Friday 3 August 2018

kia Tum Rasool ko pahchane



 کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانے  

 اللہ نے تمام ایل دنیا کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کو معبوث کیا، اس لیے کہ انسان ہدایت یافتہ ہو سکیں۔ ان سب رسولوں و پیغمبران کو توحید کے پیغام کوعام کرنے کے لیے بھیجا۔ان میں یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم تک آتا ہے۔ آپ سرکاردوعالم نورمجسم سید الانبیاء والمرسلین پر آنکر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالٰی نے حضرت داود علیہ السلام پہ زبور، حضرت موسٰی علی السلام  پر توریت، حضرت عیسٰی علیہ السلام پہ انجیل اور ہمارے نبی مکرم شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم  پر قرآن کریم کو نازل کیا۔
قرآن پاک ان تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے جو کچھ آگے ہونے والا ہے اور جوسابقہ نبیوں کی امتوں کے ساتھ پیش ایا وہ اس کتاب حق میں بیان کردیا گیا ہے۔ ہم سب بحیثیت مسلمان اس پر پورا ایمان و اعتقادرکھتے ہیں، ہم میں سے کسی کو اس بات سے انکار نہیں کہ اس کی کوئی ایت بھی من گھڑت ہے، جو کچھ بھی آپ سرکار دو عالم پر وحی کی گئی وہ اس قرآن مجید میں موجود ہے۔ آلم- ذلک الکتب لا ریب فیہ۔ اس کتاب میں کسی بھی شک کی گنجائش نہیں۔ ایک اور جگہ پر اللہ فرماتا ہے۔ وما ینطق عن الھوٰی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی طرف سے کچھ کہتا ہی نہیں ، مزید یہ کہ ان ھو الا وحی یوحی، اگر وہ کچھ کہے بھی تو وحی کے بغیر نہیں کہتا۔
اب میں یہ پوچھتا ہوں کہ اللہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہے اور سرکار اللہ کے کلام کو سن کر یاد رکھ کر دنیا والوں کو پہچاتے ہیں اور اس قران میں آج تک کوئی ردوبدل نا ہواتو اس نبی عالی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا کیا کہناکیا  کوئی اور اللہ کی وحی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے سمجھ سکتا ہے اس کی نازل کردا بات کو؟ ؟ ؟
کیا ہم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ پائے ہیں؟ ایک لاکھ انبیاء کرام کی باتوں کو تو ہم میں سے بہت سارے قصے اور کہانیاں ہی جانتے ہیں تو جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہم پہ معبوث ہوئے کیا ان کے بارے میں ہمارا عقیدہ ڈولا ہوا نہیں ہے ، سچ تو یہ ہے ہمارے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مستتحکم ذکر پاک سے عاری ہیں۔ مخافل کا انعقاد کیا جاتا ہے تو وہاں پہ قاضی صاحب اور چوہدری صاحب کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور جن کی وجہ سے یہ کائنات قائم و دائم ہے اور ہمارا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ  تو جانتے ہی ہیں، ہمارا اس طرح کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں جانتے ہی ہونگے کہ ہم کس طرح کے مجبور ہیں، ہماری معیشیت کتنی کمزور ہے، ہم کتنے ستم ظریف ہیں، مظلوم ہیں، محنت و مزدوری کے بعد تھک جاتے ہیں اورتواورپھرہمارایہ بہانہ کہ ہم تو ہیں ہی مسلمان ہم نماز پڑھتے ہیں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، رمضان کے روزے بھی رکھتے ہیں تو بس ٹھیک ہے، اس کے علاوہ اور کیا کریں، ہاں اس کے علاوہ اگر کوئی بزرگ مل جائے یا کسی ولی کے دربار پہ جاتے ہیں تو ان کی عزت کرتے ہیں، وہاں فاتحہ پڑھتے ہیں، کسی اللہ کی مخفل میں جائے تو وہاں ادب سے بیٹھتے ہیں، پاک صاف ہوکر جاتے ہیں، اذان کے وقت خاموش رہنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر طرح سے اللہ کا ادب کرتے ہیں۔
یہ تمام باتیں کیا یہ ادراک دیتی ہیں کہ ہم حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے امتی ہیں؟جو آپ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحابہ کو  تربیت دی ہم کیا اس کے مطابق عمل کرتے ہیں؟ جواب گول مول ہے۔
