Wednesday, 7 September 2016

غم اور اس کا علاج

با فیضان زیرِ نگاہِ پیر و مُرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحبؒ دامت برکاتہم مد ظلہ قادریؒ علائیؒ شکوریؒ چشتیؒ منعمیؒ
قُرآنی سورتوں سے استفادہ
1۔اگر کوئی شخص گھر سے بھاگ گیا ہو اور اس کا کچھ بھی معلوم نہ ہو کہ کہاں گیا ہے تو باوضو ہو کر سورۃ والضحٰی کو دو ہزار بار پڑھے انشاءاللہ وہ بھاگا ہوا واپس آجائے گا۔ 
2۔ جو کوئی یہ چاہے کہ صُبح و شام اُس کی ہم چشموں میں عزت و منزلت ہوتو وہ سورۃ قدر تین بار پڑھا کریں۔
3۔ جس کسی کو برص یا یرقان کا مرض ہو تو وہ سورۃ مُبینَّہ کو خوب کثرت سے پڑھے انشاءاللہ مرض جان چھوڑ دے گا۔
4۔ جب کسی کو کوئی بھی مشکل پیش آئے تو وہ سورۃ زلزال ستر بار پڑھے انشاءاللہ دور ہو جائے گی۔
5۔ اگر کسی کو کوئی قرض ادا کرنا مشکل ہے یا کوئی درد جگر میں مبتلا ہے یا وہ نظرِ بد سے اپنے آپکو بطانا چاہتا ہے تو سورۃ ولعٰدیٰت کو سات بار پڑھ کر پانی پہ دم کرکے پی لیا کرے۔ انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔
6۔ اگر کسی شخص کو دین کے بارے میں کوئی بات کٹھن لگتی ہو یا دینی پیچیدگی کی وجہ سے دین کو اپنانا مشکل ہو رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ سورۃ تکاثر کو تی بار پڑھ کے اپنے اوپر دم کرے۔ انشاءاللہ جلد ہی افاقہ ہو گا۔
7۔ اگر دشمن بہت طاقتور ہو اور اس سے چھٹکارا نہ ہوتا ہو یا وہ بہت ہی تعداد میں ہو اور سب کچھ کر لینے کے بعد بھی کوئی چارہ نہ ہوتا ہو تو اپ سورۃ فیل کو ایک ہی نشت میں ایک سو بار پڑھے اور اپنے حق میں دعا کریں۔ انشاءاللہ چند ہی دنوں میں فرق ہوگا۔
8۔ جو کوئی غُربت و محتاجی کا مارا ہوا ہو اور کھانے کو نہ ہو کہ کیا کرے کہ کوئی کام بھی نہیں اور کچھ کما کر لاتا ہے تو اس کو لوگوں کی نظر لگ جاتی ہے تو ایک ہی نشت میں سورۃ قریش کو ستر بار پڑھ کر اپنے پہ دم کرلیں۔ انشاءاللہ کرم ہو جائے گا۔
9۔ اگر یہ شبہ ہو کہ کسی نے آپ پر سحر یا جادو کر دیا ہے تو اس کے واسطے سورۃ الفلق و الناس ایک سو بار پڑھ کر اپنے اقپر دم کرے۔انشاءاللہ جلد ہی افاقہ ہوگا۔
اسماء اعظم تبارک تعالٰٰ سے مدد و استعانت
جس بھی ام اعظم سے آپکا مسئلہ حل ہوتا ہو تو ہم یہ بات آسانی سے سمجھ جاتے ہیں کہ اس شخص کا یہی اسم اعظم ہوگا جو اس کی مشکلات کا حل ہوا یہ بات اس طرح ہے کہ سب حاجات کا سننے والا اور ان کو پایہ تکمیل تک لے جانے والا وہ اللہ ہی ہے وہی کُلُّھُم ہے۔ رزاق وہی ہے باقی بھی وہی ہے حی بھی ہے اور قیوم بھی۔ ثابت بھی ہے قوی بھی ہے وہ ہی سارے جہانوں کا پالنے والا ہے اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ وہی ارفع اور رافع ہے۔ وہ چاہے تو دنیا چلے چاہے تو سارا سلسلہ رُک جائے۔ وہی موت و حیات کا مالک ہے۔ ہماری ساری ڈوریں اسی مالک کے ہاتھ میں ہیں۔  قُرآن مجید میں کود ہی ایشاد کرتا ہے کہ تم یہ بات نہیں سمجھتے کہ سات آسمانوں اور زمین میں جتنی بھی میری مخلوق ہے وہ سب میری تسبیح کرتی ہے اور وہ تسبیح جس سے کہ میں ان کو زندہ رکھے ہوئے ہوں۔
سُبحان اللہِ و الحمدُ للہِ رب العالمین اس کے علاوہ اور بھی تسبیحات ہیں جو اللہ تبارک تعالٰی اور حضور اکرم اور آپ کے اصحابہ کرام کے لیے کسی آن حیات سے کم نہیں۔
سُبحان اللہ۔ الحمد للہ۔ لا الہ الا اللہ ۔ اللہ اکبر
سُبحان اللہ و بَحمدہِ سُبحان اللہ العظیم و بحمدہ استغفراللہ
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
ان تسبیحات کے علاوہ اللہ پاک کی ذات کو اور اسماء پاک سے بھی پکارا جا سکتا ہے۔
یا رحمٰن و رحیم، یا قوی، یا حق، یا باقی، یا جلیل، یا باعث، یا کریم، یا ودود، یا علی، یا حفیظ، یا مقیت، یا منتقم، یا اول ، یا آخر، یا ظاہر، یا باطن، یا شہید، جامع، یا ماجد، یا وکیل، یا متین، یا ممیت اور اتنے اسمائ اعظم ہیں کہ جن کے نہ تو اتنا وقت ہے اور نہ اتنی انسانی بساط کہ ان کو زیر قلم کیا جا سکے۔
ان میں سے سارے ہی اللہ پاک کو مخاطب کرنے کے لیے مستعمل ہیں۔ واللہ ایعم بالصواب۔ باقی ائندہ

