' یعنی وہ پھر تمہیں زندہ کرے گا تو یہ جگہ قبر ہے۔ جہاں اس کو زندہ کرکے منکر نکیرین سوالوں کے جواب طلب کریں گے۔سفر حیات دنیا اسی مرحلہ پہ انکر ختم ہوجائے گا اور اسی کی آگے منزل روزحشر ہے جس دن کا وعدہ کیا گیا 'ثم الیہ ترجعون' عالم برزخ سے آگے اللہ کی ذات ہمیں خود لے کر جائے گی۔ وہی سب باتوں پر قادر ہے۔
یہاں دو زندگیوں اور دو موتوں کا ذکر کیا جارہا ہے،یہاں قبر کی زندگی اور موت کا ذکر نہیں کیا گیا مگر یہ مرحلہ ایک لازمی جزو ہے جس پہ کسی کا بھی انکار نہیں، تمام علماء اور اتقیاء اس بات پہ متفق ہیں۔ کافر پہلی تین باتوں کو تو مانتے ہیں کہ پہلے انسان عالم روح میں ہوتا ہے پھر اس کے بعد اس کا وجود میں آنا اور اس کے بعد مرنا، مگر وہ اس طرح دوبارہ زندہ ہونے اور مرنے اور پھر رجوع الی اللہ کو نہیں مانتے۔ ہمیں تین زندگیاں دنیاوی، برزخی اور اخروی ملی ہیں جبکہ ظاہری موت ایک ہی ہے۔ ان میں سے اخروی تو قائم و دائم رہے گی اس کے بعد موت کا وجود نہیں ہے، دنیا کی زندگی کا تعلق عالم اسباب سے ہے جو یہاں بوئے گے اس کو کاٹے گے، اب رہ گئی بات برزخی کی تو یہ ہمیں آخرت سے ملانے والی ہے۔
یہاں ایک نکتہ ہے کہ لوگ موت سے بہت ڈرتے ہیں حالانکہ اس سے تو انسان مصیبتوں سے نجات حاصل کرتا ہے، لہٰذا اس کو نعمت میں شمار کیا گیا اگر تواس نے نیک کام کیے ہیں تو وہ اللہ کی اخروی نعمتوں کا حقدار ہوگا اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ موت سے صرف کافر، مشرک، منافق اور بے ایمان ڈرتا ہے۔
28۔ ھُوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا، ثم استوٰی الی السماء فسوھن سبع سموات وھو بکل شئی علیم۔
وہی ہے جس بے سب ککچھ جو زمین میں ہےتمہارے لیے پیدا کیا،پھر وہ بالائی حصوں (آسمان) کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے انہیں درست کرکے سات آسمانی طبقات بنائے اور اسے ہرچیز کا علم ہے۔
قران پاک میں ہے اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا، خلق السمٰوت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام۔
ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں اللہ کا عرش پانی پر تھا اور اس نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا،جب اس نے مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تواس نے پانی سے دھواں نکالا، اس کو اونچا کیا اور اس سے آسمان بنائے، پھر پانی خشک کیا تواس اے زمین بنائی،ان کو بعد میں سات طبقات میں تقسیم کیا۔پہلے آسمان پہ پانی، دوسرے پہ تانبہ، تیسرے پہ لوہا، چوتھے پہ چاندی، پانچویں پہ سونا، چھٹے پہ مروارید اور ساتویں پہ سُرخ یاقوت ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااللہ نے زمین کو کس چیز سے بنیا " کف اب سے"، پھر پوچھا یہ کف اب کس سے پیدا ہوا" پانی کی موج سے"، پھر سوال کیا کہ یہ موج کس سے نکلی" فرمایا پانی سے"، پوچھا پانی کہاں سے نکلا" فرمایا ایک دانہ مروارید سے"، پوچھا یہ مروارید کہاں سے نکلا" فرمایا تاریکی سے"پھر سوال دراز کیا اور پوچھا کہ زمین کو کس سے قرار ہے" فرمایا کوہ قاف سےجو زمردسبز سے ہے اور آسمان کی سبزی اس کی وجہ سے ہےاور کوہ قاف کی بلندی پانچ سو بوس کی ہےاور اس کے گرد دو ہزار سال کی راہ ہے، اور اسی پہ سات زمینیں ہیں چاندی کی اور اس کے ساتھ ستر ہزار علم ہیں۔"
اللہ نے جو کچھ بجی پیدا کیا وہ صرف تمہارے لیے ہی کیا کیونکہ خلق لکم سے یہی بات ہے کہ لکم تمہاری خاطر تاکہ تم لوگ اس سے دنیاوی فوائد حاصل کرو زمین سے کھیتی و زراعت کے ذریعے اناج اگاواور آسمان کی پیدائش اس نے سورج، چاند، ستاروں، سیاروں، ہوا اور بارش کے لیے کی، تمہارا رزق اس نے اسمان سے اتارا جو تمیں زمین سے ملتا ہے۔ اسمان کو زمین کے لیے بنایا گیا وہ اس لیے کہ ساری مخلوق انسانی اور اس کے علاوہ انبیاء کرام کا نزول اسی قطعہ ارض پر ہوا، ہم اس پہ ہی رہتے ہیں۔ اللہ نے چیزوں کی تخلیق علم کے ساتھ کی۔ہمارے جسم کے تمام اجزاء اپس میں یوں یکجا ہیں کہ اگر ایک حصہ بھی کاٹ دیا جائے تو اس سے دوسرا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اب بھی اگر انسان اس کا یہ احسان نہ مانے اور اسے نظرانداز کرے تو بڑی حیرت کی بات ہے۔
رب نے انسان کی پیدائش سے پہلے زمین و آسمان کی نعمت اس کو دی اور سب کی آرائش کی سب علم ہونے کے باوجود کہ کون اس کے حکم کی پاسداری کرے گا اور کون اس کے حکم کی عدولی کرے گا ، اسی ایک دلیل پر اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا پتا چل جاتا ہے۔
29۔ و اذ قال ربک للملئکتہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ، قالوا اء تجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء و نحن تسبح بحمدک و نقدس لک، قال انی اعلم ما لا تعلمون۔
اور وہ وقت یاد کریں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا کیا تو اس کو زمین میں اس کو بنائے گا جو فساد کرتا اور خون ریزی کرتا ہے اور ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے رہتے ہیں ، اللہ نے کہا جو میں جانتا ہوں تم وہ نہیں جانتے۔
