Monday 30 April 2018

RAZ E FANA


                      بسم اللہ الرحٰمن الرحیم                             
ھُوالشکورُ
راز فنا
اس مضمون کے بارے میں کسی بات کو آخر کہنا اٹل نہیں کیونکہ اس علمِ فانی کی اپنی بہت سی منزلیں ہیں،ان ہی منازل میں سات عالم ہیں جن کو طے کرنا ضروری ہے تا کہ اس رازِ فنا کو جانا جا سکتا ہے۔ اس میں ارادت، مراد، خلافت، ولادتِ ثانوی ، ولادتِ معنوی ، نسبتِ شیخ اور اتباعِ شیخ شامل ہیں۔
پاک سالکوں کے حصے میں پاک روحانیت اور ناپاک کے ہاتھ ناپاک شئے۔ اسی طرح ہر  ایک اپنی جہت اور جستجو کے باعث ان کون و مکان پر پہنچ جاتا ہے جہاں کی کے وہ کوشش کرتا ہے۔ مسلمان جب کسی پیرکے ہاتھ پہ بیعت ہوتے ہیں تو وہ دوسری پیدائش ہے جس کو کہ ولادت ثانوی کہا جاتا ہے۔اس ولادت کی نسبت اسی پیر کی طرف ہوگی جس کے ہاتھ پہ کوئی فرد بھی بیعت ہوتا ہے۔ اب یہاں ولادت کے ساتھ بیعت اور نسبت دو بڑے معاملات ہیں جو ایک ہی نکتہ پہ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ ایک تو ہماری پیدائش عندالشرع ہے ۔ جب ایک مرد اور عورت شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو اُن دونوں کے ملاپ سے اولاد کا وجود ہوتا ہے۔
 دوسری پیدائش جب بچہ مدرسے میں پڑھتا ہے اور علم سے آگاہی حاصل کرنی شروع کرتا ہے، اس سے اس کی جہالت آگاہی سے بدلتی  اور ادراک کے مدارج طے ہونے لگ جاتے ہیں۔ولادت کے معاملے میں پاکیزگی و طہارت اور تقوٰی کا بڑا کردار ہے ان کے بغیر کوئی کام نہیں۔  
اسی طرح اور بھی مراحل ہیں جن کا فرد کو سامنا ہوتا ہے اور اپنی عمر، قد، وزن اور ذہنی نشوونما کے تحت وہ اپنی علمی ترقی کوطےکرتا چلا جاتا ہے۔ اس علمی حصول میں وہ دنیاوی کُتب کا مُطالعہ کرتا ہے اس کے اندر دنیاوی ظاہریت کی نمو جنم لیتی اور اس کے شعور اور فہم کی ترویج ہوتی ہے۔ کائناتی علوم اس کے آگے حل ہوتے ہوئے منظرِ عام پہ آتے ہیں۔ اس کی تشفی و تسلی ہوتی ہے،وہ علم کے بہت سے شاہکارں کے بارے میں جانتا اور مُستفید ہوتا ہے، ان  ہی لوگوں میں اکثر ذراتشنہ بہ لب بھی رہتے ہیں اصل میں جب بھی کوئی علم کو ہی اپنا اُٹھنا بیٹھنا بنا لیتا ہے تو اس شخص کے اندر ایک انقلاب جنم لیتا ہے جس کی بنا پہ ایسے سوال سر اُٹھاتے ہیں کہاس کائنات کا خالق کون ہے؟ ہمیں کس لیے پیدا کیا گیا؟ ہمیں کائنات میں بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟اس ساری کائنات کا نظام کون چلا رہا ہے؟ یہاں آنکر ایک عام ذی فہم کی عقل کام نہیں کرتی تو وہ اپنے سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں سے رجوع کرتا ہے اور جب اسے کافی جواب حاصل نہیں ہوتاتو  کسی ایسے شخص کی تلاش کرنے لگتا ہے جو ان حقائق سے نا صرف کہ پردہ اُٹھا دے بلکہ اس کی پیدا کرنے سے لے کر موت تک کا سفر من و عن بیان کردے۔  یہ علم جاننے کی خواہش لوگ آج کل ستاروں کے علم میں بھی ڈھونڈتے ہیں اکثر تو ان علمِ جفر والوں سے اپنا مستقبل بھی پوچھتے ہیں، کہ 2017 میں کیا ہوگا اور 2019 میں کیا ہوگا؟ اس طرح کی باتیں خالق کو تو نہیں جان سکتیں۔ ستاروں کا علم اس کی پیدائش سے لے کر کافی کچھ بتاتا ہے مگر اس کی موت کب ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کیا کرے یہ نہیں بتاتا۔ اس علم کا ایک بڑانقصان یہ ہے کہ انسان اس سے بُزدل ہوجاتا ہے، ہر وقت کا انجانا ڈر اسے ستاتا رہتا ہے کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے، بس اسی دوڑ دھوپ میں انسان اپنا وقت گزارتا ہے، پھر بھی وہ ان سوالات کے جوابات کے لیے سرگرداں ہی رہتا ہے۔
 بحیثیت مسلمان وہ یہ چاہتا ہے کہ قران نے آؒلم کھیعٰص حٰم کے الفاظ کی کوئی تشریح کیوں نہیں کی بتائے۔اس معاملہ کو اگر ہم جنرل لیول پہ لا کر اس پہ ڈسکس کریں تو اس میں مغربی مفکر اور دانشور ہیں جن میں آلڈس ہیکسلے ،، تھا مس کارلائل اور کینیڈا کے نام ہیں۔ 
  آلڈس ہیکسلے نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ کائنا ت میں صرف اور صرف تین ہی مسائل ہیں 1۔ جنسی اُلجھاو 2۔ سائنسی ترقی اور3۔ مذہبی شناحت
وہ کہتا ہے کہ ان تینوں مسائل میں سے کسی کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا ۔ اگر پہلے کو ہی ڈسکس کریں تو اللہ تعالٰی کی ذات نے ہر ایک جاندارکو نفسِ ذی شعور پیدا کیا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کا یہ عمل ہم سب کے سامنے عیاں ہے۔ہر شخص میں جنس کی جبلت پائی جاتی ہے ، یہ الگ ہے کہ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ اور کسی میں درمیانی ہے مناسب یہ ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے جس میں جنس کی خواہش  ہے وہ عورت کے روپ میں گرفتار ہے ، اس کی خوبصورتی کا شکار ہے، اس کے عشق میں جان تک دینے کو جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا، حتٰی کہ اپنا سب کچھ عورت کے نام کردیتا ہے۔ ہر کوئی عورت کا دیوانہ نظر آتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ عورت اس کی ضرورت نہیں وہ عورت کے بغیر ہی ٹھیک ہے تو اس کا معاملہ نارمل پوائیٹ آف ویو سے ہٹ کر ہے۔ اور بہت سے پیچیدہ باتیں ہیں جن کا اظہار کرتے ہوئےلوگ ڈرتے ہیں کوئی اپنے آپ کو کپڑوں کے بغیر دیکھنے سے ڈرتا ہے۔ یہ کمپلیکسز دن بہ دن جب زور پکڑنے لگتے ہیں تو اکثر یہ راہِ ترقی اور مذہب کے ساتھ مل کر متصادم ہوجاتے ہیں۔
 انسان نے ابھی تک اپنے اپکو دریافت نہیں کیا اور اپنی اسی کوشش میں اگر کامیاب ہوا بھی ہے تو اس کے نتائج حاصل کرنے سے پہلے ہی بکھر گیا ہے مغربی معاشروں کو ہی دیکھ لیں انسان کو اپنی کوئی تمیز نہیں رہی اس نے اپنے اپ کو اس تلاش میں کہیں گُم کردیا ہے۔۔سگمنڈ فرائڈ نے اس بارے میں بہت سے تحقیقاتی مکالے بھی لکھے، مگر وہ سب کےمطالعہ کا حصہ نہیں،  نہیں پڑھے  جاتے،سب یہی چاہتے ہیں کہ ایک ہی ان میں ان کا کوئی مداوا کر دے۔ اپنی ہی تحقیق اور مطالعہ کو پڑھ پڑھ کر جو ہمیں تسکین ملتی ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ یہ ہماری ہی تسخیر ہے ہم اپنے وجود کے بارے میں ایک دوسرے کے تجزیے کو پڑھتے ہیں اور جب جانتے ہیں تو ہمارا علمی ذوق نکھرتا ہے۔ ہمارے شعور کی حس پنپتی ہے، ہمارا حس خیال ترقی کرتا ہے۔ مگر پھر وہی تاریکی چھا جاتی ہے جب وہ کتاب کی ریڈنگ اختتام پذیر ہوجاتی ہے،مزیدبرآں  جب اس کا کوئی عملی حل نہیں پاتے۔
 مذہب کے راستے میں جتنی مشکل اور اڑچن جنسی خواہش نے پیدا کی ہے وہ شاید ہی کسی اور نے کی ہوگی۔ جنسی نا پائداری انسانوں کے لیے وبال سے کم نہیں۔ ایسا نفسانی شخص جو ہر وقت عورت کے ہی بارے میں خواب و خیال رکھتا ہو وہ کس طرح اپنے اپکو مذہب سے جوڑ سکتا ہے، جب اس کو یہ بات اس کے اپنے ملک و شہر میں یا اس کے آس پاس مہیا نہیں ہوتی تو وہ باہر کا رُخ کرتا ہے، جنس کی یہ تسکین جب پوری ہوجاتی ہے تو انقلاب آتے ہوئے رُکا نہیں کرتا۔ دریا میں آنے والے سیلاب کی مانند آنکر سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔
عورت اس میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے، ابھی تو عورت کا ایک پہلو زیرِ بحث ہے باقی اگر پہلووں کے بارے میں بحث چھیڑی جائے تو پتا نہیں کہ بات کہاں تک پہنچے۔ عورت اپنے حُسن و جمال، نزاکت اور رعنائی کی بدولت جب مرد کو اپنا اسیر کر لیتی ہے تو وہ کسی کام کا نہی رہتا۔ اپنی دلکشی پہ وہ کسی بھی مرد کو مونہہ لیتی ہے۔ عورت کی ایک مُسکراہٹ پہ کئی قتل ہوجاتے ہیں۔ اس کو حاصل کر لینا کیسے ہے اس بات  کا پتا چلانے کے لیے اس کا بغور مُطالعہ ضروری ہے۔ اس کو ٹیٹری پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے اس کو ناقص العقل، ناقص الایمان اور ناقص العمل بھی کہا جاتا ہے۔ ان عورتوں میں بھی قسمیں ہیں، کچھ تو اپنے بارے میں جانتی نہیں اور جن کو اپنا ادراک ہے کہ ہم بہت حسین و جمیل نازک طبع ہیں مرد دیکھتے ہی ہمارا شکار ہو جائے گا وہ تو کسی آفت سے کم نہیں۔ اصل میں مرد کی نظر ان عورتوں کے سینہ پہ پڑتی ہے کیوں کہ یہ ایک فطرتی بات ہے اور اس کے برعکس عورت مرد کی ذہنی سوچ اور اس کے چہرے کو اور اس کے سوشل سٹیٹس کو جانچتی ہے۔ مرد اس کے سیکس کو ہی پرکھ کر اس عورت پہ اپنا دل بھول جاتا ہے۔ اگر تو عورت پیاری رنگ و صورت کی ہو۔ اب یہاں ان عورتوں کے چکر میں کوئی کسی پیر و مُرشد کی کیا پیروی کرے کہ جس کی جنسی تسکین نا ہوئی ہو۔ بہت سارے ایسے اور معاملات ہیں کہ جن کی موجودگی کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کہنے کی بات اور ہوتی ہے ہم میں سے زیادہ تر قارئیں کا تعلق و واسطہ متوسط گھرانوں سے ہے ہمارے ہاں اکثر جگہ کم ہوتی ہے جہاں بڑے چھوٹے سب ایک یا دو کمروں میں رہنے پہ مجبور ہیں، اب ایسی جگہوں پہ بچے ایسے واقعات ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں جن کو وہ ساری زندگی خود بھی بیان نہیں کرتے۔ ایسا کیوں ہے؟ وہ اس لیے کہ اس سے ان کے والدین کی بے عزتی ہوجائے گی۔ اللہ  نے انسان کو اتنا شعور دے رکھا ہے کہ یہ ایک خفیہ بات جو والدین بھی چھپا کر ہی سر انجام دے رہے ہیں تو اس کو عام کرنا ٹھیک نہیں اتنی سمجھ بوجھ پہ وہ بچہ ہوتا ہے۔ مگر اس سے جو باقی کی پیچیدگیاں ہیں جو اس بچے کے دماغ پہ ان گنت نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ وہ ساری زندگی دب کر ہی اپنی زندگی گزارتا ہے۔ جب وہ دنیاوی اعتبار سے اس بات کی تصدیق کرتا ہے تو اسے بہت سی اور باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور اہم بات کہ اللہ نے اپنے اس دین کو رکھا بھی  ان  ہی متوسطوں  کے درمیان میں۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک کمرے میں رہنے والا بچہ جب اپنے والدین کو ہم بستر ہوتے ہوئے دیکھتا ہے یا پھر کسی اور کے بھی معاملے کو دیکھتا ہے تو وہ اپنی اس عمر کے حصے میں کیا بیان کرے اور اس کو سُنے کون؟جب تک وہ خود اس بات کا اہل نہیں ہوجاتا۔ ان سب باتوں سے بہت سے  نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جب ایک شخص جنسی اذادی ہی نہیں رکھتا تو کس طرح وہ مذبی ہم آہنگی کا ثبوت دے اور کیوں دے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کی تربیت کی گئی کیا اس کو بات سمجھائی گئی؟ کیا اسلام اور اس کے اسلاف کے بارے میں اس کا نقطہ روشن کیا گیا؟ نہیں تو نہیں کا جواب بھی نہیں ہی ہوگا۔
ایک طرف تو وہ مُرید ہے تو دوسری طرف کیا ہے چُھپ کر اپنی جنسی ہوا حرص ٹھنڈی کرتا ہے۔ یہ کیسی تعلیم دی ہے اس کو وہ بس نیک ہوجائے۔ یہ جنسی تشنگی ایک ایسا وبال ہے جس نے کہ اسلام اور کسی بھی سلسلہ عالیہ کو بالکل ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر عورت بھی اس کے ساتھ بہتر سلوک روا نہ رکھ سکے تو پھر سونے پہ سُہاگہ ہے۔ اس طرح کے شخص سے کسی بھی قسم کی اُمید رکھنا ایک بہت بڑا فالٹ ہے صرف اسی مذکور شخص میں نہیں بلکہ ان تمام میں ہے جو اس میں شامل ہیں۔ یہ دین کے کام اس طرح نہیں چلتے، جس طرح دھکے سے کسی گاڑی کو ہانک لیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کے اس زمانے میں اب دین و سلسلہ کا کام مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ ہے سائنس کا کام۔ سائنس نے جہاں ترقی کا کام کیا تو وہاں اس نے فحاشی کا کام بھی دے دیا کہ یہ لیں یو ٹیوب، ویٹس اپ اور ناجانے کیا کیا؟ ایک بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس کے اندر آنے والی جسمانی تبدیلیاں اس کے ساتھ سوال کرتی ہیں کہ یہ اکڑاو کیا ہے یہ بال کس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جب اس کو ان سوالات کے جوابات نہیں ملتے تو وہ فورا اپنے دوستوں کی طرف جاتا ہے کہ شاید وہ یہ بات جانتے ہونگے۔اس کے دوست اسی کے ہم خیال ہوتے ہیں جب وہ مل کر اس بات کا کوئی تصفیہ طلب فیصلہ کرنے لگتے ہیں تو شیطان اس میں آنکر ان کو بہکا دیتا ہے۔وہ لوگ جنسی بے راہروی کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس کام کی تکمیل سے اُنہیں تسکین ملنے لگتی ہے جس کو وہ اپنا حق کہتے ہیں، اکثر لوگوں کے معاملے کو اللہ کی ذاتِ اقدس عیاں نہیں کرتی جس سے کہ یہ معاملہ ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ جب کسی نے ان کو ادراک ہی نہیں دیا تو پھر کس بات کا گلہ اور کیا شکایت؟ ایک طرف تو وہ اپنے رشتہ داروں کی نظر میں نیک ہے تو دوسری جانب وہ جنسی بھیڑیے کی مانند ہے۔
تربیت بھی ایک ایسی نعمت ہے جس کو مل جائے تو وہ اللہ کی راہ کو بہت اسانی سے  طے کر لیتا ہے۔ بحیثیت مسلمان  بچے کسی مدرسہ یا گھر پہ ہی قران پاک کی تعلیم کریں اور ان کو اسلام کے بارے میں بتایا جائے، وضو اور نماز سکھائی جائے اور اسی طرح دیگر باتیں بھی سکھائی جائے۔   سب سے پہلے جو بات کہ ضروری ہے وہ ہے اپنے گھر سے تربیت جس ادمی میں پہلے سے ہی اتنی خامیاں ہیں پہلے تو ان خامیوں کو دُور کیا جائے پھر اس کو مُرید کر کے سلسلہ کی باتیں تعلیم ی جائیں۔ نماز و قران اس نے نہیں سیکھے جنسی بے راہ روی کا وہ شکار ہے اب بات یہ تھی کہ کہیں مرید نہیں ہے تو یہ سارے معاملے کیا ضروری ہیں کہ ایسا گُمراہ ادمی ہی مُرید بھی بن جائے اس کا پیر کبھی ایسے شخص کو حلقہ ارادت میں لانے کے لیے انکار نہیں کرتا۔ وہ برگزیدہ ہستی تو اس کے لیے سراپا رحمت ہوتی ہے اس بات پہ غور کرلینا اچھا ہے۔ اسی لیے تو ترقی روحانی رُک جاتی ہے۔ایک شخص کہ جس کو توبہ کرنے کی بہت ضرورت ہے وہ ڈائریکٹ سلسلہ عالیہ میں عبادت گزاری کی مشقیں کرتا ہے مگر اپنی جنسی بے راہروی جب دوبارہ سر اُٹھانے لگتی ہے تو وہ بے ایمان ایک مرتبہ پھر ڈول جاتا ہے کہ ہاں یہ پہلو تو رہ گیا تھا چلو کوئی بات نہیں پیر صاحبؒ نے کیا کہنا ہے بس اسی بات پہ وہ شرمسار آگے بڑھتا ہے۔ اور یوں گناہوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پھنستا چلاجاتا ہے۔ اس کا معااملہ اپنے پیرومُرشد کی کیمیا نگاہ پہ ہوتا ہے۔
اک نظر تیری اُٹھی جدوں سوہنیا اگلے پچھلے زمانے سنگارے گئے
