Thursday 31 December 2015

the holy prophet pbuh


اللہ تعالٰی نے پوری دنیا ئے عالم میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام بھیجے جن پہ صحیفے اور وحی کے ذریعے احکامات الہٰی اُترے۔ ان میں سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے 315 پہ حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے۔ لیکن ان 315 میں سے 311 پہ الہامی کتابیں نازل نہیں ہوئیں۔ صرف چار پہ الہامی کتا بیں نازل ہوئیں۔ بعض انبیاء کرام پر صحیفے ایک ہی دفعہ کی قسط میں نازل ہوئے۔
حضرت سیدنا داود علیہ السلام پر زبور،حضرت سیدنا موسٰی علیہ السلام پر توریت،حضرت سیدنا عیسٰی علیہ السلام پر انجیل اور حضرت سیدنا محمد مصطفٰی پر قرآن نازل کیا گیا۔حضرت داود، موسٰی اور عیسٰی علیھما السلام کا تعلق قوم بنی اسرائیل سے تھا جو مصر اور فلسطین میں آباد تھی۔آپ سرکار دو عالم کا تعلق بنی اسماعیل سے تھا جو سعودی عرب اور خلیج فارس میں آباد تھے۔ پہلے نبیوں پر آسمانی صحیفے اور دوسرے الہامی پیغامات رہتی دنیا میں حفاظت کے ساتھ ہم تک نہ پہنچ پائے اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی اپنی ذاتی تحریفات ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو قرآن مجید فرقان حمیدباقی تین کتابوں کی تصدیق کرتا اور گواہی دیتا ہے کہ تمام انبیاءکرام علیہ الصلوٰۃ ولسلام اللہ کی طرف سے وحدت کا ہی پیغام دینے کے لیے ہی معبوث کیے گئے۔ آپ ان سب نبیوں کا مجموعہ تھے۔ اسی لیے تو آپ کا لقب سید الانبیاء ہے۔ سب انبیاءکرام علیھما السلام سے یہ گواہی لی گئی کہ آپ نبئی آخرالزماں ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس پر سب نے اپنا سر خم تسلیم کیا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے خود اپنی قوم سے کہا:
' میرے بعد ایک رسول آئے گے جن کا نام احمد ہوگا۔مگر لوگ ان کے بارے میں کہیں گےکہ یہ تو صریح جادوگر ہیں۔ ہر ایک معبوث ہونے والے نبی اور رسول نے آپ ہی کی شہادت دی اور وعدہ لیا کہ جو کوئی آپ کا زمانہ پائے تو آپ پہ ضرور ایمان لائے ورنہ اس کا دین نا مکمل ہو گا۔ قرآن کو حضور نبی اکرم پہ نازل ہوا جو 22 سال 2 ماہ اور 22 دن کے عرصہ میں مکمل ہوا۔ اس کی پہلی آیت ' باسم ربک الذی خلق۔ تھی اور آخری ' الیوم اکملت لکم دینکم ' تھی۔ یہ 611 سے لے کر 633 کے عرصہ میں نازل ہوتا رہا۔ اس میں 30 پارے،114 سورتیں، 540 رکوع، اور 6666 آیات ہیں۔ آج قرآن اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اس میں زندگی کے تمام پہلووں پہ سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور پوری بنی نوع انسانیت کے لیے ایک مکمل ہدایت ہے۔ قرآن کو عربی زبان میں اتارا گیا جو کہ دنیا کے 22 ممالک کی زبان ہے۔ اس قرآن کو اتارنے سے پہلے ہی اللہ نے پہلی تین کتابیں آسمان پر اٹھالیں ہیں۔  قرآن کے حروف روحانی تصرف اور تاثیر سے پُر ہیں جن کے لطف و سرور کا کوئی بھی جواب نہیں۔ قرآن نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ساری آنے والی دنیاوں کے مسائل کا احاطہ کر کے ان کا حل بھی پیش کردیا ہے۔ کئی ایک جگہوں پہ قرآن ہی میں تاکید کی گئی کہ اس یعنی قرآن کو خوب حاموشی کے ساتھ سنا کرو تاکہ اللہ تم پہ رحم کرے۔اس کتاب الہٰی میں باقی تمام نبیوں﷽ کی حیات طیبہ اور دیگر اہم موضوعات کے اعتبار سے بحث موجود ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد تک تمام واقعات کی تصدیق و تردید بھی ملتی ہے۔اس میں مکی اور مدنی سورتیں ہیں۔ جن میں مومنین کو تسلی دی گئی کہ وہ پریشان نہ ہوں اگر ان لوگوں نے اپنے رسول اکرم کا سچے دل اور نیت سے ساتھ دیا تو وہ دنیا و مافیہا میں جزا ہی کے حقدار ہیں۔ جبکہ منافقین، مشرکین اور کافروں کو ان کے انجام سے ڈرایا گیا ہے اور ان کو بار بار اسلام کو ماننے کے لیے کہا گیا۔ قرآن میں ہر طرز فکر مثال کے طور پر معاشی، معاشرتی،سیاسی، اخلاقی، نفسیاتی، عمرانی، باغبانی، زرعی، گھریلو یا کوئی بھی ہو چاہے حیاتیاتی ہو یا جنسی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
عرب کا جغرافیائی محل وقوع۔نبوت سے پہلے کے حالات
ملک عرب دو پہاڑوں ابو قبیس اور ابو قعیقعان میں گھرا ہوا ایک صحرائی ریگستانی علاقہ ہے۔ آپ سے پہلی امتیں تجارت کے لیے جو تجارتی راستے اپنے استعمال میں لاتیں تھیں ان میں عرب کے راستے بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ یہ سلسلہ کچھ یوں تھا کہ عرب کے جنوب میں سلطنت حبشہ، شمال میں سلطنت روم، مشرق میں سلطنت خلیج فارس اور مغرب میں افریقی ریاستیں ہیں۔ اگر ہم عرب کے شمال کی جانب دیکھے تو جتنے بھی تاجر عرب اور جنوبی ایشیا ء میں داخل ہوئے وہ سب کے سب اس راستہ سے آئے جیسے کہ برطانیہ۔۔۔ فرانس براستہ جرمنی اور وہاں سے اٹلی۔۔۔۔ البانیہ۔۔۔ یونان۔۔۔۔ ترکی۔۔۔ شام۔۔۔ عراق سے ڈائریکٹ سعودی عرب اور یہاں سے جنوب میں یمن اور حبشہ ہے۔ انہی راستوں پر چلتے ہوئے یہ تمام یہود اور عیسائی اپنی تجارتی سر گرمیوں کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ لہذا ان لوگوں کو تحفظ کی غرض و غایت بھی پیش آتی تو وہ انہی عرب کے سرداروں سے رجوع کرتے جن میں حضرت عبدالمطلب کے نام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اس وقت آب زم زم کی دیکھ بھال پر مقرر تھے اس کے علاوہ خانہ کعبہ کی دیکھ بھال بھی آپ کی ذمہ داری تھی۔ جس کو کہ آپ نے بہت ہی احسن طریقے سے مکمل کیا۔ان تاجروں اور راہگیروں کو مکہ کے قرب و جوار میں رہنے والے بدو اکثر لوٹ لیا کرتےجس کی وجہ سے لوگ بے سرو سامان ہو جاتے۔ عرب کا شروع ہی سے پناہ دینے اور حفاظت خون ومال میں شامل تھی۔ انہی تاجروں اور راہگیروں کا یہ خیال ہوا کہ وہ سب کسی نہ کسی طرح ملک یمن پہ قابض ہو جائیں۔
ملک یمن شروع ہی سے اپنی زمینی زرخیزی اور حسن و جمال کی بدولت اپنی مثال آپ تھا تو ہر ایک طاقتور اس پر حاوی ہونا چاہتا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں ایک ملکہ شیبا کے دور حکومت میں یہاں کی رعایا بہت خوش و خرم زندگی میں آباد تھی۔بلکہ اس ملکہ سے کہیں پہلے اسی ملک یمن میں ایک ڈیم تھا جس کو مارب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ سباآیت  نمبر 16 میں اس بند یعنی ڈیم کو سیل العرم کہا گیا گیا ہے۔ حبشہ کے رہنے والے ایک عیسائی بادشاہ نے اس کو فتح کیا تو وہاں ایک چرچ بنوایا اس نے اپنی رعایا کے لوگوں سے بھی یہ کہا کہ ان کو مکہ حج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اب حج یہیں کریں اس بات پر یمن کے لوگ اس سے بغاوت کرنے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہمسایہ طاقتوں سے مدد و اعانت کو بھی طلب کیا۔ اس سلسلے میں خلیج فارس کی حکومت سے مدد مانگی گئی کیونکہ دشمن اپنی فوج اور کمان میں زیادہ تھااس سارے معاملے کی بھاگ دوڑ میں حضرت عبدالمطلب کاکردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ اس واقعے کو اصحاب فیل کے نام سے یاد کرتی ہے۔جو حضور  سرور کائنات کی پیدائش سے 55 دن پہلے رونما ہوا۔
حضور اکرم کا حسب و نسب
آپ کے حسب و نسب بہت اعلٰی اور بہترین لوگ شامل ہیں۔ جن کی ترتیب اس طرح سے ہے۔
والد گرامی کی طرف سے خاندانی سلسلہ میں
حضرت ابراہیم علیہ السلام--- حضرت اسماعیل علیہ السلام--- عدنان----معد----نزار----مضر----الیاس----مدرکہ----خزیمہ---کنانہ---نضر---ملک---فہر----غالب----لوی----کعب---مرہ----کلاب---قصی----عبدمناف---ہاشم---عبدالمطلب----  حضرت عبداللہ ---- حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ ؤ اصحابہ وسلم
والدہ گرامی کی طرف سے خاندانی سلسلہ میں
مرہ---کلاب---- زہرہ ----عبد مناف ----وہب ---حضرت آمنہ --- حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
آپ دونوں اعتبار سے ہاشمی و قریشی تھے۔ آپ کے ماں اور باپ کا شجرہ عبد مناف سے جا ملتا تھا جس کی بنا پر آپ ہاشمی بھی ہیں اور قریشی بھی۔
قریشی و ہاشمی ہونے کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟
فہر بن مالک اپنی بہادری اور شجاعت کے علاوہ اپنے غلبہ پا لینے کی وجہ سے عربی قبائل میں بہت معروف تھے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ آپ کو قریشی کہتے۔ قریش اصل میں ایک سمندری جانور ہے جو تمام جانوروں پر غالب آنے کی قدرت رکھتا ہے اور سب جانوروں کو کھا جاتا ہے۔
