Thursday 25 June 2015

waseela

اعلحضرت شاہ محمد امین شاہ رح فرماتے ہیں
حدیث مبارکہ- الشیخ فی قومہ کان النبی فی امتہ
ترجمہ ۔ جس طرح علم ظاہر کے لیے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح علم باطن کے لیے کسی شیخ یعنی پیر کی ضرورت ہوتی ہے۔  علم باطن دل سے دل تک اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔ اکثر پیروں کا باطن رابطہ مریدوں کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے۔اتنی بڑی راہبری کے لیے ظاہریت کافی نہیں ہوتی۔ کچھ باتیں اشارے میں اور کچھ کنایوں میں سمجھائیں جاتی ہیں۔ بعض اوقات الفاظ دھوکہ دیں جاتے ہیں۔ یہ سب سلوک کی منزلیں علم باطن ہی طے کرتا ہے۔ مرید میں ایسے خصائل کا یکایک نمودار ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ پیر اس سے کہئی کام لینا چاہتا ہے چاہے دوسرے اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں اس سے کہئی فرق نہیں پڑتا۔
زیادہ تر کیا بلکہ سب ہی مولویوں کا طریقہ علم ظاہر ہے جو نظر اتا ہے پہ یقین کقمل کرتے ہیں۔ مگر اولیائ کرام رح کا علم باطن کے ساتھ اپنے معتقدوں کی تربیت دیدنی ہے۔ پیرو مرید کا کامل یقین وسیلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لو مولوی بھی پیچھے نہیں ہے وہ بھی یہی کہتا ہے مگر ولی اللہ کے کہنے میں اور ولی کی بات میں فرق اثر کا ہے ولی اپنی باطن کی انکھ سے جو دیکھتا ہے اس پہ مکمل یقین رکھتا ہے۔پیر نے اپنے مماننے والے کو کامیابی کی سیڑھی کے پار دیکھتا ہے۔مولوی نے بس وعظ کیا اورا س کی ذمہداری ختم۔ اللہ تو خود کہتا ہے کہ اگر تم نے دین کو سمجھنا ہے تو میرے اولیائ کی صحبتت اختیار کرو۔
یہ اللہ والے ہر وقت اس کا قرب، لطف و عنائت ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اس تک جانے کے لیے اسی کے اسم کو وسیلہ بنا کر خوب ااس کی مداومت کرتے ہیں۔ اولیائ اللہ خود اپنی ذات میں ایک وسیلہ ہوتے ہیں۔ان کو بھی تو وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس ضمن میں یہ نماز، قران، نوافل اور سب سے بڑھ کے درودشریف کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ حضور عالی صلی اللی علیہ وسلم پہ درود کی لڑیاں بھیجنا کہئی کم سعادت نہیں۔ تمام عبادتیں اس ایک عبادت کا مقابل نہیں ۔اپ ﷺ پہ درود پاک بہت بڑا وسیلہ ہے۔ درود پاک کی اہمیت اور فیض کو سمجھنے ے لیے پیر و مرشد کا ہونا ضروری ہے اس لیے کہ بعض باتیں سمجھنے کے لیے ایک عارف با وقار شخصیت ہے جو ڈائریکٹ فیض کت ذریعے ہمیں بتا سکے۔