Tuesday 17 November 2015

waseela or approach o GOD through saints

بفیضان نظر بندگان با صفامرشد حق حضرت شاہ محمد امین شاہ فخرالتوکل الاولیاء قادری علائی شکوری منعمی رحمۃ تعالٰی علیہ
سوال۔ کیا آپ وسیلے کو مانتے ہیں؟
جواب۔ جب بھی یہ سوال  کیا جاتا ہے  تو ہر سمت سے اس کے خلاف زیادہ اور اس کے حق میں بہت کم لوگ منظرعام پر آتے ہیں۔ مختلف اوقات میں لوگوں سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے اپنے علم و ادراک کے مطابق جوابات سے مرحمت کیا۔ وسیلے کی ضمن میں صاحبا ن کے دیے گئے جوابات ملاخظہ ہوں۔
میں وسیلے کو مانتا ہوں۔
محمد امین۔ بینکر الفلاغ بینک
جی وسیلہ ہونا چاہیے اگر وسیلے کی ضرورت نہ ہوتی تو خدا تعالٰی پیغمبر اور نبی نہ بھیجتا۔سید فرمان احمد شاہ۔ بی ایس ٹیک انجینیئر
جی مانتا ہوں۔ ذیشان قادری شکوری علائی۔بی ٹیک انجینیئر
جی مانتی ہوں۔ معصومہ نثار۔ ڈی فارمیسی
جی مانتا ہوں 100 فی صد۔بلال انور۔اکاوٹنٹ۔ یو ایس اے یونیورسٹی
خالد اقبال قادری شکوری علائی۔ علیم ڈی اے ای۔ احمر ڈی اے ای۔ اویس بی ایس سی انجینیئرنگ ۔ خافظ ابو بکر بی ٹیک انجینیئرنگ۔ وقاص ڈی اے ای۔ قیصر صاحب یو ای ٹی چیف لیب آفیسرحسن بصری میڈیسن آفیسر۔ ریحان مصطفٰی  قادری نقشبندی اکاوٹیٹ واپڈا
جی ہاں قرآن میں وسیلے کا ذکر ہے۔فواد یونس  ایم بی اے
قرآن و حدیث کا ٹھیک مفہوم سمجھنے کے لیے ہمیں کسی کنسرڈ پرسن کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیٹ سی وائی ہم لوگ پیروں کے پاس جاتے ہیں۔ عمران ارشاد بی ایب ٹیک انجیننیئر سول
وسیلے سے ہی حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے خدا کو خوش کرنے کے لیے قربانی کا سہارا لیا اور سارا ثواب سمیٹ لے گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک بڑا وسیلہ ہیں کہ جن کے  دم سے دنیا وجود میں لائی گئی۔حضور عالی ﷺ کی ذات اطہر ایک وسیلہ ہیں محمد اویس قادری شکوری علائی امینی۔
یعنی اللہ کا شرک ہےوسیلہ۔ ارسلان بی ایس ٹیک
میں ذاتی طور یہ مانتا ہوں کہ ہم سب اللہ کے  بندے ہیں۔ اور ہم کو ڈائریکٹ اللہ سے مانگنا چاہیے۔ نہ کہ پیر سے اور اللہ ہماری عبادت قبول کرتا ہے۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ لیکن وسیلہ یہ ہے کہ ہم کسی نیک بندے کو دیکھے اور اس سے یہ کہے کہ ہمارے لیے دعا کرنا۔عقیل حیدر بی ایس سی انجینیئرنگ
میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح وسیلہ کو نہ مانتا اگر میں نے بے اولاد جوڑوں کے گھروں میں اولاد ہوتے نہ دیکھی ہوتی۔ یہ بات ایسے ہے کہ جن لوگوں کو ڈاکٹر اس بات کا سرٹیفیکیٹ دے دیتے ہیں کہ بچہ نہیں ہوسکتا تو اللہ کی ذات ان لوگوں کو اپنے کسی محبوب کے قدموں کے صدقے اولاد ہی نہیں بہت کچھ نواز دیتا ہے۔ حضرت عبدالقادر جیلانی جب اپنے بچپن میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیلتے تو عجیب و غریب مناظر روپذیر ہوتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت کا بچہ مر گیا۔ وہ بھاگی ہوئی آئی اور فریاد کرنے لگی کہ اس کو بچے سے بھت محبت ہے اس کے سوا اس کا ا کوئی نہیں۔ حضرت کی والدہ ماجدہ نے کہا کہ جب عبدالقادر سب بچوںکو کہے کہ لیٹ جاو تو تم بھی اپنا لڑکا وہاں لٹا آنا۔ تمہارا کام ہوجائے گا۔ وہ عورت ورطہ حیرت میں اپنا مرا ہوا بچہ وہاں لٹا کر ایک جگہ چھپ کے کیا دیکھتی ہے کہ جب آنکھیں بند بچوں کو آپؒ نے اٹھنے کے لیے کہا تو وہ مردہ بچہ بھی اٹھ گیا۔