  

planets and recitation

سیاروں کی  تسبیحات اور دُکھ اور درد کا علاج
Aries & Scorpio بُرج حمل و عقرب
اسم اعظم و موکلات
یا مالکُ یا قدوسُ
پڑھنے کی تعداد 261 روزانہ وقت سورج کے طلوع ہونے کے ایک گھنٹہ بعد
Taurus & Libra بُرج ثور و میزان
اسم اعظم و موکلات
یا کافیُ یا غنیّ
پڑھنے کی تعداد 1171 روزانہ وقت جب سورج طلوع ہو جائے
Gemini & Virgo بُرج جوزا و سُنبلہ
اسم اعظم و موکلات
یا علیُ یا عظیم
پڑھننے کی تعداد 1131 روزانہ وقت سورج کے طلوع ہونے کے دو گھنٹے بعد
Cancer بُرج سرطان
اسم اعظم و موکلات
یا رحمٰنُ یا رحیم
پڑھنے کی تعداد 556 روزانہ وقت شام مغرب اور عشاء کے درمیان
Leo بُرج اسد
اسم اعظم و موکلات
یا حیُّ یا قیوم
پڑھنے کی تعداد 174 روزانہ وقت جب سورج طلوع ہوجائے
Sagittarius & Pices  بُرج قوس و حوت
اسم اعظم و موکلات
 یا کبیرُ یا متعال
پڑھنے کی تعداد 773 روزانہ وقت شام عشاء کی نماز کے بعد
Capricorn & Aquarius بُرج جدی و دلو
اسم اعظم و موکلات
یَا فَتَّاحُ یا رزاقُ
پڑھنے کی تعداد 797 روزانہ وقت دوپہر ظہر سے پہلے یا بعد میں پڑھ سکتے ہیں۔
نوٹ:- ایک ضروری بات جب بھی کوئی اسم اعطم پڑھا جاتا ہے تو پہلے لفظ کو پیش کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اس پہ پیش لازمی ہوتی ہے یعنی یا کبیرو یا رحمانو اسی طرح سے یا کافیو  کسی بھی اسم کو پڑھنا ہو تو کپڑے پاک صاف ہو اور قاری با وضو ہو۔
پڑھنے والے کے رزق، علم، دشمن سے بچاو، شادی کے مسائل، اگر کسی سے کوئی ناچاقی ہے یعنی منجملہ تمام باتوں کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔جو معاملہ بھی آپ کے دل و دماغ میں ہے تو اُن تمام مسائل کا حل ان اسماء مبارکہ کیی مدد سے اپ حاصل کر سکتے ہیں۔

  

