Friday 14 October 2016

Allah ka qurb

 زیر با فیضانِ نگاہِ مُرشد عالی اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہؒ
قادری علائی شکوری چشتی منعمیؒ
سوال: اللہ کے قریب کون ہے اور اللہ کس کو پسند کرتا ہے؟
اس سوال کی ضمن میں چند معتبر لوگوں سے جو جوابات موصول ہوئے وہ اپ کے گوش گزار ہیں۔
جناب عامر بشیرصاحب ۔ بی ایس ٹیک انجینیئر الیکٹریکل
 جب اللہ کی ذات آپ کو مخلوق کی خدمت کا موقع دے۔
جناب عقیل حیدرصاحب ۔ بی ایس سی انجینئر الیکٹریکل
اللہ کے قریب وہی ہے جو نیک ترین ہو۔ ہم کسی کو اندر سے نہیں جانتے کہ اللہ کے کتنے قریب تر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے ظاہری رویے کودیکھ کر جانچا جا سکتا ہے لیکن اندر سے نہیں پتا کہ وہ ایسا ہے کہ نہیں۔
 جناب محمد قاسم شاہ صاحب ۔ ایڈ منسٹریٹر پنجاب پولی ٹیکنک کالج
  اور نماز پڑھو تو اس طرح کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ تُم اللہ کو یاد کرتے ہو اور اپنے ہر عمل میں تقوٰی اختیار کرو۔
معصومہ اعجاز۔ ڈی فارمسسٹ
جس کی دعا قبول ہوتی ہو۔
 جناب ڈاکٹرعارف صاحب
جس کو اللہ کا خوف کوئی بھی بُرائی کرنے سے روکے اور کو اللہ کا ذکر کرے تو اس کو اس میں لُطف اور سُرور محسوس ہو۔
جناب خافظ محمد ابو بکر صاحب۔ بی ٹیک اینڈ بی ایس سی انجینیئر الیکٹریکل
خضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب میرا دل کرتا ہے کہ میں اللہ سے بات کروں تو قرآن پڑھتا ہوں، اور جب میرا دل کرتا ہے کہ اللہ مجھ سے بات کرے تو میں نماز پڑھتا ہوں۔
 جناب عمر فاروق صاحب۔  ڈی اے ای انجینیئر
جب اللہ کسی کو پسند کرتا ہے تو اس کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔
ان حضرات گرامی کے بیابات آپ نے ملاحظہ کیے ہیں کسی بھی حضرت کی بات کو من و عن رد کہنا یا رد کرنا کیوں ٹھیک نہیں وہ اس لیے کہ ہر ایک کا مرکز و محور اللہ اور اس کے رسول مقبول کی ذات اطہر ہے۔
 میرا جواب: اس سوال میں پوچھے گئے دو نکات ہیں ایک تو ہے قُربت الہٰی اور دوسرا اللہ کی پسندیدگی کا معیار۔اللہ نے  انسان کو زمین پراپنا نائب بنا کر بھیجا ہےجس میں کہ وہ انسان کو اپنی قُربت بخشے اور اس کو اپنی قوتوں اور طاقتوں سے روشناس کروائے۔ اس بات کو سمھجنے اور جانچنے کے لیے جو حواس، عقل ، ادراک، شعور،خواہش،قلب،دماغ، روح، وجدان اور دیگر صلاحیتیں انسان کو مرحمت کیں گئیں ہیں وہ ان سب کی مدد سے اللہ کریم روف الرحیم کے قُرب اور اس ذات با برکت کے معیار کو جان سکتا ہے۔ قُرآن حکیم میں بڑے واضح انداز میں سب حقائق کو بیان کردیا گیا ہے۔   قُرآن ہی میں ارشاد باری ہے۔
اے میرے رب تو مجھے حکمت عطا فرما ، اور مراتبِ قُرب میں اعلٰی درجہ کے نیک لوگوں میں مجھے شامل فرما،اور میرا ذکر آئندہ آنے والوں میں جاری رکھ، اور مجھ کو جنت النعیم کے مستحقین میں سے کر۔
سورۃ الشعرآء، آیت 83۔84
