Monday 20 May 2019

Kalma awwal


زیر با فیضان نگاہ حضرت شاہ محمد امین شاہؒ
کلمہ سیریز
افضل الذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
کلمہ اول کی ادائیگی کے لیے دو زانو(تشہد کی صورت) بیٹھنا ہوتا ہے۔ جو اصل میں آئینہ محمدﷺ کی ہی نقل ہے۔ ذاکر کا سر میم گردن سے کمر تک حا اور پھر کمر میم ثانی اور کمر سے نیچے کا دھڑ دال خیال کرے، وہ اس لیے کہ لفظ محمد ہی ہر انسان کی عین اور اصل حقیقت ہے۔
سچے ذاکر کو یہ بات جاننی چاہیے کہ تمام نصیبوں، قسمتوں اور کُل خزائن، علم و حکمت اللہ کی چابی کلمہ میں ہے۔
جب یہ کلمہ حق جسم میں سرایت کرنے لگتا ہےتو اس ذاکر کو اس سے محبت اور لگاو ہونے لگتا ہے اس کی ایک نشانی یہ کہ ذاکر اس کی سنگت اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔
اگر ذاکر جھوٹا ہو تو اس کا جسم اس کے اہل نہ پا کر اس سے چھین لیاجاتا ہے۔ہمیشہ خلوص نیت سے اس کو ادا کرنا ہر سچے ذاکر کا طریقہ ہو۔ ورنہ وہ رحمت خداوندی سے منکر ہوجاتا ہے، یعنی شکایت و شکوہ کا شکار رہتا ہے۔
جن ذاکروں کو اپنے نفس پہ قابو نہیں یا جو تیز طبیعت ہیں کلمہ کے ذکر کریں تو ان کا ذکر طوطے کی رٹ کے سوا کچھ نہیں۔ اددھر کلمہ ادا کیا تو نفس تھک جاتا اور دوسری فرمائشیں کرتا ہے، یعنی اللہ کی عبادت کی طرف رجوع کم ہوتا ہے۔
ایسے ذاکرین جو کلمہ طیبہ کو افضل عبادت جانتے ہیں ان کا باطن اللہ سے جڑ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ایسے ذاکرین ظاہری علم بمعہ منطق و معانی بغیر وسیلہ پڑھ لیتا ہےاور ان کو کسی کے پاس جانے کی حاجت نہیں رہتی۔
یہ کلمہ سورج کی مانند ہے جس کی طلوع و تاثیراپنے ذاکر کو روشن ضمیر بنا دیتی ہے۔ روشن ضمیر کو ہی اللہ اور اس کا قرب ملتا ہے۔

Thursday 2 May 2019

ALLAH 's ANGER ? FOR WHAT REASON


زیر با فیضان نگاہ اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب قادری علائی شکوری چشتی منعمی رحمۃ اللہ علیہ
سوال: اللہ انسان سے کب ناراض ہوتا ہے  رزق چھین لے یا ذلیل کردیتا ہے؟
جواب: میں نے یہ سوال اپنے جاننے والے دوست احباب ، بزرگوں اور واقفیت والوں سے کیے جن کے مجھے مختلف جوابات ملے۔ اکثریت کا جواب ہے کہ جب اللہ تعالٰی کی ذات با برکات انسان کو ذلت دیتی ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ اب ہم سے ناراض ہے۔
اگر یہ ہی سوال کسی غیرمسلم سے کیا جائے تو وہ اس سلسلے میں کیا جواب دے گا کہ قرآن کریم کی پہلی سورۃ الحمد شریف کے آخر میں جن کو والضالین کہا گیا گیا ہے۔ تو جب کسی ایسے شخص کو جو کہ اسلامی لاء آف کنڈکٹ کے مطابق ذلیل ہےسے اس بات کو دریافت کیا جائے تو شاید وہ کہے کہ یہ اللہ کے کام ہیں۔ جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نا دے۔ یا اس سے کوئی الگ جواب بھی ہوسکتا ہے۔
وہ اس کا جواب اگر انجیل یا توریت یا زبور کے مطابق دے گا ، اگر اصل جلد کا مطالعہ ہو تو، وہ وہی کہے گا جو کہ عین قرآن کا جواب ہے۔