مُرید میں بھی تو کوئی خاصہ ہو کہ وہ کچھ نہیں کرتا تو کرم کس طرح ہوگا۔ وہ کم از کم اپنے پیرِاعلیٰ کی بتائی ہوئی عبادت کرے اپنے نفس کی زیادہ سے زیادہ مخالفت کرتا رہے، سخت ریاضت سے اپنے اپکو سدھارے، اپنی مخالفت خود کرے۔پاکبازی کو زیادہ اختیار کرے، اپنے دن کو شمار کرے کہ وہ مہینہ بھر کتنے دن پاکباز رہا۔اس تعداد کو بڑھاتا چلا جائے۔ اصل میں انسان نے اپنے اپکوجنسیت،ہوا و حرص، خود نمائی اور خود غرضٰ میں بہت الجھا لیا ہے۔ یہی کہتے ہوئے مرجاتا ہے ' ہاں یہ تو میں جانتا ہوں' ' جی جی جناب یہ تو مجھے پتا ہے'، کیا جانتے ہو اگر تم یہ بات جانتے تو کیا تم سے یہ بات صادر نہ ہوتی۔ ااک پاسے تُو منگے قُرب تاں دوجے پاسے شباب۔
نالے جان پیاری تینوں ، نالے لبھے قُرب سجن دا
خدمت ولوں جی چراوے، نالے چاہ مخدوم بنن دا
نالے مٹھی نیندر سوویں، نالے شوق دیدار کرن دا
تن وچہ پھسیا رہنا ایں اعظم، اتے سودا کرنا ایں من دا
ایک اور جگہ انہی مُریدوں کے بارے میں ہے
ست رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہوجا
سائنسی ترقی نے جو حالات بنادیے ہیں اس کا کسی کو بھی انکار نہیں بلکہ یہ بات اب لوگوں کے اپنے بس سے باہر ہوتی جارہی ہے آپ خود ہی اس بات کا بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں کہ کسی زمانے میں استعمال ہونے والا ٹیلی فون اب موبائل تک محدودو ہو گیا ہے۔ اور تو اور بلوٹتھ  نے تو اور بھی اسانی کردی ہے کان سے لگایا اور ساری بات کہنی ہے کہہ ڈالی۔ اسلحہ سے لے کر انڈسٹری اور بڑی جہازرانی کی کمپنیاں اسی سائنسی ترقی کی مرہون منت ہیں۔ زیادہ تر جنگیں اس سائنس کی بدولت ہوئی ہیں۔ اب بھی کچھ شر پسند ممالک اس دوڑ دھوپ میں لگے رہتے ہیں کہ اس ترقی کے زور پہ اپنے ہمسایہ ممالک پہ قبضہ جما لیں۔
مذہب کے نام پہ کوئی مسلمان ہے تو کوئی عیسائی کوئی ہندو تو کوئی بُدھ مت سب کا اپنا نقطہ اور زاویہ ہے۔ آلڈس ہیکسلے یہاں ایک واقعہ  بیان کرتا ہے جس کی مدد سے سارا مسئلہ سمجھ آجائے گا۔
وہ کہتا ہے کہ ایک شخص جس کی تین شادیاں ، دو فیکٹریاں تھیں اور وہ اپنے وقت میں سے کچھ دیر لوگوں کو واعظ و نصیحت بھی کرتا وہ بہت مطمئن تھا کہ جو زندگی سے چاہا وہی ملا۔ ایک دن جب وہ صُبح کے ٹائم اپنے باغ میں ٹہل رہا تھا تو ایک سُنڈی اس کی کلائی پہ کاٹ گئی اب یہاں اس کے علمِ سائنس نے گواہی دی کہ یہ بڑی زہریلی تھی تو اب نہیں بچے گا مرنے کے لیے تیار ہوجا، ممذہب نے کان میں کہا کوئی بات نہیں تو نے کون سے بُرے کام کیے ہیں؟ لوگوں کو اچھی راہ پر ہی لگایا ہے بعض اوقات میں ان کی مالی امداد بھی کی ہے تسلی رکھو جنت مل جائے گی اور جنس کا معاملہ آتا ہے تب بھی اس کی شادیاں بھی ہو چکیں اب تو یہ خواہش بھی ادھوری نہیں اب وہ اپنی آنے والی موت کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ یکایک سے ایک بورے والا شخص اس کے قریب سے گزرتا ہوا جا رہا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر توقف کرکے بے پرواہی سے وہ بورے والا پوچھتا ہے کہ کیا ہوا وہ قریب المرگ بتاتا ہے کہ میں دنیا سے جانے والا ہوں مجھے ایک زہریلی سُنڈی کاٹ گئی ہے، مگر وہ بورے والا اپنا لعاب نکال کر اس کے زخم پہ لگاتا ہے اور اسی بے پروائی میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ تو یہاں اس کی سائنس، جنس اور مذہب سب کے سب اپنی ساری حیثیت کھو دیتے ہیں۔یعنی وہ 70 سالہ بوڑھا صحتمند ہوجاتا ہے۔
 جب نظریہ سائنس، مذہب اور جنس اپنی ہار مان جاتے ہیں تو بوڑھا سائنسدان اس بورے والے کا پیچھا کرتا ہے اور اس سے اس کی شناحت معلوم  کرتا ہے تو کیا جواب ملتا ہے کہ وہ مِسٹِک بزرگ جس کومیں اور اپ ولی کہتے ہیں۔ اس ولی کے پاس ان تینوں مسائل کا حل ہے۔ آلڈس ہیکسلے کہتا ہے کہ اکثر لوگ کنکریٹ کو دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں ولی کی تعلیم کیوں کہ اکثر نظر نہیں آتی اس لیے لوگ کچھ مال و متاع ، مال و زر والوں کو چاہتے ہیں اب یہاں ایک بات بڑی غور طلب ہے کہ بورے والے کے پاس کچھ نہ تھا وہ بوڑھے کی جان بچا گیا اور اس کے صلہ میں کوئی چیز نہ لی، یعنی ولی کا کام لینا نہیں عطا کرنا ہے۔
ولی کہتے کس کو ہیں یعنی اُس کی پہچان کیا ہے؟
وہ جو اللہ کے لیے اور رسول اکرم کے لیے اپنے نفس کی مخالفت کرے۔ اپنے اندر ایسے خصائل پیدا کرے کہ جس کی نسبت خود حضور اور آپ کی جماعت سے جا ملتی ہو۔ جو نماز، روزے،قرآن، ذکر، درودپاک اور دیگر باتوں کا اپنے اپ کو پابند بنائے۔ درویش میں پانچ باتوں کا ہونا اٹل ہے ورنہ وہ ولی نہیں۔ علم، عمل، حلم، شرع اور فقر۔ یہ لوگ نفس کی مخالفت کرتے ہیں تو اللہ کی زات ان پہ عالمِ مثال کھول دیتی ہے۔ ولی کی جو سانس بھی اللہ کے ذکر سے خالی ہوتی ہے وہ بےکار ہے اور ان پاک نفوس کو یہ بات قبول نہیں ہوتی۔ اللہ کے ذکر کو کوئی فنا نہیں۔ اسی طرح جو اس ذاتِ باری کے ذاکر ہیں تو ان کو کیسے شکست ہو سکتی ہے۔یہ ہر مشکل ،صعوبت اور مصیبت کو پار کرکے صرف اللہ کے ذکر کو نہیں چھؤڑتے۔  
الف اللہ چنبے دی بُوٹی مُرشد من وچ لائی ھُو
نفی اثبات دا پانی ملیس ہر رگے ہرجائی ھُو
اندر بُوٹی مُشک مچایا جان پُھلن پر آئی ھُو
جیوے مُرشد کامل  باہُوجیں ایہہ بُو ٹی لائی ھُو
ذکر لا الہ الا اللہ مُحمدرسول اللہ کا ذکر سب اذکار پہ بھاری ہے۔ یہ ذکر جہاں فرشتوں کی غذا ہے تو ہماری روح کی غذا بھی یہی ذکر ہی ہے۔ ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ چاہے کوئی بی حالت ہو سفر ہو یا حضر، غم ہو یا خوشی، خلوت ہو یا جلوت، ہر وقت، ہر جگہ ذکر از حد ضروری ہے۔ جب یہ ذوق و شوق ہو جائے کہ بندے کو ذکرِ الہٰی پیارا ہوجائے تو اس میں ایک خاص کیفیت جننم لیتی ہے جو اس شخص کے قلب کو منور کرتی ہے۔اللہ کا ذکر انوار و تجلیات کا مرکز ہے۔
تسبیح، تہلیل، تحمید اور نماز سب ذکر میں شامل ہیں۔ اسی ذکر کی کیا ہی عظمت ہے کہ اللہ تعالٰی کی ذات فرماتی ہے فاذکرونی اذکروکم۔ سُبحان اللہِ تُم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔اسی اللہ کے ذکر سے ہمارے خناس کا خاتممہ ممکن ہے۔ جب بھی کوئی مسلمان یہ سورۃ تلاوت کرتا ہے تو اصل حقیقت میں اس کے خناس کی اس پہ گرفت ڈھیلی ہو جاتی ہے۔ قُل اَعُوذُ برب الناس۔ملک الناس۔ الہ الناس من شر الوسواس الخناس الذی یوسوس فی صدور الناس من الجناۃ والناس۔ قران پاک خود بہت بڑا ذکر ہے جس کی پورے عالمین میں کوئی بھی مثال نہیں۔
ذکر سے مُراد یاد کرنا اور دُہرانا ہے۔ ہم اللہ کے نام کو بار بار پڑھتے اور یاد کرتے ہیں تو ایک خاص قسم کی خوشی اورسُرور حاصل ہوتا ہے۔مسلسل لگاتار ذکر کرنے سے جو رزسٹنس پیدا ہوتی ہے وہ ہمارے گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ ہمارے قلب میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جس سے پماری رہنمائی بھی ہوتی ہے بعض اوقات تو اللہ کی طرف سے ہدایت بھی آتی ہے یہاں فلسفہ یہ ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے تو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور چاہے تو بُرائی کی طرف لگادے۔   
Second birth of soul: One from his father and mother mutual conjugation and second of his spiritual soul, in which he is groomed and trained to know and recognize  the reality and truth that is hidden from his exterior eyes- gifted by Lord, Allah The Almighty.