اللہ پاک نے آج تک پہلے انبیاء کی امتوں پہ ہونے والے معاملات کو ثبوت کے طور پر دنیا والوں کے لیے زندہ رکھا ہوا ہے۔آل ثمود کی قوم کے لوگ جن پہاڑوں کو چیر کر گھر بناکر رہتے رہے ہیں وہ آج بھی موجود ہیں۔ لوگ ان نشانیوں کو دیکھے اور ان سے عبرت حاصل کریں۔ لا الہ الا اللہ کوئی بھی ا س کے علاوہ عبادت کے لائق نہیں صرف وہی ایک یکتا ہے کہ جو اس کائنات کو چلارہا ہے،اللہ کی ذات جو الحی القیوم ہے، جس کو نا اونگھ آتی ہے نا ہی نیند، جس نے جب انسان کو خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا تو پہلے حضرت آدم سے ابتداء کی وہ اتنا کارساز ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے لیے کسی ماں و باپ کی حاجت شرط نا رکھی اسی طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام کوبن باپ کے پیدا کیا، یہ اس کی شان الوہیت ہے، اس کا اختیار ہے وہ یہ دکھاتا ہے کہ میں ہی مختارکُل ہوں، کون ہے جو اس کا سامنا کرسکتا ہے، اس نے ہمیں سمجھانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ ولسلام کے ذہن میں ڈالا کہ انسان مرکر کیونکر زندہ ہوجاتا ہے تو رب نے اُن نبی پاک کوپرندوں کی مثال سے سچ کر دکھایا۔ ہمیں تو بس رزق کا معاملہ ہی نہیں چھوڑتا اسی بات کو روحانیت کہتے ہیں کہ جس کی نوکری اچھی وہ ہی سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہے، کیا ایسا ہی ہے؟ کبھی سوچا ہے کہ نوکری کے دوران افسر بالا کی حکم جوئی میں نماز قضا ہوجاتی ہے۔
کبھی سیاحت کے لیے نکل سکو تو دیکھنا کہ وہ کون سے محلات تھے جو فرعون، شداد، ہامان اور نمرودنے بنائے تھے اور جن کو خدائی طاقتوں نے کس طرح مسمار کردیا۔ خانہ کعبہ کو مٹانے کے لیے بہت سی قوتوں نے حملہ کیا تو کیا وہ اللہ کے سامنے ٹک سکے، نہیں جس بات کا ذمہ اللہ خود اپنے اوپر لے لیتا ہے وہ کس طرح صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔ اسی طرح ہمارے پیارے لاڈلے محبوب نبی پاک حضرت محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہے۔اللہ فرماتا ہے کہ اے میرے پیارے تیرے لیے میں ہی کافی ہوں میں نے تیرا ذمہ اٹھا رکھا ہے، وکفٰی باللہ وکیلا، یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد، والدہ ماجدہ، دادا، چچا سب آپ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑ گئے، حتٰی کہ حضرت خدیجۃ الکبرٰی بھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مغموم ہوگئے، اسی موقع پر اللہ نے آپ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کی جو معراج شریف کہلاتی ہے۔
یہ سب آپ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجلیاں ہیں کہ جو ہر سو پھیلی ہوئی ہیں۔ اللہ پاک کی سب سے پہلی جو تخلیق ہے جس سے وہ جانا گیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نورہے۔ اگر وہ اللہ نور السموٰت والارض ہے تو آپ سرکار عالی سب جہان کے سراجا منیرا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات کی وجہ ہیں۔
 ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائے۔
" اول ما خلق اللہ نوری "- حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ نے اول میرے نور کو پیدا کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا ' موجودات سے پہلے رب کریم نے کس چیز کو پیدا کیا'