اگر یہ سوال یوں ہوتا کہ  " اللہ انسان سے کن کن باتوں کی بنا پہ ناراض ہوتا ہے " مگر اس میں دو ہی باتوں ' رزق اور ذلت 'سے اس کا دائرہ کار محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔  
اس سوال میں کچھ ایسے نکات ہیں اور جب ان کی حقیقت جان نہ لی جائے تو بات کو سمجھنا دشوار ہے۔ اس میں پانچ پوائنٹ جن میں اللہ۔ انسان، رزق۔ ذلت اور ناراضی ہے، البتٰہ ناراض ہونے کا ذلت سے تعلق بنتا نظر آتا ہے۔
لفظ ' اللہ ' اپنی یگانگی میں بے مثل، ہکتا، بے شبہ اور نے نمونہ ہہے۔ قرآن کریم میں ارشاد بار تعالٰی ہے، قل ھو اللہ احد جس کا ترجمہ کہہ دو اللہ ایک ہے۔
اللہ کے باقی صفاتی ناموں میں شائبہ کا عنصر ملتا ہےمگر لفظ اللہ سے جو اس کا ذاتی نام ہے اس میں کسی قسم کا شائبہ یا استدراج ظاہر نہیں ہوتا۔ اس لفظ اللہ کو اللہ ہی نے چار حروف سے بنایا ہے۔ یعنی الف، لام ، لام اور حا سے۔ اگر ہم الف کو گرا دیں تو للہ رہ جاتا ہے، دوسری صورت میں لام بھی نہ ہوتو لہ اور ایک اور لام بھی نہ ہوتو ہ رہ جاتا ہے۔ یہ چہار اسم اعظم اس کے ذاتی نام ہیں۔۔ اللہ، للہ، لہ اور ھو۔ آیت الکرسی کا آغاز بھی تو اللہ لا الہ ال ھو الحی القیوم سے ہوتا ہے۔ کلمہ افضل بھی لا الہ الا اللہ سے ہی شروع ہوتا ہے۔
اللہ کے نام اور ذات کو تو فنا ہی نہیں کیونکہ وہی اس جگ اور جگت کو بنانے والا ہے۔ اللہ کی تشریح تو صرف اور صرف آپ سرکار دوعالم نور  مجسم ﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ آپ سرکارﷺ ہی اللہ کے ہم راز ہیں۔ انسان کو اللہ نے ہی اپنا خلیفہ الارض بنایا ہے اس لیے تین ایسی باتیں ہیں جن کی بنیاد پہ ہم اللہ کوزیادہ نہیں تو تھوڑا جان سکتے ہیں۔ اگر اس نے خالی جہان ہی بنادیا ہوتا، تو علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنا ارادہ نہ  باندھ پاتے۔ارداہ نہ ہونے سے ہم اس کی قدرت کا اظہارکو دیکھ اور سمجھ نا سکتے۔
علم کے معنی ہیں جاننا اور اس جان پہچان کا ایک ارادہ اور مقصد بھی ہوتا ہے۔ اسی علم کے ساتھ ایک اور لفظ ادراک ہے جس میں ہم اپنے ہوش و حواس کی مدد سے اردگرد کے ماحول کو پہچان پاتے ہیں۔ انسان کو پہلے چیزوں کا ادراک ہی ہوا تھا، وہ ان تمام باتوں کا علم بعد میں کر پایا۔انسانی علم کی بنیاد مشاہدے، سماع، بصارت اور قیاس پہ مبنی ہے۔ قرآن اس کی سب سے بڑی مثال ہے، اس کے حروف انسان کے علم و قیاس سے کہیں بلندوبالا ہیں۔ انسان نے جو علم حاصل کیا ہے اس کے لیے اس کا اپنا کہنا ہے کہ وجود کا ہونا ضروری بات ہے۔ انان کے علم نے جب اپنے گردوپیش وجودیت کو فطرت اور قدرت کی شکل میں دیکھا تو اس کو چھو کر، محسوس کرکے، سُن کر اور دیکھ کر یقین کیا۔ ابھی بھی موجودہ سائنس  کوشش یکراں میں ہے کہ اس کا یقین اللہ اور اس کی الوہیت پہ مکمل ہوجائے، جو کچھ اللہ نے بنیا ہے وہ انسان پہ ثابت ہو جائے اور وہ اپنی تحقیق بند کردے، مگر یہ تو لامحدود بات ہے۔
