Friday 27 July 2018

The Saint- About Allah

The saint
The saint’s power is God’s power. It never diminishes but it keeps on flourishing and simplifying nature and her objects. The saint is an admirer of God’s grandeur. He intimates God always. According to The Holy Quran, الاان اولیاء اللہ لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون۔ Alert! There is no doubt that his beloved men do not have any fear and gloom. He has mesmerized his close friends in his world of ultimate Intimacy. They recall Him , The Almighty in every condition, either it is poverty, contentment or any storm they make no mistake and leave no stone unturned to intimate. They consider it a sin, but to say a great sin to forget His name. The Quran repeats on many places to recite the names of Allah before doing any fair work. Even if the work is to wash clothes, attach to بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔. This is one of the greatest verses. There are nineteen alphabets in it and likewise, it has nineteen angels for its support. It has been held very important in prayer and reciting other testaments. لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہis faith believing sentence that is exercised and intimated to show that we are Muslims and followers of the community of The Holy Prophet S.A.W. it is very powerful and high energized to repeat again and again لاالہ الا اللہits energy comes out of it when we recurrently recite it, repeat it and say لا الہ الا اللہ its effect and entity is worth seeing. Nobody can escape its imprisonment but it blooms like red rose when an initiator keeps its practice. With the emergence of محمد رسول اللہit is a beauty. Hazrat Mohammad ‘s name has a lot of blessings and boons with it. When anyone calls Mohammad ,then, both of his lips join together and he looks to say محمدhis two lips kiss each other, it is two times that they touch and close on one place. God has especially named Him محمد صلی اللہ علیہ وسلمHe is the cause of all this creation. He is only admirer of God.  

Thursday 26 July 2018

DERVAISH KA HAAL


آج کے درویش
 االلہ کے اس قائم کردہ عالم میں کبھی کوئی ایسا وقت نہیں گذراجب رب ذوالجلال کے پیغام کو انسان تک پہچانے کے لیے یہ ارض کسی نبی و پیغمبر کے بغیر رہی ہو، اللہ تعالٰی کی ذات با برکات نے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کو اس زمین پہ اتارا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سارا علم بھی سکھایا۔ انبیاء کرام علھم السلام کے پے در پے سلسلہ کو انسان تک لانے اور لے جانے کا یہ مقصد حیات اصل میں اللہ سب انسانوں کوعلم کی آگاہی دینا تھا ، اس کا حکم ہے کہ مجھے اور میری حقیقت کو جانو، یہ جاننا علم کے ساتھ مشروط ہے۔ حالانکہ حضرت آدم کی تخلیق سے پہلے فرشتوں کا خیال تھا کہ حضرت ادم کیوں ہم سے علم میں زیادہ ہونگے ہم تو ہر وقت علام الغیوب کے دربار میں ہوتے ہیں، اسی خیال کا جواب فرشتگان کو جب یوں ملا،  "عَلَۤمَ ادم الاسماء" کہ ہم نے آدم علیہ السلام کو سارے نام و علم الہام کے ذریعہ سکھا دیے ہیں۔ تو اس بات پر فرشتے عاجزی و انکسار کرنے لگے۔ وہ کہنے لگ گئے اللہ کی ذات پاک، عالم اور دانا ہے جو اس کا علم ہے وہ ہم نہیں جانتے۔
علم کا حصول انبیاء، صدیقین،آئمہ کرام، شہداء اور اولیاء کرام کا وطیرہ رہا ہے، ہر وقت اپنے اپ کو جاننے  اور گرد وپیش کے احاطے کے ادراک میں یا یوں کہہ لیں کہ ان کی علمی تلاش و جستجو کبھی نا تو اختتتام کو پہنچے گی اور نا اس کا آخری سرا ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہر دور میں کوئی نبی، رسول یا پیغمبر کو کسی نا کسی امت کے لیے متمکن کیا تاکہ لوگ اس کو اچھے طریقے سے جان لیں، اس کی عبادت میں کوئی کوتاہی سرزد کر بھی دیں تو ان کو معافی مانگنا مشکل نا ہو۔اسی علم کے ذریعہ جب حضرت ادم علیہ السلام اپنے بیٹے ہابیل کے غم میں مبتلا تھے تو اللہ نے اپنے نبی کے پاس حضرت جبرائیل کو بھیجا ' اللہ آپکو ایک ایسا فرزند رشید عنائیت کرنے والا ہے جس کی پاک اولاد سے سیدالانبیاء حضرت محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگا۔ یہ الہامی علم کی ہی ایک شکل ہے جس نے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تسکین و تسلی بخشی۔
وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کے دین کی اشاعت و تبلیغ کو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء نے حصہ لے کر اپنے اپ کو مقدس بنا لیا، جن کے مزار پُڑ انوار پہ اللہ کی تجلیاں رحمت بن کر برستی ہیں، جنہوں نے حضورنبی مرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں  مسجد اقصٰی میں نماز ادا کی۔ جو نبی علم کا مرکز ہے، منبہ ہے اور ساری کائناتوں کا محور ہے۔ ہر نبی کی کوئی نا کوئی دعا ہے اللہ پاک ہی نے عطا کی ہے، حضرت ادم علیہ السلام دعا مانگتتے، ربنا ظلمنا انفسنا و ترحمنا لنکوننا من الخسرین۔
حضرت نوح علیہ السلام یہ دعا مانگی، رب لا تذرعلی الارض من الکافرین دیارًا۔

ہمارے پیارے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعا ہے، رب زدنی علماً۔ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما، سبحان اللہ۔  
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری حیات طیبہ علم کی ترقی و ترویج میں گذری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں خود اصحابہ کرام کو تعلیم دی۔ ایک دن جماعت ہوتی جبکہ ایک دن چھٹی ہوتی، یہ آپ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طریقہ تعلیم تھا تاکہ اصحابہ پڑھائے گئے سبق کو اچھی طرح ازبر کر لیں۔ دینی علم کے ساتھ ساتھ اسی مسجد میں دنیاوی مضامین بھی پڑھائے گئے جن میں کیمیا، فزکس، فلسفہ،حیاتیات، طب، فلکیات اروریاضی وغیرہ شامل ہیں۔
علم انسان کو آگاہی اور شعور کے علاوہ حق، سچائی اور اصل کے ساتھ روشناس کراتا ہے۔ قرآن و حدیث اور سُنت کیا ہیں علم کا گہوارہ ہی تو ہیں، قرآن کریم ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ہے حدیث میں مکمل تفصیلات ہیں، سب باتیں جو قرآن میں اشارہ کے طور پہ ہیں ان کو احادیث میں پوری طرح کھل کر بیان کیا گیا ہے۔قابل غور بات تو یہ ہےکہ اللہ تبارک و تعالٰی ہمیں کس رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے یعنی وہ صبغۃ اللہ کیا ہے؟ اس کو جاننا ہم سب کے لیے ازحد ضروری ہے۔
آئیے اب پہلے صبغۃ اللہ کی بات کرتے ہیں۔  
اللہ کی ذات فرماتی ہے-" صبغۃ اللہ و من احسن من اللہ صبغۃ"- اللہ کا رنگ ہر رنگ سے افضل و برتر ہے۔ یہ رنگ تم اُن لوگوں میں دیکھو گے جو تزکیہ کا، تقوٰی کاارو رضائے الہٰی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ کا رنگ جاننا ہے تو سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرو، اصحابہ پاک کی حیات کو بغور دیکھو، اولیاء اللہ رحہما اللہ کی زندگیوں کا مشاہدہ کرو۔ رنگ یہ ہے کہ جو قرآن کہتا ہے اس کو من و عن مان کر اس پر عمل پیرا ہوجاو۔ اپنا رنگ نا پیش کروکیونکہ تمہارے ہمارے رنگ میں ملاوٹ ہے حسد و تکبر کی، بغض و عناد کی، تفریق کی، شہوت پرستی کی اور نفس خبیثہ کی۔
صبغۃ اللہ کا براہِ راست تعلق تصوف سے ہے اور یہاں اسلامی تصوف کی بات ہورہی ہے۔ اس تصوف کی بات نہیں کی جارہی جس میں آج کل کے درویش حضرات رنگ برنگ کے لباس پہن کر، مختلف ٹوپیاں پہن کر، آنکھوں میں گہرا سُرمہ لگا کر، مہنگی خوشبوئیں لگا کر،  اگربتی جلا کر، قوالی کی آواز پہ خواہ مخواہ جھوم کر،تعویذ گنڈوں، نذرانوں کے ذریعے اور ہر سانس پر اللہ ھُو کی صدا لگانے کو تصوف سمجھ بیٹھے ہیں۔ پیر صاحب کمرے میں رنگ برنگی لائٹیں جلائے ہوئے ہیں اور ان کا یکدم وجدانی کیفیت میں اجانا ملاقاتی کو حیراں کر

دیتا ہے۔عام لوگ اپنی پریشانیوں میں یہ بات نہیں سمجھ سکتے، مگر یہ ڈھونگی بابے اپنے آپ کو کوئی اونچی حضرت ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں، انہی لوٹا پیروں نے لوگوں کے عقائدِ اسلامی کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے، ملاقاتی اپنی تکلیف بیان کرتا ہے تو یہ اس کی تسلی و تشفی کرنے کی بجائے ایک ہی فقرہ گردانتے ہیں، ہاتھ کو ہوا میں بلند کرتے ہوئے " جا تیرا کام ہوجائےگا بس تجھے وہ ہی کرنا ہوگا جو ہم تمہیں کہیں گے، بس جا چلا جا"۔ اور کیا ہے کہ باہر ان کے جو ایجنٹ بیٹھے ہوتے ہیں وہ ان مصیبت کے ماروں کو چند ٹکوں کے عوض کھ جلانے کواور کچھ پینے کواور کچھ بہانے کو دے دیتے ہیں اور کچھ دبانے کو دے دیتے ہیں کہ اس کو کسی پرانی قبر مین دبانا۔
تصوف نام ہے اس صفت کا جس میں ہم انتہائئ خلوص و محبت کے ساتھ عجز و انکسار کا دامن تھامے ہوئے اللہ پاک کے دربار میں حاضر ہوں، اس کے ساتھ کبھی بھی شرع کا دامن نا چھوڑیں، کیا ان پیروں میں یہ خصوصیت ہے، ان کو تو بس اپنی شہرت عزیز ہے۔          
لفظ تصوف کا علاقہ چاہے صوف سے یا صوفس سے یا صفا سے مگر اس کی شرط تزکیہ نفس ہے۔ یہ عالم اشراق یا ہندووں کے یوگ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ یہ خالصتًا اسلامی ہے۔ مکمل اتباع رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصوف ہے۔ اپنے ارادوں اور خواہشوںکو رضائے الہٰی پر قربان کر دینے کا نام تصوف ہے۔ اپنی ہستی کو عشق اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں فنا کر دینا کہ اپنا نا تو کوئی وجود رہے اور نا پتا۔ اسی تصوف کو اپنا لینے کا نام صبغۃ اللہ ہے۔
اپنا ہر قدم، ہر جادہ، ہر سانس صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطراٹھے۔ اللہ کے دین کو سمجھو اور پھر اس میں ڈوب جاو تاکہ علم باطن کے حقدار کہلاو۔
علم کے دو مقامات ہیں، ایک علم سفینہ اور دوسرا علم سینہ۔  علم سفینہ کو تعلق کتابوں سے ہے۔ اس علم میں سائنسی ، فلسفیانہ اور تحقیقی مکالے اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ علم سفینہ میں صرف کتاب کا مطالعہ کرکے نہ تو نور حاصل ہوتا ہے، نہ ہی کسی کا تزکیہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو کوئی منزل ملتی ہے۔مگر علم سینہ میں  یہ بات باطنی نہج پہ منتقل ہوتی ہے۔ایک یہ بھی ہے کہ  جب تک کہ طالب صادق خود اس کی خواہش نا کرے یہ علم اس تک رسائی نہیں کرتا۔
 علم سینہ سے متعلق ایک پردہ ہے جو جاہلوں کی انکھوں پہ پڑا ہوا ہے، وہ اس کو ریاکاری اور فریب کا نام ہی دیتے ہیں۔ نفس کے مجاہدات ہر مذہب میں موجود ہیں جن کا سہارا لے کر بعض جوگی عالم اسفل تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں، ایسے لوگ اہل استدراج کہلاتے ہیں اور