آپ کے پردادا کا اصل نام تو عمرو تھا وہ اس طرح کے ایک بار مکہ میں بہت قحط پڑا لوگ دانے دانے کو مختاج ہو گئے حاجیوں کے کھانے کو کچھ نہ تھا آپ ملک شام جا کر وہاں سے سوکھی روٹیاں لے کر آئے مکہ پہنچ کر آپ اونٹ کے شوربے میں ان سوکھی روٹیوں کو چورا کر کے ڈالا اور حاجیوں کو خوب پیٹ بھر کے کھلایا۔ لہٰذا اسی وجہ سے آپ کو ہاشم کہا جاتا ہے۔
حضرت عبدالمطلب جن کی عمر مبارک ایک سو بیس برس تھی تقوٰی اور پرہیزگاری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ کئی دن تک غار حرا میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کرتے اور اعتکاف میں لگے رہتے۔ دینی لحاظ سے آپ موحد تھے۔ مکہ کے لوگ آپ کو بہت اعزاز و اکرام کی نظر سے دئکھتے ان پہ جب بھی کوئی مشکل آتی تو وہ آپ سے ہی رابطہ کرتے ان سب کو یہ بات معلوم تھی کہ جب تک عبدالمطلب کو پہاڑ پہ نہیں لے جائیں گے اس وقت تک دعا قبول نہ ہوگی۔ آپ کے ماتھے میں نورنبوت چمکتا تھا۔ اپنے دسترخوان سے پرندوں کو بھی کھانا کھلایا کرتے تھے جس کی بنا پر  اپ کو ' مطعم الطیر' بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے دنیا میں براجمان ہونے سے پہلے ہی آپ کے آباواجداد رزق کے معاملات میں بہت زیرک تھے توآپ کا کیسا معاملہ ہوگا کیونکہ آپ کو اللہ کی ذات کہتی ہی قاسم رزق ہے۔
حضور عالی مکرم بدر الدجٰی خیر الورانور خدا کا بچپن عام نہیں تھا۔ آپ کو جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے سپرد کیا گیا تو وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئیں کہ وہ بکریاں جو سوکھی پڑی تھیں دودھ کی ندیاں بہانے لگیں۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا کا خچر جو آپپ کی آمد سے پہلے بہت لاغر تھا اور آپ کی شاندار سواری کے بعد خوب توانا ہو کر سب سواریوں کو پیچھے چھوڑ گیا اور سب ورطہ حیرت میں پڑ گئے۔فرشتوں نے کئی بار انکر آپ کا شق صدر کیا تاکہ اللہ کا دیدار اور رسالت کا کام آسان ہو جائے۔
  جنگ فجار اور حضور اکرم نبوت سے پہلے
 اپ کی عمر مبارک ابھی 20 سال کی تھی جب یہ جنگ فجار کا واقعہ پیش آیا۔اسلام سے پہلے عرب میں لڑائیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا۔ عرب کے لوگ ذوالقعدہ،زوالحجہ،رجب اور محرم کے مہینوں کا بہت احترام کرتے اور خاص ان میں بالکل کوئی جنگ یا لڑائی نہ کرتے۔ مگر کبھی کبھی ایسےہنگامی حالات پیدا ہوجاتے کہ ان ماہ میں بھی لڑنا پڑجاتا تو ایسے معرکوں کو حروب فجار یعنی گناہ کی لڑائیاں کہا جاتا۔ آخری جنگ فجار جو قبیلہ قریش اور قیس کے درمیان ہوئی اس میں قریش حق پہ تھے اسی لیے آپ نے اس میں حصہ لیا مگر کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا صرف اپنے چچاوں کا ساتھ دیا آپ ان کو تیر ہی اُٹھا کر دیتے تھے۔ اس لڑائی کا خاتمہ صلح پر ہی ہوا۔
حلف الفضول نبوت سے پہلے
جنگ فجار کے بعد ایک اور مسئلہ جس نے پہللے بھی مکہ والوں کا ناک میں دم کیا ہوا تھا وہ تھا مکہ میں لٹیروں کی ماردھاڑ۔ قتل و غارت سے بھی لوگ کافی تنگ تھے۔ کچھ صلح پسند لوگوں نے ایک اصلاحی تحریک چلائی جس کا مقصد اس غبار بے بہا کا خاتمہ کرنا تھا۔حلف الفضول کی زیادہ ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ یمن کا اایک آدمی سامان تجارت لے کر مکہ آیاتو عاص بن عمرو نے اس کی قیمت ادا نہ کی۔اس نے بنو عبدالدار، بنو مخزوم، بنو جمح، بنو سہم اور بنو عدی سے فریاد کی مگر کسی نے اس کی بات پہ دھیان نہ دیا ۔لہٰذا وہ اس پریشانی کی حالت میں کوہ قبیس پہ چڑھ کر اپنی مدد کے لیے لوگوں کو پکارنے لگا۔ اس کو اس حالت زار میں دیکھ کر زبیر بن عبدالمطلب نے اس کا ساتھ دینے کا یقین دلایا۔سب قریشی سردار بنو تیم کے سردار عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے جہاں زبیر بن عبدالمطلب نے چند تجاویز دیں جن کو متفقہ طور پر مان لیا گیا۔ وہ تجاویز یہ تھیں:
1۔ ملک سے بے امنی دور کریں گے۔
2۔ مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
3۔ غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
4۔ مظلوم کی حمایت کرتے رہیں گے۔
5۔ کسی غاصب یا ظالم کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
حضور مکرم کو ان تجاویز سے اتنا لگاو تھا کہ آپ ان کے بدلے میں سُرخ اونٹوں کو بھی قبول نہ فرماتے۔ مکہ میں پہلے بھی ایسا ہی ایک معاہدہ ہوا تھا جو قبیلہ جرہم نے کیا تھا جس میں فضل بن حارث، فضل بن فضالہ اور فضل بن داعہ شامل تھے اس لے اس کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔
ملک شام کے دو سفر نبوت سے پہلے
پہلا سفر تو آپ نے بارہ سال کی عمر مبارک  میں حضرت ابوطالب کے ساتھ کیا جب آپ کی عمر مبارک بارہ سال کی تھی۔ آپ جیسے  ہی سفر کے دوران بُصرٰی پہنچے تو بحیرٰہ نامی عیسائی راہب نے چونکہ توریت اور انجیل کا مطالعہ کر رکھا تھا لہٰذا وہ آپ کو دیکھتے ہی پہنچان گیا اس نے ابوطالب سے کہا کہ یہ نبی آخر الزماں ہیں اور اللہ کے رسول ہیں۔ ان کو اللہ نے نبی رحمۃ اللعالمیں بنا کر بھیجا ہے۔اس نے انتہائی ادب و احترام سے عرض کی کہ ابوطالب اپنا سارا مال یہی فروحت  کردیں اور ملک شام نہ جائیں کیونکہ وہاں یہودی آپ کی جان کے دشمن ہیں اور ان کو کہیں شہید ہی نہ کر ڈالیں۔ یہ اس کا اپنا خدشہ یا اس کی آپ کے لیے محبت تھی۔اس نے کہا کہ سب حجرو شجرنے ان کو سجدہ کیا ہے اور ایک بادل بھی ان کے سر پہ سایہ کیے ہوئے ہے یہ تمام نشانیاں تو آنے والے نبی آخر الزماں کی ہیں۔ حضرت ابوطالب تو پہلے ہی اپنے بھتیھے سے والہانہ پیار کرتے تھے وہ جلد ہی اس کام سے فارغ ہوئے اور مکہ لوٹ آئے۔
دوسرا سفر شام آپ نے 25 سال کی عمر مبارک میں کیا اس بار میسرٰی غلام تھا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس تجارتی دورہ کی وجہ آپ کی وجہ شہرت تھی کیونکہ آپ صادق و امین تھے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ آپ کو اوروں کی نسبت دو گنا معاوضہ ادا کریں گی۔ جیسے ہی میسرٰہ آپ کو لے کر بُصٰری پہنچا تو ایک عیسائی راہب نسطورا تو غلام میسرٰی کو جانتا تھا مگر وہ آپ کو پہلی بار دیکھ کر اس طرح بولا ' یہ کون ہیں؟ میسرٰی نے کہا کہ یہ بنو ہاشم کے ایک نوجوان ہیں اور مکہ میں امین و صادق کے لقب سے جانے جاتے ہیں اب یہاں میرے ساتھ تجارت کی غرض سے آئے ہیں۔'
اس پر وہ راہب بولا کہ میں نے آج تک توریت اور انجیل میں جتنی بھی نشانیاں نبی آخر الزماں کے بارے میں پڑھی ہیں وہ ساری کی ساری میں نے ان میں دیکھی ہیں۔کاش کہ میں ان کے وقت میں ہوتا اور ان کی پیروی میں ہی زندگی گزارتا۔ اس نے مزید یہ الفاظ کہے ' اے میسرٰی میں تم کو وصیت اور نصیحت کرتا ہوں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی ان سے جدا نہ ہونا، بہت محبت و عقیدت سے ان کے ساتھ رہنا اور خلوص نیت کے ساتھ اور دل و جان سےان کی خدمت کرتے رہنا کیونکہ اللہ نے ان کو 'خاتم النبین' بنایا ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا قافلے کی واپسی کا منظراپنے بالا خانہ پہ بیٹھ کر دیکھ رہی تھی کہ آپ نے ایک عجیب و غریب نظارہ دیکھا کہ حضور عالی جناب محمد مصطفٰی کے اوپر سایہ دیکھا آپ یہ روح پرور بات سے بہت مخظوظ ہوئی۔اس منظر کو دیکھ کر آپ کے دل میں حضور اکرم کی عزت اور بھی دگنی ہوگئی۔آپ نے کئی دن بعد جب اپنے غلام سے اس کا تذکرہ کیا تو اس نے کہا کہ میں نے تو اور بہت سی عجیب و غریب بااتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ پھر اس نے نسطورا راہب کی ساری گفتگو بتائی کہ وہ آپ کے بارے میں کس قدر محبت و عقیدت کا اظہار کر چکا ہے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے دل میں آپ کی عقیدت اور بھی بڑھ گئی اور رضی اللہ عنھا نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ آپ سے نکاح کریں گی۔
نکاح کی دعوت و تقریب  نبوت سے پہلے  
حجرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنھا مکہ کی ایک معروف اور متمول خاتون تھی۔ پارسائی اور پرہیزگاری میں یکتا تھی۔ مال و دولت اور تجارت میں بھی اعلٰی ظرفی حاصل تھی۔ مکہ کے اشرافیہ اپ سے نکاح کے خواہاں رہتے تھے۔ آپ نے پہلے ہی دو نکاح کیے تھے اور ان سے آپ کی اولادیں بھی تھیں۔ آپ کا پہلا نکاح ابوہالہ بن تیمی سے ہوا ان سے دو بچے ہوئے ایک کا نام ہند بن ابو ہالہ اور دوسرا لڑکا ہالہ بن ابو ہالہ تھا۔ پہلے خاوند کے انتقال کے بعد آپ نے دوسرا نکاح عتیق بن مخزومی کے ساتھ کیا۔ ان سے بھی دو بچے ہوئے جن میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوئی۔ حضرت ابوطالب نے نہایت فصیح و بلیغ طور پہ نکاح کا خطبہ پڑھا۔ جس کے جواب میں ورقہ بن نوفل نے بھی شاندار خطبہ پڑھا تو اس طرح سے ان دو اعلٰی ظرف ہستیاں عقد میں آئیں۔
سورۃ بقرۃ کی آخری تین آیات