سائنس ہی کا کہنا ہے کہ ہم ایک چھوٹے سے سیارے زمین پہ رہتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ابھی آٹھ سورج ان کے زیرمطالعہ ہیں ان میں سے جو سب سے بڑا سورج ہے اس کا نام انٹارس بتایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارا سورج ایک نقطے کی مانند ہےتو پھر ہماری زمین کی کیا حیثیت ہوگی۔
وہ رب العالمین ہے یعنی بہت سارے جہانوں کا رب۔ اس کا علم تو اس کائنات کے وجود سے پہلے بھی مسلم ہی تھا اللہ نے سب سے پہلے حضور پاکﷺ کے نور کو محمد رسول اللہ کے نام نامی سے مخاطب کیا تو آپ سرکار عالی رحمۃ العالمینﷺ کا نور جلوہ گر ہوا اور نورتجلٰی نے کہا لا الہ الا اللہ ، سُبحان اللہ۔ پھر بعد میں تمام انبیاء، اصحابہ، آئمہ، اولیاء، شہداء، صدیقین ، صالحین، مقبولین، ابدال، قطب، غوث اور مقربین کی ارواح کو پیدا کیا گیا۔ سب سے وعدہ لیا گیا کہ میں اللہ تمہارا رب اور یہ میرے پیارے رسول ہیں جو ان کے صراط مستقیم پہ چلے گا وہی میرا قرب لے سکے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جو قانون اور اس پہ لائحہ عمل حضور انور ﷺ نے دیا وہی سب کچھ ہےجس کے تحت ہم فرمانبرداروں میں گنے جا سکتے ہیں، اللہ ہم سے راضی ہے۔
اللہ کے نزدیک جو بات کھلی اور عیاں وہی بات ہمارے لیے پردہ میں اور مخفی ہےوہ تمام اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کیونکہ اسی نے تو یہ تمام چیزیں بنائی ہیں اس کو تو کوئی عار ہی نہیں۔  مثال کے طور پہ ایک بڑھئی نے ایک میز بنایا ہو تو وہ ہی جانتا ہے کہ اس کی بناوٹ میں اس نے سامان اکٹھا کیا اور اس کو کس کس جگہ سے مواد ملا۔ یہ باتیں خریدنے والے اور استعمال کرنیوالے کے لیے خفیہ ہیں۔ وہ تو اللہ ہے تمام جہانوں کا پروردگار، واحد، یکتا۔
انما امرہ اذا ارادا شیئا ان یقول لہ کن فیکون۔
اس کے حکم کے سامنے کسی کو بھی فنا نہیں ہے، چاہے مادہ ہو یا روح۔ آپ حیران ہونگے کہ روح کو کس طرح فنا ہے وہ تو باقی رہنے والی ہے، جس طرح کے قبر میں جسم میں جب جان ڈالی جاتی ہے تو اس شخص کی روح اس کو واپس لوٹا دی جاتی ہے۔ میدان حشر میں ندائے غیبی دی جائے گی۔  لمن الملک الیوم للہ الواحد القھار
اللہ ہی واحد و قھار ہے اس کے علاوہ ہر ایک چیز کو فنا حاصل ہے۔ جسم دنیاوی اور روح آخرت کے لیے ہے۔ لا الہ الا اللہ نے جب ہر چیز کی نفی کردی تو تمام موجودات بھی فنا ہوگئے۔
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ اپنے ایک کلام میں رقمطراز ہیں، آپ فرماتے ہیں
من نیم واللہ یارا من نیم
سرسرم جان جاناں من نیم
میں نہیں ہوں اے دوست اللہ کی قسم میں نہیں ، میں تو اللہ کے ایک راز میں سے ہوں میں نہیں ہوں۔ میرا جسم کوئی وجود اور حیثیت نہیں رکھتامیری کوئی ذات نہیں میں تو ایک راز کا راز اور روح کی روح ہوں میں تو امر ربی سے ہوں وہ جب چاہے مجھے اپنے پاس بلا لے، اگر حکم ہے تو میرے اللہ کا ہے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے اس بات کی پوری وضاحت کردی کہ انسان کی اپنی کوئی بات بھی نہیں ایک اور صوفی بزرگ حضرت شاہ حسینؒ فرماتے ہیں