اصل میں لفظ ' اذ' ظرف ہے، عام مفسر قرآن اس کا مطلب اذکر لیتے ہیں، واذکر عبدنا ایوب اذ نادی ربہ۔ اس کا یہاں اذکر انا ضروری ہے۔ اس اذکر یا اِذ کے دو معنی ہیں 1۔ یاد کرو 2۔ ان لوگوں سے ذکر کرو۔ ذکر کون کرتا ہے ہائے ہائے جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یا اس کو دکھایا گیا ہو۔ میری سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے، اور یہاں ثبوت تو کافر ، فاسق، فاجر،مشرک اور منافق ہی مانگے گا کہ یہ کیسے ممکن ہوا، کہ محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت تھے ہی نہیں، تو جب اصحاب فیل کا بیان ہوتا ہے وہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں تھے، وہاں کیوں کہا گیا " الم تر کیف ربک باصحاب الفیل" کیا تم نے اصحاب فیل کا حال نہیں دیکھا؟ میں یہ کہتا ہوں کہ کل تم نے سٹار پس کا ڈرامہ نہیں دیکھا تھا تو فورا منہ کھل جائے گا اور یہاں انکار جہالت کی بنا پہ ہے، افسوس ہے ایسی سوچ پر، ایسے علم و دانش پر اور غافل کردینے والے فلسفے پر۔
ربک میں ک ہی یہ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ خطاب الہٰی صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اہل محبت و عرفان کے لیے کسی انعام سے کم نہیں۔ تیرا رب تیرے لیے ہی تو سب بتا رہا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
سارا قرآن صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی مخاطب رہا اور اس کا نزول ایک لمحہ بھر کے لیے اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر نہیں، قرآن بعد میں اُتر رہا ہے اور یہ واقعہ تو حضرت آدم علیہ اسلام کی بھی پیدائش سے پہلے کا ہے۔   
 جب اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ان کی کنیت ابو محمد رکھی۔ خاص ہے کہ جب حضرت آدم سے لغزش ہوئی تو سرکار دوعالم سیدنا محبوبنا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے معافی ملی۔اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں دنیا نہ بناتا۔
حضرت محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم کی ایک حدیث مبارک ہے ذرا اس اکو بھی ملاحظہ کریں، اول ما خلق اللہ  نوری- اللہ نے جو سب سے پہلے پیدا فرمایا وہ میرا نور ہے۔ اب اس میں اور کیا بحث رہ جاتی ہے کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسٰی علیہ السلام تک سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت لوگوں تک پہنچاتے رہے۔
ملائکہ سے مراد پیغام رسانی کا کام کرنے والی مخلوق جو اللہ کا پیغام اس کے پیغمبروں، رسولوں اور نبیوں تک لے کر آتے رہے ہیں۔ یہ بہت لطیف نورانی ہیں، یہ اپنی شکلیں بھی بدل سکتے ہیں،یہ پاکیزہ ارواح ہیں اور انہیں پاکیزہ نفوس ہی دیکھ سکتے ہیں۔ان کا ٹھکانہ ساتواں آسمان ہے۔ ان کی مختلف قسمیں ہیں اور اسی طرح سے مختلف تسبیحات بھی۔ان کی تعداد کو شمار کرنا مشکل ہے اور صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کا لشکر کتنا بڑا ہے۔
اللہ پاک کی ذات فرشتوں کو آگاہ کرتی ہے کہ وہ زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہے، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ابھی حضرت آدم علیہ السلام کا قالب تک تیار نہ ہوا تھا، اس لیے فرشتوں کو بتانا اس لیے بھی مقصود تھا کہ یہ ادم کو تعظیمی سجدہ کرنے والے ہیں، اور پیغام رسانی کا کام بھی انہی کی ذمہ داری ہوگا۔انہوں نے اس بات پر اعتراض کی اکہ وہ اس کی خوب تسبیح و تہلیل  میں ہمہ تن گوش ہیں اسے اور کی کیا ضرورت آن پڑی۔ اور اللہ نے ان کو ایک ہی اجمالی جواب دیا کہ وہ یہ بات نہیں جانتے جو ان کا رب جانتا ہے کہ وہ کس نائب کو زمین پر بھیجنے والا ہے۔
ایک تو یہ بات کہ فرشتوں کا تعلق عالم ارواح سے انسان کا تعلق عالم اجسام سے، دوسرے تمہیں عبادت سے کوئی چیز نہیں روکتی اور ان کو روکنے والے ہزارہا باتیں ہیں، تیسرے جب وہ گناہگاری کریں گے تو اس پہ نادم ہوکر میری مغفرت طلب کریں گے بعضوں کے گناہوں کو میں چھپاوں گا، چوتھا انسان کے دل میں میری محبت، عشق اور جذبہ ہوگا اور جب وہ اس کے ساتھ عبادت کرے گا تو اس کے اخلاق اور بھی سنور جائیں گے، پانچواں جب وہ اپنے غصے اور شہوت کو میری رضا کے آگے ڈال دے گا تو میں اس کو اور برکت اور توفیق سے نواز دونگا کہ وہ میری طرف اور تیزی سے بڑھے، چھٹا یہ کہ ان میں عابد، زاہد اور متقین ہونگے جو نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے، ساتواں یہ میرے لیے بھوکا رہ کربھی راضی برضا رہے گا مانا کہ ان میں فاجر و فاسق بھی ہونگے اور یہ بھی کہ منافقین بھی مگر ان چند لعلوں اور نگینوں کی بدولت جو شمع رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے نکلیں گے اور وہ اصحاب کبار ہیں ، اہل بیت اطہار، آئمہ کرام اور اولیاء اللہ ہیں۔ یہ جو اپنے راہبروں سے وعدے وعید کرکے پورے کریں گے تو میں ان کے اس عمل پہ خوش ہوں۔ یہ وجوہات ہیں کہ انسان کو خلافت کی نعمت سے سرفراز کیا گیا، اس کو خلیفہ کرنے میں یہی راز پنہاں تھا جن کے بارے میں فرشتے نہ جانتے تھے۔
خلیفہ سے کیا مراد ہے؟ اس کے معنی ہیں پیچھے آنے والا، کسی سُلطان کی عدم موجودگی میں اس کے سجادہ اور مُصلٰی کی اطاعت میں اسی کی طرح عمل پیہم ہونا۔ایک یہ شرط کہ اس کا جسم فرشی ہو روح عرشی ہو، شرط نمبر دو کہ حق کی صفت کا مظہر ہو، تیسرے اس کے پاس علم قران و حدیث و فقہ ہو،چوتھا رب کے کلام کو عوام تک پہنچائے، پانچواں سُلطان جیسی قدرت، نیابت اور خلافت عطا ہو۔
