Thursday 26 December 2019

Bait kya hai


سوال ہے کہ کیا بیعت ہونا ضروری ہے؟
پہلی تو بات یہ کہ لفظ بیعت کا معنی کیا ہے۔ یہ لفظ بیع سے ہے جس کا مطلب بیچنا اور تجارت ہے کہ تم نے جنت کے حصول کے لیے اللہ کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔
صوفیاء اور اولیاء اللہ کے نزدیک اس بیعت کا مطلب اللہ والوں سے نسبت، نفس کی اصلاح اور خدمت شیخ ہے یہ ایک مستحب عمل ہےاس میں انسان کی روحانی تربیت ہوتی ہے۔ اس راہ کو پکڑنا انسان کے اپنے اختیار اور مرضی سے ہے۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ جب حضور ﷺ ہیں تو پھر پیر کی بیعت کا کیا وجود؟ کچھ کا کہنا ہے کہ پیر غوث اعظم ہمارے پیر ہیں، کچھ غریب نوازکو اپنا راہبر مانتے ہیں کہ اب ہمیں بیعت کی کوئی ضرورت نہیں۔
بعض علماء کرام بخاری اور مسلم کی احادیث سے بات ثابت کرتے ہیں کہ جس نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دے دی وہ بچ یا۔ اہل حق کا معاملہ ذرا مختلف  ہے ان کو کسی راہبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ آنکھ کے بغیر نادیدہ منزل کو پار کرنا دشوار ہوتا ہے۔ پیر کے بغیر کون طریقت کی باتیں اشکار کرے۔ بیعت کر لینا طریقت میں داخل ہونا ہے۔ خودبخود اصلاح ہوجائے تو ااور کیا چاہیے۔ یہ راہ اصل میں راہ باطن ہے۔ ہم لوگ علم ظاہر پہ یقین کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔
ستر برس رات جاگ کر عبادت کی اور دن میں روزے رکھ کر دیکھ لیےتو مقام نہیں ملتا۔ کیوں کیا عبادت بے وجہ تھی؟ کیا نماز نہیں آتی تھی؟ کیا روزہ کی سمجھ بوجھ نا تھی۔ سب کچھ تھا مگر ایک بات جو اہم نکتہ ہےکہ علم باطن کی روشنی ہے وہ میسر نا تھی۔ یہ علم باطن کوئی عام بات نہیں جو ہر ایک کا حصہ ہو یا چھین کر حاصل ہوجائے۔ یہ بچوں کا کھیل تماشہ نہیں ہے۔اس میں شیخ کی ضرورت ہوتی ہے جو راہ بتائے، راہ کی پہچان بھی بتائے، راہ پہ بھی چلائے، جو راہ میں مشکل آئے تو اس کا حل بھی بتائے یعنی اللہ کی راہ سے ڈولنے نا دے۔ دل کو نکھارتا رہے، نظر کرتا رہے اور رعایت دلاتا رہے ایک مکمل رول ماڈل ہو۔ پیر و مُرشد کے بغیر عبادت روح کونہیں پہنچتی اس کی عبادت کو اس کا اپنا نفس کھا جاتا ہے۔ مراد کیا ہوئی کہ بعداز عبادت نفس شیطان کے ایسا حملہ آور ہوتا ہے کہ انسان سنبھل نہیں سکتا۔ اگر فرد کوراستہ میں کوئی مشکل اتی ہے تو مرشد اپنی جدوجہد اور مشاہدہ کی مدد سے اس کا مسئلہ حل کرتا ہے۔ پیر ہی اس معاملے میں راہنمائی کرتا اور فرد کو بتاتا ہےکہ اب اندر کی طہارت کیسے کی جائے۔
قرآن مجید میں ہے
فسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔
سوال کرو اہل ذکر سے اگر تم نہیں جانتے۔
اھل ذکر ہی اھل علم ہیں ان سے سوال کرو یہ تمہیں حل بتائیں گے۔ قلبی ذکر والے جن کے دل کی دنیا آباد ہے۔ وہ علم باطن رکھتے ہیں ان کو تقوٰی اور احسان مل گیا ہے۔ وہ باعمل اور صاحب معرفت ہوچکے ہیں۔ پوچھو ان ذکر والوں سےجگر والوں سے نور والوں سے وہ ہی بتائیں گے کہ مقبول عبادت کیا ہے۔
اصل میں ایک عام آدمی سوچ تو بلند رکھتا ہے مگر عمل میں اتنا بلند نہیں ہوتا یہی سمجھتا ہے کہ شاید یہ رابطے عبادتیں کسی اور کا مخلوق کا کام ہوگا، وہ اپنی کم فہمی ہی میں مارا جاتاہے۔ جو خود اُڑتا ہے وہ کہیں نہیں اُڑتااور جس کو اس کا پیر اڑائے وہ خوب اڑتا ہے۔ پیر پہنچ والے رسائی والے لوگ ہیں۔ ان کی عبادت و ریاضت ان کا ذکر ان کا فکر ان کو اللہ کے بہت قریب کر دیتا ہے۔ یہ عطائی لوگ ہیں جن کو رب کی بارگاہ سے ایک خاص فیض حاصل ہوتا ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جو اللہ تک نا جا سکا تو اس لیے کہ اس نے راہ اختیار ہی نہیں کی، نا تو اس کی تلاش تھی نا اس کو اس کی کوئی پہچان تھی اور پہچان بھی کیا کرتا اس کا ایمان مکمل نا تھااور اس سب کی بڑی وجہ کیا ہے کہ اس نے کسی مرد حق سے غوض و غایت نا رکھی۔