اب اس بیان میں انسان کے انکسار اورعاجزی کو خود اللہ بیان کرتا ہے کہ انسان کی اصل دعا یہ ہونی چاہیے کہ وہ اللہ سے اس کی حکمت مانگےاور اپنا مقام صالحین کے ساتھ مانگے اور اس طرح کہے کہ اس کا ذکر اس کے بعد بھی جاری رہےاور اس کے بعد جنتی ہونے کی استدعا کرے۔ اللہ تعالٰی کی یہی شان ہے کہ وہ اپنے بندے کی یہ سر بلندی چاہتا ہے۔  یہ دونؤں پہلو کس طرح ممکن ہیں۔ ایک گنا جائے تو نیکوکاروں میں اور دوسرا نام زندہ رہے تو کون ہو جو اس کا نام لیتا رہے کیا وہ کوئی اور جسامت والا اس ہی جیسی روح رکھتا ہو افکار رکھتا ہو یا وہ اس جسم و پوست میں خود ہی ہوگا جبکہ وہ خودوہاں نہ ہویہ تو ولادتِ ثانوی ہے  دو پیدائشوں والایعنی روح کی پیدائش، سیکنڈ برتھ آف سول۔ ہم جب کسی کے مرید ہوجاتے ہیں تو ہماری دوسری پیدائش ہوتی ہے، ایک تو ہم عندالشرع اپنے باپ کے اور ماں کے نطفے سے وجود میں لائے گئے اور پھر اس طرح روح کی پیدائش۔ روح کا اپنے اصل ٹھکانے پر آجانا کہ وہ اپنے حقوق کو اچھی طریقے سے حاصل کرلے۔ تو کسی بھی سلسلے میں داخل ہونے کا یہ مطلب ہے۔ اس کو کیا کہتے ہیں جی ہاں سیکنڈ برتھ آف سول۔ یہ سیکنڈ برتھ سے ہی آپ اللہ کے قُرب کو سمجھ جاتے ہیں۔ تمام اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین حضور کے جانثار ہیں آپ سرکار دو عالم ہر صحابی کو بیعت کرتے اور یہ بیعت کرنا ہی سیکنڈ برتھ ہے۔ نبی کو معصوم پیدا کیا جاتا ہے یہ تو مانتے ہیں آپ۔اچھا مثال کے طور پراگر آپ نے کوئی خوشبو لگائی ہو تو سب آپکو ملنا پسند کریں گے اگر کوئی نہ چاہے تو اس وقت تو آپ اس لگی ہوئی خوشبو کو تو فی الفور جُدا نہیں کر سکتے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ خوشبوئیں بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہیں اور جب کبھی اصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے آپ کو ڈھونڈھنا ہوتا تو آپ کی ایک خاص خوشبو کو سونگھتے جو مدینہ طیبہ کی گلیوں میں مہک رہی ہوتی اور آپ کے قُرب کو پا لیتے۔سُبحان اللہ تو یہ بیعت ہونا اور خوشبو ان میں کیا تعلق ہے آپ خود ہی سوچے؟؟؟
جو صحابی رسول ایک بار آپ کا بیعت ہوجاتا تو آسمان سے صدا آتی سلام ہو تم پرکہ جس نے اس نبی آخرالزماں کا دامن پکڑ لیا اور ان کی جماعت میں داخل ہوگیا اس نے اپنے لیے عافیت کا دروازہ کھول لیا۔پہلے انبیاء جس طرح حضرت نوح علیہ لسلام کا واقعہ ہے کہ لوگ آپ سرکار کی کشتی میں آپ ہی کے ساتھ تھےتو اللہ نے ان سب کو بچالیا اور جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہمراہ تھے وہ بھی امن میں رہے۔ تاجدارِ انبیاء خیرالانام سیدالکونین سید الانبیاء حضرت محمد مُصطفٰی احمد مُجتبٰی صلی اللہ علیہ واٰلہ واصحابہ و بارک وسلم کا ہو جانا تو اللہ کا خصوصی کرم ہے تم پر ۔ قربت اس سے چاہو جو اس نعمت کو پا چکا ہو نہ کہ خود سے ہی علامہ صاحب بن جاو گے تو ساری عمر بھٹکتے پھرو گے جو چیز ایک فرد کے پاس نہ ہو تو وہ دوسرے کا سہارا لیتا ہےیہ تو نہیں کرتا کہ اس کو خود ہی بنانے بیٹھ جاتا ہے۔ سُنار ہی جانتا ہے کہ کان کا سونا ہے کتنا لگے گا یا وہ گلے میں پہننے والاہار کان کے لیے بنا کر تمہارے ہاتھ میں تھما دے گا۔ہے تو سونا ہی وہ بھی اس کو کچھ اور تو کہنے سے رہے اب۔ اللہ سے ناطہ رشتہ استوار کرنے کے لیے ہم اپنی بگڑی ہوےحالت کو درست کیے بغیر اگے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر چند دنوں کی عبادت کرلینے کے بعد کسی خواجہ کے دربار پہ جا کر خوب التجا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی عطا ہو جلالِ ابوذر ہمیں بھی عطا ہو شانِ بلالی دمکتے رہے تیرے روضے کے جلوے چمکتی رہے تیرے روضے کی جالی مگر جب اس بندہ عاجز و آہ و فغاں کو کچھ حاصل خیر نہ ہو تو وہی مشہور و عام کرنے لگتا ہے کہ قُرب اللہ اوہ! اوہ! بھئی ہمارا کام نہیں ۔
انسان کے اندر جو دیا جل رہا ہے اور جو کہ اس کے پیدا ہونے سے لے کر اس کی موت تک جلتا ہی رہتا ہےوہ ہی اصل حیاتی ہے وہ ہی اصل راز ہے جو اس کو مرنے کے قریب آنکر پتا چلتا ہے کہ یہ تو میرے اندر ہے جس کو کسی ایک اعتبار سے ما فی الضمیر کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ یہ ہی ضمیر اس کے قلب اور دماغ کو کبھی کبھی بہت طاقتور لہریں بھیجتا ہے کہ اب بھی وقت ہے سدھر جا اور ایک واحد قوت والے رب کو مان لے اب بھی پڑھ لے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ اس کلمہ پاک کے 24 حروف ہیں ایک حرف کی حقیقت بھی مل جائے تو زندگی سنور جاتی ہے۔ ہر حرف کسی زبر زیر پیش شد اورجزم کے تحت ہے تو اس کا ذاکر بھی اس کے تحت ہوجاتا ہے جس کے تحت یہ کلمہ ہے۔اب مل جائے گا نہ قرب اور اللہ کی پسندیدگی کا تخفہ۔  
 اس معیار کا نام ہی قُربت ہے۔ لفظ نیک کا مطلب کسی آسانی کا نام نہیں ہے۔
اج نماز ادا کی تو کل خلافت کے مقام پہ فائز ہوگئے۔آج سے ہی تہجد پڑھنی شروع کر دی ہے تو دعائیں قبول ہوتی جائیں گی۔ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ نیکی کا اگر معیار ہے تو آپ کی سُنت مبارکہ ہے بس۔ قُرب بھی مل جاتا ہے یہ بھی کوئی مُشکل نہیں کیونکہ آپ کے دربار میں کوئی بات ناممکن نہیں ہے۔اب کرنا کیا ہے اور کس طرح کہ یہ معیار اور قُرب حاصل ہو۔ وہ  کون سے ایسے اعمال و افعال ہوں کہ جن کی مدد سے ہم اللہ کے پسندیدہ بھی ہوجائے اور اس کا قُرب بھی پا لینے کے اہل ہوسکے۔
سب جہانوں کے پالنے والے نے اپنا سب کچھ اس ایک کملی والے ہی کو تو سونپا ہے۔ ساری کائنات اسی ایک محبوب کے لیے ہی سجائی ہے اس نے اور معیار کوئی اور ہو یہ کس طرح ممکن ہے۔انسان کے قلب اور روح کو جو ایک قلبوت میں رکھا گیا ہے تو اس کا سارا عمل آپ کی ہی ذات با برکات ہی کی حیاتِ طیبہ کی تقلید و پیروی ہے۔ آپ کے اہلِ بیت ہمارے لیے اعلٰی ترین نمومہ ہیں۔