حضرت پیرومرشد شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ دامت برکاتہم العالیہؒ فرماتے ہیں کہ جس کو اپنے پیر سے نسبت تھوڑی ہے یا زیادہ تو اس کا ایمان بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ خؒلافت و نیابت اصل میں نسبتی باتیں ہیں۔ اللہ دل کی باتوں اور اس میں چھپے بھیدوں کو خوب جانتا ہے کس کو کیا عطا کرنا ہے اور کب عطا کرنا ہے اس سے بہتر یہ بات کوئی نہیں جانتا۔نسبت رکھنا کوئی بچوں کا کام نہیں ہے، یا ہر وقت اپنے پیر کی حضوری میں رہنا یا اس کو اپنی سوچ میں سمائے رکھنا ، اگر ایسی بات ہو تو کام نہ بن جائے، بات اصل اپنے اپکو ڈھالنے کی ہے کہ تم بھی اسی سانچے میں ڈھل جاو کہ جس طرح اپنے پیر کے ظاہر کو دیکھتے ہو، حضرت موسٰی علیہ السلام کو دیکھ کر چند جادوگروں نے اسی طرح بھیس بدلہ جس کا کیا رزلٹ نکلا کہ وہ بھی آپ کے ہاتھ پہ مسلمان ہوگئے۔ خلافت کی بہت سی اقسام ہیں۔
 پہلی الہامی جس میں غیبی بشارت ملتی ہے۔
دوسری تجربی یعنی کسی مُرید کو اس کی طہارت اور تقوٰی کی بنیاد پر عنائیت ہو۔
تیسرے سفارشی پیرکی خدمت میں کچھ پیر بھائی سفارش کریں۔
اور چوتھے انتخابی جب کسی مرید کو اس کے پیر کی جگہ مسند پر بٹھا دیا جائے تو وہ صآحب مجاز کہلائے گا۔
چوں   تو ذات    پیر را   کردی قبول
ہم    خدا  در   ذاتش  آمد  ہم   رسول
پیر         کامل   صورت ظل    خدا
یعنی        دید      پیر    دید  کبریا
جب تو نے پیر کی ذات کو قبول کرلیا تو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ذات میں ہیں، پیر کامل کا دیدار اصل میں دیدار خدا ہوتا ہے۔
حضرت ادم علیہ السلام کی پیدائش- جب اللہ نے حضرت آدم کے قالب کا ارادہ کرلیا تو حضرت عزرائیل کو جس جگہ اب خانہ کعبہ ہے مٹی لانے کا کہا، وہ گئے اور مٹی لادی۔ مٹی سے جو خمیر تیار کیا گیا وہ چالیس برس وہی پڑا رہا،پھر حکم ہوا کہ اس مٹی کو طائف اور مکہ کے درمیان رکھ دو، اس پہ باران رحمت برسا، دو برس میں وہ مٹی گیلی ہوگئی اور چوتھے سال صلابہ ہوئی چھٹے سال میں فخار ہوئی اور اٹھویں سال میں حضرت آدم کی صورت بنائے گئی،پھر روح کو حکم ہوا کہ اس قالب میں داخل ہوجا، مگر روح نے اعتراض کیا کہ یا رب اس میں بہت تاریکی ہے اور یہ تنگ بھی ہے۔جب اس بات کو ختمکرنے لیے کہ روح داخل نہیں ہورہی تو آپ کی پیشانی مبارکہ پہ نور مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم رکھا گیا اب روح نے آہستہ آہستہ داخل ہونا شروع کیا۔ جس طرح روح جسم میں چلی جا رہی تھی تو جسم اسی طرح گوشت پوست میں بدلتا جارہا تھا۔
 30۔ و علم ادم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکتہ ، فقال انبئونی باسماء ھولاء ان کنتم صدقین۔
اور آدم علیہ االسلام کو اللہ نے تمام اشیاء کے نام سکھا دیےپھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا،اور کہا فرشتوں سے مجھے ان اشیاء کے نام بتاو اگر تم سچے ہو۔
اللہ تعالی کی ذات ڈائریکٹ فرشتوں سے مخاطب ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے خیال میں ٹھیک ہیں تو بتادیں ان سب چیزوں کے نام جو اس نے حضرت آدم کو سکھائے ہیں۔ اس آیت میں علم کی اہمیت پر بہت زور ہے اور انبیاء کرام کا پہلا خاصہ اور نشانی علم ہی بتائی گئی ہے، دنیا میں جتنے بھی انبیاء کو بھیجا گیا تو سبھی نے اللہ کے علمی انقلاب کو ہی ترجیحًا لوگوں تک پہنچایا۔
حضرت عبداللہ بن عباس،مجاہد اور قتادہ رضی اللہ عنھم سے روایت ہے،
علمہ اسماءجمیع الاشیاءکلھا جلیلھا و حقیرھا۔ حضرت آدم کو تمام چھوٹی اور بڑی اشیاء کے نام سکھا دیے گئے۔
اشیاء کے نام ہی نہیں صڑف سکھائے ھئے بلکہ ان کے ساتھ ان کی صفات، خصوصیات، ہیئت، گہرائی، اقسام اور ان کا استعمال و ردعمل بھی بتائے گئے، اور یہ بھی وہ کہاں کہاں سے ملتی ہیں اور ان کا ماخذ کیا ہے۔ اللہ نے حضرت ادم علیہ السلام کو یہ سارا علم ان کی روح کے پھونکنے کے ساتھ ہی عطا کردیا تھا جس جس طرح روح آپ کے قالب مبارک میں داخل ہوتی جارہی تھی تو اسی طرح اس حصے کا علم ادھر جاری ہوجاتا۔ جب آدم علیہ السلام کو چھینک آئی تو آپ سرکار نے ' الحمد للہ ' کہا، یہ علم ہی تو ہے۔پھر اسی طرح سے اپ سیدنا نے باقی اشیاء کے علم کو بھی ظاہر کیا۔ اللہ ہی اپ کا استاد ہے، خلافت دی گئی اس لیے تمام ناموں کے ساتھ ان کی کیفیات کا ہونا ایک ازحد ضروری معاملہ تھا اس طرح خلافت کا کام ادھورا رہ جاتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سات لاکھ زبانیں اور ایک ہزار پیشوں کا علم تھا، مگر آپ نے کھیتی باڑی کے کام کو پسند کیا، اسی طرح حضرت نوح لکڑی کا کام، حضرت ادریس درزی کا، حضرت صالح تجارت، حضرت داود لوہے کا کام، حضرت موسٰی، حضرت شعیب اور حضور حق نبی اکرم رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکریاں چراتے تھے۔ نیز کہ حضرت ادم علیہ السلام نے قیامت تک استعمال ہونے والی ہر ایک چیز کے بارے میں بتا دیا جن میں دودھ ، پیالہ، شہروں، دیہاتوں ، ملکوں اور دیگر ناموں کے بارے میں انکشاف کیا۔