حضور پاک رحمت سراپا عالمین نور من نور اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا" ھُوَ نُورُ نبیک" اے جابر وہ تمہارے نبی کا نور تھا۔ تمام اشیاء اسی نور سے بنائی گئی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نا ہوتے تو کچھ نا ہوتا۔ ڈبویا تم کو ہونے نے نا ہوتے تم تو کیا ہوتا۔ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے، ایک دوسرے کو عرش پہ عشقیہ نظروں سے تکتے رہتے، مقام احد پر دونوں رہتے اور ایک دوسرے میں یہ ہستیاں ضم رہتی،نا سمجھ آئے اور بات ہضم نا ہو تو واقعہ معراج شریف پڑھ لو۔ان کو کیا ضرورت تھی کہ اتنی ساری دنیا کو پیدا کیا کس لیے؟ کیا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اللہ کتنا طاقت ور ہے کتنی بلندی کا مالک ہے۔ اللہ تمہیں اپنا نبی منور اور اس نبی مکرم کا نور اس کی عظمت، اس کی رسائی، اس کا مرتبہ، اس کاذکر، اس کی شان، اس کی حقیقت، اس کا صدق، اس کی امانت، اس کی دیانت، اس کی سچائی، اس کا شہود، اس کی قربانی، اس کی سخاوت، اس کی محبت، اس کا ایمان، اس کی بیعت، اس کے اصحابہ، اس کی مسکراہٹ ،اس کی رحمت، اس کی کریمی ، اس کی حلیمی، اس کی برداشت،اس کی طاقت، اس کی ذہانت، اس کا علم، اس کا تدبر، اس کا احسان، اس کا عدل، اس کا معاف کرنا، اس کا درگزر، اس کا صبر، اس کا تحمل، اس کی فتح،اس کا رحم، اس کی صلہ رحمی، اس کے غزوات اور اس کا گزربسر دکھانا چاہتا ہے اور وہ ذاتِ باری یہ چاہتی ہے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں تاکہ تم لوگ ان کے اسوہ حسنہ پہ چلو تو میرے حبیب بن جاو گے۔اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں پہ معبوث کیا تاکہ سب میرے حبیب مُصطفٰی صلی الہ علیہ وسلم کے پیروکار بن جائے۔  
قران گواہ ہے۔" قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم- واللہ غفوررحیم۔
اللہ تو ڈائریکٹ لوگوں سے کہتا ہی نہیں وہ تو نبی پاک مکرم و محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے نبی آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر (شرط کیا رکھی ہے ذرا غور کریں کہ) تم اللہ سے واقعی محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ پھر اللہ تم سے محبت کرے گااور تمہارے گناہ بخش دے گا اور وہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ( آل عمران:31)       
اب سوال یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کیوں نا کریں۔
جب ساری کائنات یہ سورج، چاند، ستارے، علم نجوم ، علم فلکیات، علم سائنس، علم ادب، علم اخلاق، علم شہریت، وعلم سیاسیات، علم طب اور پتا نہیں کیا کیا علمی شاخیں جو ابھی تک ہمارے سامنے نہیں ہیں اور دنیاوی معاملات اور حالات کو پیدا کیا گیا آپ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی دنیا کو سجایا گیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اس دنیا کو پاک کیا گیا، یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ہے اور یہ ہم سب مسلمانوں کے لیے احسان عظیم ہے جو ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کے طور پر اس دنیا فانی میں بھیجا گیا، الحمدللہ رب العالمین۔
جب حق تعالٰی نے حضرت ادم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ان کی کنیت ابومحمد رکھی،نورِ مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلیاں اور تابانیاں دیکھوجب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو وہ اللہ سے ہمکلام ہوکر عرض گزار ہوتے ہیں
کہ یا اللہ تو مجھے بواسطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم معاف کردے۔ رب کریم نے پوچھا ' اپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جانا؟' حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ اسی زمانہ میں جب یا باری تعالٰی تو نے مجھے پیدا کیا تو عرش پہ لکھا ہوادیکھا ' لا الہ الا اللہ محمد رسول ا للہ' تب ہی سے میں نے جان لیا کہ یہ نام جو تیرے نام سے جڑا ہے یہ ہستی تیرے نزدیک سب سے زیادہ برگزیدہ ہے،