ہدایت تو وہی پاتے ہیں جو عقل و سمجھ رکھتے ہیں۔  جن کی سمجھ کو اللہ نے فروغ اور وسعت بخش رکھی ہے۔جس کو اللہ تعالٰی کی ذات علم عطا کرتی ہے وہی اس کے راستے پر چلتے ہیں جس کو وہ پسند کرے وہ آگے بڑھ کر اس کی توصیف کرتا ہے۔ بصورت دیگر کون ہے جو یہ طاقت یا اختیار رکھتا ہو کہ وہ خود ہی خود سے اللہ اللہ کہہ سکے۔ وہ عطا کرتا ہے تو ملتا ہے۔
 حضرت امام حسین علیہ السلام اور اُن کے رُفقاء کار نے جو اللہ کی راہ میں جو قُربانیاں پیش کیں ہیں یہ ہیں قُربت کی نشانیاں اور معیارہیں ۔ سب کچھ اللہ کی راہ میں نچھاور کردیا نہ اپنی اولاد کو ترجیح دی اور نہ ہی اپنے آرام و سکون کو اور نہ ہی دولتِ دنیا کو۔ ہم ایسے ہی قُربت اور معیار کو ڈھونڈتے ہیں کہ کس جگہ ملیں گے جاو دیکھو کربلہ کا معاملہ وہاں کے مصائب، چیخ و پکار ، بچوں کے بلکنے کی آوازیں وہ سسکیاں اور صبر اور پھر بھی حق پہ چلنے کا عہد۔  اتنے لمبے سفر کا فاصلہ اور وہ بھی عورتوں اور بچوں کے ساتھ جب  سفری سہولتیں کم تھیں۔ کیا مشکلات نہ آئیں ہونگی ان معصومین پر۔ حضرت سُلطان باہوؒ اپنی ابیات میں مسافروں کے بارے میں رقمطراز ہیں۔
 شالا مُسافر کوئی نا تھیویں ککھ جناں تے پارے ہُو
اور مسافر بھی وہ ہیں جو خانوادہ رسول اللہ سے ہیں اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی چل پڑے ہیں ساری دنیا کو قرب اور معیار دینے۔ سُبحان اللہ۔
  ان تمام آلام و رنج کے باوجود بھی یہی ایک نعرہ کہ اللہ ہی واحد ہے اللہ ہی اول ہے اللہ ہی آخر ہے اللہ ہی باطن ہے اللہ ہی ظاہر ہے۔ اللہ ہی کُلھُم ہے وہی قادر ہے وہی مالک ہے وہی ایک ہے اور اس کو فنا نہیں ۔  
 آپ نے ہمارے سمجھ کے لیے بہت آسان کرکے دین الہٰی کو بیان کیا ہے تا کہ اس میں جو مشکل ہے وہ سمجھنے اور عمل میں نا ممکن نہ ہو۔ قُربت کے حصول کے لیے چند باتیں بہت ضروری ہیں۔
خوفِ خدا کرنے والی برگزیدہ ہستیاں قُربِ خدا کی منتظر
یحافون ربھم من فوقھم و یفعلون ما یومرون۔
سورۃ النخل، آیت 50
ترجمہ۔ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور جو حکم اوپرسے ہوتا ہے وہی کرتے ہیں۔
حضور نبی کریم فرماتے ہیں،
جب اللہ تعالٰی کے ڈر سے بندے کا دل کانپ اُٹھے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ تے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔
اللہ کا قُرب چاہنے والوں میں جنتی لوگ ہیں۔ جن کی نظر میں دنیا ایک قید خانہ ہے اور یہاں جو بھی حضور کی شرع کے مطابق زندگی گزارے گا وہی کامیاب ہے۔ آپ کے سفرِ طائف کی صبر کی مثال کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ کوئی بھی اس  جیسےصبر و برداشت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ تمام باتیں کہنے کے لیے لکھنے کے لیے تو بہت آسان اور نصیحت آمیز ہیں مگر جب یہ رقت بھرا منظرآپ پر گزرا تو فرشتے آنکر آپ سے اجازت طلب کرتے کہ آپ کہے تو ان نافرمانوں پہ پہاڑ گرا دے۔ مگر سُبحان اللہ کیا کہنا اس نبی لجپال کا کہ جنہوں نے دعا کی کہ ان ہی کی اولاد سے نیک لوگ پیدا ہوں۔اللہ تعالٰی کی ذاتِ مقدسہ فرماتی ہے۔
وَاللَّہ یُحِبُّ الصَّابِرین۔