The real is the true search of the hidden treasure- God’s Abode. The Holy Prophet’s secret meetings with THE LORD, ALMIGHTY. 
 پھر اسی نقطہ کی طرف آتے ہیں کہ یہ ذاکر مُرشد یا راہنماکے بغیر کوئی فرد بھی اتنا قسمت والا نہیں کہ اللہ تبارک و تعالٰی کی کائنات کو آسانی سے سمجھ جائے یا اس تک رسائی کو پا سکے۔ یعنی وسیلہ کا پایا جانا برحق ہے۔ خدائے واحد کے اس عالم اسباب میں بہت سے علوم ہیں جن کے پیش نظرہم اس کی پہچان کر سکتے ہیں۔ ولی کامل کی کیمیا گری کے تحت ہمیں وسیلے کی نعمت ملتی ہے تو اسانی کے ساتھ رب تعالٰی کی پہچاان کرپاتے ہیں۔
ہر کہ خواہد ہم نشینی با خُدا
اُو نشیند در حضورِ اولیاء
ترجمہ۔ اگر کسی نے اللہ پاک سے ملنا ہو تو وہ کہیں اور سرگرداں نہ پھرتا رہے اولیاء اللہ: کے ہاں چلا جائے اللہ مل  جاتا ہے۔ تو اللہ کو ملنے کے لیے ولی وسیلہ ہوئے۔
ایک اور اہم بات کی طرف بڑھتے ہیں، ایک تاریخی نکتہ جو قرآن سے ثابت ہے
  ان ہی علوم میں اس ذاتِ اطہر نے انبیاء کرام علیہ الصلٰواۃ التسلیم  پہ اپنی کُتب نازل کیں۔ توریت، زبور، انجیل اور قران میں اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ  مجھ پہ ہی ایمان لائو میرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ مزید برآں میں ہی مارتا اور زندہ کرتا ہوں۔ میں ہی حی و قیوم ہوں، یہ بات تو کسی بھی ثبوت کی محتاج نہٰیں کہ وہی کلھم ہے اس کے علاوہ کوئی اور کائنات کو نہیں چلا رہا۔ کوئی اس کا ہمسر نہیں وہ واحد، یکتا اور ایک ہے۔
ایمان مفصل، بیعت کا ایک اہم جُزو وسیلہ ہے،  میں ہے کہ میں ایمان لایا اللہ پہ، اس کے فرشتوں پہ، اس کئ کتابوں پہ،اس کے رسولوں پہ،آخرت کے دن پہ،خیروشرپہ جو اللہ کی جانب سے ہے اور مر کے زندہ ہونے پر۔ یہ تمام تفصیل اور اس سے متعلق بحث لاحاصل باتیں نہیں ہیں بلکہ اس سارے امتزاج کو سمجھنا اور اس سے استفادہ کرنا ہر ایک ذی شعور کا فرض ہے۔
اللہ تعالٰی کی ذات نے انسانوں کے علاوہ جنات، جانور، پرندوچرند اور فرشتوں کی بھی تخلیق کی، بلکہ پہلے زمین پہ جنات کو ہی بھیجا گیا اور ان کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی قالب کی پیدائش ہوئی۔ یہ اللہ کی کیسی کاریگری ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کوماں باپ کی ضرورت نہیں اور ہم ان کی اولاد کہلاتے ہیں اور اسی ہماری ماں حضرت حوا عایہ السلام ہیں ان دونوں کو اللہ نے علم سکھایا یعنی ساری کائنات کے نام اور ہر قسم کے بارے میں بتایا کہ اس ذات پاک نے کیا کچھ اس دنیا میں پیدا کیا ہے انے والے دور کی سب باتیں حضرت آدم علیہ السلام کو بتادی۔جس پہ فرشتے کہہ اُٹھے
قَالُوا سُبحٰنَکَ لَاعِلَمَ لَنَا اَلا مَا عَلمتنا ۤۤ انک انت العلیم الحکیمۤۤ سب بولے کہ تو پاک ہے اور ہمیں وہ علم نہیں ہے جو علم کہ تیرے پاس ہے۔ اللہ نے تو پہلے ہی ارادہ کر لیا تھا کہ وہ زمین پر انسان کو بھیجنے والا ہے۔ انی جاعل فی الارض خلیفہ۔ زمین پہ اپنا نائب بھیجے گا۔ اسی نائب و خلیفہ نے جب فرشتوں کو چیزوں کے نام ، آثار اور خواص بتائے تو وہ اس علم پہ دھنگ رہ گئے۔
یہ خلافت جو کہ تمام نبیوں سے ہوتی ہوئی اولیاء کرامؒ اور ہم تک پہنچائئ گئی ہے اس کا ایک خاص الخاص مقصد ہے۔ جس میں راز فنا کا عنوان بہت اہمیت کا حامل ہے۔آلڈس ہیکسلے کی بات سے بھی ثابت ہو گیا کہ ولی کی موجودگی سے  ہمارے مسائل حل ہوتے ہیں۔  اللہ نے ویسے تو بہت سے عالم بنائے ہیں جو اولیاء اللہؒ کے لیے سلوک کی راہ بھی ہے، یہاں ان کا ذکر کر رہا ہوں۔ ان میں پہلا عالم جمادی، عالم نباتی، عالم حیوانی، انسانی، ملکوتی،جبروتی اور ساتواں لاہوتی ہے۔
ان عالمین کی وضاحت سے پہلے پاک و ناپاک ولادت ثانوی اور ولادت معنوی کو سمجھ لینا ضروری ہے۔
     رازِفنا پانے والوں میں مسلمانوں کے فقیر، عیسائیوں کے راہب، ہندوں کے جوگی اور بدھ  مت مذہب کے پُھنگی جب بہت زیادہ عبادت و ریاضت کرتے ہیں تو ایک عرصہ دراز کے بعد ان کے دل میں ایک خاص قوتِ موثرہ پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کوشش و سعی سے ان سے کشف و کرامات اور استدراج کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ یہ قوت ان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے لیکن سب کو فنا حاصل ہو ممکن نہیں۔
پہلے چار درجوں کی فنا ہر ایک مسلک کے لوگوں کو حاصل ہو سکتی ہے جس کو فنائے ناسوتی کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر اگلے تین درجوں کی فنا کا حصہ مسلمانوں کے لیے ہے یعنی پاک روحانیت۔ اس سلسلے کا کوئی بھی فرد جب تک عالم غیب سے تعلق نہیں رکھتا تو وہ کوئی بھی سیڑھی نہیں چڑھ پاتا۔ ہمیشہ عالم غیب سے ہی اواز اتی ہے کہ اے میرے بندے تو نے مجھ سے ہی رابطہ کیا ہے میں ہی اس پوری کائنات کا مالک ہوں آ تو میری طرف بڑھ میں تیری طرف بڑھوں گا ۔ ہر کوئی سالک اپنی بساط اور قوت کے مطابق اپنے رب کریم و غفور سے اپنا سلسلہ محبت جوڑ پاتا ہے۔ پہلے چار مراتب جن میں جمادات،نباتات،حیوانات اور انسانیت عالم غیب میں رہ کر متشکل ہوجانا ممکنات میں سے ہے ہر کسی سالک کو حاصل ہے۔
