Thursday 20 April 2023

DROOD PAK

اللہم صل علی سیدنا محمد وعلی ال سیدنا محمد واصحاب سیدنا محمد و بارک وسلم علیہ از حضرتشاہ محمد امین شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ

Monday 20 March 2023

جو نا جان پہ کھیل جائے وہ اس طرف نا ائے

جو نہ جان پہ کھیل جاے وہ نا اس طررف کو ائیں کہ دیار عاشقی میں راہ واپسی نہیں ہے اس شعر میں شاعر نے روحانیت کے جو انمٹ موتی جڑ دیے ہیں وہ بڑے قابل دید ہیں اور ان موتیوں کواپنی زندگی کا حصہ بنا لینا بڑے شرف کی بات ہےمزید یہ کہ ان کو زبانی ازبر یاد کرلینا کسی اب حیات سے کم نہیں۔ اصل روحانیت جس کی مثال ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں سے ملتی ہے اسی شعر کی عملی تفسیر ہے۔ جس طرح اج کل کے شخص نے روحانیت کو ارام و سکون دولت اور اپنا عیش حاصل کرنے کا وطیرہ سمجھ لیا ہے مگر ایسی بات نہیں ہے۔ کچھ عاملوں نے سادہ لوگوں کی فہم و فراست کو یکسربدل کر رکھ دی ہے۔ ہر شخص محنت نہیں کرنا چاہتا بس کیا ہے ہاتھوں پہ سرسوں جمانے کا درخواستگزار بنا ہوا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ روحانیت میں کچھ نہیں، اس میں جو ذکر اور وظائف دیے جاتے ہیں ان میں کوئی کمی نہیں ہے، ہم مرید ہیں یا عام مسلمان ہمیں تو ہر حالت میں آپ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنی ہے۔جو بات شرع کو اپنا کر ملتی ہے اس کا کوئی جوڑ نہیں ،بات ا جاتی ہے اصلاح کی جو شریعت اختیار کرکے ملتی ہے۔ عام ادمی مرید ہوتا ہے تو اس کو یہ بات جاننی ہے کہ جس جماعت سے وہ منسلک ہونے جارہا ہےوہ کوئی جادوگروں کی جماعت نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم فلاں پیر صاحب کے بیعت ہوئے۔ اب لفظ بیعت کے کیا معنی ہیں جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ لفظ بیعت ' بیع' سے نکلا ہے جس کا مطلب خریدنا اور بیچنا ہے۔ کسی شیخ کے ہاتھ پر اپنے دینی و دنیاوی گناہوں سے توبہ کرنا اور عہد کرنا کہ ائندہ گناہ نہیں کرے گا۔اس کے علاوہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے گا اور جتنے بھی اخلاق رذیلہ ہیں ان سے اجتناب کرتا رہے گا۔اپنے ہر وسوسے اور خدشات کو اپنے راہبر کے روبرو پیش کرے گا، شیخ کی تعلیم کردہ عبادت پر عمل پیرا رہے گا۔ اپنے شیخ کی صحبت کو اختیار رکھے گا،ہفتے میں ایکبار جائے یا مہینہ میں ایکبار یا پھر سال میں ایکبار ضرور حاضری دے گا۔ صحبت شیخ سے مرید کے دل پہ لگا زنگ دھل جاتا ہے ،ادب کا دامن نا چھوڑے اگر شیخ کی کوئی بات اس کو سمجھ نا ائے تو اعتراض نا کرے کیونکہ اعتراض اس کے حق میں کسی ہلاکت سے کم نہیں۔ مرید خریدتا تو اللہ کا ساتھ ہے مگر اپپنا اپ نہیں بیچتا۔ اس کا نفس جس میں لالچ حرص بھری پڑی ہے اس کو اپنے راہبر سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے لیکن اس نفسانی کام کے چھپانے میں وہ کامیاب نہیں ہوپاتا۔ ایک ضدی بچے کی طرح اپنی ہٹ دھرمی پہ لگا رہتا ہے۔ اصحابہ کرام نے اسلام کے اوائل میں اور بلکہ جب تک اسلام مکمل نا ہوا کافرین مکہ کی شوروں کا شکار رہے۔ یہ بات سچ ہے کہ اللہ کی راہ کانٹوں سے پر ہے۔ ہمارے پپپیارے نبی علیہ الصلواۃ والسلام کو کیا کیا مشکلات درپپیش ہوئیں پورا عالم اسلام اس کا گواہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجے گئے اپپ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم دعا فرمااتے تواصحابہ کرام کو اذیتوں سے نجات مل جاتی اس میں کیا حکمت تھی ؛ آئیں کچھ اصحابہ کرام رضوان اللہ علییہم اجمعین کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں؛ اس سے پہلے کہ ہم اصحابہ کرام کے بارے میں بیان کریں تو جو باعث کائنات ہیں ان ذی وقار کا ذکر نا کرنا گناہ کبیرہ ہے میری مراد تاجدار دو جہان سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم ہے۔ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کافریم اور مشرکین کی بہت سی اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کیا۔ کافر اپپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے شریر لڑکوں کو لگا دیتے اور وہ دیوانہ کی اوازیں لگاتے۔ راستے میں کانٹے ھینکتے اور طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے۔ اسی طرح وہ اصحاب کرام کو بھی تنگ کرتے کہ اللہ کو ایک نا مانیں اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات نا سنیں۔ اصحابہ کرام کو جن تکالیف اور اذیت سے گزرنا پڑا اج کا مرید تو بالکل ازاد ہے۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو کوئلوں پہ لٹا کر ایک ادمی ان پر کھڑا کردیا کہ ان ہی کے جسم کی چربی کی رطوبت سے کوئلے بجھ گئے، ایک موقع ر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی کمر دیکھی تو وہاں سفید نشان تھے اپ امیر المومنین نے اس بابت دریافت کیا تو حضرت خباب نے وجہ بتائی اس ہ حضرت عمر نے اپ کی کمر کو چوم لیا اور زاروقطار رونے لگ گئے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو بالو پر چت لٹا کراتنا مارا جاتا کہ اپ شدت درد سے بے ہوش ہوجاتے۔ اپ ہی کی والدہ محترمہ بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کو کفار نے اس زور ست نیزہ مارا کہ اسی وقت شہید ہوگئی۔ ان للہ و انا علیہ راجعون۔ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ بھی کفار کی مار کھاتے ہوئے شہید ہوئے۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ بھی مار کھاتے ہوئے بے ہوش ہوجاتے۔ حضرت بلال حبشی نے مشرک سردار امیہ بن خلف کے تمام مظالم کے باوجود کلمہ حق کہنے سے باز نا رہے۔ حضرت ابو طالب نے کفار مکہ کے سرداروں کےتمام تر دباو اور دھمکیوں کے باوجود نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدد و نصرت نا چھوڑی ایک موقع پر جب کفار ایک حد سے بڑھ گئے تو حضرت ابو طالب نے اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دین حق کی تبلیغ پر نظر ثانی کتنے کو کہااپ صلی الللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا جان اللہ کی قسم اگر قریش میرے ایک ہاتھ سورج اور دوسرت ہاتھ میں چاند لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے اس فرض سے باز نا اونگا اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان الفاظ نے حضرت ابو طالب کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا اور اپ نے انتہائی جوش میں انکر یہ کہہ دیا جاو میں تمہارے ساتھ ہوںجب تک میں زندہ ہوں کوئی تمہارا بال بھی بھیکا نہیں کر سکتا۔ جب مسلمان مدینہ منورہ ہجرت کرنے لگے تو کافروں نے کہ تو انا سارا مال و اسباب چھوڑ کر جا سکتے ہو تو تمام اصحابہ نے دنیا کی دولت کو لات مار کرایمان کی خاطر مدینہ چلے گئے۔ حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی بنو ہاشم ساری جاگیر چھوڑ کر مدینہ ہھرت کی، اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود دنیاوی مال و اسباب کو راہ حق میں قربان کردیا۔ واضح رہے کہ کفار مکہ کا ظلم صرف غریبوں اور غلاموں تک ہی محدود نا تھا بلکہ اس میں امیر تاجر اور رئیس بھی شامل تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق جو مکہ کے ممتاز اور متمول ادمی تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ایک مرتبہ ان کو اتنا مارا کہ اپ سر پہ چوٹ لگنے سے خون میں لت پت ہوگئے۔ حضرت عثمان غنی کے چچا نے رسیوں میں جکڑ کر اپ کو بہت مارا۔ اسی طرح حضرت زبیرنم العوام کے چچا اپ کو چٹائی میں لپیٹ کر اپ کی ناک میں دھواں دیتے تھے۔ اس وقت مسلمان مکہ کے مال و دولت اور ارام و اسائش کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں جلا وطنی اختیار کی اور مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ دنیاوی مال و دولت کی محبت سے پاک دل ہی دین محمدی صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ و بارک وسلم علیہم کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دنیاوی مال و دولت کو مردار قرار دیا اور اس کے طلب گاروں کو گمراہ قرار دیا۔ حضرت ابو ذر غفاری نے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مسلمانوں میں مال و دولت اکٹھا کرنے کے رحجان کی حوصلہ شکنی فرمائی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےنفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کو جہاد اکبر قرار دیا۔ حضرت عمر فاروق نے دنیاوی مال لوٹ مار سے اکٹھا کرنے والوں کوکتوں سے بدتر قرار دیا ہے۔ حضرت عثمان غنی نے اپنے مال و اسباب سےاسلام کی خدمت میں خرچ کر دیے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے بھی اپنے مال سے کئی غلاموں کو ازاد کروایا۔ سابقون اولون اصحابہ کرام نے تمام عمر دنیاوی مال و اسباب کو خاطر میں لائے بغیر دین حق کی تبلیغ و اشاعت کی۔ یہ تمام با صفا ہستیاں جنہوں نے حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اورپیروی کرکے بہترین زندگی گزاری، اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع و اطاعت کو من و عن اختیار کیا۔ عام مسلمانوں کا یہ طریقہ ہے کہ اج مرید ہوئے اوردوسرے ہی دن لگے تان لگانے کہ میرا یہ کھو گیا میرا وہ کھو گیا۔ دیکھیں ہم جن کے پیروکار ہیں وہ اپنی زندگیوں میں کیا اثاثہ چھوڑ کے گئے ہیں۔ حضور داتا گنج بخش ؒ کو ہی دیکھ لیں اپؒ کی ساری زندگی اسلام کی خاطر تھی۔ کرامت و معجزہ ہمیشہ اس کو دکھایا جاتا ہے جو دیکھ کر مانے۔ اولیاء اللہ ؒ کی زندگیاں رب کو راضی کرنے میں ہی گزرتی ہوئی دیکھی گئی ہیں۔ یہ با صفا اولیاء کرام ؒ ساری ساری رات اللہ کے حضور کھڑے رہ کر بھی اس سے ڈرتے ہیں۔ وہ کسی نے سچ کہا ہے نالے جان پیاری تینوں نالے لبھیں قرب سجن دا خدمت ولوں جی چراویں نالے چا مخدوم بنن دا نالے مٹھی نیندر سوویں نالے شوق دیدار کرن دا تن وچ پھسیا رہنا وے اعظم تے سودا کرناں اے تن دا To be continued……….. بسم اللہ الرحمان الرحیم