انہی شعبدہ بازوں نے لوگوں کوگمراہ کر رکھا ہے، اسی اصطلاح تصوف کو دورِ حاضر کے لوگوں نے بہت بگاڑ کے رکھ دیا ہے، آج کل کی تھیوسوفیکل جماعتیں سارا سارا دن تصوف پر بحث و مباحثہ کرتی ہیں، باقاعدہ کانفرنسز منعقد کیں جاتیں ہیں، ان مجالس میں موجود ہر کوئی اپنا جواب فلسفیانہ انداز میں ریکارڈ کرواتا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ ان لوگوں نے قوت ارادی کو روحانی قوت کا نام دے رکھا ہے۔ حالانکہ تصوف ہی روحانی قوت ہے۔ اسرارِ ولایت کو قوت ارادی سے جوڑنا ایک کم عقلی اور لاعلمی کی نشانی ہے۔
قوت ارادی ایک الگ بات ہے اس کو تصوف کے ساتھ یا روحانی قوت کے ساتھ مدغم کرکے بیان کرنے سے مسائل بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے۔ بات اپنے معنوی اور تاثیری اعتبار سے کسی اور سمت چل پڑتی ہے۔ اسی بات میں چند رنگبازوں کا کام نکل جاتا ہے۔ سفلی قوتوں کو کنٹرول کرنے والا ان کو روحانی قوت بتا کر عام لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے۔
جان بوجھ کراورموقع و محل کے بغیرکشف و کرامات دکھانے والا ولی کامل نہیں ہوتا اس بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ اب ڈاکٹر ہی کی مثال لیں تو اس کو مریض کی بیماری کا علم ہی نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے کہ اس کو کس قسم کی بیماری ہے اور وہ کیا دواکھائے تو صحت یاب ہوگا۔ اس ڈاکٹر صاحب نے یہ علم کتابیں پڑھ کر حاصل کیا جو علم سفینہ ہے اس نے یہ علم کسی کے سینہ سے یا باطنی انداز پہ نہیں لیا۔ اس کے پاس بیماری کی علامت، ہیئت اور علاج ہے وہ ظاہریت کا قائل ہے۔
ویسے بھی علم سینہ کے لیے عبادت و ریاضت، ذکر، مشاہدات اور مجاہدات کی کثرت ہے، اپنے نفس کے ٹیڑھے پن کو جب تک انسان جان نہیں لیتا، شیطان کی فریب کاریوں کو پہچان نہیں لیتا، اللہ کی رضا کو پا نہٰں لیتا، اپنے مُرشد اور سلسلہ عالیہ کے عین مطابق نہیں ہوجاتا تو اس وقت تک وہ ولایت کو قطعاً قطعاً نہیں جان پائے گا۔ تصوف نام ہی اپنی نفی کرنی ہے یہ نہیں کہ چند دن کی عبادت کی اور شہرت پہ خوشی سے پھولے نا سمائے۔
درویش کا معیار کشف و کرامت نہیں، درویشی لائن کے بندے پورے پورے اپنے نبی مکرم حضرت محمد مُصطٰٖفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پہ چلتے ہیں اور اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین کی حیات طیبہ کو اپناتے ہیں۔ مگر یہاں ہمارے خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں کچھ شعبدہ باز انہی صوفیاء کرام کے لباس میں اپنے آستانوں میں بیٹھے لوگوں کو مسمیرائز کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے روحانی قوت پا لی ہے۔ اسفنج کو دودھ میں ڈبو کر بالوں میں رکھ کر جب یہ لوتا پیر عورتوں اور مردوں کے سامنے دباتے

ہیں تو دودھ کی دھاریں نکلتی ہیں اور اندھیرے میں بیٹھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا منہ چمک  رہا ہے ارے بھائی یہ فاسفورس کا استعمال کرتے ہیں۔
روحانیت ایک مقام اور معیارکا نام ہے جس کی کوئی اور کسوٹی نہیں سوائے سیرت پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے اصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی پیروی کا ، اس کے بعد آئمہ کرام یعنی اہل بیت اطہار کا اور پھر یہی امانت اولیاء اللہ رحہما اللہ اجمعین کے پاس ہے، اب ان میں یہ ہستیاں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں یعنی حضرت سری سقطی، حضرت جنید بغدادی، حضرت ابو بکر شبلی، حضرت بایزید بسطامی، حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت داتا گنج بخش، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت

مادھو لعل حسین رحمہا اللہ علیھم اجمعین اور اتنے نام پاک ہیں کہ یہ پوسٹ اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ ان ہستیوں کے ناموں کی فہرست شروع کی جائے اور وہ ختم ہوجائے۔    
لوگ ان ہستیوں کے ساتھ رہے تو ان ہی جیسا طریقہ زندگی ان کا مقصد حیات بن گیا۔ ان ہی ہستیوں نے لوگوں کی زندگیوں پہ ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جن کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ قرآن پاک تو خود ان پاک نفوس کی سنگت کا کہتا ہے،
واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدواۃ والعشی یریدون وجھہ۔ اور اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ رکھوجو اپنے رب کوصبح و شام پکارتے ہیں،اور اس کی رضا مندی چاہتے ہیں۔
اب بات آئی کہ اولیاء کاملین اور ان شعبدہ بازوں میں کیا فرق ہے؟
یہ سوال ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہے اور ہر کوئی اس کو احسن طور پر جاننا چاہتا ہے کہ ہم اللہ کے اصل اور حقیقی بندوں کو کہاں تلاش کریں۔ ان کی کیا پہچان ہے۔ کرامت دکھانا اور کرشمے کرنا کسی طرح بھی کسی ولی کامل کو زیب نہیں دیتا۔ ولی اگر تو اصل ولی ہے تو وہ اپنے مریدوں کو یہ بتا کر خوش نہیں ہوتا کہ میں تمہیں ہوا میں اُڑ کر دکھا سکتہ ہوں میں پانی پہ بھی چل سکتا ہوں، یا کسی کا موبائل گم ہوگیا ہے تو مرید فوراً پیر کو بتاتے ہیں کہ یہ بتائیں کہ میرا موبائل کہاں گرا ہے یہ وہ باتیں ہیں جن باتوں نے ہر ایک بات آپس میں غلط ملط کردی ہے۔ لوگ پیر اس کو مانتے ہیں جو ان کو ان کے پرائزبانڈ کے لکی نمبر بتائے، ان کا لکی نمبر بتائے، ان کو یہ بتائے کہ دولت کس وظیفہ سے آئے گی، بس کسی طرح جادو ہوجائے، لوگ تو چاہتے ہیں کہ ایک دن مرید ہوئے تو دوسری طرف گھر دولت  و نعمے سے بھر جائے، اگر ہم کبھی اسلامی تاریخ کی کتب کھنگال لیں تو معلوم ہوکہ اکثر اصحابہ کرام سے کہا جاتا کہ تقوٰی اختیار کرو ، نماز اور ذکر سے میری مدد کرو۔ استقامت پکڑو یہ اسلامی تعلیم کا مرکزی محور ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی ایسا ورد بتائے جو کایا پلٹ ہو، تم نے اپنی کایا ہی پلٹنی ہے تو اپنا کردار بلند کرو، اپنے اخلاق کی ، اپنی عادات کی تصحیح کرو، اللہ کی دھیان لگاو، ان اوراد و وظائف کو مت ڈھونڈو اپنا حال، مقام اور وقت دیکھو کہ تم کس سمت جا رہے ہو، تم کس مذہب کے پیروکار ہو، تمہارا دین کیا کہتا ہے، کس کو اپنا ائیڈیل بناو گے تو دنیا اور آخرت سدھر جائے گی۔ نا کہ گھر میں زیور گُم ہوگیا تو چلے کسی بابا جی سے اپنا زائچہ کھینچوانے، نہیں یہ دین ہمیں نہیں سکھاتا، دین تو خود ایک زندگی کا نام ہے۔ایک تو تمہیں زندگی ماں اور باپ کے بطن سے ملی اور دوسری تمہیں تمہارا دین عطا کرتا ہے۔ دین کو تمہارا بھائی کہا گیا ہے۔