284 تا 286
لِلہ ما فی السمٰوت و ما فی الارض ۔۔۔۔۔۔۔اَنت مولٰنا فانصرنا علی القوم الکافرین0
1۔ جو کچھ بھی اسمانوں اور زمینوں میں ہے سبھی اللہ کا ہے ۔
2۔ چاہے اگر تم اپنی باتوں کو ظاہر کرو یا چھپاو اللہ تم سے حساب ضرور لے گا۔
3۔ پھر جس کو چاہے معاف کردے گااور جس کو چاہے عذاب دےگا۔
4۔اللہ ہر شی پر قادر ہے۔ یہاں لفظ 'قدیر' سے مراد قدرت والا مالک ہے جس نے ہر ایک ذی روح کا پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔
  5،رسول کریم پر جو اللہ کی طرف سے کتاب نازل کی گئی مومنون یعنی صحابہ اس پہ ایمان لے آئے۔
 6۔ ان مومنین میں سے ہرکوئی اللہ اسکے فرشتوں کتابوں اور رسولوں پر ایمان لے آیا۔
7۔ نیز وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں وہ اس میں کوئی فرق نہیں کرتے۔
8۔ اور مزید کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی بات سُن لی اور اس کی اطاعت کر لی۔
9۔ مومنین کہتے ہیں کہ ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
10۔ اللہ تعالٰی کی ذات کسی نفس پر وہ ذمہ داری نہیں ڈالتی جس کی کہ اس میں طاقت نہ ہو۔
11۔ اس کو اجر ملے گا اس بات کا جو اس نے نیک عمل کیا اور اس پر وبال ہوگا جو برا عمل اس نے کمایا۔
12۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم دعا گو ہیں کہ یا باری تعالٰی کہ اے ہمارے رب اگر ہم بھول بیٹھیں یا خطا کر دیں تو ہمیں نہ پکڑنا۔
  13۔ اے ہمارے رب ہم پہ بھاری بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔
14۔ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔
15۔ اور ہمیں معاف کردے۔ اور ہمیں بخش دے اور ہم پہ رحم فرما۔
16۔ تو ہی ہمارا اللہ ہے۔پس کافرین کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
 تشریح سورۃ بقرۃ
یہ دونوں آیات دعائیہ طرز ہیں، جب مکہ کے کافروں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا توہجرت سے ایک سال پہلے معراج النبی کے موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ اللہ نے مسلمانوں کی دلی تسلی وتشفی کے لیے یہ ابدی سکون و قرار والی آیات نازل کیں۔ یہ قرآن کی سب سے لمبی سورۃ ہے۔ اس سورۃ میں 286 آیات ہیں۔ مسلمانوں کے لبوں تک دعائیہ کلمات لانے سے پہلے اللہ تعالٰی کی ذات ان کو ایمان لانے کی ضرورت پہ زور دیتی ہے۔ نہ صرف کہ وہ اللہ پہ بلکہ فرشتوں کتابوں اور رسولوں پہ بھی ایمان لے کے آئیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ چاہے تو کوئی کتنا ہی اپنی بات کو چھپا لے یا اپنے انداز سے ظاہر کردے تو اللہ ہی  جس کو چاہے گا معاف کرے گا یا عذاب دے گا۔ اللہ ہی ہے جو اپنی اس تخلیق کا کلھم مالک ہے۔ وہ ایسی ک،ال قدرت کا مالک ہے کوئی بھی شے اس کی پہنچ سے باہر نہیں ہے۔ ان تبدوا و او تخفوا میں حساب لینے والا اکیلا اور واحد ہے۔۔ جب مسلمان یعنی مومنین ایمان لے آئے تو انہوں نے اللہ سے مودبانہ طور پر یہ دعا کی کہ وہ ان کو بخش دے ان کی بھول چوکو خطا کو معاف   ان پہ ایسا بوجھ نہ ڈالے یعنی ایسی کوئی ذمہ داری نہ ڈالے جس کے وہ متحمل ہی نہ ہوسکیں۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اپنے رب ہی طرف لوٹ کے جائیں گے۔یہ صحابہ کرام کی اس طرح تربیت کی گئی کہ وہ رسولوں میں کوئی بھی فرق نہیں کرتے بلکہ اللہ کی پوری تخلیق کو من و عن مانتا بھی ہے۔آخر میں اس بات پہ زور ہے کہ اللہ کافروں کے خلاف مسلمانوں کو برپور حمایت اور طاقت سے نواز دے۔
سوال
 سورۃ البقرۃ میں مسلمانوں کی کن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا ڈر اور خوف کے بارے میں کیا ببیان ہے؟
ایمان کے بارے میں آپ کیا جان پائے ہیں ۔سورۃ البقرۃ کے حوالے سے لکھیں؟
سورۃ المومنون آیات 1 تا 11
قد افلح المومنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُولئک ھم الوارثون
 بالتحقیق ان مومنوں نے فلاح پائی
 ۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں۔
۔ اور جو لغو باتوں سے خواہ وہ قولی ہو فعلی برکناررہنے والے ہیں۔
۔اور جو اعمال و اخلاق میں اپنا تزکیہ کرنے والے ہیں۔
۔ اور ایسے مومنین جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
۔ لیکن اپنی بیبیوں یا اپنی شرعی لونڈیوں سے حفاظت نہیں کرتے کیونکہ ان پر اس میں کوئی الزام نہیں ہے۔
۔ ہاں جو اس کے علاوہ کسی اور جگہ شہوت رانی کا طلبگار ہوتو ایسے لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں۔
۔ اور جو اپنی سپردگی میں لی ہوئی امانتوں اور وعدوں کے خیال رکھنے والے ہیں۔
اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔
اور یہی لوگ وارث ہونے والے ہیں۔
اور جو فردوس کے وارث ہونگے اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔  
 تشریح
سورۃ المومنوں کے آغاز میں جو کہ پارہ 18 کا بھی ستارٹ ہے اس میں کامیاب  لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح  کچھ حقائق سورۃ الفرقان میں بھی بیان ہیں یہ ایسے لوگ ہیں جو نبی مکرم کے صحابہ کرام میں شامل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید ہے اس میں موجود دقیق مسائل کے حل کے لیے بنی نوع انسان کا انتخاب کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ رب ذوالجلال نے بغیر مقصد کے کسی بھی شے کو پیدا نہیں کیا۔ لحاظ ہر ایک چیز اپنے اپنے ٹھکانے پہ بالکل با مقصد ہے۔ اسی طرح سے اللہ کے یہ مومن بھی اسی کے معیار کے عین مطابق ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ وہ تو ساری ساری رات اور دن بھی اسی ایک واحد کی یاد میں گزاردیتے ہیں۔ والزین یبیتون لربھم سجدا و قیاما۔
جس بھی فرد نے چاہے مسلمان مرد ہو یا عورت اپنی شرمگاہ کی خوب حفاظت کی تو اللہ کی ذات اسی کو اپنا وارث کہتے ہوئے شرم نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ اور بہت سی خوبیاں ہیں کیونکہ صرف یہی کافی نہیں وہ تو ایسے ہیں جو اس کی نماز میں پابندی کے ساتھ خاضر ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں سے ہی مراسم رکھتے ہیں اور ذرا برابر بھی اپنی حد کو نہیں چھوتے۔ زکوٰۃ کے طریقے کو اپنا کر اپنے مال کو معصیت سے پاک کرلیتے ہیں۔ خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ الہٰی میں جاتے ہیں۔ اور عاجزی کے ساتھ اپنے نامہ اعمال رب کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔
سوال
سورۃ المومنون میں مومن کن خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔
 صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنھما کی کیا پہنچان ہے۔بحوالہ سورۃ بیان کریں۔
سورۃ الفرقان                                                      
آیات 63 تا 77
و عباد الرحمٰن الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُولئک ھم الوارثون۔
1۔ اللہ کے خاص بندے جو اس کے عبادت گزار ہیں جب بھی زمین پر چلتے ہیں تو فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل ملتا ہے تو اسے السلام علیکم کہتے ہیں۔
2۔ اور یہ مومنین اپنی ساری راتیں اللہ کے آگے سجدوں اور قیام میں گزارتے ہیں۔
3۔ اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے رب دوزخ کا عذاب ہم سے پرے رکھ کیونکہ یہ چمٹ جانے والا ہے۔ 4۔ نے شک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔
5۔ اور جو خرچ کرتے وقت نہ تو اصراف کرتے ہیں اور نہ ہی تنگی سے کام لیتے ہیں اور بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے سے خرچ کرتے ہیں۔
6۔ اور خدا کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتےاور کسی ایسے شخص کو قتل کرنا جس کو کہ اللہ نے منع کردیا ہو قتل نہیں کرتے۔ وہ زنا بھی نہیں کرتے اور اگر یہ کام کرے گا تو اپنے اوپر وبال لے کر آئے گا۔
7۔ اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جائے گا اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ اسی میں رہے گا۔
8۔ سوائے ان لوگوں کے جوتوبہ کریں ایمان لائیں اور نیک کام کرے ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
9۔ اور جو شخص توبہ کرت اور نیک عمل کرےوہ اصل میں سچا رجوع کرنے والا ہے۔
10۔ یہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتےاور جب کسی لغو بات پہ ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں۔
11۔ اور جب ان کے سامنے ان کے رب کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو یہ اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے۔