اللہ کے حضرت ادم علیہ السلام کو علم دینا تو نائب بنانے کے لیے ہی تھا مگر وہ فرشتوں کو بھی یہ بتانا چاہتا ہے کہ صرف تسبیح و تہلیل ہی نہیں بلکہ اللہ کی مکمل صفات کو جاننا اصل بات ہے۔ اس کی حمد وہی کرسکتا ہے جس کے پاس اس کا پورا علم ہے۔ سب علم کے ہونے کے ساتھ نفس ااور شیطان کے ساتھ جنگ میں مصروف یا ان دو کے دام میں پھنسا ہوا جب اللہ کی طرف رجوع لاتا ہے تو رب کی ساری نعمتیں اس کی طرف بھاگیں چلی جاتیں ہیں۔ اس علمی مظاہرہ سے فرشتے عاجز اگئے اور اس کی وجہ حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت اور اللہ کی حکمت تھی۔
علم کو اللہ کے ہاں بہت مقام حاصل ہے کیونکہ علم تنہائی میں کیے گئے چلے سے کہیں بہتر ہے۔
علم انسان کو اگاہی اور وافقیت عطا کرتا ہے۔ علم کمال باطن اور ظاہر کو چمکاتا ہے۔
علم خلافت کی بنیاد اور کُنجی ہے۔ علم سے ہی توحید کا پتا چلا کہ اللہ کیا ہے۔وہ معبود برحق ہے، وہ ہر شے کو جانتا ہے اور ہر چیز پہ قادر ہے۔
پورا قرآن علمی نکات سے ہی تو آراستہ ہے جس میں ہر کلمہ علم میں لبریز ہے۔
علم مشکل اور دقیق مسائل کو آسان کرتا اور سہولت فراہم کرتا ہے۔ اللہ کے احسانات میں سے ہے کہ جس شخص پر بھی اللہ دین کے دروازے کھولتا ہے، علم دیتا ہے تو اس سے وہ اپنا کام لیتا ہے۔
علم کے بارے میں ایک روایت آئی ہے کہ اللہ نے حضرت داود علیہ السلام کی طرف وحی کی،
" یا داود تعلم العلم النافع، فقال داود ما لعلم النافع، فقال ان تعرف جلالی و عظمتی و کبریائی و کمال قدرتی علی کل شئی ء فان ھذا الذی یقربک الی"۔
ترجمہ۔ اے داود! علم نافع حاصل کرو۔ اپ نے عرض کی نافع علم کون سا ہے، اللہ تبارک و تعالٰی نے کہا کہ علم نافع وہ ہے جس سے تجھے میرے جلال ، عظمت بڑائی اور ہر شئے پر میری کمال قدرت کا پتہ چلے کیونکہ ایسا علم ہی تجھے میرے قریب کرسکتا ہے۔
31۔ قالوا سبحنک لا علم لنا الا ما علمتنا، انک انت العلیم الحکیم۔
فرشتوں نے کہا تیری ذات پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں دیا ہے، تو ہی علم و حکمت والا ہے۔
جب ملائکہ کو اپنے عجز کا پتہ چل گیا تو وہ بولے کہ ہمیں تو وہی علم ہے جتنا کہ اللہ تو نے ہمیں سکھایا ہے، تو اپنے علم میں بہت دور کی رسائی رکھتا ہے اور فرشتگان میں اتنی ہی صلاحیت ہے جتنی ان کے رب نے ان کو بخشی ہے۔ شیطان نے ان کے مقابلے میں 'بما اغویتنی' کہا جس کا مطلب اللہ تو نے مجھے گمراہ کیا۔ اس لیے تو وہ درگاہ الہٰی سے مردود اور رجیم کہلایا۔حتٰی کہ شیطان بھی ان اشیاء کے نام نہ بتا سکا۔وہ لعین اپنے تکبر و غرور میں ہی رہا اور سجدہ سے صاف انکار کردیا۔ مگر دوسرے فرشتے اپنے اظہار عاجزی سے بارگاہ رب العزت میں ہی رہے۔ جب انہوں نے حضرت آدم علییہ السلام سے چیزوں کےنام سنے تو انہیں اللہ کی حقانیت اور علم کا پتہ چل  گیا۔
32۔ قال یادم انبئھم باسماءہم، فلما انباھم باسماءہم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السمٰوت والارض و اعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے اے آدم بتادے ان کو سب اشیاء کے نام، جب آدم نے ان کو سب نام بتادیے، تو اللہ نے کہا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں اور میں جانتاہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔
جب اللہ نے حضرت آدم کو سب علم سکھا دیے تو یہاں کہا جارہا ہے کہ ان فرشتوں کو خبر دے دوصرف ان اشیاء کے ناموں کی۔سب فرشتے آدم کے سامنے بیٹھ گئے اور اپ سرکار نے ایک ہی ان میں اتنے بڑے کام کو جلد کردیا۔اس سے فرشتوں پر آدم کی علمی بصیرت اور کمال ثابت ہوگیا۔اللہ نے آیت کے آخر میں مصلحت و حکمت سے کام لیتے ہوئے ان سے کہا کہ اللہ جانتا ہے جو کہ وہ ظاہر اور خفی کام کرتے ہیں۔انہیں کیا معلوم تھا کہ اس مٹی کے قالب میں روحانیت کا ائسا روشن چراغ جلے گا کہ ان ہی نورانی شعاعیں فرشتوں کو بھی حیراں کردے گی۔
33۔ واذ قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس، ابٰی واستکبر، و کان من الکفرین۔
اور یاد کریں( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) جب ہم نے واسطے فرشتوں کے ان کو کہا کہ وہ ادم کو سجدہ کریں پس سجدہ کیا سب نے سوا ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
جب حضرت آدم علیہ السلام کا علم اور ان کی فضیلت فرشتوں پر صاف و عیاں ہوگئی تو اللی نے ان کو اور وہاں جنوں کو تعظیمی سجدے کا کہا، یہ تعبدی سجدہ نہ تھا جو صرف اللہ کو اس کے یکتا معبود ہونے کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ فرشتے پہلے تو رب کو ہی سجدہ کرتے تھے لیکن اس سجدہ کا حکم دیا گیا کہ یہ سجدہ بھی رب ہی کو ہے لیکن بواسطہ حضرت آدم علیہ السلام تھا۔ اس روز جن فرشتگان نے بھی سجدہ کیا تو وہ نورِ الہٰی کی ہی تجلٰی گاہ تھی، جس طرح قرآن میں ہے " اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ اصل میں یرا ہاتھ ہے۔ ایک اور دوسری جگہ پہ، " یہ جو کنکریاں آپ نے پھینکیں وہ آپ نے نہیں ہم نے پھینکیں ہیں۔"