جو ولی ہےیا ایک عام مسلمان اگر شرع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہیں ہے تو پھر معاملہ گھمبیر ہے۔ کسی بھی ولی کی پہچان ہی شرع کی اوڑھنی کو اپنا لباس بنانا ہے۔ یہاں لوگ زیادہ سجادگی کی طرف بھاگتے ہیں لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد بزرگی مل جائے تو وہ بھی لوگوں کی راہنمائی کرے اور ان کو اللہ کا راستہ دکھائے۔ پیری فقیری لائن میں یہ باتیں سلوک کی راہ کہلاتی ہیں۔ یعنی راہِ شریعت اور راہِ طریقت۔ پہلی کا واسطہ طاہر سے جبکہ دوسری باطن سے ہے۔ جس نے پہلی کو اختیار نا کیا اس میں مہارت نا رکھی سکو برقرار نا رکھ پایا تو دوسری تو ہے ہی چھپی ہوئی، وہ اس باطنی کیفیت کو کیا سمجھے گا۔ جاہل فقیر شیطان کا مسخرہ ہے۔
شیطان کا کام انسان کو علم سے ہٹانا ہے، وہ اس لیے کہ وہ علم کے تمام راستوں سے واقف ہے، وہ یہ بات جانتا ہے کہ اگر انسان کو اللہ کا علم ہوگیا تو اس پر وہ تمام سلوک کی راہیں اسان ہوجائے گی جن کی وساطت سے وہ اللہ کو نا صرف کہ پالے گا بلکہ اس کو ایک الگ شان بھی عطا کی جائےگی۔ اللہ اپنی طرف آنے والوں کو ایک ہی طریقہ سے نہیں ملتا بلکہ اس نے اپنے ملنے والوں کے لیے مختلف راہ بنا رکھیں ہیں۔
آج کل کے کچھ بد ظن لوگوں نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ پیر حضرات اپنے مریدین کو تعلیم کی طرف نہیں انے دیتے۔ یہ اپنے لوگوں کو پڑھالکھا نہیں بناتے۔ حالانکہ یہ بات اس امر کے بالکل بر خلاف ہے جو بات کہ میں نے پہلے بھی کسی پیرائے میں بیان کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو خود اپنے جانثار ساتھیون کو تعلیم دیا کرتے تھے تو یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولیاء کرام کا یہ مشن نا ہو، ہر ایک ولی نے اس تعلیمی مشن کو جاری رکھا ، اس کی ایک زندہ مثال تو خود پیرومُرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ دامت برکاتہم کی ہے، جنہوں نے ہر ایک مرید کو علمی خزانہ اکٹھا کرنے کے لیے نا صرف اصرار کیا بلکہ آپؒ خود بھی بہت مطالعہ کے مشاق تھے۔
آپؒ نے قران کریم مع ترجمہ و تفسیر پہ بہت زور دیا اور آپؒ حدیث شریف کو پڑھنے اور اس کو خوب اچھی طرح سمجھنے پہ زور دیا کرتے۔ ان کے علاوہ جو کتب آپؒ کے زیر مطالعہ رہی ان میں غنیۃ الطالبین، سیرت فخرالعارفین حصہ اول تا سوئم، کیمیائے سعادت، بہار شریعت اور انبیاء کرام علیھم السلام کے حالات۔
ولی کا مشن ہی علم کا تعاقب ہے۔ دم ٹونے، ٹوٹکے، تعویذ گنڈہ نہیں بلکہ شرع کے عین زندگی گزارنے کی تربیت ہے۔قران و سنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کا سبق دینا ولی کی شان ہے، ولی کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔میں نے جب بھی اپنے پیرومُرشد کو دیکھا تو اپؒ ہمیشہ یہی سبق دیتےکہ یہ زندگی جادوگری نہیں ہے ہم یہاں اس لیے نہیں کہ

تم ہم سے کوئی جادو سیکھنے آئے ہو، مشکل آتی ہے تو اس کو برداشت کرنا سیکھو،ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم تمہارے حق میں دعا کریں گے وہ بھی تمہیں ہر بار کہنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم یہ بات جانتے ہیں کہ تم ضرورت مند ہو، گزارا اسانی سے نہیں ہوتا، مگر اللہ خیر ڈال دے گا پریشان نا ہوا کرو، وہ خالق و مالک ہے، وہ بھوکا نہیں سلائے گا،یہ روحانیت ہے کوئی طلسم کدہ نہیں ہے جو ایک پل میں سارا کچھ بدل جائے،ایسا کوئی کام نا کرو جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو۔ جن دوسرے لوگوں کو خوشحال دیکھ کر ہم سے آن کر سوال کرتے ہو، تو اللہ جس حال میں رکھے تو وہی حال بہتر ہے، جو اللہ چاہے تو وہی تمہارے لیے ٹھیک ہے، اس بات کو سمجھو۔
آپؒ فرمایا کرتے کہ دنیا میں رہتے ہو تو محنت سے جی مت چراو، خوب دل لگا کر کام کرو۔دل اور دماغ کو حاضر رکھ کر ہی کسی سے کوئی سوال کیا کرو، پہلے خوب اس کو اپنے اپ سے مذاکرہ کیا کرو مطلب یہ ہے کہ اچھی طرح سوچ سمجھ لیا کرو، پھر ہی بات شروع کیا کرو ورنہ خاموشی میں ہی بہتری ہے۔ ایک ٹائم ٹیبل بنا کر چلنا اچھا ہے کہ آج کیا کام کرنے ہیں۔ جب تمہارے اندر ترتیب ہوگی تو تمہیں کسی بات کا اندیشہ نہیں ہوگا۔ ہاں اگر تم سوچ کر کسی کام کو سٹارٹ کروگے تو کام نے تو خراب ہونا ہی ہے۔ جب بھی کوئی کاروبار شروع کرنا ہے تو پہلے رقم دیکھ لو اور اسی کے مطابق کاروبار کا آغاز کرو یہ نا کرنا کہ کام سے پہلے ہی قرض میں ڈوب جاو،قرض ایک بہت بڑی آفت ہے اس سے انسان کی عمر کم ہوجاتی ہے، بس اس سے بچنا تمہارے لیے ٹھیک ہے۔
ہر کام کو سنجیدگی سے کرو، پہلے خوب اچھی طرح سے ہر پہلو کا مشاہدہ کرلو، بار بار ہر ایک بات پہ اچھی طرح سے غورو خوض کروتاکہ بعد میں کسی ڈھونگی بابے کی تمہیں ضرورت نا رہے، ایک بہت ترقی پسند کاروباری اکثر کوں تمہارا مذاق اڑاتا ہے کیونکہ تم میں اور اس میں فرق غوروخوض کا ہے ، وہ اچھی طرح ہر ایک بات کا معائنہ کرتا ہے، تب کہیں جا کر اپنی رقم کا استعمال کرتا ہے۔
تلاش و جستجو اور کھوج کا سلسلہ اگر ختم ہے تو وہاں دم والے بابے کا بہت رُحجان ہوگا، میں اس بات کے خلاف نہیں ہوں کہ تم اسلام اور دین کا نام لینا ہی بند کردو، نہیں ایسی بات نہیں ہے، بلکہ ایسا وطیرہ ہو کہ اس زندگی کے اصل رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے تمہارے پاس وقت ہو، ہر باتت کو جب سنجیدگی سے سرانجام نا دوگے تو نتیجہ کیا ہوگا کہ
" ہاں یہ تو وہ جن ھوت ہی ہیں جو میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ باباجی سچ کہتے ہیں اچھا! پھر چلتے ہیں انہی باوا جی کے در پہ پہلے تو جا کر ماتھا رگڑتا ہوں اور معافی چاہتا ہوں۔"

میں آپ کو اپنا ایک ایسا واقعہ بتانے لگا ہوں کہ کچھ لوگ اس بات سے پوری طرح اتفاق کریں گے کیونکہ وہ اس کا ایک حصہ ہیں۔ یہ واقعہ یکم جولائی 2018 کا ہے، سلسلہ عالیہ میں ایک مرید ہیں جناب رضوان صاحب ان کی ایک بھابھی ہیں کہا جاتا ہے کہ ان موصوفہ کے پیچھے کچھ اشیا سفلی عالم کی ہیں ، گیارہویں شریف کے ختم پاک کے بعد میں ان کے ساتھ ان کے گھر مصطفٰی ٹاون چل پڑا کہ کہیں رضوان صاحب ناراض ہی نا ہوجائے ، خیر اللہ اللہ کرکے ان کے گھر گئے انکی بھابھی جو پہلے سلسلہ میں داخل ہونے کی بھرپور متمنی تھی، کاہشمند تھی میرے جانے اور دعوت دینے پہ کچھ بکھری ہوئی ، لڑکھڑائی ہوئی نظر ائی، یہ اب ان کا اپنا کردار تھا یا کسی نے ان کو سجھایا تھا ، واللہ ہو اعلم بالصواب۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کیا بہتری تھی۔
سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالٰی کی ذات فرماتی ہے،اور جب قیامت کے سارے معاملات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تم سے سچے وعدے کیے تھے سو میں نے بھی تم سے وعدے کیے تھے وہ سب جھوٹے وعدے تھے میں تو صرف تمہیں اپنی طرف بلاتا تھا اور تم میری بات مان لیا کرتے تھے یہ تمہاری غلطی تھی اب تم یہ ملامت مجھ پہ مت ڈالو میں تو خود تم سے بیزار ہوں۔
ایک اور جگہ پر قران کہتا ہے کہ شیطان کا وار اور خود شیطان کمزور ہے۔ وہ تو صرف حیلہ کرتا ہے اور ہم فوراً اس کی امامت میں چل پڑتے ہیں کیونکہ اس نے دنیا کو ہمارے سامنے سجا کر پیش کیا ہوتا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے لہٰذا جو بھی فیصلہ کرو وہ قران و سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق ہونا چاہیے۔
جی تو بات ہورہی تھی رضوان صاحب اور متعلقین کی ، جی تو جب میں ان کے گھر سے ہوکر ایا تو دودن بعد ہی معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے بہت سخت برہمی کا اظہار کیا ہے کہ جو بھی یہاں انہوں نے کہا جھوٹ کہا اور ایسے ہی کچھ بھی پاس نہیں ہے، ہمارے یہاں تو بہت ساری بلائیں ہیں بھوت پریت ہیں اور ہمیں راتوں کو ڈر لگتا ہے اور بچے ڈر جاتے ہیں کسی پیر صاحب کو بلایا بھی وہ سرکار تشریف لائے اور انہوں نے پڑھا ان کو تصرف غیبی سے آقاز آئی کہ ہاں ہم یہاں ہیں تم ہمارا صدقہ دو تو ہم نظر بھی آئیں گیں۔
اب میرے ساتھ کیا ہوا جو آپ کو سنانا چاہتا ہوں ہوا یوں کہ میں ان کے ہاں اتوار کو گیا تو پیر کی صبح میرا سو روپیہ گم ہوا، منگل والے دن شناحتی کارڈ گم ہوا، بدھ کو میری ایک کتاب نا ملے۔ یہ سب کیا ہے، کوئی روحانی پریشانی ہے؟ کوئی بھوت پریت ہے جو وہاں بیٹھ کر ساری چیزیں اٹھا کر لے جا رہا تھا؟ کیا یہ ان کے گھر جانے سے ہوا کہ ان ہی کا ردعمل