توئیو تانا تے توئیو بانا روم روم وچ تُو
کہے حسین فقیر سائیں دا میں نا ہی سب تُو
اللہ ہی اندراور اللہ ہی باہر ہے وہ خود ہی سب طرف جلوہ گر ہے۔ اس کے حکم کے  بغیر کوئی ساکت حرکت نہیں کرسکتا اور نا رک سکتا ہے، ہاں یہ بات الگ ہے کہ اس کی کریمی، مہربانیاں اور رحمت بے پایاں ہے عدم سے لے کر اب تک اس کی عطا کی بارش بند نہیں ہہوئی۔
اب بات آتی ہے کہ انسان کی کیا حیثیت ہے۔ انسان کیا ہے اور کہاں سے اس کا وجود بنایا گیا۔ انسان کا وجود ممکنات میں سے ہے، وہ اپنے  وجود میں اللہ کی نعمت کا محتاج ہےانسان کو عدم سے وجود میں لایا گیا ہے، یہ عدم بھی ختم ہو کر رہ جاتا ہے جب صدا لگتی ہے لا الہ یہ انسان اور موجودات کا مقام ہے۔ عدم کیا ہے؟ یہ آئینہ ہے اللہ کا راز ہے اللہ کا، اللہ نے اپنی قدرت کے لیے انسان کو پیدا کیا اور اسے مقام لا الہ دیا، اور جب شروع ہوا الا اللہ تو اللہ ہی ہم میں سما گیا اب اس مقام کے بعد انسان کی کوئی حیثیت تھی بھی تو وہ بھی نابود ہوگئی اب رہ گیا تو صرف اللہ۔
جس نے اس کلمے کے رازوں کو جان لیا وہ نا تہ رزق کے معاملے پہ کوئی لب کشائی کرتا ہے نہ ہی جھگڑتا ہے اس کو معلوم ہے کہ اللہ ہی ہے جس نے اس کائنات کو کھیل کے لیے رچایا ہےورنہ انسان کی حقیقت ایک ذرے سے بھی کم ہے،
مولانا رومی نے کیا خوب کہا ہے
گفتہ او گفتہ اللہ بود
اگرچہ از حلقوم عبداللہ  بود
اللہ تعالٰی کی ذات کریم کہتی ہے جس نے مجھے پالیا تو اس کے میں کان بن جاتا ہوں، آنکھیں ہاتھ بن جاتا ہوں صرف میری قوت اس کو سہارا دیتی ہے۔

انسان کی  حقیقت کا مقام ہی لا الہ ہے انسان جب اس دنیا میں اپنی کھولتا ہے تو وہ اپنے گردوپیش کو اپنی آرزو، خواہش، تمنا،ارادے اور نیت کے عین مطابق دیکھنا پسند کرتا ہے، بعض افراد تو اپنی آرزو کے حصول کے لیے سرتوڑ کوشش بھی کرتے ہیں جن میں عمارت، خوبصورت بیوی، بنک بیلنس اور مستحکم کاروبار شامل ہے۔ اگرہم نواسہ رسول اکرمﷺ حضرت امام حسین علیہ السلام کا کربلہ کا واقعہ دیکھتے ہیں تو حضور نے تو اپنے سارے خاندان اور احباب ، مال، مکان اور کسی کی بھی پرواہ نہ کی۔ آپ طاغوتی قوتوں سے جا ٹکرائے اور بہت سے مصائب کا سامنا کرتے اپنی جان اللہ کے دین کی خاطر قربان کر ڈالی۔
حضرت امام علیہ السلام اگر اپنے تصرفات،امامت اور ولایت سے کام لیتے تو اس کربلہ کے مقام کو گلستان میں نا بدل دیتے۔ ثابت یہ کرنا تھا کہ جو اللہ نے عطا کیا ہے وہ سب اسی پہ اسی کی راہ میں نثار کردو۔ یہ ہے سبق جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے مما رزقنھم ینفقون۔ جو ہم ان کو رز ق دیتے ہیں وہ اسی میں سے خرچ کرتے ہیں۔
