Wednesday 17 February 2016

PEER KI Izzat

اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قادری علائی منعمی چشتی شکوری مد ظلہ
سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ چشتیہ کے ایک روشن ضمیر پیر ہیں۔ آپ سرکار کی حقیقت تو ان کا کوئی جاننے والا کوئی یا حضور عالی مکرم حسن و جمال کا کوئی مرید ہی ہو سکتا ہے۔ اب بات جہاں تک تو عام افراد کی ہے کہ وہ آپ سراپا رحمت کی روحانی اقدار تب ہی جان پائے کہ وہ آپ کے نقش پا پر ہو رہی بات مریدین کی تو وہ تو خود نمائی کی وجہ سے اپنے اوپر نظر نہیں کرتے یعنی کہنے کا مطلب ہے کہ دوسرے پیر بھائیوں میں نقص نکانا  ان کا شیوہ ہوتا ہے۔اتنے گندے غلیظ نفس کو کون اپنے پاس بٹھاتا ہے۔ مگر یہ پاک نفوس پھر بھی ہم جیسوں کو اپنا ہم نشین بنا کر امر کر دینے کی حالت میں لے جاتے ہیں۔ شان ہے اس  خدائے واحد کی جس نے ہماری طرف وہ رسول معبوث کیے جو ساری کائنات کے ھادی آخر زمان ﷺ ہیں۔ الحمد اللہ۔
کسی بھی ولی اللہ کی ماہیت قدرت کو ماپنا اور یہ فصیح و بلیغ بیان بازی کرنا کہ میں تو اپنے پیر حق کو بہت بہتر جانتا ہوں۔یہی  سب سے بڑی خرابی ہے۔کیا جانتے ہیں ایک چھوٹی سی ٹیلی سکوپ کا سہارا لینے والے اتنی بڑی بات کہتے ہیں ہم اپنے حضرت کی بات مانتے ہیں جس طرح وہ کہتے ہیں ہم ان کے عین مطابق ہی چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی صرف کوشش ہی میں ہو کب وہ وقت آئے گا جب سب کچھ خاک ہو جائے گا تم کیا سمجھتے ہو کہ ہر آنے والا لمحہ تمہارا زر خرید غلام ہے نہیں قطعا ایسے نہیں ہے۔ وہ ذآت پاک ہے تمہاری ان شک و شببہے والی زندگی سے
نشانہ بن جاتا ہے۔تم اس کو جاہل کہتے ہو اور تم سے بڑا اور کوئی جاہل نہیں جو اسی کو زندگی کی ترقی گردانتا ہے۔ اس طرح  
دل صاف تو سب کچھ آئینہ ورنہ سب کچھ میل کچیل۔ پیر کوجان جانے والے بہت کچھ کر ڈالتے ہیں اس طرح کے نہیں ہوتے کہ کسی کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں اگر پیر ابھی دار فانی سے نہیں گیا تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہوئے ہیں۔جس نے کسی کی حیات میں کوئی کام نہیں کیا وہ بعد میں صرف ڈرامے ہی کرتا ہے کیونکہ بنیادی نقطہ تو تربیت کا ہے جو اس کے پاس ہوتی نہیں اور اس نے خاک سلسلہ چلانا ہے پھر اگر آپ اس کو کوئی بات بتاتے بھی ہیں تو وہ اپنا منہ دوسری طرف کرکے بات کو نظر انداز کرتا ہے پھر سب سے بڑی بات وہ کہتا ہے کہ ہاں میں سمجھ گیا اور حسد سے بھرا ہوا یہ شخص اپنی طرف سے پیر و مرشد کی باتوں کو اسی سمجھانے والے سے شیئر نہیں کرتابلکہ اس سے ہی باتیں پوچھ کر ان کو اپنی بات بنا لیتا ہے یہ ہے تمہاری روحانیت۔پھر ذرا عرصہ گزرنے کے بعد وہی باتیں وہ اپنے انداز میں کرتا ہے۔اور اپنے آپ کو پیر کے وجود کا حصہ سمجھتا ہے۔ایسے لوگ زہریلے ناگ کی طرح ہر وقت اسی کوشش میں ہوتے ہیں کہ کسی کو تکلیف ہو اور وہ اس کی کھوج میں لگ جائے۔وہ تو یہ کہتے ہوئے بھی نہیں شرماتے کہ یہ تمہارے گناہ ہیں ہر کسی کے منہ پر بات کرنا اپنے آپ کو غوث مانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سب خراب ہیں میں ہی ایک اپنے پیر کا مرید ہوں۔ پلے نہیں تیلاں تے کردی اے میلاں میلاں یہ حال ہے اس طرح کے پیروں کا۔

ریحان امین قادری علائی شکوری