علم ظاہر کے لیے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو جو راہ ہی اللہ کی طرف جاتی ہے وہ بہت آسان ہوگی جس راہ میں شیطان گھات لگائے بیٹھا ہو جہاں دھوکے باز بہلانے پھسلانے والا نفس ہو وہاں کوائی تمہاری راہنمائی ا کرے تو کیا تم اتنے ہوشیار ہو محتاط ہو کہ ان کے فریب سے بچ جاو۔ جب بھی تم کوئی اچھا کام کرو تہ شیطان راستے میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کر دیتا ہے۔
حضرت داتا گنج بخشؒ تو اس حد تک فرماتے ہیں کہ تم جس شخص کو ارادت میں لانا چاہتے ہواس کو ایک سال پرکھو اور اگر ثابت قدم ہو تو مرید کرو اور دوسری صورت میں انکار کردو۔ جب ارادت کا راہزن شیطان ہے تو وہ کب چاہے گا کہ آدمی اصل اللہ اس کے رسول مقبولﷺ کے راستہ میں کامیابی لے کر دوسروں کے دلوں کو بھی گرماتا پھرے۔
دیکھو! جب کہا جاتا ہے کہ علم باطن میں پیر کی ضرورت ہے تو یہاں تربیت کا نکتہ آ جاتا ہے۔یہاں ایک بڑا اہم واقعہ کہیں بیان سے رہ نا جائے اس کا بیان بھی ضروری ہے تاکہ سلسلہ کے مریدین اچھی طرح سمجھ جائے۔ مریدکے کے ہی رہنے والے ایک بزرگ صفدر شاہ صاحب علیہ ا لرحمۃ ایک بڑے مرتاض ولی کامل ہوئے ہیں، ان ہی بابت بیان کرتا ہوں کہ وہ پہلے ایک بزرگ اکرم شاہؒ کے مرید و خلیفہ ہوئے مگر آپ سرکار کی عبادت و ریاضت بلند درجہ کی تھی تو اللہ تعالٰی کی ذات نے ان کو اس صدی کے معروف و مشہور بزرگ حضرت شاہِ شکور تاج الاولیاءؒ کی ان کو خواب میں زیارت کرائی۔ حضرت نے ان کو اپنا مرید کرلیا کافی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ پھرحکم ہوا کہ اب کسی کے ظاہری مرید بھی ہوجاو کہ جو معاملات کی درستگی کرے۔ تو پھر حضرت شاہ شکور کے فرزند عالی حضرت علاءالدینؒ کے دست حق پرست پہ آپ سرکار نا صرف بیعت ہوئے بلکہ آپ کو خلافت سے بھی نوازا گیا۔ لہٰذا کسی کا ظاہری بیعت ضروری ہوتا ہے اور یہ واقعہ بہت پرانا نہیں 1955 اور 1966 کے درمیان کا ہے۔ حضرت صفدر شاہ ؒ کا مزار اطہر مریدکے منڈی کے قریب ہے اور وہاں سے اپنے مریدین اور عقیدتمندوں کے لیے روحانی تجلیاں بانٹتے ہیں۔  
 سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہ چشتیہ میں ذکر خفی کی تعلیم دی جاتی ہے یہ ذکر خفی علوم اسرار سے پُر ہے جب مرید اس کی باقاعدہ مشق کرتا ہے تو اس کو کئی طرح کی باتیں بلحاظ اس کے عمل کے اس کو پیش آتی ہیں ان سب کا احاطہ پیر ہی کرتا ہے۔یہ معاملے دل کی آنکھ سے حل ہوتے ہیں اس میں سر کی آنکھ کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ پیر اپنے مرید کو راہِ حق دکھاتا اور پہچان کرواتا ہے۔ اس کے عقائد کو درست کرتا ہے اور سب سے بڑی بات کے مرید کی پہنچ اور طاقت کے مطابق ہی سبق دیتا ہے۔
کھا تیر کسی دیاں نظراں دا
تینوں عشق کمانا آ جاوے
پیر کی نظر کیمیا سے مرید مجاہدے سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیر صاحب کے پاس جاتے ہیں تو سکون بہت ملتا ہے یہی تو وہ روحانی کیفیت ہے جو فیض کہلاتی ہے۔ شیخ کے پاس جا کر مرید کو محنت کم اور فیض زیادہ حاصل ہوتا ہے، اس کا کام بن جاتا ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جو اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ بے شعورے اس کو کس طرح سمجھے وہ تو دولت کو ہی دین بیعت فیض اللہ کا کرم احسان مانتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جس نے بچوں کے لیے مکان نا بنایا اس نے غلط کیا وہ پاجی ہے سست ہے کام نہیں کرنا چاہتا سارا دن فارغ رہتا ہے۔ ارے نادانوں تمہیں کیا معلوم ہو کہ معرفت اللہ کیا ہے حالانکہ اسی میں تمہاری زندگی گزر جاتی ہے لیکن تمہیں کچھ وقوف نہیں۔