اللہ تعالٰی کی ذات نے جب بھی انبیاء کرام علیھم السلام سے کوئی  بات کرنی یا پیغام دیا تو فرشتوں کو ہی اس کام پہ معمور کیا۔ اس بات سے یہ پردہ بھی فاش ہو جا تا ہے کہ وہ ذات الہٰی ہم عام انسانوں کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ اس کے کلام کو سننے کی قوت رکھ سکیں۔ اللہ حضرت موسٰی سے ہم کلام ہوا ہے۔ وہ تو ہر بات پہ قادر ہے اگر بغیر باپ کے پیدا ہونے والے حضرت عیسٰی علیہ السلام نبی ہیں تو وہ ہر انسان سے خود ہی بات

بھی کر لییتا۔اگر وہ کبھی اپنی قوت و استعداد کے عین مطابق عطا کرنا شروع ہو جائے تو ہم انسان اللہ کا دیا ہوا سنبھال نہ پائے۔ یہ بات ضرور ہے کہ اس کی تخلیق کردہ کائنات ہے اور وسیلہ بھی اسی کی ہی عنایت ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے کوئی بات سیدھی ہم تک پہنچتی ہے تو ہم اس کا بوجھ شاید برداشت نہ کر پائے۔
وہ کلھم ہے جو چاہے اور جیسے چاہے۔
فیغفر من یشاء و یعذب من یشاء کییونکہ لللہ ما فی السمٰوات و ما فی الارض۔سورۃ البقرۃ۔ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے صرف اللہ ہی کا ہے۔ محمد ثوبان قادری شکوری علائی امینی
یہ لفظ جس پہ آج ہم اپنے خیالات کا تبادلہ کر رہے ہیں کسی بھی تعارف کا مختاج نہیں ہے پر پھر بھی ہر لفظ کی کوئی پہچان اور جانچ ہی اس کا اصل پتا دیتی ہے۔ اس کے معنی ہیئت کو اگر دئکھا جائے تو اس کا مطلب وجہ، سبب اور ہاتھ ملانے کے ہیں۔ یعنی ایسے ذرائع جو آپ کو قریب کر دے۔ اب ان حضرات سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا وسیلہ کوئی بری بات ہے کہ جس کا مطلب ہی قرب کے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قریب اور رسول اکرم ﷺ کے قریب۔ وہابیوں کے ہادی اعظم جناب مولانا اشرف علی تھانوی کے مطابق لفظ ' وسیلہ ' کی تشریح و توضیح بیعت مرشد ہے۔ کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں خود اللہ کی ذات ارشاد کرتی ہے
پارہ نمبر 2 سورۃ مائدہ
یایھا الذین امنواتقواللہ وابتغواالیہ الوسیلہ وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون۔ ترجمہ۔ اے لوگو جو ایمان لے آئیں ہو تو اللہ سے ڈرو اور وسیلہ کی تلاش کرو اللہ کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم فلاح پا سکو۔
اس کے ترجمہ میں  کہا  گیا کہ اے لوگوں جو ایمان لے آئے ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاو یعنی فلاح والے انسان۔ اب اس آیہ مبارکہ میں ایمان لانے تقوٰی اختیارکرنے اور وسیلے کی تلاش میں نکلنے کو کہا گیا ہے۔ اور اس بات کو مشروط کر دیا گیا ہے جہاد کے ساتھ اور جہاد کیا جاتا ہے نفس کے خلاف۔نفس جو کہ سرکش ہو اور وہ بھی ایسا کہ جو اللہ کی یاد نہ کرے اور دنیا کو سر کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔
ایمان، تقوی، تلاش وسیلہ اور جہاد اور اس سب کا اجر فلاغ ہے۔ اسی فلاح کو سورۃ المومنون کے بالکل آغاز مین کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے جو ایمان لے آتے ہیں اور اس پہ قائم رہتے ہیں تو ان کا کیا انعام ہے۔ قد افلح المومنون0 والذین ھم فی صلاتھم خشعون0اس کے علاوہ ایک اور جگہ پہ ان ہی مومنون کے باررے میں کہا گیا کہ وہ اولئک ھم الورثون جو ہمیشہ جنت فردوس میں ہی رہے گے مگر عمل کرنا بھی تو ضروری بات ہے ۔
یہ تو ابھی ایک ایمان والے کی خوبیاں ہیں۔ جو اس کے بعد ھدی المتقین ہیں وہ کیا کیا خصؤصیات لیے بیٹھے ہیں۔ سبحان اللہ
زور اس بات پہ دیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں اگر تقرب چاہتے ہو تو اس کے قریب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے نبی آخری الزماں ﷺ کے دامن کو مضبوطی سے تھام لو بس اس سے بڑا اور کوئی جواب نہیں اس بات کا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔حضورﷺ نے فرمایا وسیلہ ایک درجہ ہےجس کے اوپر کوئی درجہ نہیں۔ ایک اور جگہ آپ سرکار نامدار حق ﷺ فرماتے ہیں ' عند ذکر اصالحین تنزل الرحمۃ۔ ترجمہ۔ اللہ کے نیک بندوں کا ذکر نزول ڑحمت  کا باعث ہے۔ اسی وسیلہ کے معنی کو اور قریب سے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺکی اس بات پہ دھیان دے۔ جسے اللہ کی محبت مطلوب ہو اسے چاہیے کہ اہل ذکر کی مجلس میں بیٹھے۔ ایک اور جگہ پہ بھت ہی واضح اشارہ ہے کہ اولیاء اللہ کے در اللہ سے ملنے کے لیے بہترین آماجگاہ ہیں۔
ہر کہ خواہد ھم نشینی با خدا
او نشیند در حضور اولیاء
اگر کسی بھی فرد کو یہ خواہش ہو کہ وہ خدا سے ملنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان اولیاء اللہ کے در پہ حاضری دے اسے  وہی اس جگہ سے فیض حاصل ہوگا۔
کیا کوئی کتاب اس قابل ہے کہ جو ہمیں براہ راست علم سے منور کر سکے۔ حتٰی کہ قرآن کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے حضور صلی علیہ والہ وسلم کی تشریف آوری کا کون انکاری ہے کوئی بھی نہیں۔ اصل میں انسانی عقل، شعور، حواس، ادراک، فہم اور دماغ اس قابل نہیں بنایا گیا کہ وہ خالق کی نازل کردہ علمی حقائق والی باتوں کو نہ تو سمجھ سکے بلکہ اندھا دھند عمل کرے۔ قرآن کہتا ہے نماز پڑھو ٹھیک پڑھ لی وضو کرو پر طریقہ کہاں ہے؟ قرآن میں جاو بتاو۔ ذکر خفی کرنا ہے کیا ہے وہ کون بتائے گا تم کو کب کرنا ہے اور اگر وقت پہ نہ کیا تو اس کی قضا کیا ہے۔
اُستاد  کے  بغیر کسی بھی کلاس میں رزلٹ لینا بہت مشکل کام ہے چلو مان لیتے ہیں کہ کتاب ہی ہماری لیے کافی ہے تو خود ہی پڑھ لیا کریں گے نہیں کسی استاد کی مدد لیں گے۔ مگر یہ سب ڈھیٹ اور بےکار لوگوں کی باتیں ہیں جو بہت ہی جاہل لوگ ہیں۔