 ایک بہت بڑے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے ہیں ( حضرت شاہ محمد امین شاہ صاحبؒ) ان کا کہنا ہے کہ جس سجدے کا فرشتوں کو کہا گیا وہ حقیقت میں اس نور مکرم منور مطہر تقدس کو سجدہ تھا جو حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی میں چمکتا تھا، سجدہ اس کو کروانا مقصود الہٰی تھا،بات تو ساری اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و بارک وسلم کی تھی، اسی نور کی بدولت حضرت آدم کی توبہ قبول ہوئی، ان کا نکاح درود پاک سے قبول ہوا، حضرت ابراہیم کو آگ سے کس بات نے حفاظت میں رکھا اسی نور نے، حضرت عبداللہ کو عبدالمطلب کی چھری سے کس نے بچایا اسی نور نے،اسی نورِ مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماعیل کو ذبح ہوجانے سے بچالیا، حجرت نوح کی کشتی کو کنارے تک اسی نور نے لگایا۔جب ساری کائنات ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کا صدقہ ہے تو پیچھے کیا بات بحث طلب رہ جاتی ہے، وہ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضرت آدم کے پاس بھیجتا ہے کہ جاو میرے اس بندہ با صفا سے کہو" اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا"۔اصل خلیفہ اول و آخر ہی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم ہیں۔
 حضور رحمۃ اللعالمیں روف رحیم شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذآت اطہر اللہ کے لیے سب سے بڑھ کر پیاری، نیاری اور برگزیدہ ذات ہے۔ اللہ کے سامنے اور کسی کی کوئی حیثیت نہیں وہ مانتا ہے تو بس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ وہ ہمہ وقت اپنے نبی صلی الہ علیہ وسلم کے چہرے انور کو تکتا ہے اور درود کی لڑیاں بھیج رہا ہے۔
بقولے شاعر:
آئی پسند اللہ نوں صورت حضور دی
تائیوں تے کردا اے مدحت حضور دی
ایک اور جگہ بقول شاعر:
تیریاں تے صفتاں دا کوئی وی حساب نئیں
توں تے کتے تیریاں غلاماں دا جواب نئیں
چہراں تیرا نور ونڈے ساری کائنات نوں
رب وی درود بھیجے اک تیری ذات نوں
یہ سجدہ تعظیم نبی تھا جو فرشتوں نے کیا مگر ابلیس نے اس سے قطعًا انکار کردیا۔ لفظ ابلیس ' بلس' سے بنا ہے جس کا مطلب ناامید ہے، اس کو شیطان بھی کہا جاتا ہے اور یہ لفظ' شطن' یا 'شیط' سے ہے جس کا مطلب دور ہونا ہے، یہ چونکہ سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے حکم الہٰی کا نافرمان ہوا اس لیے اس کو ' رجیم' کر کے رحمت الہٰی سے دور کردیا گیا۔
سورۃ الرحمٰن میں ایت 15 میں بیان ہے' و خلق الجان من مارج من نار' ایک اور جگہ پہ ' وکان من الجن' ہے۔
اس کو راندہ درگاہ کیا گیا کہ اس نے اپنے علمی تکبر کو سامنے رکھا، اس نے ایک مرتبہ حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کی کہ آپ اللہ کے مقبول بندے ہیں میری سفارش کردیں کہ مجھے اللہ معاف کردے، حضرت نے اللہ سے عرض کی تو اللہ نے کہا " آپ کی شفاعت قبول اور اس کی توبہ قبول مگر شرط وہی پہلی ہے کہ یہ جا کر حضرت آدم علیہ الصلوۃ السلام کی قبر کو سجدہ کرے"۔ شیطان لعین نے اس پہ کہا " میں نے زندہ کو سجدہ نہ کیا اب مردہ کو کیا سجدہ کروں گا"۔
یاد رہے کہ شیطان مردود ہونے سے پہلے قوم جن میں سے تھا، آئیےسیرت حضرت فخرالعارفیںؒ کے ملفوظات ومکشوفات اور ارشادات کی روشنی میں فیض کا اکتساب کرتے ہیں کہ شیطان سے متعلق آپؒ کا کیا علم ہے،" جب اللہ نے زمین و آسمان کی پیدائش کرلی تو اس دنیا میں وجود انسان سے پہلے جنات کو آباد کیا، مگرکچھ عرصہ گزرا تھا کہ ان میں بھی وہی برائیاں جنم لینے گئیں جو آج انسانوں میں ہیں یعنی لڑائی جھگڑے، لوٹ مار، قتل و غارت گری اور زنا وغیرہ۔ اللہ کا فرشتوں کو حکم پہنچا کہ ان سب کو جنگلوں ، بیابانوں اور پانیوں میں بھگا دو، زمین کو ان سے خالی کراکر میری عبادت کرو تاکہ زمین پاک ہوجائے۔قوم جن کا ایک لڑکا تھا جو فرشتوں سے بہت مانوس ہوگیا، وہ بھی انہی فرشتوں میں شامل ہوکر عبادت کرنے لگا، جو راستہ عبادت فرشتے ایک ماہ میں طے کرتے وہ ایک دن میں کرجاتا، اس کی روح میں انتہا کی پرواز تھی، اسی لیے تو اس نے چالیس ہزار سال زمین پہ، چالیس ہزار فرشتوں کے ساتھ اور چالیس ہزار سال تک فرشتوں کا استاد رہا۔
حضرت فخرالعارفینؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تک جانے کے تین راستے ہیں 1۔ جلالی 2۔ جمالی 3۔ اجمالی۔ پہلے راستے میں خوف اور ڈر ہے جس کی وجہ سے ناامیدی ہوجاتی ہے۔ دوسرے راستے میں امید اور رجا بہت ہوتی ہے، اور تیسرے میں دونوں ہیں یعنی خوف اور امید یہ راستہ اللہ کے نیک بندوں کا ہے جو بہترین راستہ ہے۔ مگر شیطان نے جمالی کو اپنائے رکھا اسی لیے تو وہ اللہ سے ڈرتا نہیں تھا۔
شیطان کی اسی ہزار ہا سالہ عبادت کی وجہ سے اسے ہر آسمان پر ایک نیا ہی درجہ دیا گیا، اس نے پہلے آسمان پر جب ہزار سال تک اللہ کو سجدہ کیے رکھا تو اس کا نام خاشع رکھا، دوسرے پہ عابد، تیسرے پہ صالح، چوتھے پہ ولی اور پانچویں پہ عزازیل رکھا گیا۔ اس نے ایک بار الل سے عرض کی کہ اسے لوح محفوظ دکھائی جائے، اللہ نے اسرافیل سے کہا کہ اس کو دکھایا جائے جب یہ وہاں پہنطا تو وہاں لکھا ہوا دیکھا" جو خدا کو سجدہ نہ کرے تو اللہ اس کی عبادت کو مٹادیتا ہے اور اس کا نام ابلیس رکھ دے گا"۔ شیطان رویا اور بارگاہ خدا میں انکر کہا " لعنۃ اللہ علی من اطاع اللہ " لعنت ہے اللہ کی اس پر جو اطاعت نہ کرے۔اللہ نے کہا اے عزازیل تو اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھ لے۔ جب فرشتے سجدہ سے فارغ ہوئے تو یہ بولا کہ مجھے تو نے اگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے جو اس سے بہتر ہے اور میں نے تو اتنے ہزار برس تیری عبادت کی اور ملکوت کا استاد بھی رہا۔ اللہ نے اس لعین و رجیم کو اپنے ہاں سے نکال باہر کیا، یہ اسی دن سے پوری انسانیت کا دشمن ہے۔  