حضرت امام علیہ السلام نے تسلیم و رضا کے مقام سے بھی بڑھکر ایسی بلند وبالا مثال قائم کردی کہ مقام رضا بھی پیچھے رہ گیا۔ جب انسان کو کسی بات پر اختیار نہیں تو اس پہ صبر و شکر کرلیتا ہے، اس میں اس کام کو کرنے کی قوت نہیں تو وہ آقا و مولٰی کے سامنے سر خم تسلیم کر دے۔مگر ساری قوت ہوتے ہوئے بھی جب مالک کی ساری ملک اس کی راہ میں قربان کر ڈالی تو وہ مقام عبدیت ہے۔
اللہ نے انسان یعنی ہم لوگوں کو تو ایسی صعوبتوں میں ڈالا ہی نہیں کہ وہ ایسے غم سے گزرے اللہ انہی بندگان با صفا سےراضی ہے جو اس کی راہ میں انکساروعاجزی اور ملوث کے ساتھ رہتے ہیں۔ سورۃ کوثر اس بات کی کھلے عام غماز ہے۔ انا اعطینک الکوثر۔ فصل لربک وانحر۔ ان شانئک ھوالبتر۔ بے شک کہ ہم نے آپﷺ کو کوثر عطا کی اپنے رب کی نماز پڑھاکریں اور قربانی کیا کریں اور بے شک تمہارا دشمن ابتر ہے۔ اب یہاں ایک عطا دوسرا نماز تیسرا قربانی اور چوتھا دشمن کی شکست کا کہا گیا ہے۔ نماز کو تو اللہ کی حاضری کہتے ہیں تو پھر یہ قربانی کا آنا کسی آپسی تال میل کو ظاہر نہیں کرتا،۔نماز کے ذکر کے بعد قربانی یہ کس طرح ہے؟
جو لوگ ہر روز پانچ وقت اس کے دربار میں جاتے اور اپنی حاضری لگواتے ہیں وہی اس کے قریب ہیں، وہ اللہ کے قرب کے صدقے چُن لیے جاتے اور پھر ایسے لوگوں کا قیام، رکوع ،سجدہ، تشہد اور سلام صرف اللہ کی رضا، خوشنودی، حصول قرب کے لیے ہونہ کہ دنیاوی غرض و غایت درکار ہو، ان کا جینا مرنا بلکہ ایک ایک لمحہ اس رب کائنات کے لیے ہو اپنا کوئی نہ پیسہ ہے نہ مکان نہ مال نہ جائیداد اور حتٰی کہ جان کی بھی پرواہ نہ ہو تو وہ کیوں نہ شاہوں میں شمار ہوں۔ وہ پھر اگر شاہ امین شاہ کہلائے تو اس میں کونسی شک کی بات ہے، جو لوگ کہ اپنی زمین جو انہوں نے دین کی خدمت کے لیے خریدی مگر دنیاداروں کی بھیڑ چال کو دیکھ کر ان ہی کو دان کردی، اپنا نام اب مٹنے کو ہے، ایک عامۃ الناس قبرستان میں سوئے ہیں، ایسی ہستیوں کو لاکھوں، کڑوڑوں، اربوں کھربوں اور ان گنت سلام۔
قرآن کریم کی ایک سورۃ العنکبوت میں ارشاد ربانی ہے۔
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا، ان اللہ لمع المحسنین۔
اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد(کوشش کرتے ہیں) ہم انہیں اپنی راہیں بتادیتے ہیں۔
ایک اور جگہ اللہ والوں کا ذکر کرتے چلیں جن سے اللہ راضی ہے۔
رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔
اللہ تعالٰی کی ذات بھی ان ہی کو چن کر ان سے قربان کرنے کو کہتی ہے کہ جو تمہارا ہے وہ ہمارا ہے تم اس کے دعوے دار نہیں ہو وہ اللہ کے اس پیغام کو بہت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ایسی حقیقتوں سے پردہ ان ہی لوگوں کا اٹھتا ہہے جو عمل کے غازی ہیں نہ کہ چار کتابیں پڑھ کر یا کسی کے علم کی جاسوسی کرکے یہ کام کرلیا جائے۔