Thursday, 26 May 2016

Ishq Ameen

امین عشقِ
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جب مرید کا تعلق، رشتہ اور نسبت مضبوطی کو تھام لے تو عشق کی منزل کا آغاز ہوتا ہے مگر یہ آغاز ابھی بلندی کو نہیں چھوتا۔ ایسی حالت میں مرید کی باطنی حالت اس کے برشد کے بغیر نہیں گزرتی۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے وجود میں ماہی بے آب ہونے لتا ہے۔ عشق کہنا اور کرنا تو شاید آسان ہو مگر اس کو نبھانا بہت مشکل ہے بلکہ اپنے آپکو آگ میں جلانے کے مترادف ہے۔ عشق، عاشق اور معشوق ایک ہی مادے پر ہیں۔ عاشق اپنے محبوب کی دید کے لیے ہر چیز قربان کر دیتا ہے۔
ایک اور قصہ محبت بھی ہے  جس کے لیے محبوب کی ضرورت ہوتی بھی اور نہ ہونا کوئی لازم و ملزوم نہیں۔ عشق کے لیے جب تک عاشق سامنے  نہ ہو اس وقت تک عشق ثابت نہیں ہوتا۔
عشق کی عین سے عیاں، عرض، عقب ش سے شق اور ق سے قل یعنی کہہ دو مراد لیا جاتا ہے۔ ق سے مراد قرار بھی ہے جو کہ عاشق کے دل میں کسی جگہ بھی وجود نہیں پکڑتا۔ عاشق تو بس دیوانہ وار اپنےاس معشوق کی دید میں بھسم ہوا چلا جاتا ہے۔ ہر شے میں وہ اپنے پیر جاناں کو ہی ڈھونڈتا ہے اس کی تلاش، نظر اور پہنچ کچھ بھی نہیں کہ وہ اس سے کوئی اور چیز دیکھے اور وہ مجبور لاچار کیا کرے غریب کس کو اپنا حال سنائے اور کون سنے گا اس کا اس کا یہ حال
کس کو سنائے حال ِ دل کوئی غمِ آشنا نہیں
ایدا دیا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں
اپنے یار کا دلدار کا غمخار کا چہرہ تکنا س کے ہر مرض کی دوا ہے۔ وہ خود میں تو کچھ نہیں ہوتا بس اپنا یار ہی بن جاتا ہے۔ جب کوئی غمِ آشنا نہیں ملتا تو وہ ہم کلامی پہ اُتر آتا ہے اور اس کی یہ کیفیت اسے ہر بات سے بیگانہ کر دیتی ہے۔دیوانگی اس کے دماغ میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔
اکثر یہ بات میں مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ جنگل کا رُخ ہی کیوں کرتے ہیں اس لیے کہ یاد الہٰی میں خوب وقت بسر کر سکیں۔ اپنے خدا و یاد کرنے کے علاوہ وہ محبتِ رسولﷺ اور دیدارِیار بھی کرسکیں۔
عاشق کی نشانی میں سے ہے کہ وہ ظاہر میں تو خاموش ہوتا ہے مگر باطن میں ایک طوفان لیے ہوتا ہے۔ مگر اس کی باطنی کیفیت اس کے ظاہر سے کچھ جدا نہیں ہوتی۔ عاشق کو کہیں بھی اور جانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی ہی جگہ پہ بیٹھ کر اپنے رہبر و راہنما کا دیدار کر سکتا ہے۔ ایک ہی جیسی طبیعتوں کے دو الگ کبھی الگ نہیں ہوتے۔ یہ دنیا کی نظر میں اایسے ہوسکتے ہیں مگر ان کی باطنی کیفیات ایک ہی جیسی ہوتیں ہیں۔
حضرت عالی شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں جانی کہ ان کے پاس وقت اور رقم کتنی ہے بس آن کی آن میں اپنے پیروموشد کے مزار اقدس کی تعمیر میں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ عشق مال نہیں دیکھتا عشق کہو تو کچھ بھی نہیں دیکھتا اور نا ہی جاننے کی کوششش کرتا ہے۔یہ نتیجوں سے بے خبر ہوتا ہے۔نتیجوں سے تو دنیا دار با خبر ہوتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے میں اپنے پیر کے سلسلہ کی اشاعت کے لیے رقم کس طرح اکٹھی کر پاو گا۔
عاشق کی نشانی ایک یہ بھی ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے پاس کیا ہے کیا تھا اور کیا رہے گا وہ ان تمام باتوں سے بے خبر اپنے مقصد کی تکمیل میں سر پھینک کر لگا رہتا ہے۔ وہ دنیا و مافیہا کی کوئی پرواہ نہیں کرتا بس اپنے مرشد کی تصویر کو ہی سامنے رکھ کر اپنی عبادت کو اس کا محور بنا لیتا ہے۔ عاشق کو تو بس عاشق کی اک نظر چاہیے یہی عاشقوں کا زیور ہے سنگھار ہے زیبائش ہے زندگی ہے اور بقائے دوام ہے۔  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰٰعنہ کا عشقِ محمدﷺ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اسی طرح لیلٰی مجنوں کی لازوال محبت میں بھی کوئی شک نہیں۔ ہیررانجھا، سسی پنوں اور شیریں فرہاد کی داسناے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔عاشق اپنے معشوق کی ناراضگی اور بے رُخی سے ڈرتا ہے۔معشوق کے در سے کچھ ملے یا نہ ملے مگر وہ اسی ہونے اور کچھ نہ ہونے میں خوش ہوتا ہے۔ہلکی سی جدائی اس پہ بہت گراں گزرتی ہے۔ وہ تو بس اپنے محبوب کی توجہ چاہتا ہے اور اس کا اصل مستحق یہ شیدائی کبھی بھی اپنے مرشد عالی کے تصور سے الگ نہیں ہوتا۔
ہم اگر فلاح، سلامتی اور سر بلندی کو ڈھونڈے تو وہ ہمیں اسی در سے ملتی ہیں۔ عاشق کی رمز کو کوئی کوئی سمجھ سکتا ہے کیونکہ ان لوگوں کے اطوار    حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتے اس لیے بڑے جگرے اور دل گردے والا ہی ان کی باتوں کو جان سکتا ہے۔ایک ہی پیر کے دوسرے مرید اس عاشق نامدار کو ذرا کچھ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ وہ اس کے عمل میں جو پختگی پائی جاتی ہے اس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں مگر وہ عاشق اپنے پیرومرشد کی محبت میں جلا ہوا ہوتا ہے لہٰذا وہ کس طرح ان سے میل کھا سکتا ہے۔