اس پہ ندا ہوئی " یہ نبی آخرالزمان ہیں جو تمہاری ہی ذریت سے ہیں ، ان کا نام آسمان میں احمد اور زمین پر محمد ہے، اگر یہ نہ ہوتے تو میں زمین و آسمان نا بناتا، میں نے تمہیں ان ہی کی طفیل پیدا کیا ہے۔ "
   حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں' حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر عرض کیا ' آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب فرماتا ہےکہ اگررب نے حضرت ابراہیم کو خلیل بنایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حبیب بنایا ہےاور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی اور کو اپنےلیے برگزیدہ نہیں بنایا۔ اور اس نے ساری دنیا کو اس لیے بنایا کہ وہ جان لیں اس کے نزدیک  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی قدرومنزلت اور مرتبہ ہے، اگر آپ صلی اللہ کا وجود نہ ہوتا تو وہ رب مجدہ یہ کائنات ہی نا بناتا۔"
آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم ظہور میں آنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی اوصاف حمیدہ تورات، زبوراور انجیل میں بیان کیں گئیں کہ بے شک و شبہ پہلی امتوں کے لوگ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹوں سے بڑھ کر پہچانتے تھے۔احبار یہود میں سے حضرت عبداللہ بن سلام جب مشرف با اسلام ہوئےتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا، انہوں نے اس بات کا جواب یوں دیا کہ کہ ہماری پہلی کتاب تورات میں ذکر آیا ہے، حضرت عمر نے ان کا ماتھا چوم لیا۔ اہل کتاب ظاہری و باطنی لحاظ سے اور حسب و نسب کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے تھے۔ اسی لیے تو عیسائی راہبوں نے حضرت ابو طالب کو واپس مکہ جانے کا کہا کہ لوگ اس آنے والے آخری نبی مکرم کی جان کے دشمن ہیں یعنی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی علمی اور کتابی بصیرت پہ جانتے تھے۔
اس نبی کا ذکر و شہرہ کیوں نا عام ہو جس کے لیے یہ کائنات بنائی گئی ہو۔ حضرت ابو طالب کو بصرٰی سے ہی واپس جانے کے لیے کہہ دیا گیا، یہاں غور کرنے کی بات ہے کیا اس راہب نے جس نے حضرت طالب کو جانے کا کہا کیا اس نے آپ سرکارعالی سب جہان کی کوئی کرامت دیکھی کوئی کرشمہ دیکھا نبوت کا کیا آغاز ہو گیا تھا ابھی تو آپ حضور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بارہ برس کے تھے، مگر اس نے کیا دیکھا کہ ہر شجر پتھر بادل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مہربان ہے اور اپنی عقیدت دکھا رہا ہے تاکہ قیامت کے دن اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ مل جائے۔ سارا جہان انسانوں اور جنوں کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہے ،مگر افسوس کہ ہم نہیں جانتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وہ لکڑی بھی جانتی تھی جس نے شکوہ کیا کہ اب آپ سرکار میرا سہارا  نا لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا سہارا لے کر جمعہ کا خطبہ دیاکرتے تھے۔ سات سال کی عمر شریف میں جب حضرت دائی حلیمہ سعدیہ رضی تعالٰی عنہا کے بیٹے کی ایک بکری کو شیر اٹھا کے لے گیا تو آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت پہنچی ، حکم ہوا کہ او دیکھتے ہیں کہ کس نے یہ جرات کی ہے۔ آپ سیدنا محبوبنا رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگل میں آئے تو شیر حاضر خدمت ہوااس نے کہا' حضور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بکری بالکل محفوظ ہے بکری کو اس لیے اٹھایا کہ اس کے بغیر ہم سب شیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نہ کر سکتے تھے۔ یہاں تو شیر بھی جانتا ہے، اس عالی قدر ہستی یکتا کو۔