ان چار جیسی خصوصیات کا پایا جانا ان سالکین میں ممکن ہے جیسے اکثر کو شیر کی شکل میں دیکھا گیا ہے۔ ہندو جوگیوں کو ہوا میں اُڑتا ہوا بھی دیکھا گیا ہے ۔ اس ضمن میں یہاں حضرت داتا گنج بخشؒ کا وہ مشہور واقعہ انتہائی مدد گار ہوگا۔ جس میں آپؒ نے راجو جوگی جو ہوا میں اُڑرہا تھا تا کہ آپ سرکار علیہ الرحمۃ کو مرعوب کر سکے اور آپ حضور عالی لاہور کا علاقہ چھوڑ کے کہیں اور چلے جائیں اللہ کا پاک ولی تو ان عالمین کے علاوہ بہت سے اور عالمین کا شاہد ہوتا ہےوہ کس طرح سے راجو جوگی سے متاثر ہوپائے۔یہ قوت تو اس کے پاس بھی ہے جو اپنے عضو جو اس کی دو ٹانگوں کے درمیان اور زبان جو اس کے منہ میں ہے کو قابو میں رکھتا ہے۔   مختصر یہ  کہ آپؒ نے اس کو نیچے اتارا اور اپنی کھڑائو یعنی جوتی کو کہا کے اس کو نیچے لے کر آئو، بس اس جوتی نے یہ بات سنی اور پھر اس پہ ایسی برسی کہ وہ چاروں شانے چت ہو کر زمین پہ اوندھا گر پڑا۔ جب حضرت خواجہؒ کی جوتی کو یہ کمال حاصل ہے تو ان کا اہنا عالم کیا ہوگا۔ سُبحَان اللہ و الحمدُ للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر۔ وہ ذات بہت بڑی ہے جس نے اپنے ان نیک صفت سالکین کو اپنے ذکر کی بدولت بہت راہ دے رکھی ہے۔
آج کل یہی راجو جوگی حضرت شیخ سر ہندی علیہ الرحمۃ ہیں جو آپؒ کے متولی اور سجادہ نشین ہیں اب ان ہی کی ال اولاد کے لوگ حضرت علی ہجویریؒ کے سلسلہ عالیہ کو سر انجام دے رہے ہیں۔ الحمد اللہ رب العالمین۔
ولادت معنوی ہے کیا؟ اگر کسی اہل تصرف درویش یا جوگی کی قوت موثرہ سے کسی دوسرے شخص کے دل میں قوت پیدا ہوجائے تو اس کو ولادتِ معنوی کہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی ہی عظیم اور بابرکت نعمت ہے جو ہر کسی کا حصہ نہیں ہوتی۔ اکثر درویش تو اس سے باخبر ہی نہیں ہوتے۔
یہ آخر پھر کس کا جُز ہے جو کُل بن کر جب کھَلتا ہے تو سب ہی اس سے فیض یاب ہونا چاہتےہیں۔یہ گلاب وہ پھول ہے جس کی آبیاری خود اللہ تعالٰی کی ذات کرتی ہے۔ایک اور اہم بات کہ جو شخص کسی جگہ یا یوں کہہ کہ کسی کا مرید ہے یا طالب ہے یا تربیت یافتہ ہے وہ ہی ان باتوں پہ دھیان دیتا ہے اور خاص الخاص باتوں کو سمجھتا اور غور کرتا ہے یہ زیرِ بحث بات کسی عام فہم کی بس کی بات نہیں ۔ چند اہم نکتے اس کے لیے بہت ضروری ہیں۔   
فنا کے تین درجے اور بھی ہیں جن کو فنا فی المُرشد، فنا الرسول اور فنا فی اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ ذات میں گُم ہوجانا۔ میں میں نہیں رہتا وہ ہو جاتا ہوں۔ فنا فی المُرشد کی سٹیج پہ آنکر ہی یہ دونوں منازل بھی حاصل ہوجاتی ہیں سلسلہ عالیہ میں بزرگان دین نے اتنی محنت و ریاضت کی ہےکہ جو مُرید بھی اپنے تئیں جستجو و کوشش کرتا ہے تو چند ہی ماہ میں اپنے پیر سے فیض کی اکتسابی پا لیتا ہے۔ اس میں فاصلہ کی کوئی قید نہیں وہ جہاں بھی ہواپنے پیر سے دُور نہیں ہوتا۔
چوں تو ذاتِ پیر کردی را قبول
ہم خدا در ذاتش آمد ہم رسول
جو مُرید کہ اپنے خواجہ پیا ؒ کے نقشِ قدم پر ہے اسے اور کسی کی رہنمائی کی کوئی چنداں ضرورت نہیں وہ اپنے ہادی برحق کو دیکھ کر چلتا ہے اس کے لیے یہی کافی ہے۔ اسی طرح سے ایک بات ہے کہ دوسرے سلاسل میں اور بہت سی ایسی پڑھائیاں اور وظائف ہیں جن کا بڑا اجروثواب ہے مگر اس سلسلہ عالیہ میں جو حضرت حق خواجہ خواجگان شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ دامت برکاتُہم عالیہ سے جاری ہے وہی وظیفہ مرید کو بھی دیا جاتا ہے جو ۃمارے حضور عالی سیدنا و مُرشدناؒ کرتے رہے ہیں۔
خاص باتیں جو کہ ان وظائف میں شامل ہیں ان میں نمازِ پنجگانہ عصر تا مغرب درود پاک کا پڑھنااس کے بعد ذکرِ خفی اور اگر ہو سکے تو نماز تہجدویسے کئی مریدین کے لیے یہ نماز فرض بھی ہے اس کے بعد حسبِ ضرورت ذکرِ خفی صبح کی نماز تک ضروری نہیں بلکہ جتنا ہوسکے، نماز فجر کے بعد ذکر اور پھر اپنا کام جو دنیاوی ہے انجام دے ۔ یعنی دو وقت کا ذکر تو کرنا ہوتا ہے ایک نماز فجر تو دوسرا نماز مغرب۔ یہی ہمارے خواجہ سرکارؒ بھی ادا کرتے رہے۔ انہی اعمالِ صالحہ کی کوہنہ مشق سے مُرید کی روح میں طاقت بھر جاتی ہے تو اسی لیے وہ اپنے خواجہ پیا ؒ کا دیوانہ ہوجاتا ہے۔ اور جو رازِ حقیقت ہے وہ اس مرید کا حق بن جاتا ہے کتنا اسان ہے یہ سب کچھ کہ کر مزدوری تے کھا چُوری، سُبحان اللہ۔  
  اس کو گُم ہوجانا کہتے ہیں یعنی اپنے اپکو اپنے ہادی کے نقش قدم پہ لانے کے واسطے ایسی عبادت و ریاضت کی جائے جو اس مُرشد کے پیا من بھا جائے۔مرید کی ہمیشہ سے یہی کوششش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی اعتبار سے اپنے رہبرِ حقیقی کے نزدیک ہوجائے اور وہ پیر اسے اپنے پاس بٹھائے اور اس پہ اپنی نظرو التفات کرے، اس طرح سے ہونے لگ جائے تو سارے ہی مرید پیر بن جائے۔ حقدارِ خلافت وہی ہوتا ہے جس میں وصف ہووہ اپنے پیرومُرشد کے نام کو اور سلسلہ عالیہ کو بیچے نہیں بلکہ اپنے پیرومُرشد کے شانہ بشانہ ہو۔ لوگ یہی کہے کہ یہ کوئی اور نہیں وہی ہے صرف شکل کا فرق ہے۔ سیرت و کردار ایک سا ہو۔ ولادت معنوی کا بھی وہی حقدار ہے۔
 انگریزی زبان کا ایک شاعر ہے جو ادب کیی دنیا میں ایک معروف نام ہے، جون کیٹس یہ رومانوی شاعر ہے اس نے ایک تھیوری کا اظہار کیا ہے اپنی شاعری میں وہ کہتا ہے کہ ہم جب تک اپنی ذات کو ختم نہیں کر لیتے اس وقت تک کسی دوسرے کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ اس کو نیگٹیو کیپبیلیٹی کہا جاتا ہے۔
Negative Capability: in which the poet described his objects in their own motions and sentiments and that‘s very remarkable expression. He really lost his own presence and became the part of Urn, Nightingale and beauty of his beloved.