ایک اور جگہ پہ فرمایا گیا۔
اِنَّ اللَّہ مَعَ الصَّا بِرین،
صابرین کی چار اقسام ہیں یہ میں اس لیے بتا رہا ہوں کہ یہ اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں جن میں وہ مصیبتوں پہ صبر کرتے ہیں، حرام کاموں سے پرہیز پہ صبر کرتے ہیں، اگر صدمہ آجائے تو صبر کرتے ہیں اوراللہ کی عبادت کو صبر سے انجام دیتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو چاہے اپنی کی گئی عبادت کا اجر ملے یا نہ ملے تو وہ اس کو کرتے چلے جاتے ہیں۔
ہر حال میں اللہ ہی سے رجوع کرنا اور استدعا اللہ کو بہت پسند ہے۔ ' جس بندے پر کوئی بھی افت آئے اور وہ میری بجائے مخلوق سے پناہ چاہے تو میں اُس پر آسمان کے دروازے بند کر دیتا ہوں۔' اس کا کیا مطلب ہوا کہ ہم نے اللہ کو کُلُّھُم نہ مانا کہ وہی کارساز ہے وہ تو تمہارے دلوں کے بھید جانتا ہے۔
آفت پر صبر کرنا اور شکایت نہ کرنا اور پھر اس کے اجر سے آخرت کے عذاب سے بچ جانا انبیاء اور اولیاء کا وطیرہ ہے۔
حضور پیرو مُرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہؒ فرماتے ہیں کہ افت عارفین کے لیے چراغ، سالکین کی بیداری، مومنین کے لیے اصلاح مگر غافلوں کے لیے ہلاکت ہے۔ غافل کبھی بھی صبر نہیں کرتا اس کو اللہ پہ اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہوتاوہ اور اس کا شیطانفرعونیت کا واضح ثبوت ہوتے ہیں بلکہ جلد بازی میں اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے اس کے لیے کوئی بھی حرام نہیں وہ صبر کرنے والوں کا تمسخراُڑاتا ہے اللہ نے ایسوں کو غافل کہا ہے۔
حضور نبی اکرم نے فرمایا :
'جو ایک شب بیمار رہااس نے صبر کیا، اللہ تعالٰی پر راضی رہاتو وہ گناہوں سے اس طرح  نکل گیا جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔'
ایک اور جگہ پر حدیثِ مبارکہ میں روایت کیا جاتا ہے:
جب بھی کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ دو فرشتے اس بندے کی طرف بھیجتا ہےاور حکم ہوتا ہے کہ جاو معلوم کرو کہ میرا یہ بندہ کیا کہتا ہے۔ اب اگر وہ بندہ اللہ کی تعریف بیان کرتا ہے تو وہ فرشتے اس کو لے کر آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی کی ذات فرماتی ہے کہ میں چاہوں تو اپنے اس بندے کو وفات دوں اور جنت میں داخل کروں اور اگر زندگی بخش دوں تو پہلے خون سے بہتر خون اور پہلے گوشت سے بہتر گوشت عطا کردوں اور اس کے گناہوں کو مٹا دوں۔
فراخی اور تنگی دو ایسی باتیں ہیں جس سے کسی بھی فرد کی پہچان کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
جس نے فراخی کے دنوں میں شکر کیا اور تنگی کے دنوں واویلا کیا وہ جھوٹا ہے۔ہر حال میں اسی اللہ کا شکر ادا کروکہ اس کی ہی طرف تم لوٹ کر جانے والے ہو۔سب کچھ اسی کی دی ہوئی امانتیں ہیں۔
دوسری روایت ہے:
جو میری قضا پر راضی نہ ہو اور میری عطا پر خوش نہ ہووہ کوئی اور رب ڈھونڈھ لے۔استغفراللہ
اللہ کے مقربین ہونے کا راز