مجھ پر پڑ گیا؟ یا میری اپنی لاپرواہی تھی۔ جی بالکل آپ نے ٹھیک سمجھے یہ ہے لاپرواہی اور میں اگر اس کو ان کی کسی سفلی طاقت کا کام کہہ دوں تو لوگ اس پر بہت جلد یقین کر لیں گے۔
جو میں نے ان سے کہا " دیکھے یہ جن ہیں ان کا وجود ہے سب اس بات کو مانتے ہیں قران سے بھی ثابت ہے مگر جہاں ان کا وجود ہوتا ہے یہ وہاں کسی کو ارام سے نہیں رہنے دیتے، آپ لوگ بالکل نا ڈریں ارام سے رہے، نماز کی پابندی کریں، اور ان موصوفہ کو سلسلہ عالیہ میں داخل کرکے صرف درور شریف پڑھنے کو کہا، مگر ہمارے لوگوں کو جب تلک آپ کشت میں نا ڈالیں تو یہ باز نہیں آتے، حتٰی کہ بعض مریدین بھی بڑی بڑی پڑھائیاں مانگتے ہیں۔ کیا کریں ان لوگوں کا جو اس سادھی زندگی کو گزارنا عیب جانتے ہیں،
زندگی وہی جو قران کہتا ہے، مگر آج کل تو ایک غیر شخص تمہارے گھر آکر تمہاری بہن اور بیٹی کے سامنے بیٹھتا ہے اور تمہارے شرم گھاس کھانے گئی ہوئی ہے، کیوں تم لوگ مجبور ہو، ہر کسی نے حیا و شرم کو خیر باد کہہ دیا ہے سب ہی ایک نعرہ لگاتے ہیں۔
نیا دور ہے جی نئی باتیں ہیں جی اب ترقی کرنی ہے تو عورت کو تو کام کرنا ہوگا دیکھے جی آپ کو کچھ نہین پتا جی آپ ہیں پرانے آدمی یہ دیکھیں آپ کمپیوٹر چلا لیتے ہیں، ابھی میرا بیٹا آئے گا تو اپ کے سامنے انٹرنیٹ پہ سارے جہاں کی باتیں ایک منٹ میں بتا دے گا، اور تو اور میری بیٹی کو بہت آتا ہے سارا محلہ اسی سے اپنی ای میل کا کام کرواتا ہے جی۔  
کیا ہوگیا ہے کیا تم نے پہلے لوگوںکی باتیں بلا دی ہیں ترقی کے نام پہ ڈھینگے مارنے والے یہ لوگ اپنے اسلی دین ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم کو بول کر شارٹ کٹ کی طرف لپک رہے ہیں، اور بہت تیزی سے مختصر پڑھائیوں پہ لگے ہوئے ہیں کسی نے ایک ہزار دفعہ سورۃ الاخلاص کی مداومت کی تو اس نے یہ جانا کہ ا قران کریم کی تلاوت کی ضرورت نہیں رہی، استغفرواللہ ھو ربی، یا اللہ مجھے معاف کرنا۔ کسی نے اپنے ہی آپ یہ فیسلہ کر لیا کہ میں ایک دن میں سورۃ الحمد شریف سو بار پپڑھونگا تو مجھے دنیا کی سلطانی مل جائے گی۔
تمہاری کسوٹی، پرکھنے کا معیار جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور نا صرف کہ کرکے دکھایا ہے وہی معیار ہے اچھی سچی باتوں پر سر دھننے والوں کبھی اپنی زندگی میں انے والی مصیبت پہ صبر کرکے دیکھو، مگرتم اپنی ہی غلطی کرکے اللہ کو الزام دیتے ہو،میری ایک جاننے والی ہیں ان کو اپنے اوپر کسی قسم کا کوئی بھی اعتبار نہیں جو کچھ بھی ہے بس جی جو میں نے کہہ دیا بس جی وہی کرنا ہے انہوں نے۔ مگر کیا ہے کہ بعد میں پتا

چلتا ہے کہ جو کہا تھا وہ تو وہ صاحبہ کر نا سکی کہ ان کے ایک بھائی نے ان کو منع کردیا ، اچھا جی اب کوئی اور بتائے کہ کیا کروں، ان کا ایک کام تھا میں نے ان کو بہت سمجھایا کہ وہ خود اس شخص کے پاس چلی جائے جو ان کا اپنا خاوند ہے اور وہ اپنے اس فیصلے پر بضد رہیں کہ میں کیوں جاوں، وہ مجھ سے کہتی رہیں کہ میں کوئی ایسی پڑھائی دوں کہ جس سے ان کا خاوند خود چل کر آجائے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انہی عملوں سے بات بن جاتی ہے تو پھر تو ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا امتی نہیں ہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تم لوگ بھلا بیٹھے ہو کیا جو بھرپور معاملہ سرکاردوعالم صلی الہہ علیہ والہ وسلم فرماتے رہے تم نے اس کو فراموش کردیا ہے اور انہی کافروں والی حرکات کو اپنانا اپنا دین قرار دے دیا ہے۔ بابے نے کہہ دیا اور تم نے مان لی جو اصل بات تھی عمل وہ تو تم نے درگزر کردیا۔ کیا بابے کو اس بات کا ادراک ہے کہ تم کس عذاب سے گزروگے اس نے اپنی قبر میں جانا ہے تم نے اپنی قبر میں۔ تم اپنے سوالوں اور اعمال کے خود ذمہ دار ہو۔ شادی تم نے کی رہو بھی تم اور انسان ہونے کے ناطے سے تم سے کوئی غلطی سرزد نا ہو یہ ہو نہیں سکتا ، اب یہ غلطی بھی ا سی کے سر جس نے تمہیں یہ کہا کہ ہاں اس سے شادی کرلو یہ ٹھیک رہے گا۔ ہنڈیا چولہے پہ رکھ کر یہ تو نہیں ہوتا کہ اب سالن خود ہی پک جائے گا اس کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ کوشش اور ترکیب سے ہی سالن پکتا ہے اور یہ  بات پکاتے تو سبھی ہیں مگر ذائقہ اور لطف کسی کسی میں ملتا ہے، یہ بات ہے عقل و شعور کی۔
   جو عورت کہ گہری نہیں ، اس کو گھر چلانے کا شوق نہیں جو اپنے خاوند کے ارام وسکون کو مدنظر نہیں رکھتی اس نے الگ رہنے کی قسم کھا رکھی ہے، وہ کبھی کسی کی نا ہوسکی ہے اور نا ہوگی ، ایسے لوگ دنیا میں صرف گڑبڑ ہی کے حامی ہوتے ہیں، ان لوگوں کا انجام برا ہی ہوتا ہے، عورت وہ جو پیا من بھائے۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔ بات تب ہی بنتی ہے۔
ایسا مرد جس کو اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ کی ضرورتوں کا خیال نا ہو، اور وہ اللہ کی عبادت سے جی چراتا ہوتو ایسا ادمی اپنے اپکو خدا سمجھ لیتا ہے اور جب بات اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو اکثر بابوں کے دربار پہ نظر اتا ہے، کبھی کسی عالم جفر کے پاس، کبھی کسی علم الحروف والے کے پاس ، کبھی علم الاعداد والے کے پاس اور اسی طرح رمل بھی ایک عالم ہے۔
سب کاموں کا قبضہ قدرت اللہ کے ہاں ہے۔ اللہ ہی واحد و مالک کل کائنات کا رب ہے، وہ ہی یکتا ہے وہی کل شی قدیر ہے ، کون ہے جو اس کی مرضی کے بغیر چل سکتا ہے، کیا وہ آسمان سے بارش نہیں برساتا، کیا وہ گرمی و سردی کا ، بہار کا، فصل کے پک جانے کا،
پھولوں میں رس لانے کا، طرح طرح کی سبزیوں کا مالک و مولٰی نہیں ہے۔ چیزوں میں اگر الگ الگ لذت ہے تو اسی ے دم سے ہے۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ کوئی نہیں الہ سوائے اللہ کے جس کی کہ ہم عبادت کریں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر ہی تو ہر مسلمان کا یقین ہے تو کیوں کسی کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ اس نے جو قران میں کہا کیا وہ تمہارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اسی لیے تو تم نے سفلی بابوں ا سہارا لے رکھا ہے کہ جو بابے کے منہ سے نکل گیا وہ ہی حق ہوگیا۔ جو کسی ولی نے کہا وہ تمہیں از حد برا لگ گیا۔ وہ ولی بھی تو یہ کہتا ہے کہ نماز اور صبر سے مدد لو، تو کیا وہ غلط کہتا ہے، اس نے کہا کہ اپنی زندگی کو سادھا طور پر رکھو تم سے سوال کم ہونگے تو اس نے کوئی غلط کہہ دیا۔ بجائے اس کے ہ تم یہ وظیفہ کرو راتوں رات امیر ہوجاو گے، یہ اونٹ کی ہڈی اپنی چھت پہ لٹکا دو سب بلائے بھاگ جائے گی، کیا ہوگیا ہے کس عمل پہ اپنی قبر  میں جاو گے۔
بسم اللہ پڑھبے کی تو کسی کو توفیق نہیں ہوتی شاید ہی کسی کو یاد رہتی ہو کہ کھانا کھانے سے پہلے پڑھ لینی چاہیے۔ کن باتوں میں الجھ کر اپنا گردوپیش تباہ و برباد کرلیا ہے، کسی کا لیپ ٹوپ گم ہوگیا تو وہ بجائے ڈھونڈنے کے اور احتیاط کرنے کے فوری بابا جی حضور کے حاضر ہو کر رونا روتا ہے، پہلے کہاں تھے جب اس کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔
ہمارے ایک شفقت بابا جی ہیں ان کی ایک بڑی کارآمد بات میں نے پلے باندھی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں" گنڈ بنن تو رہیے نا تے چور کسی نوں کہییے نا"۔
" دین میں زوق و شوق اور سرشاری سے ہی کوئی مقام ملتا ہے اوراس سے اللہ اور اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں"- حضرت شاہ شکور علیہ الرحمۃ
 طالب حق کو توبہ کی راہ نہہیں چھوڑنی چاہیے"- حضرت شاہ شکور علیہ الرحمۃ
" نگاہِ مپرشد انسان کو ممتاز بنادیتی ہے جس کے لیے راہ شریعت کا شہسوار بننا پڑتا ہے"- حضرت الشاہ محمد علاء الدین علیہ الرحمۃ
"اپنے کاموں اور فرائض کو محبت، محنت اور مستعدی سے انجام دو"- حضرت الشاہ محمد علاء الدین علیہ الرحمۃ
" اللہ کی زمین بہت وسیع ہے صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جاتا ہے"- حضرت الشاہ محمد علاءالدین علیہ الرحمۃ

 " جو شخص کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے اور شیطانی حربوں سے بچتا ہے کامیاب ہے"- حضرت الشاہ محمد علاءالدین علیہ الرحمۃ
" اپنی ذات کے لیے کسی کو تکلیف نا دو، مخلصین ، محبیبیں اور غریبوں کا خیال رکھو"- حضرت الشاہ محمد علاءالدین علیہ الرحمۃ
 "جب تم لوگ عقل و ہوش و حواس کا ساتھ لیے بغیر کوئی بھی کام کروگے تو مات کھا جاوگے" – اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ
" دل اور دماغ کو اچھی طرح حاضر کرکے بات کیا کرو"- اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ
"عقلمند وہ ہے جو ہر معاملہ میں اللہ پر ہی توکل کرے" حضرت بابا فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمۃ
درویشوں کے حق میں ہمیشہ ننیک گمان رکھو تاکہ ان کی حمایت حاصل ہو" حضرت بابا فرید الدین علیہ الرحمۃ
   ریحان بشیر  

