Monday 4 April 2016

Hazrat shah mohammad ameen shah

اعلحضرت شاہ محمد امین شاہ رح فرماتے ہیں
حدیث مبارکہ- الشیخ فی قومہ کان النبی فی امتہ 
ترجمہ ۔ جس طرح علم ظاہر کے لیے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح علم باطن کے لیے کسی شیخ یعنی پیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم باطن دل سے دل تک اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔ اکثر پیروں کا باطن رابطہ مریدوں کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے۔اتنی بڑی راہبری کے لیے ظاہریت کافی نہیں ہوتی۔ کچھ باتیں اشارے میں اور کچھ کنایوں میں سمجھائیں جاتی ہیں۔ بعض اوقات الفاظ دھوکہ دیں جاتے ہیں۔ یہ سب سلوک کی منزلیں علم باطن ہی طے کرتا ہے۔ مرید میں ایسے خصائل کا یکایک نمودار ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ پیر اس سے کوئی کام لینا چاہتا ہے چاہے دوسرے اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
زیادہ تر کیا بلکہ سب ہی مولویوں کا طریقہ علم ظاہر ہے جو نظر اتا ہے پہ یقین کقمل کرتے ہیں۔ مگر اولیاء کرام رح کا علم باطن کے ساتھ اپنے معتقدوں کی تربیت دیدنی ہے۔ پیرو مرید کا کامل یقین وسیلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لو مولوی بھی پیچھے نہیں ہے وہ بھی یہی کہتا ہے مگر ولی اللہ کے کہنے میں اور مولوی کی بات میں فرق اثر کا ہے ولی اپنی باطن کی انکھ سے جو دیکھتا ہے اس پہ مکمل یقین رکھتا ہے۔پیر نے اپنے ماننے والے کو کامیابی کی سیڑھی کے پار دیکھتا ہے۔مولوی نے بس وعظ کیا اورا س کی ذمہ داری ختم۔ اللہ تو خود کہتا ہے کہ اگر تم نے دین کو سمجھنا ہے تو میرے اولیاء کی صحبت اختیار کرو۔
یہ اللہ والے ہر وقت اس کا قرب، لطف و عنایت ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اس تک جانے کے لیے اسی کے اسم کو وسیلہ بنا کر خوب ااس کی مداومت کرتے ہیں۔ اولیاء اللہ خود اپنی ذات میں ایک وسیلہ ہوتے ہیں۔ان کو بھی تو وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس ضمن میں یہ نماز، قران، نوافل اور سب سے بڑھ کے درودشریف کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ حضور عالی صلی اللہ علیہ وسلم پہ درود کی لڑیاں بھیجنا کوئی کم سعادت نہیں۔ تمام عبادتیں اس ایک عبادت کا مقابل نہیں ۔اپ ﷺ پہ درود پاک بہت بڑا وسیلہ ہے۔ درود پاک کی اہمیت اور فیض کو سمجھنے ے لیے پیر و مرشد کا ہونا ایک ضروری امر ہے اس لیے کہ بعض باتیں سمجھنے کے لیے ایک عارف کامل با وقار کی نظر کسی ان حیات سے 

کم نہیں ہمارے لیے اتم ضروری ہے۔
قطب العارفین غوث الکاملین فخرالمتوکلین اعلحضرت شاہ محمد امین شاہ رح فرماتے ہیں
سستی اور کاہلی غلاموں کا شعار ہے مریدین کا نہیں دنیا میں اس طرح رہو کہ دنیا والوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ تم بے کار ہو اور صرف دین کا سہارا لے کر اپنی زندگی کے دن کاٹو گے۔ دنیا میں رہنا ہے تو دنیاوی لباس پہن کے رکھو جس کسی کو ضرورت ہو گی تو وہ ضرور اللہ تعالی لی رضا سے تمہارے پاس ائئے گا۔ اپ سرکار اکثر دعا کیا کرتے کہ یا اللہ ایسی غربت سے بچانا جو مجھے تیری عبادت سے دور کر دے۔ اپ فرماتے کہ مفلسی اور ناداری بہت بڑی افتیں ہین۔ دنیا داری میں دین کرنا ہی بہادری اور نجات ہے۔ دینداری کے لباس میں دنیاگری کچھ بات سمجھ اتی ہت اور کچھ نہیں۔

قطب العارفین غوث الکاملین اعلحضرت شاہ محمد امین شاہ قدس سرہ العزیز رح فرماتے ہیں 
تمام علوم کی ابتدا اور انتہا کلمہ طیبہ میں ہے۔ کدورت والا دل کلمہ طیبہ کی تجلی کو نہ تو پا سکتا ہہے اور نہ ہی ذاکرین کلمہ کی حقیقت کو جان سکتا ہے۔ جو شخص اپنی زندگی میں سو بار لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ذکر کر لے گا تو اللہ کا وعدہ ہے کہ اس شخص کے خامدان کے سات افراد کو جہنم سے اذادی ہو گی۔جب نجی کوئی اسی طرح یعنی ایک بار بیٹھ کر سو بار کلمہ گو کو بخش دے تا کہ میرا ہلنا بند ہو ندا اتی ہے کہ ہم نے اسے معاف کیا۔ سبحان ا

No comments:

Post a Comment