12۔ اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہماری بیویوں اور بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دیے۔ اور ہمیں پیشراوں کا امام بنا دے۔
13۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت اچھی جگہ ہے۔
14۔ آپ کہہ دیۓ اگر تمہاری پکار نہ ہوتی تو بالکل خدا تمہاری ہرواہ نہ کرتا۔ تم تو جھٹلا چکے اب اس کی سزا تمہیں چمٹ جانے والی ہے۔ سوال۔ سورۃ میں کن دو جگہوں کا ذکر کیا گیا ہے؟
وعباد الرحمٰن کی چیدہ باتیں بیان کریں؟
مومنین کی چند خصوصیات بیان کریں؟
سورۃ حشر
ایت نمبر 18۔19۔20
1۔ اے لوگو جو اللہ پہ ایمان لے ائیں ہو تو اللہ سے ڈرو اور اس بات کا خیال رکھنا کہ تم اگلے جہان کے لیے کیا ذخیرہ اعمال بھیج رہے ہو۔ تو اس بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔2۔اور ان لوگو کی طرح نہ ہو جانا کہ جو بے پروائی سے کام لیتے ہیں۔ یہی لوگ فاسقین ہیں۔ 3۔وہ اصحاب جو جنت میں ہیں وہ ان کی  طرح نہیں جو نار کا ایندھن ہیں۔ جنت میں رہنے والوں کا ٹھکانہ وہی جنت میں ہے۔
تشریح- ان ایات میں اللہ سے تقوٰی اختیار کرنے اور بہتر اعمال اپنانے کا کیہا گیا ہے۔ اس بات کو  بھی پہ  بھی زور ہے کہ اللہ ہمارے تمام اعمال سے بھی باخبر ہے۔ وہ لوگ جو اللہ کی بتائی ہوئی باتوں پر دھیان نہیں دیتے اور ان پہ عمل کرنا مذاق سمھجتے ہیں ان لوگوں کا ٹھکانہ جنت نہیں بلکہ جہنم ہے۔
سورۃ احزاب
النبی اولٰی بالمومنین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھتانا و اثما مبینا
1۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام اصحآبہ کرام پہ ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اور اپ کی تمام ازواج تمام امت کی بیویوں ہیں۔ یہ سب اصحابہ اپس میں ایک دوسرے سے رشتہ رکھتے ہیں۔ اور بعض تو نسبت میں بعضوں سے بہت اگے ہیں اور یہ بات قران میں لکھی جا چکی ہے۔ جن میں سے کچھ مومنین ہیں اور کچھ مہاجرین ہیں۔ اور اگر تم یہ چاہو کہ ان کے ساتھ دوستی کر لو تو یہ بہت بڑی نیکی اور حسن سلوک ہے۔ اور یہ بات لوح مخفوظ میں درج کر دی جاتی ہے۔
2۔ تحقیق ہے اس بات میں کہ تمہارے لیے رسول پاک کی حیات طیبہ اسوہ حسننہ ہے ایسے لوگ اللہ سے اور آخرت کے دن سے ڈرتے ہیں اور بہت زیادہ ذکر اللہ کرتے ہیں۔
3۔ اقر محمد تم مردوں کے باپ نہیں ہیں۔ بلکہ اللہ کے رسول ہیں اور نبی آخری الزماں ہیں۔ اور اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔
4۔ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی مکرم پر صلٰوۃ بھیجتے ہیں و اے ایمان والو تم بھی آپ پر سلام و صلٰوۃ بھیجا کرو۔
5۔ اے لوگو تم یہ جو مومنین مرد اور مومنین عورتوں کو جو اذیتیں دیتے ہو اور اس بات کے عوض جو کام کے انہوں نے کیا ہی نہیں اور تحقیق کہ جو ذمہ داری ان کی تھی ہی نہیں بہت بڑا گناہ ہے۔
سورۃ الصف
سبح اللہ ما فی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ القوم الفسقین
جو کچھ اسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی پاکی ایا کہ حالا ہو یا قولا ہے اور وہی عزیز یعنی زبردست ہے اور حکمت والا ہے اور تمام مخلوق اسی پاکی کو ان دو اسم اعظم میں بیان کرتے ہیں۔ اے لوگوں جو ایمان لے ائیں ہو وہ ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کہ وہ کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک ایسی بات بڑی ناراضی کی ہے کہ جو بات کہو اور کرو نہیں۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں صف در صف لڑتے ہیں وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تم مجھے اذیت کیوں دیتے ہو۔یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ میں تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کی طبیعتوں  میں جو ٹیڑھا پن ہے تو اللہ نے بھی ان کے دلوں میں ٹیڑھا پن بھر دیا ہے اور اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
تشریح۔ ان ایات میں اللہ کی قوت کے بارے میں بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک زبردست اور عزیز مطلق خدا ہے اس کا مقابلہ کرنے کا کسی میں بھی عزم استقلال نہیں۔ کائنات کی تمام تخلیق اسی ایک واحد کی پاکی بیان کرتی ہیں۔ چاہے تو وہ مخلوق اپنے حال میں یا اپنے قول کے ساتھ پاکی بیان کرتی ہیں۔ جب ساری مخلوق سوائے انسان کے اللہ کی پاکی کو سر عام کرتی ہے تو انسان ایسی بات کیوں کہتے ہیں جو کہ وہ عملی طور پہ نہیں کرتے۔ جو کام انسان عملی طور پہ نہ کرتا ہو اور صرف زبانی جمع خرچ کرے تو اس طرح کی باتوں کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ اسلام ایسا مذہب نہیں ہے جس میں خالی وعدے کیے جائیں اور کوئی بھی وعدہ پورا نہ کیا جائے۔ وعدہ پورا کرنے پہ بہت ترجیح ددی گئی ہے۔ کام کرنے کی ضمن ہی میں ان لوگوں کا ذکر خیر کیا گیا ہے جو عملی طور پر اللہ کی راہ میں ایک سیسہ پلائی ہوئی جماعت کی شکل میں لڑتے ہیں بلکہ اس میں کامیابی اور کامرانی بھی حاصل کرتے ہیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ وہ سب اس بات سے باز ائے کہ جس طرح وہ ان کو تنگ کر رہے ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں میں کجی پیدا کر دی ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک ایسے لوگوں کو ہدایت یافتہ کہنا جائز نہیں اور نہ ہی اللہ فاسقین کو ہدایت دیتا ہے۔
نبوت کے بعد کے حالات
یہ واسی مکہ ہے جس کے قرب و جوار میں بت پرستی کا دور دوراں ہے ہر طرف اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کی جا رہی ہے۔ خانہ کعبہ میں رکھے گئے 360 بت ان قریشی قبائل  اور ان کے آباوااجداکے للیے ایک اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی اس طرز زندگی کو سرمایہ کہتے ہیں وہ اس لیے کہ ان سرکشوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ان من مانی کرنے والوں کو مٹی کے من گھڑت بت کیا منع کریں گے۔ جس طرح ہی اعلان نبوت ہوتا ہے تو بازار تنقید نے شاید حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا در اقدس دیکھ لیا ہو اور آپ ہر وقت تنقید کا نشانہ بنتے رہیں۔   آپ نے شاید کوئی لمحہ آرام و سکون سے گزارا ہو ورنہ کفار مکہ نے آپ کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حضور عالی کی حیات طیبہ کا دائرہ کار روز بروز تنگ سے تنگ کیا جا رہا تھا قریشی قبائل کے سرداروں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ یہ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے محمد کو کیا ہوا کیا یہ معاز اللہ دیوانہ ہو گیا ہے انہوں نے آپ کے پیچھے نوجوان شریر لڑکوں کو لگا دیا تاکہ تا حد نظر آپ کو اتنا ستایا جائےکہ آپ اپنے دین کی تبلیغ کرنا بند کردیں۔ مگر ان جہلاء کو کیا معلوم تھا کہ آپ ہی کے لیے تو کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ ایک موقع پر اللہ تعالٰی کی ذات کہتی ہے ' اے نبی اگر آپ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔' اللہ نے تو پھر کائنات بنانی ہی نہ تھی۔ اس کے علاوہ تو وہی ذات جانتی ہے جو کلھم ہے۔ غار حرا میں آپ کا کافی وقت گزرتا آپ وہاں غور و خوض کرتے اور کائنات کے تغیر و تبدل کو ملاخظہ فرماتے۔ حضور اکرم سے کوئی بھی بات چھپی ہوئی نہیں تھی آپ پر پہلی وحی اسی غار حرا میں ہوئی۔ حضرت جبرائیل امین نے آنکر کہا کہ آپ پڑہیے اقراء باسم ربک الذی خلق۔ اکثر مولفین اور علماء امت اسی ایک بات پر اکتفا کر لیتے ہیں اور اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب حضرت جبرائیل آئے اور آپ کو کہا تو آپ پہ کپکپی تاری ہو گئی عقل اس  بات کو ماننے لیے تیار نہیں ہے کہ جہاں آپ کے دنیا میں معبوث ہونے سے 55 دن اصحاب فیل کا واقعہ ہوا تو اللہ کی ذات نہیں کہتی کہ اے نبی کیا آپ نے نہیں دیکھا تو اس کا کیا مطلب ہے۔جس نبی کی حد یہ ہے کہ وہ جبرائیل علیہ السلام سے آگے جا کر اللہ سے ملاقات کر سکتے ہیں یعنی معراج کے موقع پہ حضور مکرم کی رسائی تو سدرۃ المنتہٰی سے بھی آگے ہے۔ اب کس طرح یہ ممکن ہے کہ آپ پہ اس وقت گھبراہٹ چھائی ہو۔ ہاں البتہ بشری تقاضوں کے تحت امت کے واسطے کوئی بات ہے تو کچھ جزوی بات ماننے میں آتی ہے۔نبوت کا پہلا دور
اب آپ نے نبوت کے تین سال کا جو کڑا وقت گزارا وہ بہت ہی مشکل دور تھا آپ نے چھپ کر تبلیغ دین کی۔ سبحان اللہ وہ نبی مکرم جس کے لیے دنیا کا کھیل رچایا گیا او وہ ہی اس طرح سے انسانی تقاضوں کے مطابق چل کے اللہ کے دین کی اشاعت کر رہا ہے جو کامل و اکمل ہے جو ذریعہ نجات و بخشش ہے جس کا نام نامی لے کر جب ابو طالب دعا کرتے ہیں تو مکہ کا قحط ختم ہوجاتا ہے۔ حضور عالی جب پنھگوڑے میں تھے تو آپ کی انگشت مبارک جدھر بھی جاتی تو چاند بھی اپنی سمت ادھر ہی بدل لیتا۔ قربان جانا چاہیے اس نبی ھادی کی شان پہ جو ہر ایک کے لیے رحمت ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ نے سب کچھ آپ ہی کے نور سے مستعار لے کے تو بنایا ہے۔