عاشق کے دل سے نکلنے والی ہر بات انمول ہوتی ہے۔ وہ عشق میں ڈؤبی ہوئی جو ہوتی ہے پیر کی غیر خاضری لوگوں کو وہی لُطف دیتی ہے جو پیر کی مصاحبت میں تھا۔ اسی عشق کی جلتی ہوئی آگ کی بدولت اس کے دل میں اتنی قوت بھر جاتی ہے کہ وہ ایک ہی چھلانگ میں ساری منزلیں طے کر لیتا ہے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہو پاتی۔
عاشق دا کم رونا دھونا بن روون نہیں منظوری
دل رووے بھانویں اکھیاں روون وچہ عشق دے رون ضروری
اپنے محبوب کے سامنے حاضر ہونا ایک لازمی جزو ہےاگر ان دیوانوں کو یہ بات میسر نہیں تو ان کی زندگی آگے جا کر بھی عذاب ہی ہے۔ ان کو تو بس اپنے یار کی دید ہی درکار ہوتی ہے ان کے  لیے تو شاعر کہتا ہے
تیرا چلمنوں میں چھپنا اور چھپ کے جھانک لینا
یہ     تیرا   مذاق  ٹھہرا  میری  جان  پہ  بنی  ہے
ایسے عاشق کے لیے پیر کا مقام،علم اور عبادت امنت ہوتیں ہیں جو وہ بہت سنبھال کر رکھتا ہے۔ وہ دنیا والوں کو دکھانا چاہتا ہے کہ اس کی نظر میں مقام پیر و مرشد کیا ہے مگر دوسری طرف اس کا پیر یہ بات جانتے ہوئے کہ اس کا عاشق کیا تمنا لیے ہوئے ہے اس کی اسی اندر کی آگ کو اور بڑھاتا ہے۔عاشق کے پاس اپنے مرشد کے فیض کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
بے سرو سامانیم ناظم علی
نسبت خواجہ مہاراجہ دامانِ من
عاشق کا ایک ہی دُکھ ہے کہ میں رہتی دنیا میں اپنے پیر عالی کے عشق میں کامیاب نہ ہوسکا اور اس کو نبھا نہ سکا جس طرح کے حق تھا اس کے باوجود کہ وہ اس کام سے متصل ہوتا ہے پھر بھی ایک ہی تانگ اسے اس جہان فانی سے لے جاتی ہے اور وہ اپنے پیچھے کئی اور لوگ چھوڑ جاتا ہےجو اسی کوشش میں کے اپنے بڑے کی لاٹ کو جلائے رکھے۔
 عاشق کی دنیا اپنی ہوتی ہے۔ وہ کسی سے بھی میل نہیں کھاتا۔ وہ سب کو ایک عام سی زندگی گزارتے ہوئے نظر آتا ہے مگر اس کی زندگی رازو نیاز سے بھرپور ہوتی ہے اس بات کا عام بندہ احاطہ نہیں کر سکتا۔ اپنے مُرشد عالی کے بغیر وہ یہ بے کلی کی اور بے چینی کی زندگی کانٹوں پہ بسر کرتا ہے۔
بقول شاعرۤ: بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوہ جاناناں
یہ عاشق لوگ جتنی اپنے محبوب کی قدر کرتے ہیں اتنا ہی ان کا عشق اُتم طریق پہ پرعان چڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیر کا منظور نظر سارے جہان کا منظور نظر ہوتا ہے۔اپنے پیر عالی مکرم کے در اقدس سے جو تجلیاں مریدین لے کر اُٹھتے ہیں وہ کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتیں بلکہ مرید کی حالت کے عین مطابق ایک نہ ایک دن رنگ ضرور لاتیں ہیں۔
عشق اور غربت چھپائے نہیں چھپتے۔ یہ دونوں انسان کے حال و مقام سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تم ہمارے دنیا سے گزر جانے کے بعد ہماری قبر پر آو گے تو ہم تمہارا انتظار نہیں بلکہ تمہیں اتا دییکھے  گےیہ ایک راز کی بات ہے جو ابھی سمجھ میں آنی ممکن نہیں۔
پیر اصل میں مرید کو جب دائمی نظر سے دیکھتا ہے تو مرید سب حالتوں سے فارغ البال ہوجاتا ہے مگر یہ کوئی منفی بات نہیں بلکہ مرید کو ایک اضافی حالت حاصل ہوتی ہے۔ عشق میں نظارہ لازم و ملزوم ہے بغیر اس نعمت کے عاشق مارا مارا پھرتا ہے اللہ نے بھی تو آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس بلا کر ہی عشق کی نظر سے دیکھا ہے۔
ظاہری آنکھ سے اپنے پیر کو تکنا کسی عبادت سے کم نہیں، تصور کے ذیعے اپنے پی ومرشد کا رخ انور دیکھنا اور حالتِ ظاہری میں دیکھنا بہت بڑا فرق ہے۔ کبھی بھی کوئی  عاشق اپنے معشوق کے پرے نہیں ہوتا جس طرح مٹی درخت کے بغیر نہیں یا جس گلاب کے ساتھ کانٹے نہیں تو وہ پھول نہیں کہلایا جا سکتا۔ عاشق اپنی ہی آگ میں جلا ہوا ہوتا ہے تو نہیں جلا وہ کس طرح عاشقی کی حد کو چھو سکتا ہے۔
عارفوں اور مشتاقین کے نزدیک فاصلہ اور غائبانہ حالت کی کوئی اہمیت نہیں وہ ان سب باتوں سے عاری ہوتا ہے۔پیر کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی وہ اپنے پیر سے یونہی مخاطب  ہوتا ہے جس طرح کہ وہ اس اکے حاضر میں ہوتا تھا۔ اپنے معشوق کے متلاشی یہ لوگ ہر وقت اسی کی ملاقات میں رہتے ہیں کبھی سرکار تو کبھی حضور کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں اکیلے میں رو رو کر فریادیں لگاتے ہیں تو کبھی جنگل بیلوں میں جا کر ان کی یاد میں ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں کون جانے یہ کب کہاں اور کس حالت میں ہوں۔
کدی آ وے ماہی گل لگ وے
تیری دید غریباں دا حج وے
 قبر پیر سے نکنے والی ہر شعاع اسی عاشق کا حصہ ہوتی ہے اور وہی اس کو سمجھتا ہے۔ یا پھر اس کو خواب میں آنکے بتایا جاتا ہے یا تصور میں آنکے بتا یا جاتا ہے کہ معاملے کو کس طرح نبھایا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب۔۔۔۔ ریحان بشیر قادری علائی شکوری ؒ