34۔  و قلنا یادم اسکن انت و زوجک الجنۃ و کلا منھا رغدا حیث شئتما و لا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین۔
اور کہا ہم نے آدم سے کہ آپ اور آپ کی بی بی جنت میں رہیں اور کھائیں اس میں سے جو چاہے اور جہاں سے چاہے، مگر اس درخت کے قریب نہ جائیں ورنہ وہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
یہاں مختلف مفسرین نے اپنی علمی مطابقت اور بصیرت پہ آکری حصے کا ترجمہ کیا ہے۔
شاہ فہد طباعہ القرآن میں اس کا ترجمہ یوں ہے- لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالم ہوجاو گے۔
ضیاء القرآن میں پیر محمد کرم شاہ الازہری- اور مت قریب جانا اس درخت کے ورنہ ہو جاو گے اپنا حق تلف کرنے والوں سے۔
مولانا اشرف علی تھانوی- القران ترجمہ مع تفسیر- اور نزدیک نہ جائیو اس درخت کے ورنہ تم بھی ان ہی میں شمار کیے جاو گے جو اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔
تفسیر نعیمی – مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں سے ہو جاو گے۔
قصص الانبیاء- حامد سُلطان قادری- اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ تم بے انصاف ہوجاو گے۔
جب اللہ نے شیطان کو جنت سے نکال دیا تو حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ وہ اور ان کی بیوی آرام سے جنت میں اُسکُن یعنی ٹھہرے اور جنت میں جو چاہتے ہیں اور جہاں سے بھی چاہتے ہیں کھائیں، خوب سیر ہو کر کھائیں۔ ان دونوں کو جنتی نعمتوں کی فراہمی سے مالا مال  کردیا، ب ایک اس درخت کے پاس نہ جانے کی آزمائشی ممانعت تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی طبیعت مشتاق جلیس ہمدم اور انیس محرم تھی یعنی آپ حضور اکیلے پن سے گھبراتے تھے تو اللہ نے ان کو دیکھ کر ان پہ ایک کیفیت طاری کی یہ نہ نیند نہ ہی اونگھ۔ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کے پہلو سے حضرت حوا کو پیدا کیا، جب آپ بعدار ہوئے تو ان کو دیکھ کر پوچھا کہ وہ کون ہیں، حضرت حوا نے کہا کہ وہ اپ ہی کا ایک جزو ہیں، اور اللہ نے ان کو اپ ہی کی پسلے سے نکالا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت حواکا حُسن و جمال اس قدر تھا کہ پورے عالم میں کسی بھی عورت کے حصے میں نہیں ایا۔اللہ نے سب فرشتوں کو درخت طُوبٰی کے نیچے اکٹھا کرکے اپنی ثنا سنائی اور اس طرح دونوں نکاح کے بندھن میں باندھ دیے گئے، جب عقد کا وقت ایا تو اللہ نے کہا کہ پہلے مہر اداکرو، حضرت آدم علیہ السلام کے پوچھنے پہ آپ نبی کریم روف رحیم نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ  وسلم پر دس بار درود پاک بھیجنے کا حکم ہوا۔اس کے بعد کہیں جاکر یہ حکم ہوا کہ اب جنت میں رہو، جنت میں رکھنے کی کچھ حکمت تھی۔
1۔ جنت کی نعمتوں سے آشنا ہوجائیں۔ 2۔ جنت کی تمام چیزیں دیکھ کر ان کو تجربہ ہوجائے۔ 3۔ اس جنت میں ہی وہ نعمت کا برتنا سیکھ لیں۔ 4۔ جنت کا نمونہ ان کے دل و دماغ میں نقش ہوجائے تو یہ اپنی اولاد کو بھی زمین پر جا کر بتا سکیں اور ان میں بھی جنت کا حصول ممکن ہو۔5۔ ایک اور بات کہ اللہ جس بات سے کسی کام کا منع کرے اور بندہ اس کام کو کر ڈالے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ صرف آپ سرکار کو سکھانے کی غرض سے تھا یہ سزا کے معنی میں نہیں اتا کیونکہ نبی معصوم ہوتا ہے۔ وہ گناہ کو ارداتًا یا نیت سے نہیں کرتا۔
ارسطو نے ایک کتاب " پوئیٹکس" لکھی ہے کہ جس میں وہ جنت میں بنی ہوئی ایک کرسی کو خواب میں دیکھتا ہے اور جب وہ اس کو اپنے لفظوں میں بیان کرتا ہے تو اس کا نام اس نے " کاپی آف دی کاپی" رکھا ہے۔ حضرت آدم کو جنت کی سیر اور ان کی میزبانی اسی لیے کی گئی کیونکہ وہ زمین کے لیے خلیفہ بنائے گئے تھے، ان تمام اشیاء سے ان کو واقفیت دینا لازمی تھا، تاکہ انہی چیزوں کے ساتھ ان کی شناسائی ہو۔ خواب یا ڈریم کیوں آتے ہیں تاکہ اصل دکھا یا جائے اس لیے کہ دنیا میں اس چیز کا وجود ممکن ہوسکے۔
جب حضرت ادم کو درخت سے منع کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب سب کچھ مجھے ہی بخش دیا ہے تو یہ درخت کیوں نہیں؟ تب اللہ کا حکم ہوا کہ اپ میرے مہمان ہیں تو جو میں کہوں اپ وہی کھائیں۔
کہا جاتا ہے کہ وہ درخت گیہوں(گندم) کا تھا۔ بعض اس کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ انگور کا تھا ، کچھ اس کو انجیرکا کہتے ہیں، مگرمستند روایت کے مطابق حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کو گیہوں کا درخت کہتے ہیں۔
ایک تو حضرت آدم علیہ السلام کو خلافت دی گئی جس کی شروعات زمین سے ہی تھی، اپ سے خطا سرزد نہیں ہوئی بلکہ یہ مرضیات الہٰی سے تھا، اپ کو درخت کا پھل نہ کھانے کو کہا گیا، انسانی فطرت اس طرف زیادہ ہاتھ بڑھاتی ہے جس سے کہ اس کو منع کیاجائے اس عادت کا صادر ہونا بھی اللہ نے ظاہرکرنا تھا،یہ اپ سیدنا نبینا حضرت آدم علیہ السلام کا ایک منتخب امتحان تھا۔ اور بقولے حضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب ؒ کے مطابق " محبت اور معرفت کے دریا کھل کے سامنے اگئے۔" اللہ نے کہا کہ اے میرے بندے خاص ان کو پار کرنے کے لیے تو تمہیں مشاہدہ اور مجاہدہ کرنا درکار ہوگا یعنی محنت کرنی ہوگی جو اس جنت میں ممکن نہیں اب تو زمین پر اتر جا، حضرت کو یہ بات بہت گراں گذری، آپ نے اللہ سے اس کا حل دریافت کیا تو اللہ نے اس کا جواب یہ دیا،' میں نے ابلیس کو تیری ولاد پہ مسلط کردیا ہے،