تو اللہ حضرت موسٰی علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے بہت قریب ہو جاوں جس طرح کے اپ کی روح اپ کے بدن کے قریب ہے، کلام زبان کے قریب ہے، کھٹکا دل کے ، روشنی آنکھ کے تو حضرت محمد پر درود شریف پڑھا کرو۔ میرے قریب ہوجاو گے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اَلَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی سیدنا محمد وعَلٰی اٰل سیدنا محمد و اصحاب سیدنا محمدو بارک وسلم علیہ۔
 جتنا بھی پڑھو تو کم ہے چاہے 50 تسبیح کرلو آقا دوجہاں کا ہم پہ بہت کرم ہے اتنا بڑا احسانِ عظیم کہ جس کا کوئی بھی شمار نہیں تم نے سُنا نہیں ہے کہ پہلی امتیں کس طرح روند دی گئی۔ اوپر سے یہ کرم کہ اپ کے نام لیوا کو اتنا اختیار ہے کہ جب وہ اپنے ہاتھ کسی کے حق میں اُٹھا دیں تو وہ دعا مقبول ہو جاتی ہے۔جن کی مثالیں پوری عالمِ کائنات میں ہر جگہ جاگزیں ہیں ان ہی نامور ہستیوں میں تمام اصحابِ رسول اہلِ بیتِ اطہار، آئمہ کرام، اولیاء کرام اور جن میں ہم حضرت غوث الاعظم محمد عبدالقادر جیلانیؒ ، حضرت معروف کرخیؒ،حضرت سری سقطیؒ، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت ابو بکر شبلیؒ،حضرت داتا گنج بخشؒ،حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ،حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ، ، حضرت شاہ مہدی الفاروقی القادریؒ ، حضرت امداد علی بھاگلپوریؒ، حضرت مخلص الرحمٰن ؒ،حضرت عبد الحی فخر الاولیاءؒ، حضرت شاہ نبی رضا خانصاحبؒ حضرت شاہ عبدالشکور، حضرت الشاہ محمد علاء الدینؒ  اعلٰحضرت شاہ محممد امین شاہؒ جیسے اصفیاء اور اتقیاء اللہ شامل ہیں۔ تو کیوں آپ کا دین نہ پھیلے۔   
غفلت قُرب کے سامان میں سے نہیں
غفلت سے نعمت زائل ہوجاتی ہے اور انسان کو شیطانی اور نفسانی بنا دیتی ہے وہ کسی درندے سے کم زندگی نہیں گزارتا۔ نعمتِ خدا ہے کیا کہ جس کے کھو جانے پہ اتنا افسوس ناک مقام ہے تو یہ ہے ذکر اللہ ہُو، نماز ، تلاوتِ قُرآن و ترجمہ و تفسیر، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی مداومت اور درود پاک۔  کوئی منافق ہی ہوگا جو آپ پر درود پاک نہ پڑھتا ہو۔یہ آیت تو خود قُرآن مجید میں ہے:
ان اللہ و ملئکتہ یصلون علی النبی یا یھا الذین امنو صلوا علیہ و سلموا تسلیما۔
اب اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے کہ خود قادرِ مطلق بھی اس درود میں شامل ہے جب وہ اپنے محبوب کو نہیں بھولتا اور پڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس کا پڑھنا تو کیا ہی بات ہے اس کا شمار ہمارے اندازوں اور کنایوں سے بہت بلندوبالا ہے تو ہم انسان ہوتے ہوئے آپ کو کیوں بھلا دے۔
ولا تکونوا کا لذین انسواللہ۔
سورۃ حشر
اور ان کی طرح نہ ہوجاو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا۔
سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔
فاذکرونی اذکرکم وشکرولی لاتکفرون۔
