Monday 6 August 2018

Zikar- God's Intimacy



ھُوالقادرُ ھُوالشَۤکورُ ھُوالمعینُ
یاایھاالذین امنواالذکرواللہ ذکراکثیرا- وسبحوہ بکرۃ واصیلا-(سورۃ الاحزاب)
سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہ چشتیہ جہانگیریہ میں ذکر خفی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تعلیم دی جاتی  ہے۔ اس ذکر کو سانس کےذریعے ادا کیاجاتا ہے جو ہر مریدکو اس کے پیر کی طرف سے اجازتًا ملتا ہے، بغیر اجازت اس کو نہیں کرنا چاہیے۔
افضل الذکرلا الہ الا اللہ چارضربی ہے، بمطابق اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ اس کے کچھ محاسن اور فضیلتوں کا یہاں بیان کیا جا رہا ہے جن سے پڑھنے والا قاری بہت سا علم اورفیض اپنے دامن میں سمیٹ سکتا ہے۔ ہمارے پیرومرشد اس بات پربہت زوردیا کرتے کہ صبح و شام اپنےرب کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔
1۔ ذکر نفی و اثبات کرنےکے لیے تشہد کی صورت میں بیٹھا جاتا ہے، تو یہ صورت محمد کی ہی ہوتی ہے، بندہ کا سر مثل میم، گردن تا کمر حا اور کمر کا ہی ایک حصہ میم ثانی اور نیچے کے دھڑ کو دال خیال کیا جاتا ہے، لفظِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہرایک انسان کی عین اوراصل حقیقت ہے۔ اللہتبارک و تعالٰی کو یہ بات پسند نہیں کہ کسی اور صورت میں ذکر کیا جائے اگر وہ ہو تو صرف شکل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی۔  
2۔ کلمئہ پاک ہی حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کا ذریعہ بنا۔جس میں نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاص اہمیت کا حامل ہے۔
 3۔ مرید صادق کو یہ بات جاننی چاہیے کہ تمام نصیبوں، قسمتوں اور کُل خزائن علم و حکمت کی اصل چابی کلمہ پاک ہے۔جب کلمہ مرید کے جسم میں تاثیرو سرایت کرنے لگتا ہےتو کلمہ دریا کی طرح اس کی ہر رگ وریشے میں جاری و ساری ہوجاتا ہے۔ پھر آھستہ آھستہ اس کے دل میں سکونت اور قرار پکڑتا ہے۔ حضرتؒ پیرومُرشد کا ارشاد ہے کہ کلمہ ادا کرنے والے بہت ہیں مگر سب جمع و خرچ والے ہیں جو اس کو خلوص دل و نیت سے ادا کرتے ہیں وہ کم ہیں۔
4۔ مرید یا طالب کو یہ بات یاد رکھنی ہے کہ جب مسلسل ذکر سے جسم میں اس کی لذت آنے لگتی ہے تو اسی کا اپنا نفس اس راہ سلوک میں رکاوٹ کھڑی کرتا ہے۔جس کی بنا پر وہ اس کا مشاہدہ، تجلی اور مرتبہ حاصل نہیں کرپاتا۔ حالانکہ مرید یا طالب کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ ذکر کو چھوڑ دے اس کو جاری رکھے اور نفس کے خلاف جہاد کرتا رہے۔
5۔ ذکراس طرح کرو کہ تم اپنے اپ کو بھی بھول جاو۔یہ مرتبہ بوسیلہ پیر خفی طریقہ والوں کو ملتا ہے اور اسی پر ایسا ذاکر اپنے دم میں ہزار عالم پکڑتا ہے۔ جب وہ اس حالت میں اجاتا ہے تو اس کو کسی اور کے پاس جانے کی حاجت نہیں رہتی۔
6۔ کلمہ پاک سورج کی مانند ہے، جس کسی کے بھی جسم میں طلوع و تاثیر کرتا ہے وہ شخص روشن ضمیر ہوجاتا ہے۔
7۔ اللہ کا خاص قرب نصیب ہوتا ہے اس کا دل ہر وقت اس کی خواہش میں رہتا ہے کہ کب اس کو ذکر کا موقع ملے اور مشغول ہو،ایک خاص اُنس سا ہوجاتا ہے ذکر کے ساتھ۔۔
8۔ کلمہ پاک کے چوبیس حروف ہیں ہر ایک حرف اپنے اندر بہت سا علم رکھتا ہے، جو اس کی راہ میں ہیں وہ اس کی اہمیت جانتے ہیں۔
9۔ کلمہ کا ہر حرف کلمہ ہی ہوتا ہے اور اس ایک کلمے سے ہزاروں کلمے جاری ہوتے ہیں، ذکر کو نبھانا جانبازعاشق کاکام ہوتا ہے۔ یہ ایک نورہے جو اپنے ذاکر کو حضوری تک لے جاتا ہے۔