مکہ ہی میں تبلیغ دین کے پہلےدور میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آزاد مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ لڑکوں میں حضرت علی المرتضٰی تھے۔ پھر اسی طرح حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کی دعوت و تبلیغ سے وہ حضرات جو اسلام میں شامل ہوئے وہ یہ ہیں جن میں حضرت عثمان،حضرت زبیر بن العوام ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں۔کچھ دنوں بعد حضرت ابو عبیداللہ بن الجراح، حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد، حضرت ارقم بن ابو ارقم، حضرت عثمان مظعون اور ان کے دونوں بھائی حضرت قدامہ اور حضرت عبداللہ رضوان اللہ تعالٰی علیھم نے اسلام قبول کیا۔ان حضرات کے بعد حضرت ابو ذر غفاری، حضرت صہیب رومی، حضرت  عبیدہ بن حارث، حضرت سعید بن زید اور ان کی بیوی فاطمہ بنت خطاب جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں۔ اس کے علاوہ اپ سرکار عالی کی چچی حضرت ام الفضل اور بنت حضرت ابو بکر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
دوسرا تبلیغی مرحلہ بھی حضور سرور کائنات کے لیے کوئی آسانیاں لے کر نہیں آیا بلکہ اس میں بھی آپ کو بہت تنگ کیا گیا۔ تین سال کے خفیہ آغاز کے بعدمسلمانوں کی ایک جماعت بن گئی۔ اس بار اللہ کی ذات کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔ اے میرے پیارے رسول اب کی بار آپاپنے خاندان والوں کو رب سے ڈرائیے۔ اسی لیے تو اپ سرکار دو جہاں نے قریشیوں کو کوہ صفا کی چوٹی پہ چڑھ کر پکارا۔ جب ان میں سے  کچھ وہاں آئے تو آپ نے کہا کہ اگر میں تمھیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے اایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پہ حملہ کرنے والا ہے تو کییا تم میرا یقین کر لو  گے؟ وہ سب یک زبان ہو کر بولے کہ ہاں ہاں کیوں نہیں ضرور یقین کر لیں گے اس لیے کہ آپ نے تو کبھی جھوٹ بات کہی ہی نہیں ہم تو آپ کو صادق و امین کہتے ہیں۔ اب آپ سرکار نور خدا نے فرمایا کہ اب مین تم سے کہتا ہوں کہ ایک اللہ پہ ایمان لے آو اور اگر ایمان نہیں لاتے تو عذاب الہٰی کے مستحق ہو جاو گے۔ بس اسی بات کا سننا تھا کہ آپ کا چچا ابو لہب ناراض ہو کر وہاں سے چلا گیا اس کو دیکھ کر باقی کے لوگ اس کے پیچھے چل دیے اور آپ سرکار کی شان اقدس میں اول فول بکنا شروع کر دیا۔ اب آپ کی مخالفت بڑے لیول پر ہونا شروع ہوگئی۔ اب ہر کافر، فاسق اور مشرک کا کلمہ صرف اور صرف حضور اکرم کی ذات اقدس کو کسی نہ کسی طرح اسلام کی تبلییغ سے روکنا تھا۔ اس سلسلے میں منافقین کا کردار بھی بہت اہم ہے جنہوں نے سب سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا کیونکہ ان کی دوستیاں آصحابہ کرام کے ساتھ تھیں وہ کسی نہ کسی طرح راز لے لیتے اور کفار کو جا کر بتا کر انعام و اکرام اور بہت سے فوائد کی خاطر اس گنونےکام میں لگے رہتے تھے۔
مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے اب نبوت کا چوتھا سال ہے اور نبی مکرم کو وحی کے ذریعے پیغام آتا ہے سورۃ حجر ' اے نبی اب آپ کھلے عام لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیں۔اب آپ نے علی الاعلان بت پرستی اور شرک کرنے والوں کے خلاف بولنا شروع  کر دیا اس بات پر نہ صرف کہ قریشی قبائل بلکہ پورا عرب آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا۔ دسشمنوں نے نہ صرف کے آپ کو بلکہ آپ کے امیر وغریب اصحاب کو بھی اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔حضور نبی کریم پہ ظلم و ستم
کفار مکہ بنو ہاشم کے خاندان کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے آپ کو قتل نہیں کر سکے۔ مگر دوسری طرف آپ پہ ظلم و ستم کا وہ پہاڑ توڑا کہ تاریخ گواہ ہے آپ نے کبھی بھی کسی کے لیے بدعا نہ کی۔ہر کوچہ و بازار میں زبردست پراپیگنڈہ ہونے لگا۔ آپ پہ الزام لگا کہ آپ شاعر،ساحر،کاہن اور مجنوں ہیں۔استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب علیہ۔
    ایک روایت میں ہے کہ آپ حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک کافر عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپق کے گلے مبارک میں پھندہ ڈال کراس زور سے کھینچا کہ آپ کا دم گھٹنے لگا اس منظر کو دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا وہ آگے بڑھے اور زور سے اس کافر لعین بحق واصل جہنم کو دھکا دیا۔ جس پہ حضرت ابو بکر صدیق نے اس کو مارا اور اس لعین نے بھی آپ کو مارا۔حضرت ابو بکر نے کہا کہ تم اس بات پہ لڑتے ہو جب محمد یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی ان کا رب ہے۔
جب کبھی بھی آپ نے قرآں پاک کی تلاوت کی تو کفار راستے پر پہرہ بٹھا دیتے یا اتنا شور کرتے کہ آواز دوسرے لوگوں تک نہ پہنچ پاتی۔ اصل میں کفار آپ کے روحانی تصرفات، تاثیر اور معجزات کو دیکھ کر پپوری طرح گھبرا گئے  تھے اسی لیے انہوں نے آپ کو جادوگر کہنا شروع کر دیا۔ آپ کا چچا ابو لہب تو پیچھے کھڑے ہو کر کہتا کہ یہ میرا بھتیجا دیوانہ ہو گیا ہے۔ تم لوگ اس کی بات نہ سنو۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ ذواللمجاز کے بازار میں دعوت حق کے لیے قران کی  تلاوت فرما رہے تھے تو ابوجہل آپ پہ دھول اڑاتا رہا اور لوگوں سے کہتا رہا کہ اس کے فریب میں نہ آنا۔یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات اور عزٰی کی عبادت چھوڑ دو۔
ایک اور جگہ پر ابوجہل نے پکار پکار کر کہا کہ ہے کوئی جو محمد پہ اوجھری لا کے ڈالے تو ایک کافر عقبہ بن ابی معیط فورا آگے آیا اورایسا کیا۔یہ منظر دیکھ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آگے بڑھی اوجھری کو آپ سے ہٹایا اور ابوجہل کو برا بھلا کہا۔ اس واقعہ سے آپ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ نے ان لوگوں کے حق میں یہ دعا کی۔ الھم علیک بقریش۔ اے اللہ ان قریشیوں پر گرفت کر۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ان لوگوں کا بہت برا حال ہوا جب وہ جنگ بدر میں ہلاک کر دیے گئے آپ نے فرمایا کہ یہ سب لعنتی اور جہنمی ہیں۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ان کو بالوں سے پکڑکر گھسیٹا اور کنویں میں پھینکا۔
حضور اکرم کے اصحابہ پر مظالم
کفار مکہ نے آپ پہ ظلم و ستم کے ساتھ ساتھ اصحاب کو بھی نشانہ بنایااور ان پہ طرح طرح کے ستم ڈھائے۔ انہیں قتل نہ کیا مگر ایسے ظلم کیے کہ زمین بھی بلبلا اٹھی۔ سنگدل اور درندہ صفت ان کفار نے ان مسلمانوں پہ اتنا ظلم کیا کہ شاید وہ مجبور ہو کر اسلام کو چھوڑ دیں اور بت پرستی کی طرف آجاتے۔ مگر وہ جاہل اور کوڑ مغز کیا جانتے تھے کہ وہ تو سید الانبیاء ہیں،نور من نور اللہ ہیں ، اللہ کی کسوٹی ہیں ، اللہ کی برھان ہیں بلکہ یہ کہنا ہی درست ہوگا کہ اللہ کے بعد وہی اول وہی آخر تو کس طرح سے وہ ایسے جلیل القدر نبی آخر الزماں کو اور آپ کے لائے ہوئے دین کو پچھاڑا جا سکتا تھا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جب بھی کسی پر ظلم و جور کی انتہا کر دی جاتی ہے یا کسی باپ کے سامنے اس کی اولاد کو اذیت دی جاتی ہے تو اس کا دل پسیج جا تا ہے اور وہ مجبوری کی حالت میں ظالم کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے یا ماں اپنی بیٹی اور بیٹے کو قربانی پر نہیں چڑھنے دیتی اور اگر ایسا ہو بھی تو ایک حد ہوتی ہے مگر یہاں کیا تھا جو ہر صحابی اور صحابیہ ہمہ تن گوش ہیں۔ ہر ایک کو حضور عالی کے ساتھ کی پڑی ہے جو بھی آپ کی دعوت کو سنتا ہے تو دیوانہ وار شامل جماعت ہو جا تا ہے؟۔ یہ کیسی محبت ہے؟، کیسی عقیدت ہے، کیسا احترام ہے،کیسی عزت ہے؟ کہ کوئی بھی اپنی کوئی چیز پیاری ہی نہیں سمجھ رہا ہر کوئی رسول پہ ہی فریفتہ ہے قربان ہونا چاہتا ہے۔
تیرا شیدا ہوں میرے درد کا درماں تو ہے
میرا کعبہ ،میرا یمان، میرا قرآن تو ہے
