Friday 27 November 2015

Bait e Peer

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سلسلہ عالیہ شکوریہ علائیہ امینیہ ؒ میں اولیاء اللہ کی دعوت و برکات
 صرف وہی لوگ سلسلہ عالیہ میں داخل ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالٰی کی ذات چاہتی ہے کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ من یشاءبغیر حساب والا معاملہ لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ قابل غور نکتہ کہ اگر لوگوں کو من جانب اللہ کوئی بات حاصل نہیں تو وہ اپنے ارادے، اختیار یا عقیدے کے بل بوتے پر کچھ کر لیں گے یا ذرا سا عمل وجود میں لے آئیں گے تو قطعا ایسی کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ آج تک دنیا میں جتنے بھی کام ہوئے وہ سب کے سب اللہ کی ذات کریمہ کے واسطےاور وسیلے سے ہی سرانجام دیے گئے ہیں۔
بعض لوگ جو دین سے ہٹے ہوئے ہیں یا زبان سے تو اظہار کرنے کی قوت نہیں رکھتے مگر عملی طور پہ بڑے تیقن کے ساتھ اپنے اس عقیدہ ہائے پہ قائم ہیں تووہ بالکل ہی سراسر غلط ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری جسمانی طاقت تھی کہ جس کی وجہ سے ہم نے اس کام کو کیا اور وہ تو اس حد کو بھی پھلانگتے ہوئے کوئی عار نہیں گردانتے کہ حیوانی طاقت انسان کی خوبی ہے، وصف ہے اس کی پہچان ہے اور جو خود سے عمل کرے تو وہ بنی نوع انسان ہے۔
یہ جسمانی طاقت کا جوہر بھی تو اسی خدائے بزگ و برتر کا ہی دیا ہوا ہے اور کون ہےاس کے سوا وہی تو اکیلا معبود برحق ہے۔
 شیطان نےاپنے حربوں سے اپنی ذریت میں کافی لوگوں کو شامل کر لیا ہے کہ بنی نوع انسان ہوتے ہوئے بھی ہم یہ تک بات نہیں سمجھ پاتے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کا بھی توایک الگ وجود ہے۔
 ہندو مذہب والے دوسری زندگی کا حال بیان کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ روح دنیا سے رخصت ہو نے کے بعد جب دوبارہ جنم لیتی ہے تو اب وہ قیامت تک رہے گی باقی معاملے اور ہیں۔ عیسائی حضرات بھی ہماری طرح ہی تدفین کرتے ہیں آخر وہ اہل کتاب ہیں۔ ہندو تو اپنے مردے کو جلا ڈالتے ہیں یعنی پاکی کے عمل سے گزارتے ہیں۔
یہ جسمانی طاقت اسی کی دی ہوئی ہے اور یہ کہ اس کا جسم میں رہ کر کام کرنا اسی پہ منحصر ہے۔ یہ اللہ ہی کے کمال کا عکس ہے۔ جب کہ اس مالک کُل نے کوئی اجازت ہی نہیں دینی تو کیا جسم کیا کوئی عمل۔ ہم عطائی لوگ ہیں اس اللہ کریم کے مختاج ہیں جو سب جہانوں کا واحد مالک ہے۔للہ ملک السمٰوات و ما فی الارض۔ اور جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور ایک اور جگہ پہ ارشاد ہے وھو القوی العزیز۔ ہمارا زندہ رکھنا اس کو ذرا سا بھی دشوار نہیں وہ تو اتنی بڑی سلطنت کا مالک ہے جس کا ہم کو تصور نہیں۔
ہم انسانوں کو اس نے جو عنایت و توفیق کی دو بڑی سعادتیں عطا کر رکھیں ہیں ہم انہی کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔ اسی کے ساتھ جڑنا اور وابستہ رہنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ کیا مجال کسی کی بھی کہ جو خالق و مالک کلھم کے خلاف چل سکے۔ اللہ نے آپ سرکار دو عالم محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی قوت و ارادہ عطا فرمایا تھا کہ آپ ﷺ کی ذات عالی ہی وحی قرآن کا بوجھ اٹھا سکی۔ اللہ کی ذات مقدسہ کا بیان ہے اگر ہم یہ قرآن پہاڑ پہ نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے اور اگر سمندروں کے پانی پہ کرتے تو وہ خشک ہوجاتے۔