اللہ تبارک و تعالٰی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے پیار بھرے انداز سے مخاطب کرتا ہے، یٰس، اے سردار، یایھا المزمل، یاایھا المدثر،طٰہ۔طٰس، حٰم  سُبحان اللہ
 اللہ کی ذات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قران میں رقم طراز ہے۔
یاایھا النبی انا ارسلنک شاھدا و مبشرا و نذیرا۔ و داعیا الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا۔
اے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپکو اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہےکہ آپ گواہ ہوں گے اور آپ مومنین کو بشارت دینے والے ہیں کفار کو ڈرانے والے ہین اور سب کو اللہ کی طرف بلانے والے ہیں اس کے حکم سے، اور آپ روشن چراغ ہیں اتنا روشن کہ دوسروں کو نور و ضیا منبع و مصدور بنا دینے والے ہیں۔
اگر اس آیت کی تفسیر بیان کی جائے تو ساری زندگی بھی کم پڑ جائے، یہاں ایک بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسا نبی پاک رحیم و کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ گیا ہے جو کوئی عام شخصیت نہیں یہ تاجدار ہیں تمام انبیاء کرام کے جن کے دین کی تعلیم وہ کتنا عرصہ لوگوں تک پہنچاتے رہے،جب یہ معاملہ طے پا گیا کہ سارے عالم نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی پرتو ہیں تو سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی لے کر کھاتے اور جیتے ہیں حتٰی کہ انبیاء کو جو کچھ عطا ہوا وہ بھی حضور عالی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عطا کردہ ہے ، ہم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی طاقت کو دیکھا، حضرت موسٰی علیہ السلام کی کلیمی دیکھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ بجھتے دیکھی، حضرت یوسف کا انصاف اور حسن ملاحظہ کیا، حضرت عیسٰی علیہ السلام کا آسمان سے من سلٰوی اترتے دیکھا تو یہ سب آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی ایک جھلک تھا۔وہ کس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں سب انبیاء نے مسجد اقصٰی میں نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےنورکو سب انبیاء کی پیشانی میں بطور امانت رکھا گیا جس نے تمام کی حفاظت بھی کی۔ سب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدقہ ہے۔  
اب آپ ملاحظہ کریں کہ کس طرح قران پاک نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتا ہے۔
وہ مُصطفٰی ہیں- ان اللہ اصطفٰی ادم و نوحا و ال ابراہیم
مجتبٰی ہیں- ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء
احمد ہیں- و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد
محمد ہیں- محمدرسول اللہ
یٰس ہیں- یٰس۔ والقران الحکیم، انک لمن المرسلین
طٰہٰ ہیں- ٰطہٰ ۔ ما انزلنا ملیک القران لتشقٰی
کملی والے ہیں- یایھا المزمل
چادر والے ہیں- یاایھا المدثر
نبی امی ہیں- الذین یتبعون الرسول النبی الامی
نور ہیں- قد جاءکم من اللہ نورو کتب مبین
برہان ہیں- قد جاء کم برھان من ربکم
سراپا رحمت ہیں- وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین
صاحب خلق عظیم ہیں- انک لعلی خلق عظیم
اول المسلمین ہیں- وانا اول المسلمین
صاحب کوثر ہیں- انا اعطینک الکوثر
خاتم النبین ہیں- ولکن رسول اللہ و خاتم النبین
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سارا قران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے ، ہم کیوں نا ایسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ واصحابہ وسلم پر قربان نا جائے کہ جن کی تعریف قرآن کر رہا ہے بلکہ خود رب کائنات اسی اپنے کلام میں فرماتا ہے
ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنو صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔
اب یہاں کیا بات رہ جاتی ہے کہ اللہ کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک بھیجنا کتنا ترجیحی کام ہے۔ سبحان اللہ۔ نہ صرف اللہ بلکہ اس کے فرشتے بھی اس کام میں دن ورات مصروف عمل ہیں، جس کسی نے بھی آپ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پہ درود پاک پڑھنا شروع کیا تو اللہ نے اس کو پہلے ہی ایمان والا کہہ دیا۔
ایک دوسرا نقطہ کہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودپاک پڑھیں۔ تب ہی وہ اسلام کی سلامتی کے حقدار ہیں۔ درود کریم کی مسلسل اور لگاتار پڑھائی امتی کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب کر دیتی ہے، امتی یہ بات جانتا ہو یا نا ججانتا ہو مگر وہ حضوررحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں چلاجاتا ہے۔ درود پڑھنے والے پہ اللہ خوش ہوتا ہے، اللہ کی رحمت کے اصل حقدار وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدحت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا یا ہوا ہے۔ان کاموں میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ درود اور دوسرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت، یہ دونوں کام ایسے ہیں کہ میرے پیرومُرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہؒ نے اس کے سوا کسی اور عبادت کواتنا درجہ نا دیا، آپؒ اپنے آخری ایام میں فرماتے کہ اب تو نعت مکمل نہیں سنی جاتی، اس میں ایک بات مضمر تھی وہ یہ آپؒ کا اکثر دھیان حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر جاتا تو آپؒ کے روحانی رابطہ پر آپؒ کے آنسو نا تھمتے باہرحال یہ روحانی معاملہ ہے، کسی کو سمجھ آتی ہے تو کسی کو نہیں۔
جن کو سمجھ نہیں آتی ان میں کچھ دل کے کجی ہیں تو کچھ مسٹر وہابی جو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشری حالت کا یقین کر لیتے ہیں مگر وہ دل کے کھوٹی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نوری ہیں۔ ان کو کس طرح یقین دلایا جائے، کوشش کرتا ہوں کیونکہ بڑے علماء جس بات کا ان کو نا سمجھاپائے میں کیا ہوں کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔
چلیے کوشش تو کرنی ہے،اچھا جی کچھ صاحبان اہل وہاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح کا انسان یا بشر کہتے ہیں وہ یہ بات ثابت کریں اگر تو علم رکھتے ہیں اگر جاہل ہیں تو سُن لو! جس بات یہ جھگڑتے ہیں وہ ہے" انا بشرمثلکم یوحی الی" یہاں اس بات پہ بشریت کا مسئلہ ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نعوذ باللہ نعوذباللہ ہماری طرح کے بشر ہیں، یا اللہ اس بات کو کم از کم ہم تو نہیں مانتے، استغفراللہ ربی، مگر جو یہ کہتے ہیں وہ یہ بتائے کہ آپ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا تو سایہ ہی نہیں تھا، یہ بتاو کیا کبھی نور کا سایہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اور کانوں سے سنا میرے پیرومُرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب دامت برکاتہم عالیہ کے پاس ان ہی کا ایک رشتہ دارآیا، اب ان صاحب کے مطابق جب انہوں نے حضور عالی مقام سید العالمین سرورانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا  عطا کردہ جُبہ پاک اپنے اوپررکھا تو اس شخص کا بھی سایہ زمین پہ نہ پڑا۔ یہ بات تو 1999ء کی ہے یہاں تو تم جیسا ہی بات بیان کر رہا ہے، ہاں اگر ثبوت چاہو تو وہ بھی ہے، وہ ادمی اب بھی زندہ ہے، یہ جُبہ مبارک آپ سرکارکُل عالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھ اپنے عاشق حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا اور امت کے حق میں دعا کے لیے کہا۔
کوئی نبی بھی کم نا تھا ہر ایک کی الگ الگ شان ہے سبھی انبیاءکرام پاک نفوس تھے مگر ان کا سایہ زمین پر پڑتا تھا، یہ شان صرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی حاصل تھی۔