ذکر اللہ اصل میں یاد ہی ہے جب ہم نماز یا قران پڑھتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالٰی کو یاد کرتے ہیں۔ سلسلہ عالیہ کے مُریدین جو ذکر خفی نفی انفاس کرتے ہیں تو وہ اللہ ہی کو پکارتے ہیں یعنی یاد کرتے ہیں۔ ان حضرات کی بار بار کوشش ان کو اللہ کا ذاکر بنا کر اللہ کے قریب کر دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو اس ذکر میں لُطف و کرم نصیب ہوتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنا کہ تم جس نہج پر اللہ کو یاد کروگے یا جس گمان پر اس کی یاد کروگے تو تم کو اسی طرح اجر بھی عطا کیا جائے گا۔اس بات میں کسی کی ترقی پر جلنا یا حسد نہیں کرنا چاہیے کہ میں وہ نہیں جانتا جو وہ جانتا ہے تو اس میں قصور تمہارا اپنا ہے۔
اصل میں مومن اور منافق میں فرق ہوتا ہے۔
مومن رشک کرتا ہے اور منافق حسد کرتا ہے۔
مومن کا کام نماز اور قران میں لگے رہنا تو منافق کا کام خوردونوش میں ہونا ہے۔
مومن معافی اورتوبہ کا طلبگار ہوتا ہے اور منافق حرص و اُمید کا شکار رہتا ہے۔
مومن مناسب مال کماتا ہے جو اس کا نان نفقہ چلا دے اور منافق ہر وقت مال برداری میں اور ذخیرہ اندوزی میں مصروفِ عمل ہوتا ہے۔
مومن کے دل میں اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوتا اور منافق کو لوگوں کا ڈر ہوتا ہے کہ میں نے تو دولت اکٹھی نہیں کی اب لوگ مجھے بولیں گے کیوں نہ میں کوئی کام ہی تلاش کر لوں تو اس کام میں وہ ہر تمیز بھلا دیتا ہے۔
مومن گناہ سے بھاگتا ہےاور منافق گناہ کر کے پچھتاتا نہیں نہ ہی توبہ پر جلد تیار ہوتا ہے۔
اللہ اس طرح کے نا گفتہ بہ لوگوں کو ہدایت بھی نہیں دیتی یعنی دین کی سمجھ۔
ان تمام عبادات میں کاہلی اور سُستی کرنا اور اپنا جس طرح جی چاہے یا نا چاہے پر اللہ کے حضور حاضر ہونا پرلے درجے کی جہالت اور گمراہی ہے جو ہماری اسی منافقت اور غفلت کا نتیجہ ہے۔اللہ کے مقامِ قُرب سے دور کرنے والی یہ بُرائی انسان کو کُفر کی حالت تک لے جاتی ہے۔
اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے کہ ہمارا میلان ان دو لازوال ہستیوں کی طرف ہوجاتا ہے۔ اگر یہ میلان بہت شدت اختیار کر جائے تو پھر اسی کو عشق کہا جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے لیلٰی و مجنوں یا ہیر و رانجھا مثالیں ہیں۔ حضرت زلیخا نے حضرت یوسف کے عشق میں اپنی ساری دولت اور مال اسباب تک لُٹا دیا۔ ہر قابل عاشق کی تین نشانیاں ہوتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ وہ اپنے محبوب کی زبان بولتا ہے۔
دوسرا محبوب کا ہم نشین بن جاتا ہے یعنی اپنے محبوب کے تصور میں رہتا ہے۔
تیسرا یہ کہ وہ ہرکام میں اپنے محبوب کی رضامندی کو ترجیح دیتا ہے۔ اور اسی پر اپنے تمام کام سر انجام دیتا ہے۔
بہت اہم نکتہ
اللہ کی رضا اور قرب والے کون ہیں جو اس کے حکم کو ماننا نعمت جانتے ہیں۔یاد رکھنا چاہیے کہ جب بھی انسان کو مغفرت کی نعمت مل جاتی ہے تو اپنی عبادات کو عین شرع محمدی پہ کر لیتا ہے۔   سیرتِ پاک محمد کو نا صرف کہ جاننا بلکہ اس پہ عمل پیہم کے ساتھ گامزن ہوجاناہی اس فرد کا حاصل ہوجاتا ہے۔
