Friday 15 April 2016

hazrat shah mohammad ameen shah

منم محو جمال اُو، نمی دانم کُجا رفتم
شُدم غرق وصال اُو، نمی دانم کُجا رفتم
سبحان اللہ شاعر بھی تو کوئی عام نہیں حضرت بُو علی قلندرؒ ہیں۔ اسی طرح اللہ کے ان اولیاءرحہم اللہ کی شان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان پاک ہستیوں پہ جان و دل سے فدا ہونے والے اس شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ' میں اس کے جمال میں گم ہوں اور پتا نہیں کہ کہاں جارہا ہوں۔جو اپنے یار کی اداوں کی کیفیت لیے ہوئے ہو وہ اس دنیا و مافیہا کو کیاسمجھتا ہوگا جس کے لیے اس کا یار ہی سب کچھ ہو جائے اور ایسا ہوناکوئی اچنبے کی بات  بھی نہیں یہ بات ایک عام آدمی کے لیے معیوب ہو گی کہ یہ کیا بات ہوئی جناب کہ اب سارا سارا دن ایک ہی حالت میں رہنا اور ہونا بھی فارغ تو وہ ان جیسے لوگوں کو سست الوجود اور کاہل کا نام دے کر ان سے تعلق کم کر دیا جاتا ہے۔
شاعر آگے بیان کرتا ہے
سارا دن و رات اپنے اسی یار کے تصور میں غرق یہ لوگ نا معلوم راہوں میں بھٹلتے پھرتے ہیں۔ظاہر میں لوگوں میں مگر ان کی باطنی دنیا اپنے یار کی ہستی اور وجود کا احاطہ کیے ہوتی ہے۔
دل دریا سمندروں ڈھونگے تے کون دلاں دیاں جانے ھُو
وچ ای بیڑے وچ ای جیہڑےوچ ای ونج مہانے ھُو
حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ دل ایک ایسی آماجگاہ ہبے جو اوربہت سی چیزوں کی آمدورفت ہے۔ جہاں شکوک شبہات بھی ہیں بری نیتیں بھی ہیں مگر اسی میں خیال یار بھی ہے جو تمام باتوں پہ حاوی ہے۔ایک عام آدمی جب اس طرح کی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے تو اس کی کیفیت بدل جاتی ہے اب وہ اس کو جلد سمجھ لےتو اس کے لیے بہتری ہی ہوتی ہے اگر دیر کرتا ہے تو بازی کوئی اور لے جاتا ہے۔
جب بھی کوئی مرید اپنے پیرومرشد کے جمال کو ایک ہی نظر میں جان لیتا ہے تو اس کی اندرونی و بیرونی تمام کیفیات میں تغیر وتبدل آجاتا ہے ۔وہ اصل میں اتنی منزلیں طے کرلیتا ہے جس کا کہ وہ خود حامل نہیں ہوتا۔ اسے خود یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ وہ اس قابل ہے یا نہیں اور در حقیقت اس بات کا پتا دینا بھی اس کے یار کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا کہ وہ مرید کس سیڑھی پہ ہے۔ شاعر نے ایسے ہی تو نہیں کہا کہ اگر خدا کو ملنا چاہتے ہوتو ان پاک ہستیوں کی صحبت میں رہا کرو جو اپنا ہر کام شرع محمدﷺ کے مطابق بنانے نبھانے اور سنوارنے کی جدوجہد میں رہتے ہیں۔
ہر کہ خواہد ہم نشینی با خُدا
او نشیند در حضور اولیاء
مطلب کہ اگر اللہ کی صحبت میں رہنا چاہو تو ان اولیاء اللہ کر  درآستان پہ چلے آو تمہیں اللہ بھی مل جائے گا اور اس کے ساتھ جو عظمت و برکت اس در کی چوکھٹ پہ آتی جاتی رہتی ہے وہ بھی تمہارے وجود کا حصہ بن جائی گی۔
کئی ایسے لوگ جو ان آستانوں سے اپنا ناطہ جوڑ لیتے ہیں یا یوں کہیں کہ ان کو جوڑ دیا جاتا ہے تو ان کا باطل خیال چونکہ شیطان لعین کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے تو وہ یہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ شاید اب ترقی ہمارا مقدر ہے اب ہم نیکوں کی صحبت میں خود ہی شامل ہو گئے ہم نے بڑی نیکی کی اور ان بز  رگوں کی بھی تعداد بڑھا دی یہاں کون آتا ہے؟ یہ تو بس اپناکام خود نہ کرسکتے جو میں ان کے سلسلے میں نا آتا۔ میں نے ان کی سلسلے کو مشہور کیا لوگوں کو بتاتا ہوں کہ بھئی تم بھی اس سلسلے داخل ہو جاو۔ ان جیسوں سے ایک سوال ہے کہ کبھی اپنے رویے پہ بھی تمہاری اپنہ نظر گئی ہے۔ تم جیسے کیا جانتے ہیں کہ  یہ سعادت تو اللہ تعالٰٰ کی ذات اقدس تو کسی کسی کو ہی نصیب کرتی ہے دیکھو دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور ان میں سے ایسے   جو کسی کی غلامی کا طوق پہنے ہوئے نہیں اور اس کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں یا کروا دیے جاتے ہیں۔
سوچ اچھی رکھو گے تو پھر ہی اچھا صلہ ملے گا۔ساری رات کھڑے ہو کہ ہی اگر اولیائی مل جائے تو بہت سستا ر سودا ہے اور اگر ذکر خفی کی تکرار ہو تب بھی سودا مہنگا نہیں ہے اگر روزہ شرط ہے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں اس طرح تو مکہ مکرمہ کے امام صاحب ہی زیادہ نیکیوں کے حقدار ہوئے۔وہ اللہ کے بندے جو حج نہیں  کو کرپائے ان کا کیا کہتے ہو تو سب سے زیادہ ضروری بات کیا ہونی چاہیے جو تم کوممتاز کر دے وہ ہے عشق یار یعنی یار کی ہر ادا سے پیارہو وہ اُٹھے تو عشق کی آنکھ سے دیکھواور وہ جس طرح چلتا ہے تو تم بھی اسی کی طرح قدم اُٹھاووہ جس طرح کانستا ہو توتم الحمد للہ کہو کہ کیا ہی حسین ادائے یار ہے اور تمہیں اس پہ ناز بھی ہووہ جس طرح کھاتا ہو تو تم بھی اسی کی نقل کرو۔ اس ڈوب جانے کا نام ہی عشق ہے اور کچھ بھی نہیں یہ ہی اصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا طریقہ تھا کہ وہ ہر وقت آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقل کرتے ان کا ہر عمل آپﷺ کے عین مطابق ہوتا۔ ۔

سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہ امینیہ کو  مریدین  جو کچھ بھی جس میں فیض و کرم،مددو استعانت ہے یا کوئی اور انداز کرم ہے تو وہ عبادت کے تحت تو ہے ہی مگر عشقِ یارسے جو کچھ مل جاتا ہے وہ کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں اس بات سے مرید نہ صرف سلسلہ بلکہ پیر کے فیض و کرم کو بانٹنے والوں کی لسٹ میں آجاتا ہے۔منظور نظر ہوجاتا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ صرف اہل دل ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے۔ واللہ اعلم بالصواب      

No comments:

Post a Comment