اکثر لوگ یہ بات پوچھتے ہیں کہ ہمیں تو رب نہیں ملا ہمارا کام روزگار بھی ایسے ہچکولے کھا رہا ہے۔ کب ہماری مدد ہوگی؟ کب ہم اپنا مکان بنا پائے گے ؟ کب اپنے بچوں کا اچھا رشتہ کر پائے گے؟ مزید شکایتی انداز میں کہتے ہیں کہ چلیے صاحب ہمارا تو گزارہ ہوگیا اب ہم اپنے بچوں کا کیا جواب دیں وہ تو اس دوڑ میں ہمارے ساتھ نہ پسے۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ کیا تم نے وہ ذوق و شوق والی نماز ادا کی؟ کیا تم نے رب سے جی لگایا؟ کیا تم نے کبھی سوچا کہ مر کر اسی کے پاس لوٹنا ہے؟ تمہاری نیکی یہ تھوڑی ہے کہ تم کسی کو کچھ نہیں کہتے مان لیتے ہیں کہ تم بہت سادہ دل ہو کسی کی غیبت نہیں کرتےکسی سے اوٹ پٹنگ ملتے نہیں ہر وقت مراقبہ میں رہتے ہو ، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ تم گوشہ نشین ہو، تو صاحب سُن لیجیے یہ راہبوں کی سی زندگی نہیں چلتی۔ اسلام نے ایسی زندگی سے منع کیا ہے، جو کُل کائناتوں کا مالک ہے جب تم اس کے سامنے اپنا سر نہ جھکاو گے تو وہ فرشتوں کو کس طرح جتلائے کہ یہ میرا عابد ہے۔ اسلام کے آنے سے پہلے کے عیسائی راہب بھی بہت پارسا تھے ان میں سے کافی اپنے نفس کو قابو میں رکھتے، ان کے پاس انجیل، زبور اور توریت کا علم تھا، ان کو پچھاڑنا اور ان سے مذاکرہ علمی ایک دشوار گذار کام تھا۔
حضور سیدنا محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد نے ہر گُچھی سلجھا دی۔ سُبحان اللہ آپﷺ کے جلووں نے دنیا کی گرد کو مٹا ڈالا۔ آپﷺ نے اپنے ہر ایک صحابی اور صحابیہ بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے اللہ کے پیغام کو عام کردیا اور اس کو اتنا آسان بنادیا کہ کسی بھی شخص کے لیے اس کو اپنا آسان ہوجائے، سوائے شیطان اور اس کے چیلوں کے جو اللہ کی نافرمان قوم ہے۔ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نما ز اور اللہ کی بندگی پر بہت سی احادیث ہیں جو اب ہر قاری کے مطالعہ کے لیے دستیاب ہیں ، بس معاملہ ہے تو عمل کو شروع کرنے کا۔     
اللہ راضی ہے تو اپنے ساجدوں سے جو اس کے آگے زیادہ سے زیادہ فرضی نمازوں کے ساتھ نفلی نماز ادا کرتا ہو۔ وہ کبھی بھی رزق کی کمی سے ناراض نہیں ہوتا، یہ رزق کا وعدہ تو اس نے پتھر میں رہنے والے کیڑے سے بھی کیا ہے۔ رہا سوال علم کا تو وہ انسان کی اپنی ذاتی چاہت ہے جتنا حاصل کرے گا تو اس کا شعور بڑھے گا۔ ابب آپ کے اندر یہ سوال بھی آ سکتا ہے کہ کیڑا تو عبادت نہیں کرتا۔  
اسی زمرے میں آپ کو ایک حکایت سناتا ہوں کہ ایک بار حضرت داود علیہ السلام بیٹھے زبور پڑھ رہے تھے آپ سرکار نے ایک سُرخ رنگ کے کیڑے کو دیکھا جو مٹی سے نکلاتو اپنے تئیں دل میں خیال کرنے لگے کہ اللہ نے اس کو کس لیے بنایا،اللہ نے کیڑے کو زبان دی تو وہ بول اُٹھا اور عرض کرنے لگا،
اے اللہ کے نبی! اللہ نے میرے دل میں ڈال دی کہ میں دن میں ہر روز ایک ہزار بار یہ پڑھا کروں
سبحان اللہ والحمد للہ و لا الہ الا اللہ واللہ اکبر
میری رات بھی اس عمل سے گزرتی ہے۔
اللہ سے ڈرو توبہ کرواور اللہ ہی پر بھروسہ رکھو۔
وہ تمہارے ہر رزق کا مالک ہے۔
دنیا میں دو ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں ایک جو باجرات ہیں اور دوسرے متوکل۔
