Friday 27 November 2015

Islamic Lineage


سورۃ بقرۃ کی آخری تین آیات
284 تا 286
لِلہ ما فی السمٰوت و ما فی الارض ۔۔۔۔۔۔۔اَنت مولٰنا فانصرنا علی القوم الکافرین0
1۔ جو کچھ بھی اسمانوں اور زمینوں میں ہے سبھی اللہ کا ہے ۔
2۔ چاہے اگر تم اپنی باتوں کو ظاہر کرو یا چھپاو اللہ تم سے حساب ضرور لے گا۔
3۔ پھر جس کو چاہے معاف کردے گااور جس کو چاہے عذاب دےگا۔
4۔اللہ ہر شی پر قادر ہے۔ یہاں لفظ 'قدیر' سے مراد قدرت والا مالک ہے جس نے ہر ایک ذی روح کا پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔
  5،رسول کریم ﷺ پر جو اللہ کی طرف سے کتاب نازل کی گئی مومنون یعنی صحابہ اس پہ ایمان لے آئے۔
 6۔ ان مومنین میں سے ہرکوئی اللہ اسکے فرشتوں کتابوں اور رسولوں پر ایمان لے آیا۔
7۔ نیز وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں وہ اس میں کوئی فرق نہیں کرتے۔
8۔ اور مزید کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی بات سُن لی اور اس کی اطاعت کر لی۔
9۔ مومنین کہتے ہیں کہ ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
10۔ اللہ تعالٰی کی ذات کسی نفس پر وہ ذمہ داری نہیں ڈالتی جس کی کہ اس میں طاقت نہ ہو۔
11۔ اس کو اجر ملے گا اس بات کا جو اس نے نیک عمل کیا اور اس پر وبال ہوگا جو برا عمل اس نے کمایا۔
12۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم دعا گو ہیں کہ یا باری تعالٰی کہ اے ہمارے رب اگر ہم بھول بیٹھیں یا خطا کر دیں تو ہمیں نہ پکڑنا۔
  13۔ اے ہمارے رب ہم پہ بھاری بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔
14۔ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔
15۔ اور ہمیں معاف کردے۔ اور ہمیں بخش دے اور ہم پہ رحم فرما۔
16۔ تو ہی ہمارا اللہ ہے۔پس کافرین کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
 تشریح سورۃ بقرۃ
یہ دونوں آیات دعائیہ طرز ہیں، جب مکہ کے کافروں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا توہجرت سے ایک سال پہلے معراج النبیﷺ کے موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ اللہ نے مسلمانوں کی دلی تسلی وتشفی کے لیے یہ ابدی سکون و قرار والی آیات نازل کیں۔ یہ قرآن کی سب سے لمبی سورۃ ہے۔ اس سورۃ میں 286 آیات ہیں۔ مسلمانوں کے لبوں تک دعائیہ کلمات لانے سے پہلے اللہ تعالٰی کی ذات ان کو ایمان لانے کی ضرورت پہ زور دیتی ہے۔ نہ صرف کہ وہ اللہ پہ بلکہ فرشتوں کتابوں اور رسولوں پہ بھی ایمان لے کے آئیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ چاہے تو کوئی کتنا ہی اپنی بات کو چھپا لے یا اپنے انداز سے ظاہر کردے تو اللہ ہی  جس کو چاہے گا معاف کرے گا یا عذاب دے گا۔ اللہ ہی ہے جو اپنی اس تخلیق کا کلھم مالک ہے۔ وہ ایسی ک،ال قدرت کا مالک ہے کوئی بھی شے اس کی پہنچ سے باہر نہیں ہے۔ ان تبدوا و او تخفوا میں حساب لینے والا اکیلا اور واحد ہے۔۔ جب مسلمان یعنی مومنین ایمان لے آئے تو انہوں نے اللہ سے مودبانہ طور پر یہ دعا کی کہ وہ ان کو بخش دے ان کی بھول چوکو خطا کو معاف   ان پہ ایسا بوجھ نہ ڈالے یعنی ایسی کوئی ذمہ داری نہ ڈالے جس کے وہ متحمل ہی نہ ہوسکیں۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اپنے رب ہی طرف لوٹ کے جائیں گے۔یہ صحابہ کرام کی اس طرح تربیت کی گئی کہ وہ رسولوں میں کوئی بھی فرق نہیں کرتے بلکہ اللہ کی پوری تخلیق کو من و عن مانتا بھی ہے۔آخر میں اس بات پہ زور ہے کہ اللہ کافروں کے خلاف مسلمانوں کو برپور حمایت اور طاقت سے نواز دے۔