Sunday 1 July 2018

swal aur jwab


باادب  بامراد         بے ادب  بے مراد
ھُمُ الۤجُلَساؒءُ لَا یَشۤقٰی جلِیسُھُم۔ یہ ذکر الہٰی کرنیوالے ایسے اصحاب ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔ بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، بخاری شریف
یا ایھا الذین امنواتقوا للہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ وجاھدوافی سبیلہ لعلکم تفلحونَ۔ اے ایمان والو!اللہ سے ڈرواور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرواور اس کی راہ میں مجاہدہ کروتاکہ تم فلاح حاصل کر سکو۔ قرآن کریم


پیرِطریقت رہبرِشریعت قُطبِ دوراں غوثِ زماں سخی لجپال قدوۃ السالکین بدرالملۃ والدین المخطابُ الغیبی فخرالمتوکلین خواجئہ خواجگان اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہؒ
علائی قادری شکوری چشتی منعمیؒ رحمۃ اللہ علیہ دامت برکاتہم قبلہؒ

چوں تو ذات پیر کردی را قبول
ہم در ذاتش  کہ  آمد  ہم  رسول
                     

مطبوعہ تاریخ : 17 جون 2018ء         مصنف :ریحان بشیر قادری علائی شکوریؒ
بسم اللہ الرحٰمٰن الرحیم
ھُوالقادرُ          ھُوالشَّکورُ           ھُوالمعینُ
1992ء سے لے کر 2001ء کی رفاقت میں جو عرصہ میں نے اپنے پیرومرشداعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہؒ کے ساتھ گزارا اسمیں بہت سے ایسے لمحات بیتائے جن میں بہت سا فیض و برکت جو حضورؒ نے میری جھولی ،میں ڈالا وہ آج 2018ءوہ آپ کے پیش نظر کرتا ہوں تاکہ اپ لوگ بھی ان مجالس کا وہ علمی خزانہ لوٹ سکیں، کوئی مجلس تو بہت طویل ہوتی تو کوئی بالکل مختصر سی ، اس کی وجہ کسی مہمان کی آمد ہوتی یا کوئی ضروری کام ہوتا۔ سرمایہ بیش بہا سے فائدہ مندی حاصل کریں جو آپؒ کو نا پا سکے وہ آج ان سوالاً و جواباً تحریروں میں آپؒ سے فیض یاب ہونگے،  انشاء اللہ۔
مجلس 1
سوال۔ حضورؒ کلمہ کیا ہے؟
جواب۔ یہ ذکر ہے۔ جس میں اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے، بیان یہ کہ اللہ ایک ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
سوال۔ حضورؒ سلسلہ میں داخؒل ہو کر کون سے مقام حاصل ہوتے ہیں؟
جواب۔ دیکھو جی ! مقام تو بہت ہیںمگر گنتی کے سات ہیں اور وہ جمادات، نباتات، حیوانات، انسان، ملکوت، جبروت اور لاہوت
سوال۔ مرید کو کیسے پتا چتا ہے کہ وہ کس مقام پہ ہے؟
جواب۔ بہتر تو یہی ہے کہ مرید بس مرید ہی رہے، جتنا کہ اس کو بتایا جائے اتنا ہی عمل کرے نہ کہ آگے بڑھے، ذکر کرے، نماز پڑھے، قرآن بہ ترجمہ کے پڑھےدرود پاک پڑھے، ہو سکے تو حدیث پاک کا مطالعہ کرے اور زیادہ سے زیادہ تصور کرے۔
سوال۔ پھر بھی سرکارؒ کسی جگہ پہ تو اسکو محسوس ہوتا ہے کہ؟
جواب۔ ضرورت نہیں ہے، اگر ضرورت ہو تو اس کا پیر بتا دے گا۔ یا وہ دنیا میں نا بھی ہو تو سلسلہ کاہی پیر اس کی امداد کرے گا۔
سوال۔ ذکر کرتے وقت بڑا خالی پن محسوس ہوتا ہے کیا کیا جائے؟
جواب۔ اس کی ہر مرید اور اس کے حال کے مطابق اجازت ہوتی ہے، ہر ایک کی کیفیت مختلف ہوتی ہے،عام معنی یہ ہے کہ مرید کا نفس اس کو تنگ کررہا ہوتا ہےاس مرید کو چاہیے کہ وہ تصور زیادہ کرے۔
 سوال۔ حضورؒ سلسلے کے مرید خالی پن کا شکار کیوں ہیں؟
جواب۔ سلسلہ کا کوئی بھی مرید ہو تو اسکو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ قرآن کیا ہے، نماز کی حقیقت کیا ہے، ذکر کیا ہے، بس وہ طوطے کی طرح لگا رہتا ہے اور آخر جب کچھ وقت بعد وہ تھک جاتا ہے تو اس طرح کے سوال جنم لیتے ہیں، ایسی صورت میں اپنے پیر سے رابطہ کرنا چاہیے۔
سوال۔ عبادت کے تسلسل کو کس سے قائم رکھیں؟
جواب۔ پکے ارادے کے ساتھ میانہ روی کے ساتھ، اتنا ہی عمل کرو جتنا کہ علم ہواور طاقت ہو تاکہ دنیاوی کاموں کے لیے بھی وقت نکال سکو۔
سوال۔ اگر نماز اور دیگر وظائف نہ کر سکے تو؟
جواب۔ کوشش کرتا رہے ایک دن ضرور کامیاب ہو جائیگا، اللہ سے دعا کرتے رہو کہ اللہ تمیں استقامت دے باقی پیر اپنے مرید کا خیر خواہ تو ہوتا ہی ہے۔
سوال۔ اگر حضورؒ جب آپؒ کے پس نا آ پاو تو؟
جواب۔ تو جہاں کہیں بھی ہو تو پیر کا تصور کرواور معاملہ کو دل میں سمجھو جواب ملے گا۔
سوال۔ کیا پیر کے علاوہ بھی کسی اور پیر کے دیے ہوئے وظائف کر سکتا ہوں؟
جواب۔ سلسلہ عالیہ کے علاوہ کوئی اور وظائفنہ کرنا ورنہ فائدہ نہ ہوگا۔
 سوال۔ اگر کسی سے سن لوں کہ آپؒ سرکار مجھ سے ناراض ہیں تو سرکار؟
جواب۔ جب تک خود مل کر نا دیکھ لو تو یقین نا کرو۔
مجلس 2
سوال۔ سلسلہ عالیہ کی بہترین عبادت کیا ہےَ
جواب۔ نماز پنجگانہ ، درودشریف صبح و شام نما تہجد اور بس۔
سوال۔ کیا نماز چاشت بھی پڑھیں اور ان میں صورتیں اور رکعتیں؟
 جواب۔ نماز چاشت ہر ایک کو پڑھنے کی اجازت نہیں اس کی حالت اور ضرورت اور ہے اس میں دو سلاموں کے ساتھ چار رکعتیں ہیں، پہلے سؤرۃ الفلق اور دوسری میں  سورۃ الناس پڑھی جاتی ہے۔
سوال۔ یہ نماز چاشت سلسلہ میں کیوں پڑھی جاتی ہے؟
جواب۔ سلسلہ میں یہ نماز شیطان کے بہلاوے سے بچنے، روزگار کی برکت اور دلی سکون کے لیے ادا کی جاتی ہے،
سوال۔ سلسلہ میں داخل ہونے لے بعد کیا بات ضروری ہے؟
جواب۔ ادب،پیر، نمازاور ذکر یہ شروعات سلسلہ ہیں۔
سوال۔ کچھ اور باتیں؟
جواب۔ ملوث، انکساراور عاجزی کا راستہاختیار کرو۔ پیر سے محبت دین سے محبت ہے، موت کا کوئی دن مقرر نہیں ، درود پاک کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں۔
سوال۔ سلسلہ عالیہ میں پڑھی جانے والی کتابیں ؟
جواب۔ قرآن پاک، حدیث پاک، کیمیاےت سعادت، سیرت پاک فخرالعارفین اور غینۃ الطالبین۔
سوال۔ اور بھی کتابیں ہیں؟
جواب۔ نہیں، ضرورت نہیں یہی کافی ہیں۔
سوال۔ اور اس کے علاوہ کیا ہے؟
جواب۔ عمل پر زور دو اور درود پاک پڑھا کرو۔
مجلس 3
سوال۔ حضورؒ غوث کیا ہوتا ہے؟
جواب۔ جس کے سامنے معاملہ بیان کرو اور تمہیں دعاکروانے کے لیے کہنا نہ پڑے۔
سوال۔ کیا حضرت محمد الشاہ علاء الدینؒ قُطبِ اکبر رہے ہیں؟
جواب۔ جی ہاں ڈھائی برس تک۔
سوال۔ کیا حضرت فخرالاولیاءؒ بھی؟
جواب۔ جی ہاں۔
سوال۔ کیا حضرت محمد صفدر خان صاحبؒ بھی؟
جواب۔ جی بالکل۔
سوال۔ کیا حضور عالیؒ کو بھی یہ بات حاصل رہی ہے؟جواب۔ آپؒ نے اس بات پر خامشی  رکھی اور مجھے چُپ رہنے کا کہا۔
سوال۔ حضورؒ اگر نفلی نماز میں بھی اگر کوئی غلطی ہوجائے تو کیا سجدہ سہو لازم ہے؟
جواب۔ جی ہاں لازم پے۔
سوال۔ اگر وضو کرتے وقت ہوا خارج ہوجائے تو وضو شروع سے کرنا چاہیے؟
جواب۔ جی ہاں شروع سے۔
سوال۔ حضورؒ نماز میں ثنا کیا ہے؟
جواب۔ یہ ضرور پڑھنی چاہیے خاص طور پر امام کے پیچھے اس میں برکت ہے اور اس مقام سے انسان اللہ کے نام سے جڑ جاتا ہے جب کہتا ہے وتبارک اسمک تو اللہ کے نام سے جو انسان کو برکت ملتی ہے وہ اس کی جد میں یہ کہہ کر شامل ہوتا ہے وتعالٰی جد ک اور اس کی رحمت کا پرتو حاصل کرتا ہے۔
سوال۔ حضورؒ تشہد کیا ہے؟
جواب۔ یہ مقام حضوری ہے، مقامِ معراج بھی،
سوال۔ حضورؒ کیا پڑھنا چاہے سُبحان ربے العٰلٰی کہ سُبحان ربی العٰلٰی۔
جواب۔ سُبحان ربی العٰلٰی، ہمیشی ربی کا ہی صیغہ رکھ کر پڑھا کرو۔
مجلس 4
سوال۔ کیا اہلِ مزار ولی پاک سے کچھ مانگا جائے؟
جواب۔ سلسلہ عالیہ کی روح سے تو نہیں بلکہ ایصال ثواب کرکے وہاں سے آجاو، ہاں اگر تمہارا اپنا پیر ہے تو چاہو ووہاں سارادن ساری رات پڑھے رہواور اپنے حق میں دعا کرو، تمہارا اپنا پیر تو تمہارے لیے گھی کے گھونٹ سے بھی اوپر ہے وہاں سے تہیں کیا ملتا ہے اس بات کو تم شمار نا کر پاو گے۔، آپؒ نے مزید فرمایا کہ زندہ پیر اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔
سوال۔ کسی اور سلسلے کے پیر کے مزار میں بھی ایسا ہی معاملہ ہے؟
جواب۔ کسی اور پیر کی قبر یا تعویز پر نہ ٹھہرا جائے یہ بات مرید کے حق میں بہتر ہے ہے کیونکہ ذیادہ تر مریدین معاملات کو کم سمجھتے ہیں اور دخل اندازی کی وجہ سے ان کی پکڑ ہوجاتی ہے۔ بہتر ہے کہ نہ رکا جائے اور ایصالِ ثواب کے بعد آجائے۔
سوال۔ اگر اہل قبر کے مزار پہ کوئی خلاف شرع بات دیکھے؟
جواب۔ خاموش رہو کیونکہ وہاں کے تم ذمہ دار نہیں ہو،تمہارا کام اہل مزار سے ہے انتظامیہ سےنہیں۔
سوال۔ درود پاک اور ذکر کیا ہیں؟
جواب۔ درود پاک سالن اور ذکر روٹی ہے، جو روح کو طاقت اور توفیق عطا کرتے ہیں۔
سوال۔ حضورؒ فارغ وقت میں کیا کیا جائے؟
جواب۔ قرآن کو بہ ترجمہ پڑھو، اگر وقت ملے تو درودپاک پڑھو، اس کے علاوہ سیرت العارفین بھی ہے۔
سوال۔ زندگی میں اگر نا بن پڑے؟
جواب۔ زندگی میں اگر کسی کے ساتھ اگر نا بن پڑے تو خاموشی اختیار کروکیونکہ الساقوت سلامہ۔ اک چُپ تے ہزار سُکھ۔
سوال۔ سرکارؒ اگر کوئی مشکل آجائےتو کیا کیا جائے؟
جواب۔ درود پاک کوبہت خوب کثرت سے پڑھو اور تصور پیر کرو۔
سوال۔ اگر کسی نے کوئی جادو کر دیا ہوتو؟
جواب۔ پہلی تو بات یہ کہ سلسلہ میں مرید پہ کوئی جادو چل ہی نہیں سکتااگر وہم نا جائے تو باوضو ہو کر تصور پیر کرو۔
 سوال۔ سرکارؒ اگر جلد مدد لینی ہو تو کیا کریں؟
جواب۔ یہ کہا کرو، یا پیرومرشد مدد گار ، یہ ہردُکھ، مرض اور مصیبت کی دوا اور علاج ہے۔
مجلس 5
 سوال۔ کیا نماز مشاہدہ ہے یا مجاہدہ؟
جواب۔ یہ مشاہدہ کے ساتھ ساتھ مجاہدہ بھی ہے، زیادہ تر حصہ مشاہدہ پر مبنی ہے، چاہو تو مشاہدہ میں غرق ہونے کے لیے جدوجہد زیادہ کرو۔
سوال۔ ذکر سے سکون کب ملتا ہے یعنی کب پتا طلتا ہے کہ ہم نے بہتر ذکر کیا ہے؟
جواب۔ جب روز ذکر کرنے کو ملتا رہےاور خوب دل لگ جائے اور اس میں چھٹی کم ہو۔
سوال۔ دنیا کو چھوڑدینا چاہیے یا کیا کرنا چاہیے؟
جواب۔ دنیا میں ہی رہو جتنی کہ تمہاری طاقت ہے ، مگر جان بوجھ کر اپنے اپ کو اس میں گم نا کرو، بس درمیانہ دنیادار بن کر۔
سوال۔ حضورؒ کبھی تو دل کہتا ہے اور میں ارادہ بھی کر بیٹھتا ہوں کہ دنیا داری چھوڑ کر دین ہی کروں اور فارغ رہوں؟
جواب۔ ایسی سوچ بری ہے کیونکہ یہ شیطان کا کام ہے۔ اگر اللہ چاہے گا تو جو نیت ہے وہ پوری ہوجائے گی، مگر صبر سے کام لیاکرو۔
سوال۔ سرکارؒ یہ کب پتا چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم سے ہما رابطہ ہو چکا ہے؟
جواب۔ جب درود پاک پڑھا جائےیا بار بار سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم علیہ پڑھنے یا جاننے کی طرف توجہ مبذول رہےیا یہ کہ تمہارا دھیان ہوجائے یا سیرت کا بھی حصہ تمہیں رُلادے یا خؤشی سے بھردے تو سمجھ لینایہ بہتریں رابطہ ہے۔ 
سوال۔ کیا اللہ تعالٰی کی ذات اس رابطے کی قوت دیتی ہے یا پھر اپنی کوشش سے یہ سب ملتا ہے؟
جواب۔ اللہ تعالٰی کی ذات نے قرآن میں ارشاد فرمایا " ان اللہ و ملئکتہ یصلون علی النبی یاایھاالذین امنو صلو علیہ و سلموا تسلیماً"۔
اب ظاہر ہے کہ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو تم بھی صلٰوۃ و سلام بھیجو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہ۔
اللہ کی ذآت شامل ہے اوراسے بہت بہت بہت ذوق و شوق اور شغف و شعار ہے کہ اس کے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ درودوسلام کی لڑیاں بھیجی جائیں،
اللہ کی ذات نے سب سے پہلا کلمہجو بولا وہ محمدرسول اللہ تھا۔ حضور عالی دو جہاں سید الانبیاء والمرسلین و خاتم النبین صلی الہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا" لا الہ الا اللہ "اللہ نے اپنے کلمہ کو آخر پہ رکھا، پہلے حضورصلی الللہ علیہ وسلم کی تعریفی شکل کو رکھا یعنی محمد، کیا مطلب تعریف کیا گیا، کوئی کسی کی کام سے پہلے تعریف بھی کرتا ہے، تو دیکھ لو اللہ کا شعار کہ اس ذاتکبریا نے پہلے کہا' مُحمد صلی الللہ علیہ وسلم، پھر رسول یعنی کام جو رسالت کام جو کروانا مقصود  تھا پھر اپنا نام۔ قرآن جا بجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے ، ایک جگہ " ورفعنا لک ذکرک" دوسری جگہ " ولسوف یعطیک ربک فترضٰی "
سوال۔ کیا ہم کبھی بھی حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ادا کر سکتے ہیں؟
ناممکن ہے، مشکل ترہے کیونکہ آپ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی روز بروز بلند سے بلند ترین ہوتا جا رہا ہے، ہم اس قابل کہاں کہ حق ادا کر سکیں، درود پاک پڑھا کرو اگر تو یہ سمکجھتے ہو مگر کبھی دل میں یہ نا آنے پائے کہ حق ادا کردیا مارے جاوگے، س میں ایک راز بھی ہے، ابھی نا سمجھو گے۔
مجلس 6
 سوال۔ ولی کو ہے؟
   جواب۔ جو ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع رکھےجس کا اللہ زندہ وہ مُردہ ہو، جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں، کوئی دعا نہیں ،مکمل بھروسہ اللہ پہ ہو، جیسا اللہ چاہے تو وہ بھی ایسا ہی عمل کرے، اس پر دنیا والے اس کا لاکھ مذاق اُڑاتے ہو وہ ٹس سے مس نا ہو۔
سوال۔ راحت و سکون کس بات میں ہے؟
جواب۔ اپنے پیر کے نقش قدم پر چلو بہت سا سکون اور دنیاوی و دینی دولت ملے گی۔
سوال۔ حضورؒ کیا نوافل زیداہ پڑھنے چاہیے یا ذکر زیادہ کرنا چاہیے؟
جواب۔ سلسلہ عالیہ میں جو 12 نوافل ہیں وہ تو اتنے ہی ادا کرنے ہیں، ذکر جتنا کرسکو تو بہتر ہے مگر تصور زیادہ کرو۔۔
سوال۔ تصور سے کیا مراد ہے آپؒ کی؟
جواب۔ یہ پیر جس کے تم ہاتھ پہ بیعت ہوتے ہو اس کی شبیہہ ہے جوتجلی اور فیض اس نے اپنے پیرؒ سے حاصل کیا ہوتا ہے جب مرید اپنے پیر کا تصور کرتا ہے تو وہ سب کا حقدار بن جا تا ہے، اور اپنا حصہ حاصل کر لیتا ہے۔ تصور اصل میں عبادت کا مغز ہے۔
سوال۔ کون سی بات عبادت سے دور کر دیتی ہے؟
جواب۔ جہالت، غفلت یا جب تم شیطان کی طرف خود سے قدم اٹھاتے ہو۔
سوال۔ غفلت کیا ہے؟
جواب۔ غفلت یہ ہے کہ آج تو بہت عبادت کرلی ہے اور کل چھٹی ہوجاتی ہے۔ ایک دن تو بہت زورشور سے عبادت کرلیمگر دوسرے ہی دن دماغ میں گرمی بھر جاتی ہے اور نیند کا غلبہ بھی زیادہ ہونے سے انسان عبادت کو کم کردیتا ہے، اس کے علاوہ لوگوں کو بھی بات بات پہ بولتا ہے یعنی غصہ کرتا ہے۔اکثر غرور کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس بات پہ شیطان کو بھی موقع ملتا ہے اور وہ بھی سواری کرتا ہے۔
سوال۔ حضورؒ سلسلہ میں جو ذکر خفی کی تعلیم دی جاتی ہے وہ اصل میں ہے کیا؟ یعنی باقی سلسلوں میں ایسا نہیں ہے؟
جواب۔ افضل الذکر لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ، خفی ذکر سانس کے ذریعہ کیاجاتا ہے جس سے شیطان، نفس،جنات اور شتونگڑون کی نفی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ اثبات الااللہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ کلمہ پاک توحید و رسالت کا منبہ و مرکزہے۔ پہلے رسالت جو اللہ نے بیان کی ' مُحمد رسول اللہ' اس کے جواب میں توحید کا بیان ہے' لاالہ الا اللہ'
سوال۔ ایسا کیوں ہوا؟
جواب۔ ' مُحمد رسول اللہ' یہ رسالت ہےاور توحید ' لاالہ الا اللہ'مگر جب اس کلمہ حق کو اتارا گیاتو توحید نے زبان کو پاک کیا تاکہ وہ اس نام نامی کو ادا کردے جس نے اللہ کی توحید اور کبریائی اور اس کو حقیقی آنکھوں سے دیکھنا اور اس کا پیغام پوری عالمین تک پہنچانا ہے، اور جن کا پھیلایا ہوا پیغام آنے والی تمام نسلوں تک ایسے ہی رہنا ہے اور انہوں نے ہی آخری نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا ہے۔