اصل میں اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین نے آپ کی صورت میں اللہ کو پا لیا تھا اس لیے وہ کس طرح سے انکاری ہوتے کہ انہوں نے مقام احد والوں کو نہیں دیکھا جن کی بنائی ہوئی دنیا تھی ان میں سے ایک تو خود ان اصحابہ کرام کے پاس آگیا تھا۔ نور خود چل کے آجائے تو کوئی کیا کرے شمع اپنے پروانے خود ہی اکٹھے کر لیا کرتی ہے اسے کسی واسطے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حضور مکرم کی ذات اطہر تو نبوت کے اعلان سے پہلے بھی بہت محترم تھی۔ نظام فترت کی چیزیں درخت، پہاڑ،سورج، ستارے، چاندسب تو آپ کو سلام کرتے تھے جس میں نسطورا،بحیرہ اور ورقہ بن نوفل جو عیسائی راہب تھے کی گواہیاں قابل قدر مانی گئی ہیں۔
وہ اصحابہ کرام جنہوں نے دین اسلام کی خاطر اپنی جان ،مال اور اولاد کی پرواہ نہ کی اور مظالم کا سامنا کیا ان میں چند کا ذکر درج ذیل ہے۔
1۔حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ اس زمانے مں اسلام لائے جب حضور اکرم حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر میں مقیم تھے۔ ان کو اتنا ستایا کہ ان کے جسم پاک کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر چت لٹا دیا جاتا اور ایک شخص کو ان کے سینے پر کھڑا کر دیا جاتا۔ یہاں تک کے آپ کی پشت سے نکلنے والی رطوبت سے کوئلے بجھ جاتے اس کی وجہ سے آپ کی پشت پر سفید دھبے پڑ گئے جن دھبوں کو دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آنسو نکل آئے۔
2۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ  جو کہ امیہ بن خلف کافر کے غلام تھے۔ ان کی گردن میں رسی ڈال کر گلیوں میں گھسیٹا جاتا، تیز دھوپ میں گرم ترین ریت پر لٹایا جاتا،پیٹھ پہ لاٹھیاں برسائی جاتی اور سینے پہ بھاری بھر کم پتھر رکھ دیا جاتا جس کی وجہ سے آپ کی زبان باہر نکل آتی مگر پھر بھی آپ کی زبان سے احد احد ہی نکلتا۔
3۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو بہت مارتے کہ آپ اکثر بے ہوش ہو جاتے ان کی والدہ حضرت سمیہ کو لعین ابوجہل نے اسلام قبول کرنے پر نیزہ کا ایسا وار کیا کہ آپ شہید ہوگئی اس کافر نے آپ کو ناف کے نیچےنیزہ مارا تھا اور والد حضرت یاسر رضوان اللہ علیھم کو اتنی بے دردی سے پیٹا کہ شہادت کے درجے پہ پہنچ گئے۔
4۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کفار ایسی مار دھاڑ کرتے کہ وہ گھنٹوں بے ہوش رہتے۔
 5۔ حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی باندی تھی جب انہوں نے اسلام اپنا لیا تو کافروں نے آپ کو بہت مارا کے آپ کی آنکھیں جاتی رہیں مگر تاجدار کائنات کی دعا سے پھر نظر بحال ہو گئی تو کفار ملعون الزام لگانے لگے کہ محمد نے جادو کر دیا ہے۔    
6۔ ایک اور باندی جن کا نام حضرت لبینہ رضی اللہ عنہا تھا نے جب اسلام قبول کیا تو حضرت عمر آپ کو مارتے ہوئے تھک جاتے مگر آپ اُف تک نہ کہتی بلکہ آپ نے کہا ' اے عمر اگر تم اللہ کے سچے رسول پر ایمان نہیں لاو گے تو اللہ کی ذات تم سے انتقام لے گی'۔
7۔ اسی طرح دو اور باندیاں جن کے نام حضرت نہدیہ اور ام عبیس رضی اللہ عنھما تھے اسلام قبول کرنے کے بعد باوجود مظالم کے ثابت قدم رہیں۔ سبحان اللہ
سب اصحابہ رسول پہ ظلم و ستم
حضور اکرم کے یار غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی ظلم کا نشانہ بنایا گیا حالانکہ آپ مکہ کے بڑے متمول اور آزاد آدمی تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غریب و بے کس لوگوں کی بہت مدد کی ان کو کفار کی غلامی سے آزاد کروایا۔آپ نے ان لوگوں کو بہت قیمت ادا کر کے ان کفار سے رہائی دلائی۔ آپ نبوت سے پہلے ہی رسول پاک کے سچے دوست تھے۔ آپ کی والہانہ عقیدت و محبت کی بدولت آپ سرکار دو عالم حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہی مشورہ فرماتے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ جب اسلام لے کر آئے تو کافروں نے اپ کو بہت  مارا۔آپ رضی اللہ تعالٰی مسافر تھے اور حرم کعبہ میں آنکر ٹھہرے تھے آپ روزانہ چلا چلا کہتے کہ میں اسلام لے آیا۔ کافروں نے آپ پر یہ ظلم کیا کہ آپ کا کھانا پینا بند کردیا اور آپ صرف آب زمزم پہ ہی گزارا کرتے رہے۔
یہی نہیں بلکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی نے جب اسلام قبول کیا تو غیروں نے نہیں بلکہ آپ کے چچا نے آپ کو رسیوں میں جکڑ کر خوب مارا۔
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو آپ کے چچا نے آپ کو چٹائی میں باندھ کرناک میں دھواں دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی حضرت سعید بن زید نے جب اسلام قبول کیا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو باندھ کر مارا۔اسی طرح حضرت عمر نے اپنی بہن کے کان پر اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ ان کے جھومر گر گئے اور ان کا کان خون سے لت پت ہو گیا۔
کفا ر کا وفد بارگاہ رسالت میں
جب کفار مکہ نے یہ دیکھا کہ اتنے ظلم اور اذیت دینے کے باوجود لوگ جوق در جوق دین محمد میں داخل ہوتے جا رہے ہیں تو قریشی سرداروں نے فیصلہ کیا کہ عتبہ بن ربیعہ کو محمد کے پاس بھیج کر اس کا دلی مقصد معلوم کیا جائے۔ عتبہ بن ربیعہ ایک فصیح و بلیغ عالم تھا اور اس کی سحر البیانی پورے عرب میں مشہور تھی کہ بولنے اور بات بیان کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ لہٰذا ایک دن مقرر کیا گیا تاکہ معاملہ کو سلجھایا جائے۔
عتبہ بن ربیعہ نے آنکر آپ سے پوچھا کہ بھتیجے کیا بات ہے جو تم اس قدر بتوں کی پوجا کے خلاف ہوتے جا رہے ہو۔ اگر تمہیں اس کے بدلے میں مال و دولت چاہیے و وہ حاضر ہے اور اگر بادشاہت کی خواہش ہے تو وہ بھی ہے اور اگر کسی حسین و جمیل عورت سے نکاح کی آرزو رکھتے ہو تو ہر بات کی تسکین کی جائے گی ۔سرور کائنات نے جب عتبہ کی ساری باتیں سُن لیں تو پھر آپ گویا ہوئےاور عتبہ کو قرآن حکیم میں سے نازل کردہ کچھ آیات سنائی جن کو سن کر وہ اتنا لاجواب ہو گیا کہ آپ کے لبوں مبارک پہ ہاتھ رکھ کر بولا کہ اے محمد تمہیں رشتہ داری کی قسم چپ کرجاو ورنہ میرا دل پھٹ جائے گا۔ جیسے ہی عتبہ نے اپنے گھر کی راہ لی تو جو کچھ کہ وہ اپنے پلے باندھ کر آیا تھا اب اس کے دل میں ایک الگ و انوکھا انقلاب تھا اس نے قریش کے سرداروں سے جا کے کہا کہ محمد کوئی جادوگر، شاعر یا دیوانہ نہیں وہ تو ایک اور ہی زبان بولتا ہے تمہارے حق میں بہتر ہے کہ اس کی راہ سے ہٹ جاو۔ مگر ان گمراہ سرداروں کے سر پہ شیطان سوار تھا وہ کہنے لگے کہ اس پر بھی محمد کا جادو چل گیا ہے۔
ایک اور وفد قریش حضرت ابو طالب کے پاس
 ابھی بھی قریشی یہ چاہتے تھے کہ بات چیت کے ذریعے سب کچھ حل ہو جائے۔ اس لیے انہوں نے حضرت ابو طالب کے پاس ایک وفد بھیجا کہ وہ محمد کو کسی طرح سمجھائے اور وہ اس بات کی تبلیغ کرنا چھوڑ دیں کہ لات، عزٰت،منات، یعوق اور یعوث جو خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بڑے بت تھے ان کی پوجا کرنا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ ہمارے آباواجداد میں سے کبھی کسی نے ہمیں ایسا نہیں کہا تو یہ اپکا بھتیجا ایسا کیوں کہتا ہے۔ یہ جو بھی اس کے مقابلے میں چاندی وسونا یا بادشاہت مانگتا ہےہم دینے کو تیار ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ بھی میدان میں اتر آئے اور جنگ پر تیار ہو جائیں۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت ابو طالب پریشان ہو گئے۔ چچا نے اپنے پیارے بھتیجے سے فوری ملاقات کی اور کہا کہ اب مجھ میں لڑنے کی ہمت نہیں ہے لہٰذا تم کچھ دنوں کے لیے دعوت اسلام کو موقوف کر دو کیونکہ قریشی سرداروں کے تیور اچھے نہییں ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ وہ مجھ پہ اور تم پر تلوار اٹھانے سے بھی گریز نہین کریں گے۔ آپ  نے مزید کہا کہ میرے ان سفید بالوں کا ہی خیال کر لو۔ جب حضور عالی متبت کون و مکان نے اپنے چچا کی پوری بات سن لی تو  آپ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں تبلیغ سے باز نہ آونگا۔ حضور کی اس اوللعزمی کو دیکھ کر چچا کا دل پسیج گیا اور آپ نے فرمایاکہ اے جان عم جاو میں تمہارے ساتھ ہوں جب تک کہ میں زندہ ہوں تمہارا کوئی بال بھی بھیگا نہٰیں کرسکتا۔   
نبوت کا پانچواں سال اور ہجرت حبشہ کا حکم