سوال
 سورۃ البقرۃ میں مسلمانوں کی کن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا ڈر اور خوف کے بارے میں کیا ببیان ہے؟
ایمان کے بارے میں آپ کیا جان پائے ہیں ۔سورۃ البقرۃ کے حوالے سے لکھیں؟
سورۃ المومنون آیات 1 تا 11
قد افلح المومنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُولئک ھم الوارثون
 بالتحقیق ان مومنوں نے فلاح پائی
 ۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں۔
۔ اور جو لغو باتوں سے خواہ وہ قولی ہو فعلی برکناررہنے والے ہیں۔
۔اور جو اعمال و اخلاق میں اپنا تزکیہ کرنے والے ہیں۔
۔ اور ایسے مومنین جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
۔ لیکن اپنی بیبیوں یا اپنی شرعی لونڈیوں سے حفاظت نہیں کرتے کیونکہ ان پر اس میں کوئی الزام نہیں ہے۔
۔ ہاں جو اس کے علاوہ کسی اور جگہ شہوت رانی کا طلبگار ہوتو ایسے لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں۔
۔ اور جو اپنی سپردگی میں لی ہوئی امانتوں اور وعدوں کے خیال رکھنے والے ہیں۔
اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔
اور یہی لوگ وارث ہونے والے ہیں۔
اور جو فردوس کے وارث ہونگے اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔  
 تشریح
سورۃ المومنوں کے آغاز میں جو کہ پارہ 18 کا بھی ستارٹ ہے اس میں کامیاب  لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح  کچھ حقائق سورۃ الفرقان میں بھی بیان ہیں یہ ایسے لوگ ہیں جو نبی مکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں شامل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید ہے اس میں موجود دقیق مسائل کے حل کے لیے بنی نوع انسان کا انتخاب کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ رب ذوالجلال نے بغیر مقصد کے کسی بھی شے کو پیدا نہیں کیا۔ لحاظ ہر ایک چیز اپنے اپنے ٹھکانے پہ بالکل با مقصد ہے۔ اسی طرح سے اللہ کے یہ مومن بھی اسی کے معیار کے عین مطابق ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ وہ تو ساری ساری رات اور دن بھی اسی ایک واحد کی یاد میں گزاردیتے ہیں۔ والزین یبیتون لربھم سجدا و قیاما۔سورۃ الفرقان
جس بھی فرد نے چاہے مسلمان مرد ہو یا عورت اپنی شرمگاہ کی خوب حفاظت کی تو اللہ کی ذات اسی کو اپنا وارث کہتے ہوئے شرم نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ اور بہت سی خوبیاں ہیں کیونکہ صرف یہی کافی نہیں وہ تو ایسے ہیں جو اس کی نماز میں پابندی کے ساتھ خاضر ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں سے ہی مراسم رکھتے ہیں اور ذرا برابر بھی اپنی حد کو نہیں چھوتے۔ زکوٰۃ کے طریقے کو اپنا کر اپنے مال کو معصیت سے پاک کرلیتے ہیں۔ خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ الہٰی میں جاتے ہیں۔ اور عاجزی کے ساتھ اپنے نامہ اعمال رب کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔
سوال
سورۃ المومنون میں مومن کن خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔
 صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنھما کی کیا پہنچان ہے۔بحوالہ سورۃ بیان کریں۔
سورۃ الفرقان
آیات 63 تا 77
و عباد الرحمٰن الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُولئک ھم الوارثون۔
1۔ اللہ کے خاص بندے جو اس کے عبادت گزار ہیں جب بھی زمین پر چلتے ہیں تو فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل ملتا ہے تو اسے السلام علیکم کہتے ہیں۔



No comments:

Post a Comment