Tuesday 19 January 2021

Mohabat e Rasool SAW

 

سوال:: ہمیں اللہ سے کیا مانگنا چاہیے؟

جن حضرات سے میں نے سوال کیے اُنہوں نے اپنی فہم ، فراست اور علم کے مطابق جواب دیے۔ جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

عامر بشیر اور عارف صاحب کا یک ہی جواب ہے عشق ردول صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ مکمل جواب ہے۔۔۔۔

رسلان صاحب ، ایڈمن آفیسر:- اللہ کی رحمت مانگنی چاہیے۔ا

بلاول انور صاحب ، میڈیا آفیسر:-اللہ نے ہمیں جس مقصد کے لیے زندگی عطا فرمائی ہے ہمیں وہ مقصد پورا کرنے کی توفیق مانگنی چاہیے۔

حافظ نعمان ، آر اے سی انجینئر:-تندرستی مانگنی چاہیے۔

حافظ شاہد ، فارماسسٹ :-اللہ نے قرآن میں پہلے ہی دعا بیان کردی ہے جو سورۃ الفاتحہ کا حصہ ہے اھدنا الصراط المستقیم ۔۔۔۔ الضالین۔

حافظ اسد صاحب ، ایڈمن ہمیں بخشش مانگنی چاہیے۔

عاصم علی صاحب ، الیکٹریکل انجینئر- ماں باپ کی بلکہ سارے مسلمانوں کی بخشش مانگنی چاہیے، گناہوں کی معافی بھی مانگنی چاہیے۔

فاخرہ صاحبہ ،ڈائٹیشن:-ہم نیک راستہ پر چلتے رہیں اور اللہ اپنے سوا کسی اور کا محتاج نا بنائے۔

خالد صاحب، ایڈمن آفیسر:-محبوب کی اتباع، اس کے علاوہ استقامت اور توفیق مانگنی چاہیے۔

اعجاز الیاس صاحب ، کیمیکل انجینئر:-اللہ کا کرم اور فضل مانگنا چاہیے۔

عاشق صاحب ، لیکچرر میتھمیٹکس :-اللہ سے استغفار اور ایمان مانگیں، اگر وہ ولی ہے یا ولی بننے کی آرزو 

ہے تو موت مانگنی چاہیے۔

میرا جواب محبتِ رسول کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ واصحاب وسلم ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ جواب ہے کہ یہ دل میں ہوتی ہے۔اگر ہمیں کسی سے محبت ہے تو اس کا کوئی دلبر بھی ہوگا۔ یہ اسی سے کی جاتی ہے جو اس کو نبھانا بھی جانتا ہو۔یہ اصل میں دل کی کیفیت کا نام ہے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ محبت ایمان کی زندگی اور روح کی غذا ہے۔

کسی نی کیا سچ کہا ہے" محبوب کی خوبیوں میں گُم ہونے کا نام محبت ہے"۔

مُحب کی اپنی کوئی ذات نہ رہے، اُس کی ذات کی نفی ہوجائےتُو تُو نا رہے بس وہ ہوجائے۔

دل کا کسی شخص، چیز یا جگہ کی طرف میلان رُحجان اورلگاو محبت کہلاتا ہے۔ جب ہم پر کسی کا احسان بار بار ہو تو ہم اس سے محبت کرنا شروع کردیتے ہیں، یہ فطری بات ہے۔

اسی طرح جس طرح حافظ شاہد نے کہا کہ اھدنا الصراط المستقیم تو اس سے مراد بقول حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یہاں تو بغیر کسی اور تشریح و توضیح کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی مانگ لیا گیا ہے۔اے اللہ ہمیں ہدایت عطا کر وہ ہدایت سیدھا رستہ تو خود آپ سرکار رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جناب عامر بشیر، جناب عارف اور شاہد صاحبان کے جوابات کمال درجہ کے ہیں، ماشاءاللہ

قرآن پاک ایک اور جگہ رقمطراز ہے

قُل ان کنتم تحبون اللہ فا تبعونی یحببکم اللہ۔۔۔۔۔۔

اللہ کی ذات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک سےیہ کہلاتا ہے کہ میرے پیارے نبی آپ یہ کہہ دیں کہ جو اللہ کی محبت چاہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرے۔لفظ اتباع کا معنی پیروی، پیچھے چلنا اور پابندی کرنا ہے۔اتباع میں ہمارا طورطریقہ اگر خوشگوار نا ہو تو عمل کرنا آسان نہیں رہتا۔