Toba By Silsila

 سوال: اگر توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا تو کیا ہوتا؟
کچھ اہم نکات
لوگوں کی رائے1۔
معافی مانگنا ہمارا حق 2۔
پیچیدگی زندگی و اختیار3۔
لوگوں کے ذاتی مسائل4۔
حقیر مت جانو5۔
ہمارا گُمان6۔
توبہ کی اہمیت7۔
توبہ کس کو ملے گی8۔
جواب: جب مختلف لوگوں کی رائے لی گئی کہ ان کا اس سوال پہ کیا نقطہ نظر ہے تو ہر ایک نے اپنی صلاحیت اور فہم وفراست کے عین پیش نظر طبع آزمائی کی۔
ان سب محترم حضرات کے جوابات ملاحظہ خدمت ہیں۔1
محمد علی، ایم۔اے انگلش
تو انسان برائی سے نیکی کی طرف نہ آتا۔ پھر کوئی انسان نیک نہ ہوتا۔
 محمداحسن، بی ایس ٹیک گلوبل یونیورسٹی
اللہ کی ذات بہت رحیم ہے جو ہمارے ہزاروں گناہوں کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھولتی ہےیہ بھی اُمت محمدیہ ﷺ کے لیے ایک تخفہ ہے۔
معصومہ نثار،ڈی فامسٹ
تو بہ سے ہر ایک کواُمید ضرور ہوتی ہے کہ اسے اس کے گناہوں کی معافی مل جائے ، محمد احمر۔عمر فاروق، ڈی اے ای الیکٹریکل
اگر توبہ کا دروازہ کھلا نہ ہوتا تو جنت کا وجود بھی نہ ہوتاکیونکہ انسان غلطیوں کا پتلا ہوتا ہے، غلطیوں سے باز نہیں آتا۔یہ اللہ کا شکر ہے، رحم ہے اور انعام ہے ہم پہ کہ اللہ نے ہمارے لیے توبہ رکھی۔
محمد اسرار جنجوعہ،ایم کام
محمد اویس قادری،شکوری ،امینیؒ
اگر توبہ کا دروازہ بند ہونا ہوتا تو ہمیں کبھی بھی رحمان اور رحیم جیسے الفاظ کا پتا نہ چلتا کہ وہ ذآت با برکات کتنی رحیم و کریم و غفور ہے۔وہ کس قدر مہربان ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے اللہ نے مقام معراج پہ وعدہ کیا کہ اگر آپﷺ کی اُمت بہت گناہوں کے باوجود مجھ سے توبہ کرے گی تو وہ مجھے معاف کرنے والا ہی پائے گے کیونکہ میری رحمت میرے غضب پہ حاوی ہے۔
محمد تیمور، بی ایس ٹیک، الیکٹریکل
 میرے خیال  سے اگر توبہ کا دروازہ نہ ہوتا تو اللہ تعالٰی شاید انسان کو نہ بناتا یعنی کوئی ریزن نہ ہوتی۔ اللہ پاک کا شکر ہے۔
عابد سجاد،ایم اے پولیٹیکل سائنس
توبہ کا دروازہ تب بند ہوگا جب سورج مغرب سے نکلے گا۔
محمد زعیم ضیاء، سول سیکریٹریٹ
اللہ تعالٰی اگر توبہ کا دروازہ بند کر لیتا تو انسان کی فطرت میں سے گناہ کو بھی مٹا دیتا کیونکہ گناہ ہے تو توبہ بھی ہے اور اللہ سےمعافی مانگنے کا یہی جواز ہے۔
رضوان احمد، ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ
اللہ پاک کسی کو معاف نہ کرتے۔
محمد عمیر، سٹی اینڈ گلڈز دپلومہ
اگر توبہ کا دروازہ نہ ہوتا تو گناہوں کی بخشش کس طرح ہوتی۔
محمد عقیل ماجد، الیکٹریکل انجینیئر
اگر توبہ کا دروازہ نہ ہوتا تو یہ نظریہ ہوتا کہ ہم خود کو گناہوں سے بچانے کی کوشش کرتے لیکن ایک ایسا وقت آجانا تھا کہ انسان کوخود یہ اندازہ ہو جانا تھا کہ اب وہ بہت گماہگار ہو چکا ہےاور اس کی بخشش بہت مشکل ہے۔دوسری طرف اگر یہی سوچ کر گناہ کرتے جاو کہ میں بعد میں توبہ کرلونگا تو یہ سب سے بڑا گناہ ہے جو ناقابل معافی   بھی ہے۔ توبہ اس لیے ہے کہ اگر آپ سے نادانی کی عمر میں گناہ سرزد ہو گیا ہےتو سمجھداری آنے پر اس سے توبہ کر لی جائے اور باقی کی زندگی سمجھداری سے گزاری جائے۔
مائدہ بٹ، ایم اے اسلامک سٹڈیز
توبہ اللہ کے بندوں پہ ایک بھت ہی بڑا احسان ہے اور یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
محمد سلیمان قادری،شکوری، امینیؒ ڈپلومہ سول انجینیئر
مجھے تو ایک ہی بات پتا ہے کہ آقا کا کرم ہے تو بات بنی ہوئی ہے۔
محمد عامر، ایم ایس سی کیمسٹری، ایم بی اے مارکیٹنگ
تو سب اپنی خودی میں ہی گم ہوتے اور قیامت سا منظر ہوتا۔
محمد ثوبان قادری،شکوری امینیؒ
انسان اپنی روزمرہ زندگی میں غلطیاں اور گناہ کرتا رہتا ہے جب کہ اللہ تعالٰی ستار العیوب ہے۔
ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا 0
بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔
مگر اس میں شرک اور توہین رسالت ﷺ جیسے گناہ کبیرہ اس میں نہ تو شامل ہیں اور نہ ان کی اللہ کے ہاں کوئی معافی ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ شاید گناہِ صغیرہ کو معاف کر دیا جائے پر اس کی کوئی پکی گارنٹی نہیں۔ زنا، جوا اور شراب نوشی جیسی برائیاں ناقابل معافی ہیں۔ اللہ تعالٰی کی ذات بہت ہی رحیم و کریم ہے وہ لجپال ذآت کب یہ چاہے گی کہ اس کی مخلوق دوزخ رسید ہو اس نے اسی مقصد کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو معبوث کیا کہ انسانیت اچھے راستے کو اختیار کرے اس کی فرمانبردار ہو۔ اسی لیے تو اس نے توبہ کے دروازے کو کھلا رکھا ہوا ہے جو چاہے جب چاہے اس مضبوط دروازے پہ آنکر اس سے سچی معافی کا طلبگار ہو۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ جوانی میں تائب نہیں ہوتے مگر بڑھاپے میں پہنچ کر گناہوں سے توبہ کا راستہ آختیار کرتے ہیں۔ اس عمر میں بھی اللہ نے ہی ان کے گناہوں کو معاف کرنا ہوتا ہے یہ اللہ کا چاہنا ہے  وہ مالک و ملک ہے بادشاہ ہے وہ کسی کے سہارے نہیں ہے ہم اس کے سہارے پہ ہیں۔ وہ ہماری توبہ قبول نہ کرنا چاہے تو نہ کرے ہم اس سلسلے میں بے بس ہیں۔
سب سے افضل عمل لا الہ الا اللہ اور بہتترین دعا استغفرواللہ ہے۔ (حدیث نبویﷺ)

