Tuesday 19 April 2016

Fans Of Mysticism - Dastan e Amee

 مصری شاہ لاہور شہرکاایک مشہورومعروف علاقہ جو ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ہے اس علاقے سے  گزرتے ہوئے کچھ آگے ایک نہایت مقدس ومقدم علاقہ میراں دی کھوئی ہے جہاں ایک عظیم الشان عالی مرتبت اللہ کا شیر متمکن ہے جن کے نام نامی سے ایک عالم واقف ہے جی ہاں میرا مطلب حضرت میراں زنجانی ؒ ہے جو حضرت داتا گنج بخش ؒ کے پیر بھائی ہیں۔سبحان اللہ۔
ذکر اولیاء اللہ باعث برکت ہے اللہ کی ذات فرماتی ہے کہ جب تم میرے ان پیاروں کا ذکر کرتے ہو تو میں بہت خوش ہوتا ہوں۔انہی اولیاءاللہ کے پاک نفوس کے صدقے میں ہم ہدایت و تلقین پاتے ہیں اور اللہ تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہ سلسلہ حضور نبی اکرم ﷺ سے چلتا ہوااصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور ان سے آئمہ کرام جن میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور دیگر اماموں کی خدمات اور تعلیم کا کسی کو بھی انکار نہیں۔ جب اللہ نے ہر ذی نفس کو زندگی میں ایک ہی بار موقع دیا ہے اوراس کا وقت معین ہے اور یہ بھی کہ اُس نے اس جہان فانی کو چھوڑکے جانا ہے اوراس کی جگہ کسی اور نے لینی ہوتی ہے کیونکہ یہ دین اللہ کا لایا ہوا ہے کسی اور کی ایجاد یا ترکیب سے نہیں بنا۔
انہی اولیاء اللہ میں سے ایک حضرت معروف کرخی ؒ ہیں جنہوں نے اس کار خیر کو بخوبی آگے بڑھایا۔ اب یہ ہی سلسلہ رشدوہدایت ہندوستان کے راستے سے ہوتا ہوا لاہور شہر کے علاقے جیون ہانہ ،گارڈن ٹاون میں متمکن ہوا اور اللہ کی تجلیوں اور تابانیوں کی روشنی نے لوگوں کے دلوں کو سرشار کرنا شروع کردیا۔ میری مراد شاہ شکور المعروف تاج الاولیاءؒ ہے۔ اسی دوارے سے ایک اور پھول خوشبو دینے لگا اور مالی کو معلوم ہو  گیا کہ یہ اپنے سہانے موسم کے آنے پر ایک تناور درخت بن جائے گا جی ہاں میں حضرت الشاہ محمد علاء الدین المعروف شمس العارفین ؒ کی بات کر رہا ہوں جن کا مزار اقدس شور کوٹ، ضلع جھنگ ہےآپ سرکار عالی کا آخری پڑاو ہے۔ آپ سرکار ؒ نے دین کی سربلندی کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ گھر بار کو چھوڑااور اپنے پیرو مرشد کی امانت کو بہت محنت اور خندہ پیشانی سے سر انجام دیا۔ الحمد للہ۔
حضرت شاہ علاء الدین ؒ نے اس سلسلہ کی اشاعت ترویج کے بہت کام کیا ہے جو کسی لحاظ سے کم نہیں کہ اس بات کے باوجود کہ آپؒ کو لاہور کو خیر باد کہنا پڑا پھر بھی آپؒ کی تابناکیوں سے کوئی نہ بچ سکا اور آپ ؒ کے اتنے قریب ہو گیا کہ آپؒ نے ان کو ان سے مانگ لیا۔ کہتے ہیں کہ ولی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگتا وہ تو جو بھی چاہتا ہے تو اللہ ہی سے مانگتا ہے اور شاید یہ مانگنا بھی اسی رب کریم کی جانب سے تھا۔ مانگا بھی تو کیا مانگا ایک پیر نے دوسرے پیر کی محبت کو نہ مانگا بلکہ چاہا۔ یہ جملہ آج بھی لازوال ہے " چوہدری صاحب آپ ہمارے بیٹے بن جائیں"۔ قدرت کاملہ سے یہ تو نہ ہوسکا مگر یہ رشتہ ناطہ ایک لازوال داستان اپنے پیچھے چھوڑ گیا جس کے نشان و نقوش آج بھی اپنا حال خود ہی بیان کرتے ہیں۔ جن کو بیٹا بنانے کا عہد کیا وہ بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں یعنی حضرت شاہ محمد امین شاہ ؒ بخاطب غیبی فخر المتوکلین ۔
آپ سرکارؒ مصری شاہ میں عزیز روڈ پر کورنر والے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ آپ کی تعلیم تو اتنی نہ تھی اپ صرف آٹھ جماعتیں پڑھے ہوئے تھے لیکن شکل و شباہت سے ایسا نہ تھا۔ لانبا قد اوررُخ انور بہت ہی پُر وجیہہ تھا۔ اپ کی آنکھوں میں ایک خاص تابناکی تھی جو بھی دیکھتا تو تاب نہ لا سکتا۔ جو بات کہ ایک بزرگ و درویش میں ہونی چاہیے کہ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ اس کو دیکھ کر ہمیں اللہ کی یاد آتی ہے اسی طرح کا معاملہ آپ سرکار عالی کے ساتھ بھی تھا۔پیشے کے اعتبار سے آپ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ سارا کاروبا عین شرعی اصولوں کے مطابق تھا۔
آپ سرکار کو اپنے والد بزرگوار سے بہت پیار تھا۔ ایک لمحہ بھی برداشت نہ کرتے اور آپ حضورؒ کی محبت یہ رنگ لائی کہ جب آپ کے والد محترم وفات پا گئے تو میرے سرکار ہر وقت انہی ہی قبر انور احاطہ میراں دی کھوئی قبرستان پہ بیٹھے رہتے اور آنسووں کی لڑیاں بہاتے ۔ حضورؒ کو اور کچھ نہ سوجھتا بس ایک باپ کی محبت ہی میری سرکار کا کل خزانہ تھا۔ وہ سرکار جس نے کل آنے والے لمحات میں غیروں کو سینہ اقدس سے لگا کر تسلی و تشفی سے آرام دینا تھا۔ جس پیر نے جد امجد بننا تھا آج وہ اپنے والد صاحب کی محبت میں گرفتار تھا۔ ہائے ہائے کل کا کس کو پتا تھا کہ اس ایک ولی حق نے کئی لوگوں کی نیند اُڑانی ہے کیونکہ جب عشق بڑھتا ہے تو کسی کو نہیں دیکھتا جلا کے راکھ کر دیتا ہے۔اسی ولی اعظم نے کئی دلوں کی دھکن بننا ہے۔کئی دلوں کا قرار بننا ہے۔اور کیا پتا کہ لوگ ان کا نام لے کر مدد الہٰی کے لیے خواستگار ہونگے۔ جو خزاں کے لیے بہار ثابت ہونے والے ہیں ۔آج جہاں جا رہے ہیں وہاں ان کے پیچھے چلنے والی لوگوں کی جماعت ہوگی۔ کوئی ان پہ مرنے اور مٹ جانے والا ہو گا۔ کسی کو ان سے نسبت ہو گئی تو وہ بخش دیا جائے گا۔ سُبحان اللہ سُبحان اللہ  
 دل میں لگی ہوئی اسی چنگاری کو شعلہ ہارا بنانے کے لیے اللہ نے خود ہی سامان پیداکر دیا۔