سوال۔ حضورؒ کلمے کے کتنے حصے ہیں؟
جواب۔ حصے نہیں ، حروف کہو، 24 ہیں۔
سوال۔ مقامات کتنے ہیں؟
جواب۔ چار ایک لاالہ دوسرا الااللہ، تیسرا محمد چوتھا رسول اللہاور اگر بحث میں نا پڑو تو دو ہی ہیں۔
 سوال۔ اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا بات راز ہے؟
جواب۔ تخلیق کی بات راز ہے، دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ایک عاشق تو دوسرا معشوق اور ثبوت معراج کا واقعہ۔
سوال۔ ایک ولی کی زندگی کیا ہوتی ہے؟
جواب۔ جب اسے دوام مل جاتا ہےتو اسے زمین پہ ہی جنت مل جاتی ہے، اس پر وہی کرم ہوتا ہے جو جنتی کو حاصل ہے۔
سوال۔ حضورؒ اکثر کو ذکر کے وقت جسم کے ٹرڑے کیوں نظر آتے ہیں؟
جواب۔ اس لیے کہ یہ جسم ظاہری درکار نہیں، یہ نفس کے حصے ہیں۔
سوال۔ حضورؒ کیا ذکر کا ہماری زندگیوں پر اثر ہے؟
جواب۔ جی ہاں ، ذکر کا ہماری زندگی پر بہت گہرا اثر ہے۔
سوال۔ کیا جب ذکر کیا جاتا ہے تو سب کا مشاہدہ ایک جیسا ہو جاتا ہے؟
جواب۔ نہیں ، ایک جیسا نہیں ہوتا یہ مرید کی حُب، عبادت اور نسبت کے مطابق ہے اسکی محبت جتنی ہوگی تو مشاہدہ بھی اسی طرح کا ہوگا۔
مجلس 7  
سوال۔ حضورؒ بیعت ہونا کیا ہے؟
جواب۔ اس سے مراد ایمان میں داخل ہونا ہے، اس کا مطلب کہ ہم اہنی روح کو پاک صاف کرنا سیکھ سکیں، نورِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی طرح سمجھ جائے اور اپنے نفس کو برائی سے دور کر لیں۔
سوال۔ حضورؒ مرید کون ہوتا ہے؟
جواب۔ جس کو آفتوں سے دور رہنا آتا ہو اور تمہیں جاننا چاہیے کہ سب سے بڑی آفت حسد ہے۔
سوال۔ حضورؒ کیا حسد  کرنیوالا سلسلہ میں کوئی برکت لے پاتا ہے؟
جواب۔ جی نہیں ، اس لیے کہ وہ جل جل کر اپنا آپ ختم کر لیتا ہے، چاہے وہ گدی نشین ہی کیوں نا ہو۔ اس سے بڑی اب کیا بات ہوگی۔
سوال۔ سرکار تصوف میں آنے والے کسی بھی دنیادار کی طرح کیوں نہیں رہتے؟
جواب۔ دنیا کی چیز باقی رہنے والی نہیں، یہ لوگ فنا مانگتے ہیں۔
سوال۔ گوشہ نشینی کیا ہے؟
جواب۔ برے لوگوں کی سنگت سے بچنا، لوگوں میں رہ کر بھی صرف صرف اللہ کو ایک ماننا، جاننا اور پوجنا۔
سوال۔ کیا دنیا والے ایسے گوشہ نشین کے بارے میں کچھ اچھا خیال رکتے یونگے؟
جواب۔ اچھا خیال کس طرح ہوگا کیونکہ یہ گوشہ نشینی والے تو اللہ کی مرضی سے بولتے اور رہتے ہیں اس لیے ان کی دنیاوی معاشرے میں کم ہی عزت ہے۔
مجلس  8
سوال۔ حضورؒ توکل کیا ہے؟
جواب۔ یہی کہ اللہ کی ذات دانا اور عظیم ہے، وہ بندے کے سارے حالات و واقعات جانتی ہے ، بار بار اس کو کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
سوال۔ اگر میں یہ کہوں کہ میری آخرت اچھی ہو جائے؟
جواب۔ تو دین پر چلتے رہواور مُرشد کی پیروی کرنا۔
سوال۔ حضورؒ پیر حضرات غریب ہی کیوں ہوتے ہیں؟
جواب۔ وہ نعمت اور راحت نہیں بلکہ اللہ کو اللہ سے مانگتے ہیں، ان کو اللہ کی نظر رحمت کے سوا کچھ بھی درکار نہیں۔
سوال۔ سرکار اصل میں کیا کام کرتا ہے؟
جواب۔ یہ اللہ اور اسکے مطالعہ سے دور کرتا ہے۔
سوال۔ عارف باللہ کون ہوتا ہے؟
جواب۔ جو مخلوق سے کٹا ہوا ہو، جس کی نظر صرف اللہ پر ہو، لوگوں سے نا کوئی طلب رکھتا ہو اور نا کوئی غرض ہو، دنیا کو کچھ نا جانتا ہو اور اس کی ہر ہر نگاہ، اور دل سے آنے والی اہ کا تعلق اللہ سے ہی بندھا ہو، اور وہ یہ بات دربارِ گوہر پاک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم میں رکھے تاکہ اس کو خیر کی  نظر ہوجائے۔
سوال۔ حضورؒ پہلے عبادت ہے کہ توبہ؟
جواب۔ پہلے توبہ  تو اس سے عبادت میں عروج ملتا ہے۔
سوال۔ بیعت ہوجانے کے بعد آدمی کیا کرے؟
جواب۔ اپنے عیبوں پر نظر رکھے،انہیں ڈھونڈے، ان کی اصلاح کرتا رہے، عاجزی اور انکسار کے ساتھ عمل کرتا رہے، تقوٰی کو پکڑے رکھے، مسلسل عبادت و ریاضت پر لگا رہے جہاں سے عبادت چھوٹ گئی ہو پھر وہی سے شروع کردے، اور پیر خانہ جانا نا چھوڑے چاہے پیر دنیا میں ہیں یا ان کی قبر پر جائے۔
سوال۔ حضورؒ بہتر مرید کون ہوتا ہے؟
جواب۔ وہ جس کا دل سے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نا نکلے، زندہ دل اور زندہ ضمیر بن کر دنیا میں رہے۔
سوال۔ حضوؒر شرع کے مطابق کون مرید ہے؟
جواب۔ مرید وہ ہے جو اپنی محنت و مشقت سے اپنے دل کو خوب اللہ کی طرف رکھے، کامل ہے وہ مرید جو پورے جسم اور اپنے دل، نیت، نفس، روح کو اپنے اللہ کے تابع کردے۔ اس لے کہ اایسے مرید اللہ کے نور کو دیکھ لیتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ اب وقت ہے تو ذرا دین کر لیتے ہیں نہیں بلکہ اس کا بہت سا وقت اللہ کی عبادت میں گزرے۔
مجلس 9
سوال۔ حضورؒ منافق کون ہے؟
جواب۔ جو نماز کو ذوق و شوق سے ادا نا کرے۔
حضورؒ سجدہ میں کیا بات ہے؟
جواب۔ اس میں اللہ کا قُرب اور یہ کہ یہ ایک دعا کا طریقہ ہے۔
سوال۔ حضورؒ پیر سے محبت ہو تو اس سے کیا حاصل ہوتا ہے؟
جواب۔ اس اے مرید کے بہت سے معاملات اسان ہوجاتے ہیں۔
سوال۔ حضورؒ موت کی کیا حقیقت ہے؟
جواب۔ یہ مومن کے لیے تخفہ، مرید کے لیے ملاقات اور پیر کے لیے رابطہ ہے۔
سوال۔ حضورؒ دل کی شفا کیا ہے؟
جواب۔ حضور عالی مقام نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق کی پہچان۔
سوال۔ کیا اب بھی وہی معاملہ مل سکتا ہے جو آج سے پہلے مدینہ پاک میں حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں تھا؟
جواب۔ جی ہاں ، مل سکتا ہے اگر تم بالکل عین من و عن وہ ہی عمل کرو گے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم  نے فرمایا، نبوت کے علاوہ۔
سوال۔ حضورؒ طریقت کیا ہے؟
جواب۔ خدا سے ہمکلام ہونا، اور جواب بھی پانا، یہ پیغام گوشہ نشینی سے حاصل ہوتا ہے،جہاں عوام ہوگی وہاں یہ رابطہ کم ہوتا ہے۔
سوال۔ کیا ہم اگر ذکر نا کرے تو اللہ ہم سے ناراض ہوجاتا ہے؟
  جواب۔ جی بالکل، ایسے ہی ہے، ہم یہ بات نہیں جانتے کہ اللہ کی ذات کب ہمیں معاف کرتی ہے، بس یہی ہے کہ ہم اس کی بارگاہ میں اس کی تعریف و توصیف کرتے رہے۔
سوال۔ سرکارؒ اللہ سے معرفت کب ملتی ہے؟
جواب۔ جب یہ بات مل جائے کہ ہر مشکل و مصیبت کو ختم کرنے والا وہی ایک واحد ہے جو مجھے اس گرداب سے نکال سکتا ہے۔ یہی اس کا انعام ہے اور یہی معرفت بھی۔
سوال۔ حضورؒ کس طرح سے معلوم کیا جائے کہ فلاں شخص ولی ہے یا نیک انسان؟
جواب۔ اس کے چہرے پر خشوع و خضوع بہت ہوتا ہے، اس کے کلام میں اللہ کا ڈر اور دنیا سےنفرت ہوتی ہے، وہ خواہشوں کا اظہار نہیں کرتا، وہ مال جمع کرنے یا فضول بحث میں حصہ نہیں لیتا۔
سوال۔ حضورؒ ارادت میں کیا بہتر ہے؟
جواب۔ لوگوں سے کوئی امید نا لگاو، کسی کو برا مت کہو، اپنے کام سے مطلب رکھو، کسی کے مہمان نا بنو، کسی کے رزق پر نظر مت رکھو۔
سوال ۔ ایک مرید سلسلہ میں آگیا ہے اب وہ اگے نہیں بڑھتا تو کیا یہ ٹھیک ہے؟
جواب۔ عبادت اور خدمت یہ دو شعبے ہیں ، عبادت میں پیر کی تقلید ہے اور دوسرا انتظامی کام ہیں جو وہ سر انجام دے تو بہت فیض و برکت حاصل ہوتا ہے،
سوال۔ حضورؒ اگر اس کو علم کم ہو یا شعور نا ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب۔ پیر کی نقل کرے، کوشش کرے کہ جا کر پیر سے پوچھے، ان کو ملتا رہے شاید خیر پڑ جائے۔
سوال۔ پیر نے جو کہا اور تعلیم دی مرید وہ نا کرسکا؟
جواب۔ خاموش رہے ، کوشش کرے کہ سلسلہ کی کوئی بات کسی اور سے پتا کرے۔