2۔ ان تمام عالی قدر حضرات کے جوابات کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم سب ہی معافی کے حقدار ہیں۔ یعنی معافی مانگنا ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے اللہ سے اُٹھتے بیٹھتے سوتے سے پہلے جب جاگ جائے تو اس وقت بھی توبہ ہی طلب کرتے رہے۔ یہ عمل ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ ہمارا رب ہےاور ایک وقت خاص پہ اس سے ہماری ملاقات اٹل ہے یعنی یہ کہ ہم نے اسی سے جا  کر ملنا ہے۔ یہ بہترین رجوع الی اللہ  ہے۔اللہ تبارک تعالٰی بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے یہ بات احادث نبویﷺ سے بھی ثابت ہے۔
3۔ہم لوگوں نے اپنی زندگیوں کو خود ہی پیچیدہ بنا رکھا ہے جس طرح کہ ہمیں ہمارے اسلاف نے زندگی گزارنے کا طریقہ دیا ہے وہ بہت آسان اور سادہ تر ہے۔ یہ طریقہ شریعت محمدیﷺ سے ثابت ہے۔ آپ سرکار مدینہ،تاجدار انبیاء ،سرور سینہ احمد مجتبٰی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم نے ازل سے لیکر ابد تک کا زمانہ نہ صرف کہ بتا دیا ہے بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے جس کو آپ ﷺ کی سُنت مبارک کہا جاتا ہے۔
بات تو  ہےہمارے اپنے اختیا ر کی کہ اب ہم کس کو اہنا لے اور کونسی خلاف شرع بات کو چھوڑ دیں۔ تَابَ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پشیمان ہونا، پیچھے ہٹنا اور چھوڑنے کے ہیں۔
4۔جدید زمانےکے لوگ اپنی اپنی ضرورتوں میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں ہر کوئی کسی نہ کسی بات میں الجھا ہوا ہی نظر آئے گا۔ کسی کو گھریلو مسائل ہیں تو  کوئی روزگار کی طرف سے تنگ ہے تو کوئی معاشرتی انتشار کا شکار ہے یعنی بری سوسائٹی میں کود کر اپنا بیڑا ڈوب رہا ہے۔ کسی کی بیوی اسے ٹائم نہیں دے رہی تو وہ کسی اور کی زُلفوں کے پیچھے ہے وہ بھی اپنی دلیل میں سچا ہے۔ اب اپ اس کے لیے بیوی تو بن نہیں سکتے یا اس کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکتے وہ یا تو کسی کے پیچھے پڑے گا یا کسی اور طریقے کو جائز قرار دے گا یہ سب سے بڑا شیطانی حربہ ہے۔اس قسم کے لوگ توبہ بھی کرنے ہیں اور مجبور زندگی بھی نبھاتے ہیں جبکہ ان کو ان کا حق نہ ملتا ہو تو اس طرح کے لوگ اکثر تذبذب کا شکار ہو کر کوئی بڑا گناہ کر بیٹھتے ہیں اور پھر احساس جرم ہونے پہ تائب ہوجاتے ہیں ایسے مردوں کی صف میں خواتین کا بھی یہی حال ہے کہ شوہر توجہ نہیں دے رہا اور وہ کسی اور کی بن جانا پسند کرتی ہیں۔ زیادہ آتنک عورتوں کا پھییلایا ہوا ہے۔ شادی شدہ عورتیں اکثر زیادہ وقت اپنے بچون کو دیتی ہیں اور جس سے انہوں نے اپنا وقت نبھاے کے لیے شادی کی ہوتی ہے اس پہ ان کا کم وقت صرف ہوتا ہے جو بہت گناونا خیز ثابت ہوتا ہے۔ یہ ہمارے رویے ہی ہمیں گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں اور بعد میں ہم یہ کہتے ہیں جی وہ ہماری قسمت میں تھا ہی نہیں۔ یہ باتیں ہماری اپنی ہی گھڑی ہوئیں ہیں ۔ میں اس بات کا بھی انکاری نہیں کہ اللہ کی ذات نے جو ہماری قسمت و تقدیر میں جو لکھ دیا ہے وہ ہو کر ہی رہے گا مگر یہ رویے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
نوکری پیشہ لوگ بھی اسی طرح بہت تنگ ہوتے ہیں ہر افسر یہ چاہتا ہے کہ میں نے جو لفظ منہ سے نکال دیا ہے اب وہ حرف آخر کی طرح پورا کیا جائے دیکھے جس کو آپ یہ کام سونپ رہے ہیں وہ انسان ہے آپ کی طرح۔ بہت سی خواہشوں کا مالک ہے اور پریشانیاں بھی ہیں اس کے دامن میں۔ اس طرح تو نہیں کہ وہ کوئی بے اولاد ہے یا اس کا کوئی آگے پیچھے نہیں وہ بھی آپ ہی کی طرح حقوق رکھتا ہے۔
زندگیوں کو گزارنے کے لیے صرف ایک یہ مال و دولت اکھٹی کرنا ہی مقصد حیات نہیں ہے کہ اب دنیا میں آ ہی گئے ہیں تو مال اکھٹا نہیں کیا تو بے وقوف کہلائیں گے۔ جب بھی کسی مردہ آدمی کو دفنانے کا وقت ہوتا ہے تو ہر کوئی اسے اس کے نام سے نہیں پکارتا کہ چلو ریحان بشیر کو لے چلو بلکہ میت کو نیلا دیا ہے اچھا اب میت کی قبر تیار ہے جنازہ اتنے بجے ہے اور اس کی رسم قل اتنے بجے ہے۔ یہ ہمارے آباواجدا نے ہمیں جو یہ مال و دولت کی تربیت کر دی ہے اس نے ہمیں توبہ کے دروازے سے بہت دور کردیا ہے۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ایک اللہ بھی ہے بس اسی انتظار میں کہ کبھی تو یہ فریج میرا ہوگا میں یہ عالی شان بنگلے کا مالک ہونگا اور پتا نہیں کیا کیا خواب سجانا ہماری فطرت کا حصۃ بنتا جارہا ہے۔ انہی باتوں نے ہمیں برباد کر دیا ہے اور ہمیں حضور عالی مرتبتﷺ جیسے نبی کی بات سننا بھی گوارا نہیں جو بلکہ ذرا آپ سرکار عالیﷺ کی پیروی کرتا نظر اجائیں تو تم سارے دیناپرست اس کو شک کی نظروں سے بھانپنا شروع ہوجاتے ہو۔