حضرت آدم: اب یا اللہ تیری مدد کے بغیر اس سے کیسے بچا جائے؟
اللہ: اس کے ساتھ ایک محافظ فرشتہ بھی ہوگا۔
حضرت آدم: مزید عطا ہو
اللہ: جب تک کہ انسانوں کی پیدائش جاری رہے گی ان پہ توبہ کا دروازہ بند نہ ہوگا۔
حضرت آدم: اور مزید عطا کریں
اللہ: میں ان کو معاف کرتا رہوں گا چاہے وہ جس قدر بھی گناہ کرلیں مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
حضرت آدم: اب کافی ہے۔
قرآن خود گواہ ہے- ان اللہ یحب ا لتوابین ویحب المتطہرین۔ اللہ تو ان کا دوست ہے جو اس سے توبہ کرتے اور پاکی حاصل کرتے ہیں۔ توبہ کرنے سے محبت اللہ  اس سے طہارت  نے جنم لیا تو حضرت آدم علیہ الصلوۃ والتسلیم کا جنت سے نکلنا سمجھ میں آگیا کہ نبی کی یہ ادا ہماری لاکھ سالوں کی عبادت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اگر آدم زمین پہ نہ آتے تو کیا تم حضور نبی محترم نور من نور اللہ مرقدہ و منورہ مطہرہ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے روضہ پاک کو آج اس طرح تک سکتے تھے، اس میں اللہ نے بہت سے راز پنہاں کر رکھے تھے۔ جانا تو سب نیکوں کاروں نے جنت ہی میں کیونکہ یہ دنیا تو ایک عارضی جگہ ہے، مسبب الاسباب ہے، یہاں تو جو اللہ کی مرضی پر اور جو اس کے انبیاء کرام لائے ہیں اس پر عمل پیرا ہوگا تو جنت کیا ساری خدائی اس کی ہے۔
کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کی خاطر رب نے کیا کیا مکانات، باغ، دیار، زمین و آسمان سجا ڈالے کہ وہ سب کچھ کا اختتام اپنے نبی کریم شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم سے کروائے گا اور تمام نبیوں کے باپ حضرت آدم کو پہلے زمین پر معبوث کیا، سبحان اللہ و الحمد للہ رب کریم ھو علی کل شئی قدیر۔
کی کی نئیں کیتا یار نے اک یار واسطے
رب محفلاں سجائیاں نے سرکار واسطے
دل یاد لیے بنایا سی تعریف لئی زبان
انکھیاں بنائیاں سوہنے دے دیدار واسطے
35/36۔ فازلھما الشیطن عنھا فاخرجھما مما کانوا فیہ و قلنا اھبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر و متاع الی حین۔ فتلقٰی ادم من ربہ کلمات فتاب علیہ، انہ ھو التواب الرحیم۔
پھر شیطان نے ان کو پھسلا کراس مقام سے نکلوادیا اس جگہ سے جہاں وہ تھے، اور ہم نے ان دونوں کو حکم دیا کہ تم نیچے اتر جاوتم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے، اب زمین ہی تمہرے لیے جائے قرار ہے اس میں ایک مدت خاص تک رہو نفع اُٹھاو۔ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی، بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
جب شیطان لعین کو جنت سے نکال دیا گیا تو اسے اس بات پہ بڑا حسد ہوا کہ اس نے اتنے سال اللہ کی عبادت کی اور اللہ نے اس کو یہ صلہ دیا ، حضرت آدم ور ان کی بیوی کو تو ابھی اس نے تخلیق کیا اور ان کو جنت اور اس کی تمام نعمتیں بھی دے دیں ہیں، وہ مردود و رجیم اس بات پر تیار ہوگیا کہ وہ اس کا بدلہ لے کر رہے گا۔
شیطان کی تکبرانہ تقریر کہ وہ آدم سے بہتر ہے،اور مزید برآں یہ کہ  پہلے آسمان پر اس کانام عابد، دوسرے پہ زاہد، تیسرے پہ عارف، چوتھے پہ ولی، پانچویں پہ تقی، چھٹے پہ خازن اور ساتویں پہ عزازیل۔ اتنے برس کی عبادت مگر جب لوح محفوظ پہ جا کر دیکھتا ہے تو اسی کا نام لکھا ہوا تھا اس بات سے وہ انجان بن گیا جب اس نے اپنے تکبر و غرور میں سجدہ تعظیمی سے انکار کیا۔ اب اپنی حسد کی آگ میں وہ جلا بُھنا بدلے پر اتر آیا۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی معصوم ہوتے ہوئے بھی کوئی گناہ کرسکتے ہیں؟ یہی کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا، تو اس میں ایک بات یاد رکھنا ہے توکہ ابہام نہ ائے کہ جب بھی ہم کسی گناہ کا ارادہ یا قصد کرتے ہیں اور اس کو کر بھی گزرے، یعنی ہماری اس بری بات کی کارگزاری میں ہماری نیت تھی تو یہ گناہ کہلاتا ہے۔ غیر ارادی طور پہ کسی کام کا سرزد ہونا گناہ نہیں ہوتا۔ جیسے کسی کا پاوں پھسل جائے تو اس میں اس کا ارادہ نہ تھا۔ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کا بھی کوئی ارادہ نہ تھا کہ اللہ کی جنت کو چھوڑ کر قصدًا جاتے۔
یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے پہلے ہی سے یہ طے کر رکھا تھا کہ وہ زمین پر اپنا نائب حضرت ادم کو بنا کر بھیجے گا۔ یہاں تو اس نے ایک درخت کا پھل نہ کھانے کی مانعت رکھی تھی جس کی بدولت اپ سیدنا کو توبہ کے چند کلمات سکھا دیے گئے اور آپ سرکار کی توبہ بھی قبول کرلی گئی۔
اللہ پکار کر کہنے لگا کہ کیا میں نے تمہیں منع نہ کیا تھا کہ اس پھل کو نہ کھانا اور  یہ کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس بات پہ دونوں ہی زاروقطار رونے لگے اور اللہ سے معافی مانگنے لگے،ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخسرین۔
درخت کا پھل کیا کھایا اس نے حضرت آدم اور حوا کے وجود سے نورانیت ہی ختم کردی اور ان کو اپنے اپ سے شرم انے لگی کیونکہ جب انہوں نے اپنی شرمگاہیں دیکھیں تو ان کو ڈھانپنے کے لیے درختوں سے پتے مانگے، کہتے ہیں کہ صرف انجیر اور عود نے ان کو ستر پوشی کے لیے پتے دیے اور رب کی رضا کے امیدوار بنے۔     