جب کفار مکہ کے ظلم حد پار کر گئے تو نبی حق نے 11 مردوں اور 4 عورتوں کو کہا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں جن میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قافلے کے سردار تھےجو تمام لوگوں کی سربراہی کرتے ہوےت ان کو کامیابی کے ساتھ ملک حبشہ تک لے گئے۔ حبشہ کے بادشاہ کا نام اصحمہ اور لقب نجاشی تھا وہ اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے مشہور تھا۔کفا مکہ کو جب ان کی ہجرت کا پتا چلا تو وہ دیوانہ وار ان کا تعاقب کرتے ہوئے بندرگاہ تک آئے مگر مسلمان اپنی منزل کی طرف نکل چکے تھے۔ مہاجرین کا یہ قافلہ حبشہ پہنچ کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہو گیا۔ مگر چند دنوں بعد یہ بات پھیل گئی کہ کفار مکہ نے اسلام قبول کر لیا۔ لہٰذا کچھ مسلمان اس بات کی تصدیق کے لیے واپس مکہ آئے اور کفار نے ان کو اسیر بنا کر پہلے سے زیادہ ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا مگر سب ہی مہاجرین حبشہ ہاتھ نہیں آئے اس لیے کچھ مسلمان بکہ ہی میں روپوش ہو کے رہنے لگے۔ اب دوسری بار آپ نے ان کو ملک حبشہ کی طرف ہجرت کا کہا۔ اس بار 83 مردوں اور 18 عوتوں نے قصد سفر کیا۔ اس بار بھی اصحابب رسول اللہ بڑے اامن و سکون کے ساتھ رہے لیکن کفار کو یہ بات ہضم نہ ہوئی کہ مسلمان کیوں امن و آشتی کے ساتھ ان کی مرضی کے بر خلاف کہیں اور جا کر رہے۔ کفار نے عمرو بن العاص اور مغیرہ بن ولید کو کچھ تخائف کے ساتھ بادشاہ حبشہ کے دربار میں بھیجا تاکہ وہ ان مسلمان کے خلاف بادشاہ کو شکایت کریں کہ کطھ باغی آپ کے ہاں ہمارا ملک سے فرار ہو کے یہاں مقیم ہیں تو ان کو ہمارے حوالے کر دیا جائے اس طرح سے بادشاہ نجاشی کے سامنے ان کی عزت و عفت بھی ثابت ہو جائے گی اور ان مسلمانوں کو اسیر بنا لیں گے۔مگر اللہ تعالٰی کی ذات نے اپنے دین کی حفاظت اور غلبے کا وعدہ کیا ہے۔
لیظھرہ علی الدین کلہ اور دوسری جگہ پہ فرمایا اللہ خود قرآن پاک میں انا لہ لحافظون۔
پہلی جگہ پہ بیان ہے کہ اس دین کو ادیان عالم پر غالب کیا جائے گا۔ تو دوسری جگہ بے شک ہم اس دین کی حفاظت کریں گے۔
ان دونوں کافروں کی باتیں سن کر بادشاہ نے مسلمانوں کو طلب کیا اور اس بات کا جواب مانگا کہ کوئی اس ضمن میں بولے۔ لہٰذا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے بادشاہ کو سلام کیا اورسجدہ کیے بغیر کہا کہ سددہ تو صرف اللہ کو سزاوار ہے اور یہ ہمارے نبی محترم کی تعلیمات میں سے ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اے بادشاہ ہم ایک جاہل قوم تھے۔ ہم اسلام قبول کر لینے سے پہلے بت پرستی،شرک،چوری، ڈکیتی،ظلم و ستم اور طرح طرح کی برائیوں میں گرفتار تھے۔ اللہ تعالٰی نے ہماری قوم ہی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو اپنے حسب و نسب کے اعتبار پہ ہم میں سب سے اولٰی اور افضل ہے۔ وہ صداقت و امانت کے لحاظ سے بھی بہترین ہے۔ اسی رسول برحق نے ہمیں ان تمام برائیوں سے الگ ہونے کو کہا اور حکم دیا کہ اللہ ایک ہے بس اسی کی عبادت کرو۔ ہم ان تمام بری اور بے حیائی کی باتوں سے جب تائب ہوئے تو یہ کفار ہمارے دشمن بن گئے ہیں ان لوگوں نے ہمیں اتنا ستایا کہ آپ نے یہ جان کے حکم دیا کہ ہم آپ کے ملک میں جا کر پناہ لے اور امن والی زندگی گزارے پر یہ لوگ ہمیں واپس جہالت کی دنیا میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ یہ سارا ماجرا دیکھ کر عمرو بن العاص سے رہا نہ گیا تو اس نے بادشاہ کو ابھارا کہ یہ حضرت عیسٰی علیہ السالام کے بارے غلط سا عقیدہ رکھتے ہیں جب نجاشی نے اس کی تحقیق میں حضرت جعفر سے پوچھا تو وہ کہنے لگے:
حضرت جعفر رضہ اللہ عنہ نے سورۃ مریم میں سے چند آیات تلاوت کر کے سنائی تو بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے وہ اس بات پہ بہت متاثر ہوا اور اسی رقت آمیز ماحول میں اعلان کر دیا کہ کسی بھی مسلامن کو ان دو کافروں کے حوالے نہیں کیا جائے گا اور جب تک مسلمان چاہے اس کی سلطنت میں رہ سکتے ہیں کیونکہ ان کا دین سچا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے آخری برحق نبی ہیں۔ اس نے کفار کے تخفے بھی واپس کر دیے اور ان کو اپنے محل سے نکلوا دیا۔
نبوت کا چھٹا سال اور حضرت حمزہ و عمر رضی اللہ عنھما   
 حضرت حمزہ اور عمر رضی اللہ عنھما کے اسلام میں داخل ہونے پہ اسلام ایک قلعہ کی صورت اختیار کر گیا۔ کفار مکہ کو یہ بات بہت شاق گزری اور ان کے رنج کا کوئی عالم نہ تھا کہ وہ کس کو جا کر اپنے غم کا مداوا کرٰیں۔ ان دو شیروں کا اسلام قبول کر لینا کسی معجزے سے کم نہ تھا جبکہ انہوں نے صرف تین دنوں میں اللہ کی حقانیت پر لبیک کہا۔ اعلان نبوت کا چھٹا سال تھا تو آپ  کے چچا جو جاہ و جلال کے مالک تھے اسلام لے آئے یہ قریش مکہ پر سب سے کاری ضرب تھی جس سے ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ سے دو یا تین سال بڑے تھے اور چونکہ آپ نے بھی حضرت ثوبیہ کا دودھ پیا تھا اس لیے حضرت محمد آپ کے رضاعی بھائی تھے۔ حضرت حمزہ کو آپ سے والہانہ محبت تھی۔ آپ اکثر شکار پر جایا کرتے تھے ایک دن جب آپ شکار کر کے واپس لوٹے تو آپ کی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو بتایا کہ آج کس طرح ابوجہل نے حضور سے بے ادبی اور گستاخی کی ہے آپ یہ تمام ماجرا سن کر آگ بگولا ہوگئے اسی وقت اُٹھ کر حرم کعبہ میں گئے اور بغیر بات کیے ابوجہل کے سر پہ اس زور سے اپنی کمان ماری کے اس لعین کا سر پحٹ گیا اور اس کا خون بہہ نکلا آپ نے اس کو للکار کر کہا کہ تجھے یہ معلوم نہیں کہ میں بھی اپنے بھتیجے کے دین پہ ہوں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ابوجہل کے حامی یعنی قبیلہ مخزومی کے لوگ اس کی مدد میں آگے بڑھے تو ابوجہل نے اس ڈر سے ان کو پیچھے کر دیا کہ کہیں بنو ہاشم سے اس بات پہ جنگ ہی نہ چھڑ جائے۔لہٰذا اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔
اس واقعہ کے بعد ایک اور شیر اسلام داخل خدمت رسول ہوا جس کا گواہ ایک عالم ہے جس صحابی کی تابناکی اور جلوہ افروزی پہ فرشتوں نے آنکر خوشخبری دی کہ اے نبی عالی عمر آ رہے ہیں نبوت کے زور پر ان سے مصافحہ کرنا تاکہ یہ اسلام کو مان کر اپنا فریضہ شروع کریں۔جب آپ نے خوب دبا کر آپ سے دست پنجہ ملایا تو حضرت عمر پہلی ہی نظر میں سرکار دوجہاں مولائے کل سرور انبیاء کے گرویدہ ہو گئے۔ یعنی ایک یار کی یار سے نظر کیا ملنی تھی بس سب کفر دل سے دھل گیا اور نور کی بارش نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر وہ اثر کیا کہ کفار مکہ تذبذب کا شکار ہو گئے کہ یہ کیا ہوا ہم نے تو عمر کو محمد کا سر لانے کے لیے بھیجا تھا اور یہ وہی کے ہو کے رہ گئے۔ ہوا یوں کہ حضرت عمر اسلام سے پہلے اس بات سے خائف تھے کہ ہمارے بتوں کی پوجا کو برا نہ کہا جائے اور سرداران قریش کے عقیدے کے حامی تھے۔ جس طرح کے وہ کہتے تو آپ بھی من و عن اس پہ عمل پیرا ہو جاتے۔ ایک جلسے میں یہ بات فیصل ہوئی کہ کون محمد کا سر کاٹ کر لائے گا تاکہ ہم اپنے پرانے معبودوں  کی پرستش کر سکے۔اکثر عرب کے عالم لوگ اس بات کی تبلیغ کرتے کہ ہم اپنے آباواجداد کے طریق پہ ہی عبادت کرتے ہیں اور صدیوں سے ہمارا نظام اسی طرح چلتا آ رہا ہے تو پھر یہ کون ہوتا ہے جو ہمیں ہمارا دین چھوڑنے کو کہہ رہا ہے۔حضور نبی کریم کے مقابلے میں بھی کافی عالم تھے جو آپ سے آنکر دین کے بارے میں بحث وتکرار کرتے تھے۔ مجلسی میں علمی بحثیں ہوتیں تھیں۔ بعض اوقات صحابہ کرام کو پکڑ لیا جاتا بلکہ ان پاک ہستیوں کا مذاق اڑایا جاتا اور ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں۔ ابو جہل مے تو یہاں تک اعلان کیا کہ جو محمد کا سر کاٹ کے لائے گا تو اس کو وہ ایک شتر کے وزن کے موافق سونے اور چاندی سے تول دے گا۔ اس بات پہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ یہ تو ان کا کام ہے۔ آپ سرکار جب اس مضموم ارادے کو لے کر باہر نکلے تو آپ کو راستے میں ایک عرابی ملا جن کا نام حضرت نعیم رضی اللہ عنہ تھا انہوں نے آپ کو بتایا کہ آپ کی بہن اور بہنوئی نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ آپ یہ بات سن کر ان کے گھر کی چل دیے۔ راہ میں پھر ایک اور اعرابی ملا تو اس نے بھی پوچھا کہ اے عمر کدھر جارہے ہو؟ آپ نے کہا کہ وہ محمد کا سر کاٹنے جا رہے ہیں اس بات پہ اس نے کہا کہ پہلے اس بکری کو  تو پکڑ کر دکھاو پہلے تو آپ بہت مستعدی سے اس کے پیچھے بھاگے مگر نہ پکڑ سکے تو اس اعرابی نے کہا کہ محمد تو اللہ کے شیر ہیں تم کس طرح ان کو پکڑ سکو گے۔ آپ آگے بڑھ گئے۔ جب اپنی بہن کے گھر پہنچےتو ان لوگوں کو کہا کہ مجھے بھوک لگی ہوی ہے کچھ کھانے کو دو۔ آپکی بہن نے کھانا تیار کر کے آپ کے سامنے رکھا مگر خود کھانے کے دسترخوان پر نہیں بیٹھی جس سے آپ کو معلوم ہوگیا کہ وہ مسلمان ہو گئی ہیں تو آپ نے وہی پہ ان کو  بالوں سے پکڑ لیا جس پہ آپ کے بہنوئی نے اپنی بیوی کو حضرت عمر سے حیلہ کر کے چھڑوالیا۔ اس طرح بات ٹل گئی۔ آپ سرکار سو گئے تو آپکی بہن سورۃ طہٰ کی تلاوت کرنے لگی جس کی آواز جب آپ کے کان میں پڑی تو آپ بیدار ہو گئے اور اصرار کیا کہ ان کو بھی یہ آیات پڑھ کے سنائی جائیں۔ آپ اس قرآنی اثر و تاثیر سے نہ بچ سکے اور اسی کے اسیر ہو کر رہ گئے آپ کا دل اسلام کی طرف مائل ہونے لگا۔ آپ صبح ہوتے ہی دوبارہ اپنے مشن پر نکل پڑےراستے  میں لوگوں نے آپ کو یہ بھی بتایا کہ جہاں آپ جا رہے ہیں وہاں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں آپ نے کہا میں کسی کی پرواہ نہیں میں لازمی سر کاٹ کے لے جاوں گا۔ جیسے ہی آپ مکان کی طرف بڑھے اور دروازے پہ دستک دی تو آقائے نامدار رحمۃ اللعالمین نے سوال کیا کہ تم کون ہو۔ جواب آیا عمر بن خطاب جیسے ہی نبوت  کے زور سے آپ سے دست پنجہ ملایا تو حضرت عمر اسلام لے آئےاور اسی طرح اسلام میں اس بات کی بہت خوشی منائی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کی کہ اسلام کو کھلے طور پہ پھیلایا جا نا چاہیے۔اس طرح چھپ کر کیا فائدہ۔
