Wednesday 5 August 2015

why am I on earth ?

the answer of Question is as follow
Q. Why did God send us the creation to the Earth and did not keep us with in Heavens?
میں نے کافی لوگوں سے سوال کیے کافی نے ان کے جواب بھی دیے پر وہ تمام باتیں کچھ حد تک درست تھیں پوری طرح نہیں۔ اگر ہم باقی اسمانی کتب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ علیہ والہ وسلم کی رسالت کو مان لینے ہی نہیں بلکہ اس پہ پختہ تیقن کا حکم ہے اور یہ حکم انبیاء کرام کو دیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے فنا سے بقا کی طرف زندگی پائی ہے تو اس کا پہلا کام میرے نبی کی رسالت پہہ ایمان لانا ہے۔ ہر نبی کو معبوث کیا تو اسے اس کی رسالت دی مگگر یہ حکم نامہ دے کر کہ اگر اس کے ماننے والے اگر نبی مکرم ہادی مرسل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دور پا لے تو ان پہ ایمان لاے بغیر کچھ ایمان نہ لاے۔تو جب نبیوں کا انا کچھ معنی نہ رکھتا ہو۔وہاں کس کی جاہ ہے کہ ایسے ارفع اور اولی کے بارے میں کوئی لب ہلا سکے۔ وہ اصل معموں میں خدا کا جایا ہے۔
خدا روٹھ جائ تو سجدے کروں
جو صنم روٹھ جاے تو پھر کیا کروں
اللہ اپنے محبوب کے لیے تو مخفل سجانا کوئی عار نہیں سمجھتا تو اس نے تو سارا جہاں بنایا پتا نہیں کیا کچھ کیا ہے اتنی مخلوق بنائی جتنی کہ انسانی انکھ نے دیکھی یہ نہ ہو۔ یہ ہے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور پذیرائی اس کو کہتے ہیں عشق اللہ کہ اس کو اپنے پیارے سے محبت کے لیے کسی بھی اشتہار کی ضرورت نہیں ۔ اور نہ ہی کسی کو بتانے کی خواہش ہے۔
وہ خود قران میں کہتا ہے کہ
بے شک اللہ اوار اس کے فرشتے نبی پہ درود و سلام بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو تمم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔
معلوم نہیں یہ حقیقت کہ رب کی ذات اقدس کب سے یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو وہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ انداز کرم کر رہی ہے سبحان اللہ سبحان اللہ ۔
عالم خضرات اس بات کو جانتے ہیں کہ اللہ کی  ذات اقدس نے خضور عالی کے نور سے ہی ساری کائنات کی تکلیق کی ہے سب کو اسی ایک نور سے پیدا کیا ہے۔ مزید براں یہ ہے کہ اللہ اور خضور عالی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پتا نہیں کتنی دیر مقام احد پہ رہے۔ دونوں کے عشق کی انےہا دیکھیے کہ ان کا اپس کا عشق و وارفتگی کن حدوں کو چھو چکی ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔  انسان نے نہ تو کبھی اس چرح کا عشق کیا ہے اور نہ ہی کبھی اسے ایسے تجربے کا احاطہ ہوا ہے۔ جس خدا نے ساری کائنات کو اپنے محبوب کے لیے بنایا ہو اس کا کیا کہنا کہ وہ کتنی وسیع طاقت کا مالک ہے۔
میں نے جن لوگوں سے سوالات کیے اور انہوں نے جو جوابات دیے وہ ذرا ملاخظہ کریں۔
خالد صاحب / میرے خضور ہی جانتے ہیں کہ اس کا کیا جواب ہے میں نہیں جانتا۔۔
اویس۔ استاد/ خدا کہتا ہےا کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔دوسرا جواب/اس لیے بھیجا کہ زمین پہ زندگی کے اثرات ہیں۔
اویس۔سٹوڈیٹ/ وہ انسان سے ستر مائووں سے زیادہ پیار کرتا ہے اس لیے اس نے اپنی اولاد کو دور رکھا ہو اہے۔ تاکہ اس کے پیار میں مزید اضافہ ہو۔
اطہر۔ سٹوڈنٹ/ کیونکہ اللہ کو ہم سے بہت پیار ہے اس لیے ہم کو اپنے سے دور رکھا ہو ہے۔
حافظ عبدا لباسط/ ہم انسان اس قابل نہیں کہ اس طرح کے وسالات کا جواب دے سکیں۔
احمر سٹوڈنٹ/ ہم شاید اس قابل نہیں کیونکہ گناہگار ہیں اسی لیت اپنے پاس رکھنا نہ چاہتا ہو اس لیے ہمیں اپنے سے دور رکھا ہے۔