یہ تو ایک دنیاوئ شاعر ہے جو سب کچھ بھول جاتا ہے جب وہ قدرت کی کارروائیاں دیکھتا ہےتو ایک ولی کا کیا عالم ہوگا جو افضل کلمہ پاک اول کے ذکر کی مسلسل مداومت کرتا ہے اس سے عشق رکھتا ہے اور جو کلمہ باعث وجود کائنات ہے۔ اس کلمہ پاک ایک حصہ لا الہ الا اللہ اور دوسرا محمد رسول اللہ ہے سارے کا سارا ذکر بہت ہی عظیم المراتب ہے اس جیسا کوئی اور ذکر نہیں ہے۔ جب بھی کوئی مسلمان اس ذکر کو اپنا وطیرہ  بناتا ہے تو وہ اپنے اندر اور باہر بہت ہی حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھتا ہے۔ یہ کلمہ اپنے ذاکر کو پاکک کر دیتا ہے اور اس کے موکل اس شخص کے گرد ایک روحانی حالہ بنائے رکھتے ہیں۔ اس کلمے کا واسطہ براہ راست عالم لاہوت سے ہے۔ اسی کی برکت سے انسان عالم ملائکہ اور جبروت کو پار کر پاتا ہے۔ اس میں بہت بہت قوت ہے۔ ہمارے حضرت پیرومُرشد سیدنا و مولانا شاہ محمد امین شاہ ؒ پانچ منٹ مسلسل ذکر خفی کرتے رہتے۔جو کسی بھی لحاظ سے کم نہیں، بعض اوقات میں آپ سرکار نے یہی زکر پانچ منٹ سے زیادہ بھی کیا۔ یہ ذکر سانس کے ذریعے کیا جاتا ہے ہمارے حضرتؒ کو چار ضربی ذکر عطا ہوا اور آپؒ نے بھی اس کو خوب نبھایا۔ اسی ذکر میں ساری کامیابی ہے جو اس کا دامن پکڑتا ہے اونچی اڑان اُڑنے لگتا ہے۔ اس کے بعد جو تصورِ پیر ہے اس کی تو کوئی مثال ہی نہیں ، ماشاء اللہ اللہ نے خود ہی بتا دیا کہ کہ مجھ تک آنےے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے۔ وہ یہ تصورِ پیر ہے جس کے ذریعے مُرید جس پیر کا بھی مُرید ہے تو اسی کی جیتی جاگتی شکل ہوجاتا ہے کیونکہ اسی تصور کی بنا پہ مُرید کو عنایت و عطا ہوتا ہے۔ جس کو کہ تصور حاصل ہے وہ یہ بات جان لے کہ وہ خالی نہیں ہے بلکہ بھرپور ہے۔ پیر اسی کا ہے وہ کسی بات کا غم نہ کرے اور یہی ولادتِ معنوی ہے۔
جبکہ اللہ تعالٰی کی ذات اقدس نے کہا' محمد رسول اللہ' اور حضور عالی مقام نے جلوہ گر ہو کرکہا لا الہ الا اللہ تو پھر ایک دوسرے کی کیسی بہترین تعریف کرتا ہےکوئی کر سکتا ہے ایسی تعریف ہو ہی نہیں سکتا، اللہ کی ذات قران میں ارشاد کرتی ہے کہ جو آیات محمد پہ نازل ہوئیں ہیں تو وہی اس کے اہل ہیں۔ جو اس کلمے کا ذکر کرتا ہے تو وہ سب کا اہل ہوجاتا ہے۔
 ولادتِ معنوی میں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ آپ کی پیروی از حد ضروری ہے اس کے بغیر نہ توکوئی آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی بھی طرح روحانی ترقی ممکن ہے۔ صرف طریقت کے تحت ہی ولادتِ معنوی نہیں ملتی۔  کسی عالم کی بھی سمجھ بوجھ حاصل نہیں ہوتی۔ آپ نے جب ساری شریعت مُطہرہ اصحابہ کرام علیھم اجمعین کو سکھا دی تو آپ اس بات کا انتظار کرنے لگیں کہ باطنی تعلیم کا کام کون سنبھالے گا تو اس کام اطہر کے لیے حضرت علی المُرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم کا انتخاب کیا گیا۔ یہ باطنی علم و بصیرت سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے۔ راز فنا کا اہم حصہ یہ علم باطن ہے جو قوت موثرہ بن کر آگے بڑھتی ہے۔ علم شرع ظاہر ہے جبکہ علم باطن ایک راز ہے جو پیر کے دنیا فانی سے گزر جانے کے بعدبھی جاری و ساری رہتا ہے مگر جو شریعتِ مُطہرہ کا پابند نہیں وہ کچھ نہیں، بلکہ اس میں اور زور آجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو اپنے رہبر کی مکمل تقلید کرتا ہے تو پیر کی روح اس کے لیے 70 فی صد سے بھی زیادہ فیض پروری کرتی ہے۔ ایسے ادمی کے لیے پیر یا رہبرکا زندہ ہونا یا  پیرؒ کی قبرِ انور ایک ننگی نیام کی طرح ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں دعوت دینے والا شاگرد یامُرید بہتر ڈگر پہ ہوتا ہے۔
اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
یہاں اسی دنیا میں اکثر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سارے طالب علم اپنے پسندیدہ استاد کے طرز زندگی کو اپناتے ہیں۔ اس استاد سے اپنی نسبت بتانا بھی فخر سمجھتے ہیں  فراغت تعلیم کے بعداگر اسی مدرسے کا کوئی طالب علم مل جائے تو اس کو مل کر یہ جانتے ہیں،فلاں فلاں استاد صاحب کیسے ہیں اس شخص کو استاد کی باتیں شیئر کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اصل میں وہ اپنا رشتہ بیان کر رہے ہوتے ہیں۔میں ذاتی طور پہ بہت سے ایسے طالب علموں کو جانتا ہوں جو اپنے اساتذہ کے عین نقش قدم پہ ہیں۔ حتٰی کہ کئی تو اپنا لائف سٹائل بھی وہی کر بیٹھے ہیں یہ انہوں نے اس شخصیت کو دیکھ کرایک نظر نہیں بلکہ اس کے ساتھ وقت گزار کر سیکھا ہے جو اللہ کی عنایت سے ان کا اپنا پہناوا بن گیا وہ تو اس استاد سے علم سیکھنے ائے تھے اور وہ اس کے جیسے کس طرح ہو گئے۔
کیا یہ ان کا ادراک تھا؟ ان کا مشاہدہ تھا؟ ان کے ذہن کی کوئی چھپی ہوئی بات تھی جو باہر نکل آئی؟ ان کا شعوری فیصلہ تھا؟ ان کا کوئی مصمم ارادہ تھا؟ ادراک تو یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں اس میں اکثر غلط قدم بھی اُٹھ جاتا ہے تو اس کو درست کر لیتے ہیں یعنی اس میں خامی ہے تو کیا یہ مشاہدہ ہے جو بغیر مجاہدہ کے ممکن نہیں ۔ اور مجاہدہ میں تو سب اعمال ہیں جن کی مشق ایک بہت ہی مشکل امر ہے۔ بہت انتھک محنت اور تگ و دو کے بعد جب انسان اپنے کام اور عبادت کو دیکھتا ہے تو اسے آگے چلتے رہنے کا موقع ملتاہے۔ یہ سب عمل مصمم ارادے سے ہی ممکن ہے۔مثال کے طور پہ وہ طالب علم استاد کا دیا ہوا کام کرکے نہ لائے تو کیا استاد ا سکئ تعریف کرے گا نہیں بلکہ پہلے اس طالب کو سمجھائے گا کہ اس علمی دنیا میں تگ و دو کرو۔ اور جب وہ استاد کی بات پہ غوروخوض کرتا ہے تو ترقی علم کرنے لگ جاتا ہے۔ استاد طالب علم کے لیے رول ماڈل ہوتا ہے اس نے اسی استاد کو دیکھ کر اگے کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوتا ہے۔ وہ ان استذہ کرام سے نا صرف کہ علم کتاب بلکہ اخلاق حمیدہ بھی سیکھتا ہے اس کے اندر انے والا تغیر و تبدیلی اسے زمانے سے نپٹنے کے قابل بنا دیتا ہے تو پھر جب ایک طالب علم کے ذہن و دماغ میں ایک استاد کا اتنا امیج بن جاتا ہے اور وہ طالب علم اس کو فالو کرنے لگتا ہے تو یہ ولی کامل کی بات ہو رہی ہے کسی عام شخص کی بات نہیں ہے ہمارا استاد ہمارے جیسے معاشرے کا ایک عام شہری ہے اگر وہ اس لائن کا ادمی ہے تو پھر تو سونے پہ سُہاگہ ہو گیا۔ دنیاوی تعلیم بھی اور دینی بھی۔
اطاعت و فرمانبرداری کیا ہے؟
  نماز نہ پڑھے تو عبادت نہیں روزہ نہ رکھے تو بھی مشکل اور قران میں تودستور زندگی ہے۔ اطاعت کرنی بھی ازحد ضروری ہے۔ اس کو دوسرے معنوں میں فرمانبرداری کہتے ہیں یعنی ہمہ وقت اللہ کی حضوری میں رہنا یہی کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اگر وہ کبھی اپنے رہبر کے سامنے اتا ہے تو اس کا پیر یا رہبر بحیثیت آئینہ کے اس کا ملاحظہ کرتا ہے جس سے اس مُرید یا شاگرد کے دل پہ اثر اتا ہے اور اعمال میں کوتاہی اس کو ستانے لگتی ہے۔ استاد کا سبق نہ یاد ہو تو وہ بات اتنا نہیں ستاتی جتنا مرشدین کے ساتھ معاملہ ہے۔
علامات ولادت معنوی  جس شخص کے قلب میں ولادتِ معنوی ہوتی ہے اُس کا چہرہ منور اور پاک منظرہوتا ہے۔ اس کا کلام شیریں اور دلکش ہوتا ہے۔ لوگ اس کی باتیں بہت انہماک اور دلچسپی سے سنتے ہیں۔ اس کے دل میں ایک قوت جاذبہ ہوتی ہے جس کی بنا پہ وہ لوگوں کی روحوں پر قابض ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔اس کی بزرگی کو لوگ خواب میں دیکھتے ہیں۔