شعب ابی طالب اور تبلیغ    
 جب کفار مکہ یہ دیکھا کہ حضرت حمزہ اور عمر رضی اللہ عنھما جیسے طاقتور اور معروف لوگوں نے اسلام کا رُخ کر لیا ہے تو وہ کوئی نئی سکیم میں لگ گئے وہ سب کسی بات پہ پہنچنے کے لیے خیف بن کنانہ میں جمع ہوئے۔ یہ نبوت کا ساتواں سال تھا۔ قریشی سردار آپے سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔ اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ محمد کے خاندان اور ساتھیوں کا بائیکاٹ کر دیا جائے ان سب کے ساتھ راطہ نہ رکھا جائے لہٰذا یہ طے پایا کہ جب  تک یہ لوگ خود محمد کو ہمارے حوالے نہیں کریں گے تو
کوئی شخص بنو ہاشم کے خاندان سے شادی بیاہ نہ کرے گا۔
کوئی شخص ان لوگوں کے ساتھ سامان کی خرید و فروحت نہیں کرے گا۔
کوئی شخص ان لوگوں کے ساتھ میل و جول،ملاقات، سلام ،کلام و بات نہیں کرے گا۔
کوئی شخص انلوگوں کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ جانے دیں۔
منصور بن عکرمہ نے اس معاہدے کو لکھا اور بعد میں کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا۔ ابوطالب سب کو اکٹھا کر کے ایک پہاڑی شعب ابی طالب کی طرف لے آئے۔ یہ گھاٹی بنو ہاشم کی موروثی ملکیت میں تھی۔ کوفہ جاتے ہوئے سفر کے دوران حضرت امام حسین علیہ السلام خانہ کعبہ کے قریب طند دن اسی گھاٹی نیں ٹھہرے تھے۔ ابو لہب کے علاوہ بنو ہاشم کے ہر فرد نے آپ کا ساتھ دیا۔  تین سال کےاس مشکل وقت کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ بھی کیا کیونکہ یہ بڑا کڑہ وقت تھا مگر لوگوں نے درختوں کے پتے اور چمڑے کو کھا کر گزارہ کیا۔ بعض اوقات عورتوں اور بطوں کے بلکنے کی آوازیں بھی آتی مگر حضورکائنات شفیع المذنبین اپنے اللہ کی طرف لو لگائے ہوئے تھے کہ مکہ کے کطھ رحم دلوں نے اس گھاٹی کی راہ لی اور ان مظلوموں کی حمایت میں ابوجہل، ابولہب اور ابوسفیان اور ہمنوا کے خلاف تحریک چلادی۔ ان لوگوں میں ہشام بن عمرو عامری، زہیر بن ابی امیہ، مطعم بن عدی، ابولبختری اور زمعہ بن الاسود تھے۔ ان میں سے حضرت عبدالمطلب کے نواسے زہیر نے پرجوش انداز میں تقریر کی اور کہا کہ ہم نہ شروع اور نہ ہی اب اس حق میں ہیں کہ ان لوگوں کو اس طرح سے سزا دی جائے۔ جب تک تم اس وحشیانہ معاہدے کو پھاڑکر پھینک نہیں دیتے میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ اس بات پہ ابوجہل تڑپ گیا اس لعین نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہوگا تو زمعہ اس بات پہ آگے بڑھا اور شیر کی طرح ابوجہل پہ لپکا کہ اس کی بولتی بند کرادی۔اسی طرح مطعم بن عدی اور ہشام نے بھی ابوجہل کو بری طرح جھڑک دیا۔ یہ چاروں حرم میں موجود ہر دشمن اسلام پر پل پڑے اور کسی کی بات کو ترجیح نہ دی سوائے اس بات کے کہ یہ ظالمانہ پابندی ختم کی جائے۔ جس وقت کے یہ بات جاری تھی حضرت ابو طالب بھی وہی موجود تھے آپ نے کہا کہ میرے بھتیجے محمد کے مطابق تو اس کاغذ کو کیڑے کھا گئے ہیں اگر ایسا ہے تو وہ معاہدہ رہا ہی نہیں جا کر دیکھنے پہ ایسا ہیی نکلا۔ اس مضموم معاہدے کے بعد تمام لوگوں کو ان کے گھروں میں آباد کر دیا گیا۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا ۔ منصور بن عکرمہ جس نے یہ معاہدہ لکھا تھامگر بعض روایتوں میں بغیض بن عامر بن ہاشم کا نام بھی آتا ہے جس پر کہ حضور نے بدعا کی اور اس کا ایک ہاتھ یا تین انگلیاں شل ہو گئیں یا سوکھ گئی تھیں۔
غم کاسال: حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات( عام الحزن)  
ابھی شعب ابی طالب کی تھکاوٹ نہ اُتری تھی تو ابوطالب گھاٹی سے نکلنے کے آٹھ ماہ بعد بیمار پڑ گئے مگر ان کی حالت انہیں اپنے خالق حقیقی کے پاس لے گئی۔ آپ سرکار دو عالم اس بات پہ بہت ہی مغموم تھے۔ انا للہ و اما علیہ رجعون۔ حضور رحمت عالم کس طرح سے اپنے چچا کی مشفقانہ پرورش اور دیکھ بھال کو بھول سکتے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر کہ جس جانثاری سے انہوں نے آپ سرکار کاکفار کے مقابلے میں صرف آپ کا ساتھ دیا اس لیے آپ سرکار آخری دم تک حضرت ابو طالب سے کلمہ طیب پڑھنے کو کہتے رہے مگر وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کی وجہ سے آپ نے کلمہ نہیں پڑھا اور اسی بات پر تھے کہ میں عبدالمطلب کے دین پہ ہوں۔حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی اپنے چچا کے لیے اس وقت تک دعائے مغفرت مانگتا رہوں گا جب تک کہ اللہ مجھے منع نہیں کرے گا۔ ابھی ابوطالب کی وفات کا زخم تازہ تھا کہ تین دن یا پانچ دن بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کو چھوڑ کر دنیا فانی سے رخصت ہو گئی۔ ابوطالب کے بعد یہ وہ ہستی تھی جنہوں نے ہر اعتبار سے آپ نبی مکرم سلی اللہ علیہ وسلم کی تن من دھن سے مدد کی۔ آپ کو ہر مصیبت میں حوصلہ دیا،ڈھارس بندھائی اور غمخواری میں کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹی۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں آپ سرکار عالی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نےدوسری شادی نہیں کی تھی۔ اب ان دو ہستیوں کے دنیا سے جانے کے بعد آپ نے بہت تنہائی محسوس کی۔ حضرت ابو طالب کی عمر مبارک 80 برس اور حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک 65 برس تھی۔ آپ کو مقام حجون (قبرستان جنت المعلٰی) میں خودآپ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے دفن کیا۔
سفر طائف
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تھک کاوشوں اور مخنت کا جب کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہ آیا تو آپ مکہ کے ان لوگوں سے مایوس ہو گئے حتٰی کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ نے اپنی ہمت نہیں ہاری آپ کیا کچھ نہ کر سکتے تھے آپ کو ساری کائنات کا مالک بنا یا گیا تھا مگر آپ نے معجزات کا بہت کم سہارا لیا اور ہمیشہ جدوجہد اور عملی کام کو ہی ترجیح دی اسی لیے اب کی بار آپ نے مکہ کی دوسری وادیوں کا رُخ کیا جن میں طائف کا ذکر آتا ہے۔
سفر طائف آپ کے ساتھ آپ کا ایک غلام زید بن حارثہ بھی ساتھ تھا۔ آپ طائف کے ان ہی رئیسوں میں سے ایک بندے عمرو سے ملے جو تین بھائی تھے۔ ان میں  عبدیالیل،مسعود اور حبیب تھے جب ان کو دعوت اسلام دی گئی تو بجائے اس کے کہ وہ اس دعوت حق کو قبول کرتے انہوں نے آپ کا مذاق اڑایا بلکہ چند شریر اور اوباش لڑکوں کو آپ کو تنگ کرنے پہ لگا دیا۔آپ کو طعنہ زنی کی، تالیاں بجاتے رہے اورگالی گلوچ بھی کی۔ ان لعنتیوں نے آپ کو اتنا تنگ کیاکہ تاریخ میں کہیں اور ایسی مثال نہیں ملتی اور مزید یہ کہ آپ پہ اتنے پتھر برسائے کہ آپ لہولہان ہوگئے اور اس بات سے آپ کے پاوں مبارک تک خون آگیا۔ اسی اثناء میں آپ اور غلام زید بن حارثہ نے ایک انگور کے باغ میں پناہ لی اور ان لعینوں سے اپنی جان بچائی۔یہ باغ مکہ کے ایک کافر عتبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ کا تھا انہوں نے جب آپ اور زید بن حارثہ کی یہ حالت دیکھی تو ان کی خاندانی حمیت جوش میں آگئی۔آپ کو باغ میں ٹھہرا لیا گیا اور انگور کا ایک خوشہ خدمت اقدس میں پیش کیا گیا جیسے ہی آپ نے اسے بسم اللہ پڑھ کے کھانا شروع کیا تو وہ نصرانی غلام 'عداس' پوچھنے لگا کہ یہاں تو ایسی زبان نہیں بولی جاتی آپ کون ہیں آپ نے فرمایا کہ محمد عربی ، اللہ کا آخری رسول ہوں۔ وہ آپ کی تابناک شخصیت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا بولا کہ میں شہر نینوا کا رہنے والا ہوں۔ آپ نے کہا کہ وہاں کے تو حضرت یونس علیہ السلام بھی ہیں میں طرح نبی تھے۔ عداس آپ اس معصومانہ ادا کو برداشت نہ کرسکا اسی وقت آپ کے قدموں کو چومنے لگا اور آپ کا کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