10۔ ذکرذوق و شوق اور فکرسے منسلک ہے، یہ ایک لازوال دولت ہے، اس کا فیض خود اللہ کی ذات کریمہ ہے۔ بس یہ بات ثابت ہے کہ مفرور، حاسدی اور بغضی شخص ذاکر نہیں ہوتا۔
11۔ یہ مرید اور طالب کی ان گنت  نفسانی الائشوں اور غلاظتوں کو صاف کر دیتا ہے۔
12۔ ذکر اللہ کی توفیق اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تلقین ہے جو براستہ پیر کے مرید و طالب کو تخفہ عنایت ہوتا ہے۔
13۔ ذکر کا مقصد ثبت الا اللہ کا حصول ہے، جو ایک بہت بڑی نعمت عظمٰی ہے۔
14۔ ذکرمرید کو ہدایت اور سلامتی دلاتا ہے۔کچھ عرصہ ذکرخفی میں لگانے پہ مرید کی روح باطنی علم و آشنائی کے قابل ہوجاتی ہے پھراورعرصہ کے بعد مرید کو اپنے نفس کی پہچان اور اس پر قابو حاصل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
15۔ مسلسل ذکر کرنے والے کا خطاب جلا ہوامگر دل نشین ہوتا ہے، وہ سچ کہتا اور سچ سنتا ہے، اللہ نے ایسے ذاکرین کی ہر ادا کو مقبولیت کا درجہ دیا ہے۔
16۔ ذاکر لا الہ الا اللہ کی ایک نشانی ہے کہ جب ذکر اس کو تاثیر کرنے لگے تو وہ اپنے آپ میں خاکستر اور بےگانہ ہوجاتا ہے لوگ اس کو دیوانہ اور لاپرواہ کہنے لگ جاتے ہیں، اس کو دنیاوی رغبت نہیں رہتی اور نا ہی کسی سے کچھ غرض رکھتا ہے۔ اللہ کے نزدیک ایسے لوگ صاحب عقل ہیں۔
17۔ کلمہ طیبہ کا اظہار جب دل سے ہوتا ہے تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت خود ہی اس ذاکرکو اپنا غلام کرلیتی ہے۔ جب دل گرفتار محبت ہو تو ہر مشکل اسان لگنے لگ جاتی ہے۔ جو ذاکر مسلسل ذکر بھی کرتا ہے اور پھر بھی شکایت کرے کہ گزارہ مشکل ہے تو وہ اپنے نفس پہ قابو پائے۔
18۔ یہ ذکر تخمِ ایمان ہے جس کو جتنا کیا جائے تو اس شخص کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ اس سے اس کا اللہ اور اس کی جماعت پہ اعتقاد مضبوط ہوتا ہے۔ جو مرید و طالب جس زوروعقیدہ سے ذکر کرتا ہے تو اسی طاقت سے اس کو جواب ملتا اور ثواب دیا جاتا ہے۔
19۔ جو شخص کہ ذکر سے باقاعدہ شغل رکھتا ہے تو علم لُدٰنی اس پہ واضح ہوجاتا ہے۔ اس کے پیرومُرشد اور سلسلہ ہدایت کے بارے میں سمجھ بوجھ بڑھتی اور پروان چڑھتی ہے۔  
20۔ ہر ایک جاندار کی سانس اسم ھُو کے بغیر نہیں جو جانتا ہے اور اس راہ میں سعی کرتا ہے وہ زندہ ہے۔
21۔ ذکر الہٰی پہ کوئی صدقہ آگے نہیں جا سکتا۔ اللہ کوذکر سے بڑھ کر کوئی کام عزیز نہیں۔
22۔ ہر ایک چیز کی صفائی ہے اور دل کی صفائی ذکر اللہ سے ہے، تم میں سے اللہ کے نزدیک وہی افضل ہے جو ذکر الہٰی کرتا ہے۔
23۔ ذاکر کو لُطف و سرور حاصل ہونے لگ جاتا ہے۔ اس کی نشانی ہے کہ اس کا جسم گرمی تو کبھی ٹھنڈک محسوس کرتا ہے۔
24۔ جب ذاکر لگاتار ذکرکرنا شروع کردیتا ہے تو اس میں چند باتیں وقوع ہوتی ہیں، اس کی عادتیں نیک ہوجاتی ہیں، وہ لغو باتوں سے بچتا ہے، بری سنگت اختیار نہیں کرتا، شکم سیری سے بچتا ہے، علمی مطالعہ میں لگ جاتا ہے، چستی و ہوشیاری سے چلتا ہے اور عاجزی اور انکسار سے کام لیتا ہے۔
25۔ جو شخص نماز کے بعد ایک ہی نشست میں 40 مرتبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتا ہے تو اس کے ستر سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد باآواز بلند اس ذکر کو پڑھےتو اس شخص پہ دوزخ کی آگ حرام کردی جاتی ہے۔
26۔ اسی ذکر پاک کی بدولت مرید کی روح ترقی کرتی ہے اور بلند درجہ پاتی ہے۔
          ریحان بشیر                                     

No comments:

Post a Comment