جن حضرات نے بخشش، عزت، تندرستی، گناہوں سے  معافی، فضل، کرم، قُرب، رحمت، نعمت اور توفیق مانگی ہے اُن کا اپنا نقطہ نظر ہے۔

اللہ تعالٰی نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے محبت کی ہے۔ یہ محبت کرنااللہ کی سُنت ہے۔اگر لفظِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو چار حروف اک مجموعہ ہے  ان کے معنی سمجھیں جائے تو لفظ محمد یعنی بہت تعریف کیا گیا، یہاں ذرا رُک کراس بات پہ غور کیا جائے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک تو اللہ نے اسمان میں رکھا تھا جہاں ابھی انسان نہیں تھے تو تعریف کس نے کی، یا پھر جنوں نے کی، مگر بات سمجھ آتی ہے۔۔۔۔۔ ان اللہ و ملئکتہ یصلون علی النبی۔ یا یھاالذین امنوصلوا علیہ وسلموا تسلیما۔ سورۃ الاحزاب-56

ترجمہ۔ اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درورد بھیجتے ہیں،مومنو تم بھی ان پر درورد و سلام بھیجا کرو۔

عربی زبان و کلام میں لفظ' یصلون' کا معنی و مطلب بھیجتے اور بھیجیتے رہیں گے کے آتے ہیں۔ اللہ اور اس کے فرشتے تو یہ کام اپنائے ہوئے ہیں تبھی تو سمجھ آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی تعریف کیا گیا کیسے ہے۔ غرضیکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی میم ہٹا دو تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف مطلب بنتا ہے، اگر حا کو بھی ہٹا دو تو مد رہ جاتا ہے جس کا مطلب ہمیشہ رہنے والے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہوئے، اگرمیم بھی ہٹ گیا تو دال یعنی دلیل جو روز محشر میں اُمتی اُمتی کہنے والی صرف صرف اک ہی ذاتِ اعلٰی اولٰی ارفع ہے جن کا نام نامی سیدنا محبوبنا شفیعنا نبینا حضرت محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم ہے۔

اللہ نےا پنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے پیار سے پکارا اورمُخاطب کیا ہے۔ اللہ کا اپنی مخلوق سے اعلان ہے کہ میں نے تمہیں ایک بڑے حوصلہ مند، اولالعزم، صابر، شفیق،راہ مُستقیم پر چلنے والےاور سیدالبشر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سپرد کیا ہے اب تم بالکل نا گھبرانا اور یہ پیارا نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں بہت چاہتا ہے، تمہاری ہر مُصیبت اس پہ بہت گراں گذرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں۔ تو ایسے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیوں نا ہو۔

اللہ نے خود اپنے بارے میں کہا کہ میرا صفاتی نام ظاہر ہے اور محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نُور کا مظہر ہیں۔ اور فرمان باری تعالٰی ہے' کنت کنزامخفیا'

آپ سرکار عالی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے تو ہم سارے بخش دیے جائے گے۔

اللہ نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نُور کو تخلیق کیا۔جب یہ نُور مرکز سے مقام شہود پہ آیا تو اللہ نے اس کودس ہزار سال تک قُربِ خاص میں رکھا۔ اس نُور کے چار حصے کیے ایک سے عرش، دوسرے سے کرسی تیسرے سے حاملان عرش بنائے اور چوتھے کو بارہ ہزار سال تک مقام محبت میں رکھا۔اس کے باقی نوری مقامات و درجات ہیں ان کی تفصیل یہا ں بیان نہیں کی جا رہی وہ ایک الگ بحث ہے۔

علاماتِ محبتِ رسول ارم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ وہ اتباع نبوی میں اول ہوتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ کثرت سے درود و سلام بھیجتا ہے، سیرت پاک کو پڑھتا ہے اور عمل کرتا ہے، مدحت کی مخفلیں سجاتا ہے، اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین کے ذکرو مطالعہ سے مُستفید ہوتا ہے اور اس سے محبت رکھتا ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اصحابہ کرام ، اہل بیت اطہار،آئمہ کرام، علماءکرام، اولیاء اللہ اور مسلمانوں کے لیے نرم دل رکھتے اور ان کی صُحبت کو پسندکرتا ہے۔ جو لوگ محبت سے آپ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم پر درورد پڑھتے ہیں حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو جانتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

ریحان بشیر قادری امینی علائی شکوری