سوال۔ دل کسی وقت بہت بے چین ہوتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ دوں؟
جواب۔ یہ سب شیطانی وسوسہ ہے اس وقت توبہ کیا کرو۔
سوال۔ حضورؒ کسی وقت تو ذکر کرنے سے مسلسل عبادت سے بھی دل مطمئن نہیں ہوتا سب کچھ ہی کرتا ہوں جو آپؒ نے بتایا ہے؟
جواب۔ مسلسل ذکر کیا کرو، تکرار سے بات حاصل ہوجاتی ہےیا ہمارے پاس آجایا کرو۔اصل میں اللہ آزماتا بھی تو ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ پڑھو۔
مجلس  10
سوال۔ اللہ کی ذات کیا چاہتی ہے اور ہماری چاہت اور ہے؟
جواب۔ اللہ نے ہمارے ساتھ نفس لگا دیا ہے، جس کی وجہ سے دل کبھی کہیں تو کبھی کسی اور اوڑھ میں ہوتا ہے، اس دل اور نفس کو قابو میں رکھنا اور اللہ کے تابع کرنا ہی اصل راز زندگی ہے، مرید کو ذکر خفی اسی بات پہ دیا جاتا ہے کہ وہ اصل مقصد حیات پالے۔ کیا قبر میں بھی یہ مال و دولت جائے گا وہاں تو صرف جسم ہی جائے گا جس نے ذکر خوب کثرت سے کیا ہوگا۔
سوال۔ حضورؒ دنیا مرید کو بہت باتیں بناتی ہے؟
جواب۔ کاش کہ ان باتیں بنانے والوں کا حال جو کہ ان کے ساتھ قبر میں ہے تم جان سکو، جن و انس میں یہ قوت نہیں رکھی گئی کہ وہ قبر کی چیخ و پکار کو سن سکیں،اگر تمہیں پرندوں کی بوی آتی تو ان کی زبان سے سنتے کہ وہ کیا کہتے ہین ان قبروں کے متعلق۔
سوال۔ کیا علامت ہے کہ ہم جو بھی عبادت کرتے ہیں تو وہ قبول ہو؟
جواب۔ اللہ اپنا کرم کرتا ہے تو انسان اس کی طرف راغب ہوتا ہے ، بس اس کا فضل مانگا کرو اس سے جڑے رہنے کا، اپنی عقل و شعور سے بات کو سمجھو ک اس کے بنا کوئی بھی تمہارا نہیں بس عبادت گذاری پہ لگے رہو گے، قبولیت مسلسل عمل سے ہے۔
سوال۔ حضورؒ سلسلہ ہمارے لیے کیا ہے؟
جواب۔ سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو ہمارا ہاتھ جو پیر کے ہاتھ پہ ہوتا ہے وہ آگے سلسلہ در سلسلہ چلتے ہوئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ کے ہاتھ پ پوتا ہے، ان میں اور بھی اولیاءکرام اور اصحابہ کرام رضی اللہ عنھما شامل حال ہوتے ہیں۔ اببرتن ہی صاف نا ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
سوال۔ حضورؒ قرآن و حدیث کے علاوہ کن کتب کا مطالعہ کیا جائے؟
جواب، اولیاء کرام اور انبیاء کرام علیھم السلام کی حیات طیبہ اور وضو و نماز کے مسائل۔
سوال۔ حضورؒ سلسلہ میں یقین کیا ہے؟
جواب۔ جہاں مرید ہو وہی سب کچھ ہے ورنہ سلسلہ بدل کر دیکھ لو۔
سوال۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر کوئی مرید ہوجائے؟
جواب۔ جی ہاں، بہت ضروری ہے، یہ تو ایک سکول کی طرح ہے کہ جس میں ہم داخلہ کرواتے ہیں، کوئی نمبر لے جاتا ہے تو کوئی خالی کلاس میں بیٹھا رہتا ہے۔
سوال۔ مرید ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟
جواب۔ جب بھی کوئی اس سلسلہ عالیہ میں داخل ہوتا ہے تو اس کی ہر حالت اس کے پیر کے پاس امانت ہوتی ہے اس کے حال کو کسی اور پر ظاہر نہیں کیا جاتاپیر کا کام اصلاح کرنا ہوتا ہے۔ اس کی الگ رہنمائی اور دل جوئی کی جاتی ہے۔ پیر نے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اللہ کے ہاتھ میں دینا ہوتا ہے۔وہ اس کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا بلکہ اس مرید کے سامنے اسی کی حقیقت نہیں کھولتا۔
سوال۔ سرکارؒ روح امر ربی کس طرح ہے؟
جواب۔ آپؒ نے فرمایا کہ اس کا تعلق سب سے پہلے عشق سے ہے، اس کا پہلا تعلق پیر سے سچی محبت ہے کہ وہ مرید پیر کے دیس کو پیرر کی اجازت کے بغیر نا چھوڑے، اصلًاً پیر کی خدمت ہی سلسلہ کو آگے بڑھانا ہے، پیر کے کام کو آگے تک لے جانا کہ وہ خود اپنی پیر کی نقل میں اتنا آگے آجائے کہ خود کی ہستی کو بھول جائے اور اپنے آرام کو خیرباد کہہ دے نا دن دیکھے نا رات بس ایک ہی دھن اس مرید پہ سوار ہو کہ اس کے پیر کا کام چلنا چاہیے،اس کی کوشش میں ذوق و شوق بہت زیادہ ہو تو اللہ تعالٰی کی ذات اس کے کام کو قبول کرلیتی ہے۔
سوال۔ حضورؒ کیا جن مزاروں پر لوگ کم آتے ہیں تو کیا وہاں کوئی ماننے والا نہیں ہوتا؟
جواب۔ ان بزرگوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے وہ اپنی قبر پر سال میں دوبار آتے ہیں، یعنی حالت ظاہری میں فیض کے ساتھ ، مگر ان کی طبیعت کے مطابق ان کی قبر پر اثرات ہوتے ہیں۔
سوال۔ اگر کسی کو اپنے پیر کی قبر یا مزار کا نا معلوم ہوتو وہ کیسے تلاش کرے؟
جواب۔ اللہ کے کلام کی تکرار اور  پیر کی نسبت اس مرید کے جسم میں یعنی اس کے باطن میں حرارت بھر دیتی ہے، یہ پیر کی نسبت دنیا سے پردہ کرنے کے بعد کسی میں ظاہر ہونی ہوتی ہے، اس کو کہتے ہیں روح کا دوبارہ زندہ ہونا، یہ روحِ پیر زمان و مکان سے آذاد ہوتی ہے یہ اس  مری میں آجاتی ہے جو پیر سے محبت رکھتا ہے، لہٰذا یہ اس مرید کے جسم و دماغ پہ اثر کرتی ہے، تو اس کو تلاش کرو کہ جو یہ نسبت رکھتا ہو، وہ تمہارے سارے مسائل حل کردے گا۔
سوال۔ سرکارؒ شجرہ شریف پڑھنا چاہیے؟
جواب۔ جی ہاں ، اس میں بزرگان دین کا ذکر ہے، اور ان کا نام لینے سے ان سے ایک تو قلبی تعلق اور دوسرا برکت حاصل ہوتی ہے۔
مجلس  11
سوال۔ سرکارؒ نور فراست کیا ہے؟
جواب۔ نور فراست سے بھی ایک اور ضروری بات ہے اور وہ ہے نورحقیقت نور فراست تو ایک عام مومن کے پاس ہوتا ہے۔
  سواال۔ مرید کی حالت کو کیا چیز بدلتی ہے؟    
جواب۔ پیر کی محبت، جب پیر مرید کی حالت کو ملاحظہ کرتا تو اسے پتا چلتا ہے کہ یہ کس طرح کا ہے، اگر تو اچھی طبیعت کا ہو تو اس سے پیر کو محبت  ہوجاتی ہے اور اگر دخل اندازی کرنے والا ہو تو پھر اللہ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جس مرید کو اپنے مرشد سے پیار و عشق ہوتا ہے وہ اس  ہی کے ہاتھ پرثابت ہوتا ہے۔
سوال۔ حضورؒ پیر نے اپنی زندگی میں کہا کہ ہمیں بس تمہارا خیال ہے تو اکثر دیکھا ہے کہ وہ پیر کے کام کو نہیں چلاتے؟
جواب ۔ اصل میں ایسے مرید کی محبت راستہ میں ہی ٹوٹ جاتی ہے، کیونکہ یہ راستہ بہت کٹھن ہے۔دونوں ایک دوسرے سے جدا مقاصد رکھتے ہیں، جبکہ پیر کی حُب صرف اللہ کی ذات ہے اور مرید کو مال و زر بھی کمانا ہے۔ یہ مرید اور مراد کا رشتہ ہے۔
سوال۔ کیا پیروں کی بھی قسمیں ہیں؟
جواب۔ جی ہاں ، ہیں قسمیں، ایک ہیں جو مرید کی غلطیاں درگزرکرجاتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو فورًا درگزر نہیں کرتے اور کچھ عرہ ناراض رہتے ہیں، یہ طریقہ اصلاح کا ہے، کچھ تو بہت جلالی ہیں قطعًا معاف نہیں کرتے۔
سوال۔ حضورؒ اللہ کی نظر کیا ہے؟
جواب۔ جب اللہ کسی کو اپنے لیے پسند کرلیتا ہے تووہ فرد صرف اللہ ہی کی طرف دیکھتا اور مانتا ہے، ایسے فرد کو زاہد کہتے ہیں، تو جو قطعًا مرید کو معاف نا کرے وہ اپنی گوشہ نشینی کی بنا پہ گناہوں کو برداشت نہیں کرتا۔
سوال۔سرکارؒ یہ گوشہ نشین ہیں، ان سے کیا سلوک رکھا جائے؟
جواب۔ ان سے محبت کرکے ان کو یقین دلایا جائے کہ تم ان سے مح﷽ت رکھتے ہوشاید تمہیؐ معافی مل جائے۔
سوال۔ گوشہ نشین یا الگ رہنے کا کیا فرق ہے؟
جواب۔ دونوں کا مطلب اللہ کوپانا ہے، گوشہ نشین چلہ بھی کاٹتے ہیں، وظیفہ بھی کرتے ہیں، چلہ میں اللہ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنا ہوتا ہے جبکہ وظیفے کا مقصد اس ذاتِ باری کا نام ، ایسا اسم اعظم حاصل کرنا ہے جس سے کہ وہ خوش ہوتا ہے، دنیا سے الگ تھلگ رہنا یہی ہے کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پہ غور کیا جائے اور ان کا اسان حل ڈھونڈا جائے۔