ایک روز ابلیس نے ارادہ کیا کہ وہ کسی طرح جنت میں داخل ہو کر دونوں حضرت آدم اور بیوی کو بہلائے پھسلائے کہ کسی طرح وہ یہ پھل ضرور کھائیں۔ شیطان جنت کے دروازے کے باہر پہنچا تو وہاں اسے مور ملا، شیطان نے اندر جانے کا کہا تو مور نے کہا کہ جب تک حضرت ادم اندر ہیں کسی کو بھی اندر انے کی اجازت نہیں یہ اللہ کا بڑا سخت حکم ہے۔اس نے کسی طرح مجھے اندر لے جاو میں فرشتہ ہوں اور اس نے جنت ہی تو دیکھنی ہے، شیطان لعین نے اس کے بدلے مور سے کہا کہ میں تجھے ایک ایسی دعا بتاوں گا کہ اس کو پڑھ کر تو بوڑھا نہ ہوگا، مرے گا نہیں اورجنت میں ہی ہمیشہ رہے گا۔ مور آخرکار اس کو سانپ کے پاس لے گیا۔شیطان نے سانپ ککو بھی اسی دعا کا لالچ دیا سانپ نے کہا کہ اللہ کا بڑا سخت فرمان ہے جب تک حضرت آدم جنت میں ہیں کسی کو جانے کی اجازت نہیں، اس پہ شیطان بولا کہ میں اپنا قدم بالکل باہر نہ نکالونگا۔سانپ نے اپنے منہ کو پھیلایا اور یہ مردود اس میں بیٹھ کر جنت میں داخل ہوگیا۔
یہاں ایک روحانی نکتہ ہے کہ ایک طرف تو اللہ نے شیطان کو جنت سے بے دخل کردیا اور دوسری طرف وہ اب سانپ کے منہ میں ہے، اب وہ جا کر حضرت حوا کو للچائے گا، دوسری طرف اللہ ان کو منع کرتا ہے کہ اس کے قریب نہ جانا۔ اس پر مقام قضا نے پوچھا " یا باری تعالٰی یہ کیا معاملہ ہے، اللہ نے کہا" میری قدرت ظاہر ہو اور میرا مرتبہ زیادہ ہو، جفا کو وفا سے تبدیل چاہتا ہوں ، کہ میرے منع کرنے اور لالچ دلانے کے بعد کون مجھ تک آتا ہے،
آپے پانا اے مصیبتاں تے آپ ای کچھناوے ڈور۔
اسی ممنوعہ درخت کے پاس جا کر اس نے سانپ کے منہ میں رونا شروع کردیا، اس کی رونے کی آوازسُن کر سب حوریں ، غلمان اور حضرت آدم و حوا اس کے گرد جمع ہوگئے۔اس نے مزید اپنی بات پر زور دینے کے لیے اللہ کی قسمیں کھائیں اور کہا کہ اس درخت کا پھل کھانے سے تم جنت سے نہیں نکالے جاو گے اور نہ ہی تمہیں موت آئے گی۔
اس واقعہ کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام ائے کہ رب تعالیٰ نے بلایا ہے، بارگاہ الہٰی میں جاکر دونوں شرمسار ہوئے' ہم نے غلطی کی، یا اللہ ہمیں معاف کردے'۔حضرت آدم نے رب سے بہت باتیں کیں،
 حق تعالٰی نے کہا حضرت ادم علیہ السلام  سے میں نے آپکو پیدا فرمایا تو کنیت ابومحمد رکھی،نورِ مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلیاں اور تابانیاں دیکھوجب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی توبھی وہ اپنی معافی کے لیے اللہ سے ہمکلام ہوکر عرض گزار ہوتے ہیں،
کہ یا اللہ تو مجھے بواسطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم معاف کردے۔ رب کریم نے پوچھا ' اپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جانا؟' حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ اسی زمانہ میں جب یا باری تعالٰی تو نے مجھے پیدا کیا تو عرش پہ لکھا ہوادیکھا ' لا الہ الا اللہ محمد رسول ا للہ' تب ہی سے میں نے جان لیا کہ یہ نام جو تیرے نام سے جڑا ہے یہ ہستی تیرے نزدیک سب سے زیادہ برگزیدہ ہے،
اس پہ ندا ہوئی " یہ نبی آخرالزمان ہیں جو تمہاری ہی ذریت سے ہیں ، ان کا نام آسمان میں احمد اور زمین پر محمد ہے، اگر یہ نہ ہوتے تو میں زمین و آسمان نا بناتا، میں نے تمہیں ان ہی کی طفیل پیدا کیا ہے۔ "
 اس طرح سے نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ان کی توبہ قبول ہوگئی۔
اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم اور حوا کو زمین پر اتار دیں ، ان کے علاوہ سانپ، مور اور شیطان کو بھی زمین پہ اتار دیا گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو ہندوستان کے شہر سراندیپ میں ، حضرت حوا کو جدہ میں، مور کو سیستان میں، سانپ کو اصفہان میں اور شیطان کو کوہ دماونڈ میں اتار دیا گیا یا کچھ کا کہنا ہے کہ بصرے سےکچھ فاصلہ پہ جہاں یا قوم جوج ماجوج کی دیوار ہے۔ سانپ کے پاوں غائب کردیے گئے اور اس کو زمین پہ رینگنے کے لیے رہنے دیا، مور کے پاوں بدصورت کردیے، شیطان کی شکل مسخ کردی گئی اور بہت رسوا کرکے دنیا میں ہی رکھا گیا۔
حضرت آدم کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔جب آپ دنیا میں آئے تو جو پتے آپ نے انجیر اور عود سے لیے تھے وہ جب ہندوستان کے درختوں پہ گرے تو وہ ہمیشہ کے لیے خوشبودار ہوگئے، اسی لیے تو پورے پند میں ہریالی بہت ہے۔ جب آپ جنت سے ائے تو اپنے ساتھ زرعی اوزار بھی لے کرآئے۔ اپ کے اسی مبارک پیشے کی وجہ سے دنیا میں نفع وجود میں آیا۔
حضرت آدم کو دنیا میں آنکر بہت وحشت اور گھبراہٹ ہوئی تو اللہ نے جبرائیل کو بھیجا کہ جا کر اذان دے، حضور علیہ الصلوۃ کانام نامی سُن کر اپ کی گھبراہٹ جاتی رہی" اشہدان محمدًا عبدہ ورسولہ" فرشتوں اور انسانوں میں عبادت کا عنصر تو ہے لیکن انسان میں اس کے علاوہ محبت بھی ہے۔ اسی محبت سے محنت اور اسی محنت سے قربت جس سے کہ اسرار کھلتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو نائب بنا کر گیا تاکہ وہ لوگوں کو محنت اور محبت سے اللہ کے واحد ہونے کا اور اس کی عبادت کا پیغام دیں اور شیطان ملعون کی پیروی نہ کریں۔