انسان کو دنیا میں بھیجنے کے سلسلے سے لے کر اب تک یہ بھی تو نظر مشاہدہ میں ہے کہ واپسی کا کام بھی نہیں رکا لوگ اسی طرح اپنے خالق و مالک کے پاس دوسری دنیا میں جا رہے ہیں۔
یہ ضرور سوچ آتی ہے کہ اخر ہم وہاں جانے سے ڈرتے کیوں ہیں۔شاید یہ ہے کہ ہم نے کبھی فرشتوں کو نہیں دیکھا یا اس آخروی جہان کی کوئی بھی بات نہیں دیکھی۔ حیرانی و پریشانی تو ہوتی ہے مگر جانا تو وہی ہے آخر سب نے۔
اس دنیا میں آنکھ کھلی اس لیے بھی کہ ہم نے یہی حواس کے ذریعے دنیاوی اشیا کا مشاہدہ کیا اس لیے بھی اس سے ہماری مانوسیت زیادہ ہے۔ ادراک و شعور جہاں کا ہو تو ذہن بھی اسی کی چیزیں کو مخفوظ کرتا ہے۔ دوسری دنیا جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس کا کچھ نہیں دیکھا اس لیے بھی اس سے کوئی رغبت اور لگاو نہیں۔ وہاں ہم کو زندہ رکھا جائے گا مارا نہیں جائے گا۔ وہ ابدی جگہ ہے۔ یہ دنیا بلکہ عارضی جگہ ہے نہ رہنے والی جگہ۔
کسی بھی پیر کا مرید ہو کر اس دنیا سے رغبت کم اور دوسری دنیا سے رابطہ مضبوط ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف سے پیغامات کا سلسلہ مرید کی طرف رجوع کرنے لگتا ہے۔ اصل سلسلہ جڑنے لگتا ہے یہی انسان کا منقطع رشتہ ہے جس کی چاہت کی گئی ہے۔ عافیت کا یہ سلسلہ ہر ایک کو اپنی طرف مقناطیسی قوت کی طرح کھینچتا ہے۔کچھ لوگوں کے لیے تو یہ تمام معاملات نئے ہوتے ہیں اور ان کو اس لائن میں لطف و سرور بھی بہت حاصل ہوتا ہے۔ بعض جو اس میں کچھ وقت گزار لیتے ہیں تو اس میں ترقی و تغیر کے خواہاں ہوتے ہیں۔
ہر مرید کا تعلق حضور عالی جناب مکرم رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرا دیا جاتا ہے۔ پیر کا کام صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ مرید کو سلسلہ مں داخل کرے باقی مرید جانے کہ اس کا عمل کیا ہے اور یہ بڑی شان کی باتیں ہیں۔ مریدی اختیار کرنے کا اصل راز تو اللہ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کے درمیان واسطہ کو جاننا ہے۔
اس ضمن میں دو باتیں بہت قابل غور ہیں اور مددگار بھی کہ اب راز فنا کو کس طرح حاصل کیا جائے اصل یہی تو ہے کیونکہ اللہ نے دنیا بنادی اور رزق کو تقسیم کر دیا قسمتوں کا بھی فیصلہ کر دیا۔ مرید بھی ہوگئے اب ضروری ہے وہ دو باتیں ایک ہے رابطہ شیخ تو دوسرا ہے حضورﷺ کی سنت مبارک۔
ان باتوں پر موقوف آدمی ہی اصل کامیابی پہ گامزن ہے۔ اس بات کو جس نے بھی جان لیا کہ اللہ اور اس کے رسول مقبول سید المرسلین ﷺ کے درمیان کیا محبت ہے کیا عشق ہے کیا رازداری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی کیا چاہت رکھتے ہیں۔ اللہ  نے یہ سارا کھیل کیوں کر رچایا۔ کیا اس کو اپنے نبیﷺ سے اتنی محبت ہے۔ وہ خود قرآن میں کہتا ہے کہ میں اور اس کے فرشتے اپنے نبی رحمت ﷺ پہ ہر وقت درود پاک بھیج رہے ہیں تو اے ایمان والوں تم بھی نبی عالی مرتبت ﷺ پہ درودپاک کی انتہا کو پہنچو۔ یہ باتیں بڑی تکریم و تحریم کی ہیں عام فہم کی نہیں ہیں۔