حضور عالی قدرؒ کو اسی یکساں حالت میں دیکھ کر آپ کے دو دوستوں نے آپ سرکار کو کہا کہ وہ ان کے ساتھ اللہ کے بزرگ سے ملنے چلتے ہیں۔ آپ چونکہ دوست کی بات کا برم رکھنے والے تھے اس لیے آپ نے ان کی بات کورد نہیں کیا اور ان کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔ یہ تینوں ہما ہما شہر جھنگ پہنچ گئے اور اس ہستئی بے بہا سے آنکھیں چار ہوئیں جو پہلے ہی سے اپنے والد بلکہ پیرو مرشد کے عشق میں گرفتار تھے۔ جیسے ہی دونوں کی آنکھیں ملیں تو سب راز کھل گئے حضرت الشاہ محمد علاء الدینؒ سب کچھ ایک ہی نظر میں بھانپ گئے کہ اصل بات کیا ہونی چاہیے۔ میری سرکار جب ککی نو مکان شریف پہنچے تو دادا حضرت مسجد کی سیڑھیوں پہ تھے۔ آپ نے وہی کھڑے ہو کر میری سرکار کی ساری بپتا ان دو آدمیوں سلیم اور بشیر سے سنی اور میری سرکار کو پہلے گلے لگا کر پوچھا کہ کیا اب کوئی سکون ہوا چوہدری صاحب؟ سرکار نے فرمایا کہ نہین پھر گلے لگایا اور دریافت کیا کہ اب ؟ سرکار نے کہا کہ نہیں پھر تیسری بار جب گلے لگایا تو اس بار کہ میری سرکار کچھ کہتے تو ہمارے داداحضرتؒ نے فرمایا کہ اب کسی اور کی محبت کبھی چوہدری صاحب کے دل میں نہیں رہے گی۔ ہوا بھی ایسا ہی کہ سرکار کو صرف صرف حضرت الشاہ علاءالدین علیہ رحمہ کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں تھی۔ دوسرے سلاسل کے پیر عظام سے سرکار کو عقیدت تھی۔ جن میں حضرت پیر مکی صاحبؒ، حضرت بابا شاہ جمالؒ، حضرت سُلطان باہُوؒ، حضرت بابا چھتریؒ، حضرت بابا فریدالدین شکر گنجؒ، حضرت محکم الدین المعروف حجرہ شاہ مقیمؒ اورحضرت ابو شاہ نقیب ؒ۔  
اب اس دل کی محبت نے جو تلاطم مچایا تو میری سرکار کے لیے جھنگ لاہوری اور بھاٹی بن گیا۔ اُٹھے تو ارادہ ہو گیا کہ یار کی گلی ہیی اچھی ہے چل چلیے جتھے عشق نے ڈیرہ لایا اے۔ اسی ذوقشوق کو دیکھ کر اور اس کے علاوہ آپ کی نیت اورارادہ بھی تو اس میں کارفرما تھا جو آپ کو مزار پاک حضرت الشاہ علاءالدین ؒکو بنانے کی اجازت خود آپ کی سرکار نے دی۔ آپ سرکار کے کئی پیر بھائی اس بات پہ حسد میں مبتلا ہو گئے۔ اب یہاں کوئی کیا کرے کہ جب پیر صاحب کا آرڈر ہے وہ خود ہیکہتے ہیں کہ چوہدری صاحب آپ ہی ہمارا مزار بنائیں گے اس کے بعد آپ آزادہیں۔
سرکار نے بھی خوب ذمہ داری نبھائی۔ مزار مبارک کی کل تعمیر کے بعد ہی سُکھ کا سانس لیا۔ آپ کو اس کام میں بہت سے مراحل سے گزرنا پڑا مگر آپ سرکار سب کچھ سہتے رہے اور حکم پیر پہ ہی گامزن اپنے کام کے ساتھ کام رکھا۔ کسی کی نہیں سنی۔ حضرت الشاہ علاءالدینؒ کا وصال 1969 جنوری میں ہوا۔ میری سرکار نے چار برس اپنے پیر کی خدمت میں گزارے اور آپ کی سیرت و کردار کا ایک حصہ بن گئے۔ مرید ہمیشہ جزو پیر ہوتا ہے وہ یہ با جانتا ہو یا نہ جانتا ہو تو یہ ایک الگ بحث ہے۔ اگر ہم محبت و عشق کے دریا میں تیرنا جانتے ہیں تو یہ بات آسان ہے ورنہ تیراکی سکھا دی جاتی ہے۔