عقیل۔سٹوڈنٹ/ اللہ نے یہ دیکھنے کے لیے ہم میں کون اپنے رب کی تسبیح کرتا ہے اور کون دنیاوی کوشیوں میں اپنا وقت گزارتا ہے۔ انسانوں کو ازمانے کے لیے بھیجا ہے مفت میں جنت نہیں ملے گی۔
اسی طرح بہت سے جواب ائے جن کا جواب گناہ کے اور ثواب کت بارے میں تھا۔
MY ANSWER
ایک وحدت پاک اور جوہر اعجاز سے ہی ساری کائنات کی تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی نور نبی پاک محترم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
جب بھی اللہہ نے کسی مخلوق کو بنایا تو پیدا کرنے کا مطلب اس میں زندگی بھرنا بالکل نہیں جب بھی کسی کو بقا دینا اللہ نے مقصود رکھا تو اس کو ایک جسم میں قید کیا۔ خضرت ادم علیہ السلام کی روح پاک کو بھی جس قالب میں رکھا گیا وہ مٹی سے تھا اللہ کو یہ مقصود تھا کہہ وہ جنوں اور فرشتوں کیی پیدائش کے بعد ایسی مخلوق کو لائے گا جو ایک نفس  بھی رکھتی ہو اس کی بناوٹ نور نہ ہو فرشتوں کی طرح نہ ہو بلکہ اپنی قدرت کاملا سے انسان ہی اس کے نبی پاک عالیہ کے اسوہ حسنہ پہ عمل پیرا ہو اور اسی لیے انسان کو صورت محمد پر ہی عبادت کا سلوک دیا۔ اب جب انسان کا قاالب بنانے کے لیے جو گوندھنی لی گئی وہ اسی مٹی کی  تھی جس پہ اج ہم ہیں اس ا نام پہلا نام کیاٹک پلیس تھا یعنی مایوسی اور اداسی کی جگہ۔ اسی کیاٹک کی چیزون سے انسان کے قالب کو بنا کر اس مہں خدا نے اپنی روح اور نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھا جب اپ سرکار کا نور پیدا کیا گیا تو اس کے چار حصے کیے گئے۔ اس سے پہلے نور مصطفی سلی اللہ علیہ وسلم کو دس ہزار سال تک اس کو قرب خاص میں رکھا۔ اس کے چار حصوں سے ایک سے عرش، دوسرے سے کرسی تیسرے سے حاملان عرش اور چوتھے کو بارہ ہزار سال تک مقام محبت مین رکھا۔ اسی طرح اس چوتھے حصے کو تقسیم کر کے ایک سے قلم دوسرے سے لوح اور تیسرے سے جنت کو تخلیق کیا۔ پھر اس چوتھے حصے کو مقام خوف میں بارہ ہزار سال تک رکھا۔ اس کے بعد ملائکہ سورج اور چاند کو بنایا اور چوتھے نوری حصہ کو بارہ ہزار سال تک مقام رجا میں رکھا۔
اپنے نبی مکرم کے ساتھ یہ والہانہ عشق کہ اس کے نور کو اتنی بار تقسیم کرنے کے باوجود بھی وہ کائنات کی تخلیق کرتا رہا۔ کسی اور چیز کا سہارا لیے بغیر وہ اتنی وسیع حکومت کا مالک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ سبحان اللہ۔ واللہ اعلم
جب چوتھے حصے پر نظر التفات کیا تو اس سے عقل ، علم و حلم اور توفیق و عصمت کو بنایا اور چوتھے حصے کو مقام حیا میں رکھا۔ اس خاص مقام پہ انکر بہت خاص الخاص نظر کی تو حیا سے ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرے ٹپکے جن سے انبیائ کرام کی روحوں نے جنم لیااور جب ان انبیا کی ارواح نے وجود میں انکر سانس لیا تو اولیا اتقیائ اور صالحاء کی ارواح نے جنم لیا۔
خضور علیہ الصلوۃ ولسلام کے نور کا چوتھا حصہ  ہی حضرت ادم علیہ السلام کی پیشانی کا حصہ بنا جو اخر میں اپ سرکار سلی اللہ علیہ وسلم پہ ہی اختتام ہوا۔
زمین پہ پہلے جنوں کو اباد کیا گیا تو وہ غلط کاریوں میں پڑ گئے لہذا ان کی دننیا کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ اور ان کی جگہ ہم انسانوں کو ایک موقع دیا گیا ہے اب دیکھنا تو یہ ہے کہ کون بنی ادم اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرتا ہے درودو سلام میں پہل کرتا ہے کہ ایک خاکی کیا کرتا ہے نوریوں کے مقابلے مہن۔ فرشتوں نے بھی تو اعتراض کیا تھا کہ جس زمین کو ہم نے پاک کیا تو نے وہاں اب نفسانی کو بھیج دیا جو قتل و غارت کرے گا۔ مگر نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے کرشمے کسی کے مختاج نہیں/