وسیلہ پر اعتراض کرتے ہیں تو جو انگریز ہیں جن میں آلڈس ہیکسلے کا نام آتا ہے وہ تو یہ کہتا ہے کہ ایک صوفی کے پاس سیکس، مذہب اور سائنس کا پورا علاج ہے اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
تھامس کارلائل نے تو محمڈن تھیوری ہی کو اپنا کر کتاب لکھ ڈالی' شارٹ ازم'۔ جو ایک کتاب ہینڈرڈ گریٹ مین ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی سر فہرست ہے کیا وہ لکھنے والا مسلمان ہے وہ تو اہل کتاب ہے۔
ت لوگوں میں ذرا سی سوچ نہیں ہے گاندھی جیسے بندے نے آپ سرکار دو علام کے فلسفہ حیات کو اپنا کر گول میز کانفرنس کے اصول کو متعارف کروایا کہ یہ کامیاب طریقہ ہے بات کو سلجھانے کا اور یہ مسلمان ابھی اسی بات پر اٹکے ہوئے ہیں کہ قرآن یہ کیوں نہیں کہتا کہ خدا سے مانگو۔ ایک بات ہے اگر چلو یہی مقصود تھا تو اتنے نبی بھیجنے کی کیا ضرورت تھی، نہیں پسند کرتی وہ ذات اعلٰی تم سے بات کرنا۔
 لقد خلقنا الانسان فی کبد۔لقد خلقنا الانسان کفورا۔ اور کیا رہ جاتا ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے کو تو بار بار راہنمائی لینی پڑتی ہے تو کیا دین میں کسی ضرورت نہیں پڑتی ۔ وہاں تو ڈرتے ہو کہ کہیں آفیسر نکال نہ دے تو یہاں کیوں نہیں ایسا ڈر وہ اس لیے کہ یہ کونسی نوکری ہے۔
سمجھو بات کو کہ دعا کیسے مانگو گے تاکہ اپنے اندر وہ خصوصیات بھی تو پیدا کر سکو انسان کو اپنے بارے میں ادراک اور معلومات نہیں ہوتی اور قلابے آسمان کے ملاتا ہے۔ہر کوئی یہی سوال لیے ہوئے ہے جی وہ ولی کی کیا ضرورت ہے؟
اپنی تھوڑی سی عبادت پہ تمہیں ناز ہے تو جب سانس نکل جائے گا اور ہر روز قبر میں سوالوں کے جواب ہونگے تو پھر وہاں پہ بھی یہی کہنا کہ جاو فرشتوں اللہ کو بلاو تمہاری کیا ضرورت ہے۔
کیا اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے نماز کی ضرورت نہیں۔ کیا بادشاہ تک سیدگے ہی چلے جاتے ہو کہ کسی دربان کا سامنا بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔ روٹی سامنے رکھ کر نہ کھایا کرو اس سے کہو کہ روٹی تو خود ہمارے منہ تک پہنچ جا۔
یہ سب آپ سرکار دو عالم کے دین کی اشاعت ہے جس کے لیے پہلے انبیاء کرام کو معبوث کیا گیا بعد میں آپ حضور عالی مقام خود تشریف آور ہوئے پھر آپ ﷺ کے مشن کو آئمہ کرام نے سر انجام دیا اس کے بعد اب اولیاءکرام رحہما اللہ ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
پتا ہے تمہیں یہ اولیاء اللہ کیا کہتے ہیں اپنے ماننے والے مریدین کو تو پڑھو
بڑی وار میں دل نوں ٹھاکیہ سی
بھید غیراں اگے نا کھولیا کر
جدا ہو چکا سدا رو اُس دا
تسبیح یار دے ناں دی رولیا کر
توڑے لکھ مصیبتاں تیری جان اتے
دکھی ہووے تے دلی نہ ڈولیا کر
دائم رکھ اگے یار دا فوٹو
او بولے نہ بولے تو بولیا کر
یہ بات ہے ان اولیاء اللہ کی دیکھا کیا فلاسفی ہے ان کی۔
مزید دیکھو کہ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں
نہ کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آپ حیاتی ہُو
شوق دا دیوا بال ہنیرے متاں لبدی وست کھڑاچی ہُو
کسی کو کیوں الزام دیتے ہو اے نادان جاو اپنی آگ کو جلا کے دیکھو تم خود ہی نعرہ نہ مار بیٹھے تو کہنا کہ یہ سب فراڈ ہے۔