وہ کون سے ایسے عوامل ہیں کہ جن کی بنا پر ہم اللہ کا قرب حاصل نہیں کر پاتے۔ ان میں زیادہ تر ہماری اپنی ہی کررتوتیں ہیں۔ جو کوئی نفس اور شیطان کا ساتھ دیتا ہے تو اپنا خود ہی نقصان کرتا ہے۔ یہ بات تو کسی بھی وضاحت کی محتاج نہیں کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔لہٰذا غلطی کرنا تو انسان کے اندر اس طرح ہے جس طرح آٹے میں گُن بھی پھس جاتا ہے۔
انسان بنیادی طور پر عیش و عشرت کا بہت خواہاں ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ سرپٹ گھوڑے کی مانند بھاگتا پھرے اور اپنی مرضی کرے۔فرعون، ہامان،شداد، نمرود، ابرہا اور ہزید یہ سب شیطانی قوتیں ہیں۔ نفس اور  شیطان ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ ۔ شیطان سرکش نفس پہ سواری کرتا اور اس کو ساری بے حیائی اور فحش باتیں بتاتا ہے۔قران کہتا ہے کہ شیطان کی پیروی نہ کیا کرو یہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔اس نے اللہ پاک کے حکم کو رد کیا اور تکبر میں بولا کہ میں کیوں اس مٹی کے آدمی کو سجدہ کروں۔ اللہ نے اس کو اپنے ہاں سے نکال باہر کیا۔ یہ ملعون لا الہ الا اللہ کو مانتا ہے مگر جب ساتھ محمد رسول اللہ آیا تو وہ بگڑ کر بولا مگر اللہ عاشق کو تو اپنے معشوق محمدِ عربی سے بہت محبت ہے اس نے اس لعین کی کوئی نہ سُنی اور ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ کر دیا۔جو کچھ بھی ہے سب نبی مکرم کی اطاعت ہے۔یہی دین ہے۔اس لیے کہ قالبِ انسانی میں ایک تو روح ہے اور دوسرا نُورِ محمدی ہے۔ ابلیس کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ انسان اللہ کی حکمت و عرفان کو سمجھ پائے۔اس کا کام تو نافرمانی ہے اور ناشکری کرنا اس کا محبوب ترین کام ہے۔
آپ سے مروی ہے:
بنی اسرائیل میں ایک راہب تھا۔شیطان نے ایک گلی کا گلہ دبا دیا اور  گھر والوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ یہ راہب اس کا علاج کر سکتا ہے۔لڑکی کے گھر والے اس کو راہب کے پاس لے آئے مگر اس نے اس لڑکی کا علاج کرنے سے انکار کردیا۔ گھر والوں کے اصرار پہ وہ مان گیا اور لڑکی کا علاج شروع کر دیا۔شیطان اس کے پاس آیا اور اس کو سُجایا کہ لڑکی اکیلی ہے اور وہ اس ے بہت اسانی سے مباشرت کر سکتا ہے۔ راہب بھی شیطان کے اکسانے پہ راضی ہو گیا ۔اس نے خوب اس لڑکی کے ساتھ مباشرت کی جس کے نیتجے میں وہ لڑکی حاملہ ہو گئی۔پھر شیطان نے اس راہب کو ورغلایا کہ وہ اس کو قتل کر دےتاکہ اس پہ اس لڑکی کے حاملہ ہونے کا معاملہ نہ آ سکے دوسری شیطان نے لڑکی کے گھر والوں کو بتا دیا کہ راہب نے کیاکام کیا ہے اس پہ انہوں نے اس راہب کو مار ڈالا۔شیطان اپنا کوئی وار خالی نہیں جانے دیتا۔یہ انسان کو قُرب کے مقام سے گرا دیتا ہے۔ اللہ ہی ہے جو ہمیں اس کے وار سے بچائے۔ آمین ثم آمین