ایک اور اہم بات کہ جو ادمی کسی بھی سلسلہ عالیہ میں مُرید ہوتا ہے تو اس کی اپنے پیر سے ایک نسبت ہو جاتی ہے جو اس تمام معاملے میں بہت ہی اہم نکتہ ہے۔ اسی نسبت کی وجہ سے مُرید جُز جو اجزائے پیر ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ جس کو فرزند پیر کہا جاتا ہے۔ پیر ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس مُرید کے لیے کب کس وقت کہاں کیسے کوئی عالم ہے یا ہے بھی ہے کہ نہیں۔ حالانکہ مرید ایک نادان بچے کی طرح آگ کو ہاتھ میں لے کر چل پڑتا ہے پھر جب وہ بچہ ہاتھ کو جلا ڈالتا ہے تو اس کا پیر اس کے زخموں پہ مرم پٹی کرتا ہے اور اپنے اس بچے کو بچاتا ہے۔ پیر ہمیشہ اپنے مریدوں کے سامنے ہوتا ہے وہ ان کو شیطان کے حوالے نہیں کرتا بلکہ ان بچوں کی نیتوں اور اعمال کو دیکھتا ہے کیونکہ کسی بھی مصیبت میں پھنسے ہوئے مرید کی آہ اس کے پیر کو قبول نہیں جیسے ہی آہ نکلتی ہے تو پیر بے چین اور بے قرار ہو کر اس کی مدد کو آتے ہیں۔ مُرید صادق ہے تو اس کے پیر کے ساتھ حضوری والا معاملہ ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی مُرید اصل لائن پہ چڑھ جاتا ہے تو وہ اپنے رہبر کو بھی پیچھے ہٹتا ہوا نہیں دیکھتا۔
پیر اللہ اور اس کے مقبول بندے حضرت محمدِ مُصطفٰی سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا عاشق ہوتا ہے۔ حضور کے دین پہ یہ مٹ جانے والے پیر جو آپ سرکار دو عالم خاتم الانبیاء کی خاطر ساری دولت جان مال اولاد کو قربان کر دینے میں کوئی توقف نہیں کرتے تو ان کے ساتھ نسبت قائم کرنا بہت بڑی قسمت کی بات ہے جو گرمی سے تپتے ریگستان میں بارش برسوا سکتے ہیں ،جو بارہ برس کی ڈوبی ہوئی کشتی کو پار لگواسکتے ہیں جو مردوں کو زندہ کر سکتے ہیں، ولی اللہ کے ساتھ پیہم منسلک ہوتا ہے کبی بھی کرامت یا معجزہ پسند نہیں کرتا مگر کچھ کج فہم ان برگزیدہ ہستیوں کا امتحان  لیتے ہیں اور پھر کیا کہ سب کچھ دیکھ کر پرکھ کر بھی کہہہ دیتے ہیں کہ 'میں نہیں مانتا'۔ نا مانو! تمہارے اس طرح کہہ دینے سے کیا وہ ولی اللہ کا بندہ اپنی ساکھ محبت نسبت کھو بیٹھے گا جو اس نے کئی سالوں کی عبادت و ریاضت کے بعد حاصل کی ہے۔ لکم دینکم ولی دین ۔ بہ سے ایسے لوگ ہیں جن کو جتنا بھی بتاو یا پڑھاو وہ جاہل کے جاہل ہی رہتے ہیں۔ یہی کہتے ہیں کہ ہم کیسے اولیاء کرام کی طرح علم حاصل کر سکتے  ہیں، ان لووں نے کس طرح یہ مقام پا لیا وہ بھی ہماری طرح کے ہیں کیا ان کا ایک ہاتھ زیادہ ہے ہمارے جیسے گگروں میں ہی رہتے ہیں بلکہ وہ تو جیسے ہم خوراک کھاتے ہیں اس طرح بھی نہیں۔ولیوں پر سوال کرنےوالے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ تجھے تیرے اعمال نظر آئیں گے۔ ان پاک ہستیوں کا اُوڑھنا بچھونا اللہ کا ذکر اور اس سے طلب خیر ہے وہ ان پہ اپنا کرم رکھے وہ یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ سب کائناتوں کا مالک و ملک وہی ذاتِ باری تعالٰی ہے اس کے سوا کوئی نہیں اور تمہارے منہ سے کیا نکلتا ہے " میں نے یہ کام کیا اچھا میں ذرا اپنا مکان بنا لو، اچھا میں بچوں کے لیے انشورنس کروالو میں یہ کر لو میں وہ کر لو"۔
نسبت سے تیری میرا زمانے میں بھرم ہے      
کیسا میرے مُرشِد تیرا اندازِ کرم ہے
میں زندگی میں یونہی ایسے بھٹکتا رہتا
مجھے آپ نے نوازا یہ کرم نہیں تو کیا ہے
میں خوب سمجھتا ہوں کیا میری حقیقت ہے
قطرہ ہی سہی لیکن دریا سے تو نسبت ہے
اس دل کے بہلنے کی بس ایک ہی صوررت ہے
وہ مجھ سے اگر کہہ دیں ہاں تجھ سے محبت ہے
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ
تیرا شیدہ ہوں میرے درد کا درماں تُو ہے 
   میرا مذہب میرا کعبہ میرا ایمان تُو ہے
  میں تیرے سامنے بیٹھ کر تلاوت کیوں نہ کروں
اے صنم میرے لیے صورتِ قرآن تُو ہے
میں کہاں جاوں ذوق عبادت میں صنم
میرے سجدوں کی حقیقت میں تو پنہاں تُو ہے
ان اشعار میں مرید کی پیر کے ساتھ نسبت کا اظہار ہو تا ہے۔
بے سازو سامانیم انور علی
نسبتِ خواجہ مہاراجہ دامانِ من
   'یہ سرور و کیف و مستی کبھی کم نہ ہو سکے گی' کیونکہ جب اپنا پیر ہی جام بنا کر دینے والا ہے جو یہ بات اُتم طور پر جانتا ہے کہ تشنہ لب کب سیر ہوگا پھر کیا غم ہے؟
ولادتِ معنوی میں نسبت کیا کردار ادا کرتی ہےاس کاِ خیر میں جب کوئی فرد ترقی کی منازل  طے کرتا ہوا اپنے رہبرِ حقیقی کے من و عن نقشِ قدم پہ چلنا شروع ہوجاتا ہے تو اس پیر اعلٰی کی نسبت اپنا جھنڈا گاڑ دیتی ہے۔ عالم مثال یا عالمِ غیب اس شخص ثانی پیر سے ہم کلام ہونا شروع کردیتی ہے اور وہ عجیب و غریب حقائق سے آشنائی حاصل کرتا ہے۔
یہ عالمِ مثال یا عالمِ غیب کا معاملہ بھی انہی چار عالمین کے ساتھ متصل ہے یعنی( جمادی، نباتی، حیوانی اور انسانی)جب ترقی یافتہ فرد اس دنیا میں کوئی اچھا عمل سر انجام دیتا ہے تو انہی ہی کی صورت میں کوئی عنصر متشکل ہوکر اس کے سامنے علامتی طور پہ یا تو اس کے خواب میں یا پھر صورتِ ظاہر میں اتا ہے۔ عالم ناسوت کے جوگی اکثر شیروں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ یہ پاک روحانیت والا معاملہ نہیں ہے۔
عالم مثال اسی عالم اسباب کے ساتھ ہے اکثر اللہ والوں کو اس عالم اسباب کے عناصر سے ہم کلام ہوتے دیکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں میں آپ کو ایک واقعہ جوشمس الاولیاء حضرت الشاہ علاءالدین رحمۃ اللہ علیہ ککی نو شریف ضلع جھنگ شورکوٹ کے ساتھ پیش آیا گوش گزار کرتا ہوں۔جگہ چاہ غازی والا براستہ اروتی بازار ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں میرے دادا حضڑت ایک مُرید کی دعوت پہ ہمراہ دس سے پندرہ لوگوں کے تشریف لے گئے۔ اس مرید نے آپؒ کو آنے سے پہلےفون کیا کہ حضورؒ لوگ تو توقع سے بڑھ گئے ہیں اور دوبارہ کھانا بنوانا دیر کے زمرے میں آجائے گا آپ سیدنا و مُرشدنا ؒ نے فرمایا کہ جب تک ہم نہ آئیں تم کسی کو کھانا نہ کھلانا، بس پھر کیا ہے جس طرح حضرت عالی ؒ نے اس کے گھر اپنا قدم مبارک رنجہ فرمایا تو کرم ہونا شروع ہوا اپؒ سیدھے ادھر گئے جہاں کھانا رکھا تھا اک نظر ہی دیکھا اور حکم دیا کہ کوئی دیگچی میں نہ جھانکے بس کھانا نکالتے جانا بس صاحب سب سیر بھی ہوئے اور بانٹنے کے لیے بھی بچ گیا۔
لکھ نگاہ جے عالم ویکھے کسے کنڈے نہ چاڑی ھُو
  اک نگاہ جے عاشق ویکھے لکھ ہزاراں تارے ھُو
حضرت الشاہ علاء الدینؒ نے جب کھانے سے جب پردہ اٹھایا تو آپؒ نےاسی عالم اسباب میں رہتے ہوئے اس عالم مثال سے بھی خطاب کیا اور اپنے رب غفور و رحیم و کریم سے بھی درخواست کی یا باری تعالٰی میرے اس چاہنے والے کی لاج رکھ لے اور حضور کے مشن طعام میں اس مرید کو کامیابی سے ہمکنار کر دے۔ یہ آن ہی آن میں جو گفتگو ہوتی ہے وہ ان ہے شہبازوں کا کام ہے۔ جو کردار میں ، گفتار میں اثار میں ، افکار میں اسرار میں اور شاہکار میں اپنے نبی مکرم رسولِ آخر و زماں سخی لجپال سید اللانبییاء والمرسلین آقا ہر دو سِرا رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ و بارک وسلم کے قدم بہ قدم ہیں۔
اطاعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان برگزیدہ ہستیوں کا سب مال و متاع ہے۔اس کی مثال اس حدیث مبارکہ سے دی جا سکتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا:
" مجھے کوئی ایسا کام بتائیے جسے میں کرکے جنت میں چلا جاوں؟"
آپ نے فرمایا: اللہ کی عبادت کر۔اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا۔فرض نماز ٹھیک طریقے سے پڑھ، فرض زکٰوۃ ادا کر اور رمضان کے روزے رکھ۔"
وہ دیہاتی کہنے لگا: " قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا۔"
جب وہ شخص پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو حضور نے فرمایا:
" جسے جنتی آدمی دیکھنا ہو وہ اسے دیکھ لے۔" سُبحان اللہ
کیا ہم ان اولیاء پاک جو پاک نفوس ہیں اور جن کے قدموں کی برکت کے صدقے زمین پہ بارش ہوتی اور رحمت برستی ہےان اعمال مذکورہ سے کبھی روگردانی کی ہے ، ممکن نہیں۔
ان کا ساتھ وہی پہلا والا معاملہ ہے یہ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اور اپنا تعلق  وابستہ رہنا فخر گردانتے ہیں۔
 اہلِ عشق و اہلِ محبت ہی یہ راز فنا جانتے ہیں کہ یہ ماجرا کیا ہے؟اصل حقیقت ہے کیا کیوں لوگ اتنی جہت و پیماں میں شب و روز ہمہ تن گوش ہیں کیا ان کو دولت کا کوئی خزانہ تلاش کرنا ہے یا کوئی عملِ کیمیاء کا فارمولہ بنانا ہے؟ یا پھر کائنات پہ حکومت کرنے کے لیے کوئی فوج تشکیل دینی ہے؟ کیا ان کا مقصدِ حیات اور ہے جو ہم سب کا نہیں؟ کیا ان کی نماز ہماری نماز سے الگ ہے یا یہ قران کسی اور جہت پہ پڑھتے اور سمجھتے ہیں؟ یاان کا ایمانِ مفصل اور ہے؟ یہ سارے اہلِ عشاق اور محبت اللہ اور رسول کریم والے وہ راز جاننا چاہتے ہیں کہ اللہ اور مقبول ترین بندے کے درمیان جو رفاقت ہے وہ کیا ہے۔مقامِ احد سے مقام احدیت پہ آنے کا وقت کتنا ہے ، معراج کے مقام پہ آپ سرکار کو بُلایا اور اتنی شان اور عطا کی حد کردی کہ جو کسی اور نبی کے حق میں ثابت نہ ہوئی۔ انگریز عالم دین اس بات کو نہیں سمجھ پائے کہ جب آپ پہ وحی نازل ہوتی تو آپ کی اونٹنی کیوں ببیٹھ جاتی۔ رسالت کے بوجھ تلے وہ بیٹھ جانے اونٹنی کے ساتھ کیا معاملہ تھا ، آپ سرکار سائنس کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی پہ اللہ کے پاس پہنچ گئے وہاں نہ وقت کی کوئی قید ہے اور نہ ہی زماں کی۔ اللہ عاشق ہے اپنے محبوب صلی الہ علیہ والہ وسلم کا اُس نے ذاتِ اطہر و اقدس نے کس طرح اپنے پیارے کو اس دنیا فانی میں اپنے سے جُدا کیا یہ بات اللہ ہی جانتا ہے۔ جہاں ایک عاشق تو دوسرا معشوق ہو وہاں کی فضا ہی نرالی ہے، یہ تمام اللہ کے بندے اس بات پہ قربان ہوجاتے ہیں کہ شاید انہیں یہ راز معلوم ہو جائے اور وہ بھی اس کے لُطف و سرور کو حاصل کر پائیں۔
اس لیے ضروری ہے محبت ادب اور عشق کیا ہے کو سمجھا جائے؟
یہ بات جاننا ضروری ہے کہ ذوقِ محبت اور سوزِ عشق ہے ہر شخص میں نہیں ہوتا۔ ریاضت سے اور عبادت کاملہ سے انسان اپنی تصیح تو کر لیتا ہے اور تقوٰی بھی پالیتا ہےمگر جو عشق کی منزلیں ہیں ان کو طے کرنا اس کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس راہ میں تین باتیں اس کو حائل رہتی ہیں،1۔ علت 2۔قلت اور3۔ ذلت ان سے نمٹنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں دشوار تر ہے۔ اگر صرف علت کوہی لے لیں تو اس میں جان جانتی ہے اور بہت سی چھپی ہوئی باتیں کہ جب سامنے اتیں ہیں تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پیرو مُرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب رحمۃ اللی تعالٰی کئی برس دل کے عارضے میں مبتلا رہیں میں 1992 مارچ اپ کے سلسلہ میں بیعت ہوا تب سے میں نے آپ کو اسی جدوجہد میں ہی پایا کہ آپ علیہ الرحۃ تین بار میو ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ 1995 میں آپؒ کو بہت بڑا ہاٹ اٹیک ہوا اور آپؒ برین ہیمبرج کے مرض میں ہسپتال میں داخل رہے۔ مگر حضرت عالیؒ کے ہوش بحال ہوئے تو اپ سرکار ؒ نے اپنے آپ کو سنبھالا اور صورتحال میں افاقہ ہوا۔ الحمد للہ۔
حضرت خواجہ شاہ محمد امین شاہ ؒ بخطابِ غیبی فخرالمتوکلین کا وصال 24 مارچء2001 میں ہوا۔ آپؒ نے اپنی ساری حیاتِ طیبہ اسلام کی خدمت میں ہی گزاردی۔آپؒ اپنے پیرومُرشد حضرت خواجہ الشاہ علاءالدین شمس العارفینؒ کے مُرید ہوئے اور یہ 1966 کا واقعہ ہے تب اس وقت خواجہ صاحبؒ ککی نو شریف میں آستانہ عالیہ کی تعمیر کے سلسلے میں تھے تو ہمارے حضرتؒ کی چشمِ پاک اپنے پیر کے سراپا نور کی دید کرتی ہی دل سے آپؒ کی معتقد ہو گئی۔  یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ محبت کے یہ پروانے ہر جگہ نہیں ملا کرتے یہ صرف اپنی شمع کے گرد ہوتے ہیں۔ یہ محبت و عشق میں گُم ہیں۔ ان کی حیثیت کو اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
لیلٰی مجنوں کی لازوال محبت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک بار کا دیدار مجنوں کو دیوانہ کر دیتا اور عاشق نامدار اپنی معشوق کے دوسرے دیدار کا  منتظر رہتا۔ مجنوں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے میں تھا ،آپنے ایک ملاقات سے اس سے پوچھا کہ خلافت پہ کس کا حق زیادہ تھا حضرت امام حسین علیہ السلام کا یا ناپاک یزید کا، تو پتا ہے اس نے کیا جواب دیا کہ لیلٰی کا تو حضورِ عالی مقام بولے کیا تو مجنوں ہے۔ اس پہ اس کا نام مجنوں پڑ گیا۔
حجرت سُلطان المشائخ نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایسے بہت سے محب اللہ ہیں کہ جن کی آتشِ محبت لیلٰی مجنوں کی محبت سے کہیں اُتم بڑھ چڑھ کر ہے اللہ ان کو اپنا ولی کہتا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل اقدس پہ حضور اکرم کی وارفتگی محبت انمٹ نقش تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دل جان مال و اولاد ہر ایک اعتبار سے آپ پہ قُربان تھے۔آپ سرکار کے یارِغار بھی تھے جہاں انہوں نے اس خیال سے اپنا ہاتھ سوراخ سے نہیں اٹھایا کہ کہیں کوئی موذی جانور آپ کو کاٹ نہ لے، اس وقت انہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہییں کی۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کا قلب بالکل آپ کے قلبِ مبارک کے عین ساتھ متحد تھا۔   
 جیہڑے یار دے نظر منظؤر ہو گئے جے او مر وی جان تے منہ اُتے دَکھ رہندی
سائیاں نال ای سُہاگناں ہوندیاں نیں خصماں باجھ توقیر نئیں ککھ رہندی
اوس نے پاونی اے ہدایت کتھوں جیہڑی ہادیاں تو ہو کے وکھ رہندی
اجمل جنہانوں یار دا درد ملیاں روندی اونہاں دی سدا اکھ رہندی
پیر اور مُرید کا معاملہ بھی اس سے ذرا برابر مختلف نہیں ہے۔ ایسے ہی ہے جس طرح کہ ان اشعار میں بات کو بیان کیا گیا ہے۔
ولادت ثانوی ہو یا معنوی یہ تمام سلا سل محبت اور عشق پر مبنی ہیں۔ اس عنوان کی حد کوئی نہیں کیوں کہ اس پہ ایک زندگی نہیں ان گنت زندگیاں بھی کم ہیں یہ اللہ کا علم و قانون ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہا یک پیر کی محبت میں ہی سارے ییروں کی محبتیں مجمع پذیر ہوتیں ہیں۔ ہمارے حضرت قبلہؒ فرماتے کہ اللہ تمہیں پیروں کی محبت عطا کرے تو تم خود ہی جان جاو گے کہ ایسی نعمت جیسی کوئی اور بات نہیں۔ اس سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ جب ہم کو کسی سے پیار ہوجاتا ہے تو وہ فرد بھی ہم سے اس کااظہار کرنے لگتا ہے ایک دن اور کئی سالوں کی یہ محبت پھر رنگ لانے لگتی ہے۔ اور ایک ایسا وقت بھی اتا ہے کہ عاشق معشوق ایک ہوئے ہوتے ہیں۔
ساجن ہم تُم ایک ہیں کہن سُننن کو دو
من کو من سے تو لیے کبھی نا دو من ہو
ایک اور جگہ
تُو ای تانا تُو ای بانا روم روم اچ تُو
کہے حسین فقیر نمانا میں نا ہی سب تُو
جب میں کی رٹ ختم ہو کر تُو تُو کی اواز انے لگ جاتی ہے تب بات بننا لگ جاتی ہے شروع نہیں ہوتی شروع تو نا ختم ہونے کے لیے ہوتی ہے۔
 نسبتِ شیخ اور اتباعِ شیخ بہت ہی عظیم الشان باتیں ہیں۔اتباعِ شیخ میں اللہ نے بہت برکت اور تعظیم رکھی ہے۔ یہ اولیاء اللہ ایک ہی آن میں مُرید کی بہت ساری منازل طے کروادیتے ہیں۔  دل   برے  دل داردارم  حق نما 
خواجئہ میانی غمگسارم منعم دو جہان
از مقام است کہ خواجہ حق یقین
از کہ مطلب بود شاہِ حق امینؒ
از تو سوزِ  دل گدازِ  دل پذیر
ہر کہ بودِ جاہ پناہاں حق امینؒ