  حدیث سے مروی ہے الشیخ فی قومہ کان النبی فی امۃہ۔ جس طرح کہ علم ظاہر کو جاننے اور سمجنھنے کے لیے ایک عالم یا استاد کی اشد ضرورت ہے اسی طرح علم باطن بھی ایک پیر طریقت اور پیر شریعت کی بھی ڈیمانڈ کرتا ہے۔
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یخزنون۔الذین امنو او کانو یتقون۔
ترجمہ۔ سن لو کہ اللہ کے ولیوں کو نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی ان پر کوئی خزن ہے۔ یہ اللہ پہ ایمان لائے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں۔
لفظ ولی کے معنی قرب اور ولایت کا معنی حمایت کے ہیں۔ اب اگر ان دونوں الفاظ کی حقیقت کو پہنچا جائے جو ایک کٹھن مرحلہ ہے تو معلوم ہوتا ہے ایسے قرب اور نزدیکی والا شخص جو صرف اللہ کی مدد کی طرف ہی دیکھتا ہے کہ کب اس کو رب اپنا دیدار کرواتا ہے ولی کی ہر ہر ادا صرف اور صرف اپنے رب پہ مر مٹنے کی ہوتی ہے۔ پتا نہیں ہم لوگ کن لوگوں کو ولی اللہ کہتے ہیں۔ ارے بھائی وہ ڈبہ پیر ہیں لوٹے ہیں تم نے پھر کبھی ولی حق کی زیارت ہی نہیں کی۔ کبھی خزانہ بھی یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں ہوں خزانہ۔ یہ تو مخلوق سے چھپتے ہیں۔ دنیاوی حاجات سے پاک یہ یگانہ روزگار ہستیاں تو ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب ﷺ سے ملنے کی منتظر رہتی ہیں۔ دنیا سے بیزار یہ لوگ حق کی یاد میں سوختہ جان ہوتے ہیَ
حضرت موسٰی علیہ السلام جو جلیل القدر نبی ہیں اور جن کا لقب کلیم اللہ ہےکوہ طور کے واقعہ کے بعد ان کے چہرے پہ کوئی نقاب نہ ٹھہرتا تھا تو اللہ تعالٰی کی ذات نے آپ سے کہا کہ آپ جنگل میں میرے ایک بندے سے ملے وہ آپ کو جو کچھ دے اس کو پہن لینا۔ جیسے آپ سرکا نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک گھتڑی لیے بیٹھا ہے تو آپ آگے بڑھے اور بات کی اس نے آپ کو ایک لال رومال دیا اور آپ اس کو لے کر وہاں سی آ گئے۔ سرکار نے جیسے ہی وہ رومال اپنے رخ روشن پہ باندھا تو ساری تجلی اس میں سما گئی۔ یہ شان ہے ایک اللہ کے ولی کی۔
اللہ کے ولی اپنے رب کے متلاشی ہوتے ہیں اور اس کے بدلے میں کوئی بات یا وعدہ یا چیز نہیں مانگتے۔ جس کا ایک زندہ ثبوت میں ہوں میرے پیرومرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ ؒ نے اپنی زمین جو سلسلہ عالیہ کے لیے بذات خود خریدی تھی پر اس پہ دنیاوی اعتراضات کی وجہ سے دنیاداروں کو دے دی  گئی۔ کیا یہ 34 مرلے زمین مذاق کے طور پہ لی گئی تھی کیا ولی بھی تم سے ٹھٹھہ کرتے ہیں جو لوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کو لے کر آگے چلتے ہیں جن کا ایک ایک قدم اپنے نبی حقﷺکے پیچھے اٹھانا اپنی سعادت گردانتے ہوں یہ سچے عاشق رسولﷺ ہیں۔ ان کی جیب خالی مگر دل پوری طرح مطمئین ہوتا ہے۔
کیاخسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ان خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