آئن سٹائن جو ایک بہت بڑا سائنسدان ہوا ہے اس کے نظریے کے مطابق انسانی جسم اگر روشنی کی رفتار پہ سفر کرے تو وہ پانچ سو سال میں عرش تک رسائی پاسکتا ہے مگر اس کے ساتھ جو رگڑ کا قانون ہے وہ بھی تو عمل کرتا ہے اسی رگڑ کی وجہ سے انسانی جسم کا باقی رہنا ناممکنات میں آجاتا ہے اور پمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر اس قانون پہ کیا۔ اب کوئی نا مانے تو اس سے کنارہ کرنا عقلمندی ہے۔
اللہ پاک نے اپنے پیارے اور مکرم نبی مُحسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت اچھے ناموں سے پکارا ہے، ان ناموں کی تعداد عام تو 99 ہے مگر ان سے بھی بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اسماء گرامی ہیں۔ جن میں عاقب، حاشر، سید، ماح، حامد، محمود، فاتح، قاسم، داع، سراج، منیر، ھاد، مھد، شفیع، ناصر، منصور، حجۃ، برھان، ابطحی،امین، صادق، عربی، ھاشمی، مدنی، عزیز، روءف، رحیم، عالم، طیب، طاہر، خطیب، امام، فصیح، حق، اول، آخراور شکور وغیرھم۔
سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہ کے نادرالوجود ولی کامل اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ جو اس وقت قبرستان میانی صاحب میں آرام فرمارہے ہیں ایک بار فرمایا کہ لکھو ہم تمہیں درودشریف کی برکتیں اور اس سے حاصل ہونے والے انعامات بتاتے ہیں۔
 1۔آپؒ نے فرمایا کہ جس کا کوئی پیر نا ہو تو وہ رہنمائی حاصل کرنے کے لیے صرف درود شریف پڑھے اس کو مقصد ملے گا۔
 2۔ بہت خوب کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ اس میں خیروبرکت ہے۔
 3۔ تمہیں کتنی ہی پریشانی ہو، رنج ہو، مصیبت ٹوٹ پڑےاور مرض جان نا چھوڑتا ہوتو خوب کثرت سے درود پڑھو سب دور ہوجائے گا۔
 4۔ جو شخص کہ جس کثرت سے درود پاک پڑھتا ہے تو اسی لحاظ سے اس سے قبر میں سوال کیے جائے گے۔
 5۔ درود پاک کی اسی کثرت کی وجہ سے اس کا خاتمہ عام لوگوں سا نہیں ہوتا۔ معاملہ اچھا کیا جاتا ہے۔
 6۔ درود پاک کی مسلسل پڑھائی کرنے والا اپنی حاالت  کوعام نا سمجھے اس میں ایک راز ہے۔
 7۔ یہ طالب کی تربیت کرتا اور مرید خاص کو فنا کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ اپنے طالب اور مرید کو کامل بناتا ہے۔
 8۔ یہ مرید اور طالب کے مشاہدے کو جلا بخشتا ہےاور اس کو وسیلہ عطا کرتا ہے جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی ہوتی ہے۔  
 9۔ یہ مرید کے مجاہدے کو بہتر کرتا اور راہ سلوک میں اسانی دلاتا ہے۔
 10۔ آپؒ نے فرمایا اس کو پڑھنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہر وقت اس کو پڑھتے ہی رہنا چاہیے، ہاں اگرتم چاہتے ہو کہ خاص اوقات میں درود پاک پڑھا جائے تاکہ دنیاوی فوائد کے ساتھ ساتھ دین بھی برقرار رہے تو اس طرح کرلیاکرو۔
روزگار کے لیے- بعد از نماز چاشت 300 بار درود پاک پڑھ کر دعا
شادی کے لیے- بعد نماز عشاء 300 بار درود پاک کے بعد دعا
صحت کے لیے- بعد نماز فجر پانی پہ 300 بار درود پاک پھونک کر پی لیں۔
دفع جادو ٹونہ- بعد نماز فجرپانی پہ درود پاک پھونک کر دن میں بار بار پیے اور سر پہ بھی لگائیں مگر پانی زمین پہ نا گرنے دیں۔
ایک اور ضروری بات کہ جب ہم حضور نبینا شفیعنا کریمنا حبیبنا صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک وسلم پر سلام اور صلوٰۃ بھیجے گے تو کیا آپ عالی شان سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا دھیان ہم پرنا ہوگا ، بس اس یقین کامل کے ساتھ حضورروف رحیم شافع الیوم النشور شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کو جان لو کہ ہم سب کے نجات دہندہ ایک ہی ہیں ۔
 واللہ اعلم بالصواب والحمدللہ رب العالمین
ریحان بشیر قادری علائی شکوری

      
    
     



No comments:

Post a Comment