سلسلہ عالیہ کی بھاگ دور جب مکمل اپ کو سونپ دی گئی تو آپ نے خوب محنت و لگن سے اس کو آگے بڑھایا۔ سرکار اپنے گھر میں ہر ماہ کی گیارھویں تاریخ کو ختم پاک غوثیہ دلاتے جس میں چند اصحاب اور مریدین بھی آجاتے اور اپنی اپنی  عقیدت کے مطابق حصہ لیتے اور شیرنی بھی لاتے مغرب کی نماز کے بعد ختم پڑھا جاتا اوردعائے خیر کی جاتی۔ جس طرح کے کچھ لوگ اپ کی تعمیر و ترقی مزار جھنگ سے نالا تھے اسی طرح یہاں بھی معاملہ کچھ زیادہ مختلف نہ تھا ۔ میری سرکار کے سامنے تو کچھ نہ کہتے مگر گھر جا کر خوب پیٹتے کہ ہمیں کام ہوتے ہیں بھئی جن کا کھاتے ہو انہی کو باتیں بنتے ہو تو جاو کوئی اور در آستان ڈھونڈ لو اور ایسا ہی ہوا سرکار نے محفل ہی ختم کر دی۔ اب ان سمجھداروں سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا تم اللہ کے پیغام اور دعوت کو ایک عام اہمیت دیتے ہو کیا وہ کوئی تمہاری طرح کے عام سے آدمی ہیں کہ تم سارا دن دولت کمانے میں اور رات کھانا کھا کر تو خراٹوں میں گزار دیتے ہو، یار کوئی تو شرم ہوتی ہے جہان میں۔
کچھ تو محفل میں  اس لیے آتے تھے کہ شاید آج ہی کرم ہوجائے اور ہمیں کوئی بات مل جائے تو کچھ بس خاموش رہتے تھے اور دانشوروں کی طرح دوسرے پیر بھائیوں کو ڈانتے رہتے تھے کہ تم کیا کرتے ہوخود ہی پیر بنے ہوئے تھے۔ اب وہ بھی چُپ ہین کیا کر سکتے ہیں اب کس کو ڈانٹے گے پیر بھائی تو ہیں نہیں۔ اب ان کی کوئی بات نہیں بنتی اب مارے غصے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ان جیسوں کی کوشش ہےکہ کسی طرح سلسلہ ان کی مرضی کے ساتھ چلایا جائے۔ کیونکہ سرکار نے تو اپنی حیات طیبہ میں کسی کو بھی اجازت نہیں دی تھی اس لیے اب معاملہ مشکل بھی ہے اور ٹیڑھا بھی اب ان کی سمجھ، فہم و فراست کیا کرے وہ بہت ہی زیادہ پریشان ہیں۔ سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہؒ کے یہ مرید جنہوں نے اپنے پیر کی زندگی میں کوئی ایسا فعل انجام نہیں دیا کہ وہ فخر کرتے تو اب کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔پہلے کوئی کام نہیں کیا اب سب کچھ پیر کا ہے کیونکہ پیر نے اپنی زندگی میں تو اجازت دینی نہیں تھی۔
اگر آپ کی نیت صرف اور صرف پیر کی ذات اور سلسلسہ عالیہ کی خدمت ہے تو پھر اپ کو کوئی عار نہیں۔ سلسلہ عالیہ میں آنکر میری سرکار کی تو اپنی 34 مرلے زمین تھی وہ بھی نہ رہی وہ صرف سلسلے کی خدمت کے لیے تھی۔ مگر پھر بھی آپ حضور عالیؒ کی شرکت ہی ہم سب کے لیے عافیت ہی عافیت ہے۔ سُبحان اللہ
  سرکار کی آخری آرامگاہ میانی صاحب قبرستان ہے۔
  



   


No comments:

Post a Comment