 جو آپ سرکارﷺکی اداوں کو جب تک اپنی باطنی آنکھ سے دیکھ نہ لیں تو ان کو چین نہیں آتا۔ جو ہر وقت حضور عالی مقام سیدنا و محبوبنا و مرشدنا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف کی لڑیاں نچھاور کرتے رہنے میں ایک لذت اور لطف و سرور محسوس کرتے ہیں یہ لوگ اس میں ہی رہنا زندگی کہتے ہیں۔ حضرت جلال الدین سیوطی اور حضرت شاذلیؒ کے نامؤں کو نظرانداز کرنا بے وفائی ہوگی۔ویسے تو ولی کوئی بھی ہو آپ کی اجازت کے بغیر کوئی کچھ نہیں۔ آپ ہی کے وسیلے سے سب ممکن ہے۔
آپ سرکار دو عالمﷺ نبوت سے پہلے بھی وسیلہ تھے اکثر حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ آپﷺ کو کعبۃاللہ کی دیوار کے ساتھ لگا کے بارش کی دعا کرتے تو بارش شروع ہوجاتی۔ ایک مرتبہ بعد نبوت کے کچھ کفار مکہ آپ ﷺکی خدمت عالیہ میں آئے اور بولے کہ بارش نہیں ہو رہی اور قحط کا خدشہ ہے آپ نے اسی وقت دعا کی اور اللہ نے ان کو پانی کی نعمت عطا کی۔
دوسرے انبیاء کرام میں جب حضرت یوسف علیہ السلام نے حضرت یعقوب علیہ السلام کواپنا کرتہ بھیجا کہ اس کو اپنی آنکھوں پہ لگائے گے تو ان کی بینائی آجائے گی۔ایسا ہی ہوا۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک تو آنکھیں اور دوسرا اس وسیلے کے بتانا کہ میں یعنی حضرت یوسف زندہ ہیں۔
یہ وسیلے والے نبی صحابی اور ولی اللہ کے سفیر  ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ اپنی کتاب ' کشف المحجوب ' میں رقمطراز ہیں آپ حضور فرماتے ہیں۔ اللہ تعالٰی روئے زمین کو بغیر سبب قائم رکھے ہوئے نہیں۔ پس وہ ہرگز اس کو بغیر ولی نہیں رکھتا۔ اولیاء اللہ ایسے بھی ہییں جن کو اس نے اپنیدوستی اور ولایت کے لیے مخصوص رکھا ہوا ہے۔ ان کو طبعی حالات و آفات سے پاک کر دیا ہے۔وہ نفس کی پیروی نہیں کرتے۔ اللہ کے سوائے کسی کی اطاعت نہیں کرتے اور اس کے علاوہ کسی سے آسس نہیں رکھتے۔  
علم القرآن اور علم الحدیث کے متوالے یہ اللہ کے نیک بندے یعنی ولی دنیا کو ترجیح نہیں دیتے وہ تو بھاگتے ہیں اس پھنسا دینے والی جگہ سے۔وہ تو خود اللہ کی طرف رجوع کرتے اور ہمیں بھی ان سے محبت کرنی چاہیے تاکہ جان پہنچان کی بنا پہ وہ لوگ یوم آخرت ہمیں پہنچان لیں اور شاید مغفرت کا سامان ہو سکے۔
فازکرونی اذکروکم و اشکرولی ولا تکفرون۔ کے مصداق یہ لوگ کسی ایسے ویرانے کی تلاش میں ہوتے ہیں جہاں انسان ان کا پیچھا نہ کر پائے۔ اگر یہ لوگوں میں رہتے ہیں تو ان پہ بھت کڑی تنقید ہوتی ہے پھر بھی یہ کہتے ہیں
بقول حضرت بابا بھلے شاہؒ
عاشق ہایا اے رب دا تے ہوئی ملامت لکھ
تینوں کافر کافر آخ دے تو آہو آہو آخ
یہ لوگ چاہے تو ان میں حضور اکرم صلی علیہ والہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم ہوں یا صوفیا کرام رحیم اللہ یہ اہل عشق ہیں اور عشق کی یہ آگ ان کو جلا ہی ڈالتی ہے
گل گل گئی تیری گل پچھے
جان جل گئی گھڑا گل گیا
لے کے لشکر ہتھیار فوج ننگے
چاری راہ نمانی دے مل گیا
او چھل اوں تھل پئی پے چناں تڑ تھل پیا
توبہ دائم میں ایس عشق دی اگ کولوں
پانی وچ وی پُتلا جل گیا

  




No comments:

Post a Comment