یہ دعوت عام نہیں ہوتی بلکہ حضور عالی مرتبت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی جماعت کے ساتھ وہ عھد و پیما ہوتا ہے جو ہم سے پہلے انبیاءکرام سے بھی لیا گیا کہ وہ اپنی امت کے لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دیں اور ان کی نسل میں سے آنے والے اس زمانے کے لوگوں کو آپ ﷺ پر ایمان لانے کی تلقین کریں۔ مزیدبراں یہ ہے کہ آج بھی سابقہ آسمانی کتابوں توریت، زبور اور انجیل میں آپ سرکار دو عالم ﷺکی آمد کی واضح بشارتیں موجود ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ خاتم انبین حضرت محمد ﷺ ان کی نسل میں سے ہوں اور اسی لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ ﷺ کے جد امجد ہیں۔اسی طرح حضرت موسٰٰ علیہ السلام کی بھی یہ دعا تھی کہ وہ بھی امت  محمدیہ ﷺ کے ایک فرد ہوں۔ تبھی توریت اور انجیل کے عالم ورقہ بن نوفل نے آپ سرکار دو عالم ﷺ کی پہلی وحی کے واقعے کی سچائی کو حق تسلیم و قراردیا۔
آپ سرکار دو عالم ﷺ کے ذکر مبارک کے ساتھ ساتھ چار خلفائے راشدین کا ذکر پاک بھی آیا ہےجس میں حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضی رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین کا ذکر آیا ہے۔قرآن مجید بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے ' اے نبیﷺ ہم نے آپﷺ کو آپ کے ساتھیوں کے ذریعے تقویت بخشی۔' جن سے مراد یہی چاروں خلفاء کرام اور باقی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین شامل ہیں اور ان کے بعد آنے والے آئمہ اور اولیاء کرام اکو بھی اسی زمرے میں شامل ذکر کیا جاتا ہے۔    ان حقائق کے پیش نظر اس متبرک و مقدس ہستی کی جماعت کے ساتھ تعلق و واسطہ رکھنا کسی عظمت سے کم نہیں کہ جس میں جلیل القدر انبیاء کرام علیھما السلام بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔  اس جماعت سے جڑنے والے فزکس کے بھی ماہر ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر ممکنہ شعبے سے متعلق ہوتے ہیں اور ایک آسان زندگی بسر کرتے ہیں مگر ایک واضح فرق حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ نسبت کا ہوتا ہے۔
اب جن لوگوں نے آپ سرکار دو عالمﷺ کی جماعت کے ساتھ نسبت کو قائم کیا تو ان کی مثال سورۃ  کوثر کی طرح ہے۔ وہ لوگ آپ ﷺ کے صحابہ کرام و اولیاء اللہ کی طرح اگر اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں گے تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ 
 اس جماعت میں شامل سب سے سر فہرست تو آقائے نامدار سرکار دو جہان سید الانبیاء شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین خاتم النبین حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم ہیں۔
حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہ الکریم  رضی اللہ عنہ
حضرت امام حسین علیہ السلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام
حضرت امام علی رضا ابن موسٰی کاظم علیہ السلام
حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
حجرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت رحیم الدین عیاض رحمۃ اللہ علیہ
حضرت عبد العزیز یمنی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ابو یوسف طرطوسی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ابو الحسن علی الھنکاری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ابو سعید مبارک رحمۃ اللہ علیہ
پیران پیر دستگیر حضرت محمد عبدالقادر جیلانی گیارویں شریف والے رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت میر نظام الدین،میر مبارک غزنوی،نجم الدین قلندر، قطب الدین ،میر فضل اللہ، میر محمود، میر نصیر الدین،میر نظام الدین،میر اہل اللہ،میر جعفر، خلیل الدین، منعم پاک باز، مخدوم شاہ حسن علی، مخدوم شاہ حسن دوست المقلب شاہ فرحت اللہ، شاہ مظہر حسین،
شاہ محمد مہدی الفاروقی القادری، شاہ امداد علی بھاگلپوری، شاہ مخلص الرحمان، فخر العارفین محمد عبدالحی، شاہ نبی رضا شاہ ،حضرت شاہ محمد عبدالشکوررحمہا اللہ علیھم اجمعین
الہٰی بحرمت رازونیاز امام العارفین حبیب رب العالمین راھت العاشقین منھاج الکاملین فخرالمتوکلین شمس الاولیاء سیدنا و مولانا الشاہ محمد علاء الدین ؒ
الہٰی بحرمت رازونیاز حبیب رب العالمین عاشق رسول الثقلین زھدۃ العارفین قدوۃ السالکین قطب العارفین غوث الکاملین الفانی فی اللہ و الباقی فخر المتوکلین اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ۔۔۔۔۔۔۔
سر پرست اعلٰی و سجادہ نشین دربار شریف اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ قادری چشتی شکوری علائی منعمی قدس سرہ العزیز  ریحان بشیر قادری شکوری علائی امینی
 



No comments:

Post a Comment