5۔جن کے بارے میں تم سے قبر میں سوال ہونے ہیں ان کی شریعت ﷺ کو تم فرسودہ اور کنزرویٹو کہتے ہو اوہو خدایا مت بدل ایسے لوگوں کی حالت، جن رسول کی رسالت کو تمام انبیاء علیھم السلام نے لبیک کہا اور جن کے دین کی خاطر وہ لوگوں کے ظلم کا شکار بھی ہوئےکیا حضرت ابراہیم کو آگ میں نہ ڈالا گیا، کیا حضرت موسٰی علیہ اسلام نے کم مشکلوں کا سامنا کیا، حضرت ایوب نے بہت سال بیماری میں ہی گزار دیے،حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا گیا،لوگوں نے انبیاء کو ناحق قتل کر ڈالا جو معصوم لوگ ہی ہوتے ہیں یہ سب کچھ اس نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت دین کے لیے کیا گیا، جنہوں نے آنکر اپنے دین کو مکمل کرنا تھا۔ نہ صرف کہ بات یہی تک ہے بلکہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور رفقاء کرام نے کربلہ میں ایک ایسی مثال قائم کر دی جسے کوئی بھی مذہب فروگذاشت نہیں کرےگا۔
6۔جس کسی نے یہ سوچ رکھی کہ ہم تو مسلمان ہیں خدا ہمارا کیا کرے گا ہم تو شاید اپنے نبی آخر الزماںﷺ کی بدولت بخش ہی دیے جائے گے تو اس طرح کی تسلیاں اور اُمیدیں اور بغیر کسی عمل کے تو مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے کہ کوئی اچھا رزلٹ نکلے باقی اللہ پھر بھی بہت رحیم ہے۔ اللہ نے ان تمام باتوں کے باوجود بہت سی باتوں پہ اپنے بندوں کو بخشنے کے سامان کر رکھے ہیں وہی کُلُّھُم ہے۔
۔ جس کسی نے قبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا وہ بخشش کا حقدار ہوگا۔ سُبحان اللہ و بحمدہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر۔
ہماری اپنی کوتاہیاں اور نا آشنایاں ہی ہمارے زوال کا سبب ہوتی ہیں۔ ہم کوئی بھاری بھرکم نقصان کو دیکھ کر ہی انی ڈگر کو سیدھا کرتے ہیں۔ ہم کسی دوسرے کے انجام کو دیکھ کے نہیں سیکھتے بلکہ اپنے ساتھ ہی تجربہ کر کے جان پاتے ہیں۔
7۔اب اس طرف آتے ہیں کہ احادیث نبویﷺ کی نظر میں توبہ کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے وغیرھم۔
اللہ توبہ  قبول کرتا ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ اقرار کرتا ہےاپنے گناہ کااور پھر توبہ کرتا ہےتو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔(مسلم،مشکوٰۃ شریف)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپﷺ نے فرمایاکہ جو شخص توبہ کرے آفتاب کے مغرب سے نکلنے سے پہلے تو اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے۔ (مسلم،بخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک بندہ نے گناہ کیا اور پھر کہاکہ اے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے،تو اس کو معاف کردے۔یہ سن کر خدا فرشتوں سے کہتا ہےکہ کیا میرا یہ بندہ اس بات سے واقف ہے کہ اس کاایک پروردگارہے جو گناہوں کو بخشتا ہے اور جب جی چاہےاور گناہوں پر پکڑتا ہے جب اس کا جی چاہے، پس بخش دیا میں نے اس بندے کے گناہوں کو ، پھر باز رہا بندہ کچھ دن اپنے گناہوں سےیعنی جتنے دن اللہ نے چاہا،اس کے بعد پھر گناہ کیا اور پھر کہا اپنے پروردگار سے کہ اے میرے اللہ میں نے گناہ کیا ہےتو اس کو معاف کردے،پس خدا تعالٰی نے کہا فرشتوں سے کہ کیامیرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا پروردگار ہےجو گناہوںکو بخشتا ہے،اور پکڑتا ہے گناہوں پر،پس بخش دیا میں نے اس کو،پھر بندہ گناہوں سے باز رہتا ہے جب تک خدا چاہے،اور اس کے بعد پھر گناہ کرتا ہےاور کہتا ہے اے میرے رب میں نے ایک اور گناہ کرلیا ہےتو اس کو بخش دے۔پس اللہ تعالٰی اپنے اس بندے کو بخش دیتا ہے۔ اور وہی بات دہراتا ہے کہ کیا اس بندے کو معلوم ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہوں کو بخشتا اور ان پہ اس کی گرفت کرتا ہے وہ جو چاہے کرے۔ (مسلم،مشکوٰۃ شریف)
حضرت جندُب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے یہ کہا کہ قسم ہے خدا کی کہ فلاں شخص کو خدا  نہیں بخشے گا اور خدا نے کہا کہ کون ہے جو مجھ پہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا،پس میں نے بخش دیا فلاں شخص کو اور ضائع کیا تیرے عمل کو۔(مسلم، مشکوٰۃ شریف)
 8۔جس نے یہ بات جان لی کہ اللہ ہی اس کا رب ہے اور وہی ہے جو اس کے گناہ بخشے گا اورا س فرد نے اپنے تمام کاموں کی اُمید صرف اسی سے لگائی رکھی تو اس کا واحد رب اس کو اس جگہ سے رزق دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ اس کی بخشش کا واحد وہی سہارا ہےاور اللہ کو اس کی بخشش پر پوری قدرت ہے اور بے شک ایسا ہے بھی تو اسے نیک لوگوں کی فہرست میں شامل کرلیا جاتا ہے۔
بندہ کی عبادت اور معصیت یعنی گناہ کرنے سے خدا کی خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم زندوں کو اسی لیے تو حکم دیا گیا کہ ہم اپنے مرحومین کے لیے استغفار کیا کریں جو ان کے لیے بہترین ہدیہ ہے۔ اگر استغفار ایک ہی بار ہوتا تو پھر مرحومین تو اس کے حقدار ہی نہ ہوئے کیونکہ وہ تو اپنا انجام دیکھ چکے ہیں اب ان کو کیا ضرورت ہے مگر نہیں یہاں اللہ کی کرم نوازی دیکھے کہ کتنی غفورالرحیم ذات ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ ہم امتی تو سرکار ﷺکے ہوں اور مغفرت کے طالب نہ ہوں اس نے یہ سلسلہ مرنے کے بعد تک بھی رکھا ہے۔
سُبحان ربی العلٰی ولحمدُ للہ رب العالمین بوسیلہ رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ و آلہ واصحابہ و بارک وسلم علیھم اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین۔
واللہ اعلم بالصواب
ریحان بشیرقادری علائی شکوریؒ