باجرات ادمی اللہ کی عبادت میں کامیاب رہتا ہے وہ عبادت کی غرض سے اپنا فرض ادا کرتا ہے۔ اور کام کرنے اور روزگار کمانے میں آگے رہتا ہے۔اسی طرح توکل کرنے والا کا احوال ہے۔ یقین کامل اور اور اعتماد سے ہی کامیابی ملتی ہے۔
اصل میں نفس کا عارضہ ایسا ہے کہ یہ انسان کو بے صبر اور غیر اطمینان حالت میں لے جانے کا ذمہ دار ہے۔ جس شخص کا نفس جتنا مضبوط ہوگا وہ اتنا ہی لوگوں کے ساتھ اپنی امیدیں وابستہ کرلیتا ہے، اس کا اپنے رب پر یقین کم ہوتا چلاجاتا ہے۔ یہ نفس کی گھاٹی میں پڑے ہوئے لوگ کم ہی اللہ کے راستے کو چنتے ہیں۔ کوشش کرنا جائز ہے مگر کسی کی مجبوری کا غلط استعمال ٹھیک نہیں۔ اللہ کے گھر ہی سے دعا کی جائے وہی انسان کو راستہ دکھاتا ہے۔ مدد کی طلب جائز ہے جن لوگوں کو اللہ نے اپنی آسودگی عطا کی ہے وہ اگر اپنے کی مدد کرتے ہیں تو وہ اجر اللہ سے پائے گے ، اسی لمحے ان کے گناہوں کو جو انجانے ہوئے ہیں ان کو اللہ اپنی بے شمار رحمتوں سے بھر دے۔
جو شخص کے نفس کی گھاٹی سے بچا ہوا ہے وہ نہ تو ذلیل و خوار کیا جاتا پے اور نہ ہی رزق کی تنگی کا شکار ہوتا ہے۔ ہمارا نفس ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہے جس کو اگر ہم قابو میں نہ رکھیں تو وہ بے لگام کی مانند بھاگتا ہے، یہ نفس امارہ ہماری تباہی کا باعث ہے اگر اس کو سمجھایا نہ جائے تو اس کو لگام ڈالنی مشکل ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف اللہ کی ذات فرماتی ہے کہ جو میرا ہوگا وہ میری طرف آ ہی جائے گا۔ نفس کا ہماری جان کے ساتھ لگانا ہمارا امتحان لینا ہے کہ کون اللہ کے راستے کوچنتا اور کون شیطان کے راہ کا ساتھی ہے۔ یہ دنیا اس ضمن میں ایک بھول بھلیاں ہے۔ جس میں ایک راہ غلط ہوگئی تو آگے آنے والے کئی راستےبند ملے گے۔ اور راستہ ایک ہی ہے اور وہ صراطِ مُستَقیم نبی مُحترم سید المُرسلین ﷺ کا۔
باقی اللہ کی ذات سورۃ البقرہ میں ارشاد کرتی ہے۔
ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ۔۔۔۔۔۔۔۔ وانا الیہ راجعون۔
اور دیکھو ہم تمہارا امتحان کریں گے۔کسی قدر خوف سے فاقہ سےاور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سےاور اپ صابرین کو بشارت سنا دیجیے جن کی یہ عادت ہے کہ ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہےتو کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
ان کے علاوہ اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جن سے اکثریت اپنے ہی رشتہ داروں کو ایذا پہچانے میں چوکتے نہیں۔ ان میں کینہ، حسد، بغض، غصہ ، برداشت کا نہ ہونا، بُخل، حرص، چغل خوری، غیبت، حرام خوری، زنا،غرورو تکبراور ناحق مال کھانا جیسی باتوں سے بھی اللہ کی ناراضی انسان اپنے اوپر لے لیتا ہے۔
میں دعا گو اپنے اس ہر قاری پہ کہ اللہ ہمیں اپنا قرب جو سجدہ میں مخفی ہے رکھے رہے۔ اللہ نے جس سے نماز چھین لی اس سے وہ واقعی ہی ناراض ہے۔