یہ تو وہ ہستیاں ہیں کہ جن کا جلیس با نصیب ہوتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ کسی کا بیعت نا ہوجانا کہیں تم سست روی کا شکار نا ہوجاو۔ تو جواب دو کہ آپ سرکار دو عالمﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیعت کیوں کیا اور اسی طرح یہ سلسلہ تو آج بھی قائم و دائم ہے۔ پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن علیہ السلا م کو کیا ضرورت تھی کہ وہ بیعت کا کام کرتے اس کے بعد کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید لعین کی بیعت کیوں نا کرلی، ارے نافرمانوں یہ بیعت رسولی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
ایک بیعت رضوان ہے جس میں دو نوروں والے کی بیعت لی جارہی ہے۔ بتاو کہ کیا نور والے کو بھی بیعت کی حاجت رہتی ہے۔ حضرت عثمان غنی کا نکاح پاک تو سیدنا و محبوبنا سید المرسلین ﷺ کی دو بیٹیوں سے ہوا تھا۔ وہ تو کہلاتے ہی ذوالنورین تھے۔ پتا چلا کہ یہ سُنت مُصطفٰی ﷺ ہے کہ بیعت کی جائے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ارشاد کے بعد حکم ہوا کہ دو زانو ہوکر بیعت کرلو۔
حضرت امام بن حنبلؒ اکثر حضرت بشر حافیؒ کو ملنے جاتے تو ان کے لوگ پوچھتے کہ آپ توخود عالم ہیں امام صاحب نے جواب دیا کہ کتاب اللہ کا عالم ہوں اور حضرت بشرؒ عالم باللہ ہیں۔ میں تو کہتا ہوں بیان کرتا ہوں تو یہ اس کو براہراست دیکھتے اور اس تک خوب رسائی رکھتے ہیں۔
اللہ نے ان برگزیدہ ہستیوں کے ذکر کو ان ہیکے چہروں اور ماتھوں پہ سجارکھا ہے، ان کے دمکتے روشن اور پُر رونق رُخ اس بات کی ضمانت ہے کہ ان کو دیکھ کر ہمیں اللہ یاد آجاتا ہے۔
جاہل علماء نے امت کے ضمیر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں کہ بیعت کی ضرورت نہیں۔ یہ علماء نہیں علامے ہیں وہ پنجابی عورتیں کہتیں ہیں نی میں تینوں دسا تیرا منڈا نرا علامہ ہیگا اے۔
سورۃ فتح آیت 10 میں ارشاد باری تعالٰی ہے کسی انسان کا نہیں ہے۔
ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ۔ یداللہ فوق ایدیھم فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفی بما عھد علیہ اللہ فسیوتیہ اجرا عظیما۔
ترجمہ۔ جو لوگ آپﷺ سے بیعت کررہے ہیں تو وہ واقعی اللہ سے بیعت کررہے ہیں۔ اللہ کا یاتھ ان کے ہاتھوں پہ ہے۔ پھر بعد بیعت جو شخص عہد توڑے گاسو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گااور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا اس کے لیے اجر عظیم ہے۔
اللہ مسبب الاسباب ہے وہ انسان کے لیے تحت الاسباب تو اس کو عنائت کرتا ہی ہے اور اس کے علاوہ فوق الاسباب کسی کی نظر کے تحت عطا کرتا ہے۔  
ان ہی اھل ذکر کے بارے میں ارشاد ہے
یا ایھا الذین امنوااتقواللہ وکونوا مع الصادقین۔
اے ایمان والو اللہ سے ڈرواور صادق لوگوں کے ساتھ ہوجاو۔
یہاں ساتھ ہونا بیعت ہونا ہے۔ ایک اور جگہ پر پیران پیر حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی المعروف غوث اعظمؒ فرماتے ہیں۔
عادت الٰہی اس بات پر جاری ہےکہ اس دنیا میں ایک پیر ہو اور ایک اس کا مرید ہو۔ ایک پیشوا ہو ایک پیروکار ہو۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری  رہے گا۔ اللہ اور بندے کے درمیان پیر کا مقام برزخ کا سا ہوتا ہے۔ راستہ طے کروانے والا۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم بیعت کے معاملے کو سمجھ جائے۔ باقی باتیں تو اللہ اور رسول کریمﷺ اور مرشد امین رحمۃ علیہ ہی جانتے ہیں۔
والسلام ریحان امین قادری امینی علائی شکوری چشتیؒ