Tuesday, 19 April 2016

Fans Of Mysticism - Dastan e Amee

 مصری شاہ لاہور شہرکاایک مشہورومعروف علاقہ جو ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ہے اس علاقے سے  گزرتے ہوئے کچھ آگے ایک نہایت مقدس ومقدم علاقہ میراں دی کھوئی ہے جہاں ایک عظیم الشان عالی مرتبت اللہ کا شیر متمکن ہے جن کے نام نامی سے ایک عالم واقف ہے جی ہاں میرا مطلب حضرت میراں زنجانی ؒ ہے جو حضرت داتا گنج بخش ؒ کے پیر بھائی ہیں۔سبحان اللہ۔
ذکر اولیاء اللہ باعث برکت ہے اللہ کی ذات فرماتی ہے کہ جب تم میرے ان پیاروں کا ذکر کرتے ہو تو میں بہت خوش ہوتا ہوں۔انہی اولیاءاللہ کے پاک نفوس کے صدقے میں ہم ہدایت و تلقین پاتے ہیں اور اللہ تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہ سلسلہ حضور نبی اکرم ﷺ سے چلتا ہوااصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور ان سے آئمہ کرام جن میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور دیگر اماموں کی خدمات اور تعلیم کا کسی کو بھی انکار نہیں۔ جب اللہ نے ہر ذی نفس کو زندگی میں ایک ہی بار موقع دیا ہے اوراس کا وقت معین ہے اور یہ بھی کہ اُس نے اس جہان فانی کو چھوڑکے جانا ہے اوراس کی جگہ کسی اور نے لینی ہوتی ہے کیونکہ یہ دین اللہ کا لایا ہوا ہے کسی اور کی ایجاد یا ترکیب سے نہیں بنا۔
انہی اولیاء اللہ میں سے ایک حضرت معروف کرخی ؒ ہیں جنہوں نے اس کار خیر کو بخوبی آگے بڑھایا۔ اب یہ ہی سلسلہ رشدوہدایت ہندوستان کے راستے سے ہوتا ہوا لاہور شہر کے علاقے جیون ہانہ ،گارڈن ٹاون میں متمکن ہوا اور اللہ کی تجلیوں اور تابانیوں کی روشنی نے لوگوں کے دلوں کو سرشار کرنا شروع کردیا۔ میری مراد شاہ شکور المعروف تاج الاولیاءؒ ہے۔ اسی دوارے سے ایک اور پھول خوشبو دینے لگا اور مالی کو معلوم ہو  گیا کہ یہ اپنے سہانے موسم کے آنے پر ایک تناور درخت بن جائے گا جی ہاں میں حضرت الشاہ محمد علاء الدین المعروف شمس العارفین ؒ کی بات کر رہا ہوں جن کا مزار اقدس شور کوٹ، ضلع جھنگ ہےآپ سرکار عالی کا آخری پڑاو ہے۔ آپ سرکار ؒ نے دین کی سربلندی کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ گھر بار کو چھوڑااور اپنے پیرو مرشد کی امانت کو بہت محنت اور خندہ پیشانی سے سر انجام دیا۔ الحمد للہ۔
حضرت شاہ علاء الدین ؒ نے اس سلسلہ کی اشاعت ترویج کے بہت کام کیا ہے جو کسی لحاظ سے کم نہیں کہ اس بات کے باوجود کہ آپؒ کو لاہور کو خیر باد کہنا پڑا پھر بھی آپؒ کی تابناکیوں سے کوئی نہ بچ سکا اور آپ ؒ کے اتنے قریب ہو گیا کہ آپؒ نے ان کو ان سے مانگ لیا۔ کہتے ہیں کہ ولی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگتا وہ تو جو بھی چاہتا ہے تو اللہ ہی سے مانگتا ہے اور شاید یہ مانگنا بھی اسی رب کریم کی جانب سے تھا۔ مانگا بھی تو کیا مانگا ایک پیر نے دوسرے پیر کی محبت کو نہ مانگا بلکہ چاہا۔ یہ جملہ آج بھی لازوال ہے " چوہدری صاحب آپ ہمارے بیٹے بن جائیں"۔ قدرت کاملہ سے یہ تو نہ ہوسکا مگر یہ رشتہ ناطہ ایک لازوال داستان اپنے پیچھے چھوڑ گیا جس کے نشان و نقوش آج بھی اپنا حال خود ہی بیان کرتے ہیں۔ جن کو بیٹا بنانے کا عہد کیا وہ بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں یعنی حضرت شاہ محمد امین شاہ ؒ بخاطب غیبی فخر المتوکلین ۔
آپ سرکارؒ مصری شاہ میں عزیز روڈ پر کورنر والے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ آپ کی تعلیم تو اتنی نہ تھی اپ صرف آٹھ جماعتیں پڑھے ہوئے تھے لیکن شکل و شباہت سے ایسا نہ تھا۔ لانبا قد اوررُخ انور بہت ہی پُر وجیہہ تھا۔ اپ کی آنکھوں میں ایک خاص تابناکی تھی جو بھی دیکھتا تو تاب نہ لا سکتا۔ جو بات کہ ایک بزرگ و درویش میں ہونی چاہیے کہ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ اس کو دیکھ کر ہمیں اللہ کی یاد آتی ہے اسی طرح کا معاملہ آپ سرکار عالی کے ساتھ بھی تھا۔پیشے کے اعتبار سے آپ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ سارا کاروبا عین شرعی اصولوں کے مطابق تھا۔
آپ سرکار کو اپنے والد بزرگوار سے بہت پیار تھا۔ ایک لمحہ بھی برداشت نہ کرتے اور آپ حضورؒ کی محبت یہ رنگ لائی کہ جب آپ کے والد محترم وفات پا گئے تو میرے سرکار ہر وقت انہی ہی قبر انور احاطہ میراں دی کھوئی قبرستان پہ بیٹھے رہتے اور آنسووں کی لڑیاں بہاتے ۔ حضورؒ کو اور کچھ نہ سوجھتا بس ایک باپ کی محبت ہی میری سرکار کا کل خزانہ تھا۔ وہ سرکار جس نے کل آنے والے لمحات میں غیروں کو سینہ اقدس سے لگا کر تسلی و تشفی سے آرام دینا تھا۔ جس پیر نے جد امجد بننا تھا آج وہ اپنے والد صاحب کی محبت میں گرفتار تھا۔ ہائے ہائے کل کا کس کو پتا تھا کہ اس ایک ولی حق نے کئی لوگوں کی نیند اُڑانی ہے کیونکہ جب عشق بڑھتا ہے تو کسی کو نہیں دیکھتا جلا کے راکھ کر دیتا ہے۔اسی ولی اعظم نے کئی دلوں کی دھکن بننا ہے۔کئی دلوں کا قرار بننا ہے۔اور کیا پتا کہ لوگ ان کا نام لے کر مدد الہٰی کے لیے خواستگار ہونگے۔ جو خزاں کے لیے بہار ثابت ہونے والے ہیں ۔آج جہاں جا رہے ہیں وہاں ان کے پیچھے چلنے والی لوگوں کی جماعت ہوگی۔ کوئی ان پہ مرنے اور مٹ جانے والا ہو گا۔ کسی کو ان سے نسبت ہو گئی تو وہ بخش دیا جائے گا۔ سُبحان اللہ سُبحان اللہ  
 دل میں لگی ہوئی اسی چنگاری کو شعلہ ہارا بنانے کے لیے اللہ نے خود ہی سامان پیداکر دیا۔
حضور عالی قدرؒ کو اسی یکساں حالت میں دیکھ کر آپ کے دو دوستوں نے آپ سرکار کو کہا کہ وہ ان کے ساتھ اللہ کے بزرگ سے ملنے چلتے ہیں۔ آپ چونکہ دوست کی بات کا برم رکھنے والے تھے اس لیے آپ نے ان کی بات کورد نہیں کیا اور ان کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔ یہ تینوں ہما ہما شہر جھنگ پہنچ گئے اور اس ہستئی بے بہا سے آنکھیں چار ہوئیں جو پہلے ہی سے اپنے والد بلکہ پیرو مرشد کے عشق میں گرفتار تھے۔ جیسے ہی دونوں کی آنکھیں ملیں تو سب راز کھل گئے حضرت الشاہ محمد علاء الدینؒ سب کچھ ایک ہی نظر میں بھانپ گئے کہ اصل بات کیا ہونی چاہیے۔ میری سرکار جب ککی نو مکان شریف پہنچے تو دادا حضرت مسجد کی سیڑھیوں پہ تھے۔ آپ نے وہی کھڑے ہو کر میری سرکار کی ساری بپتا ان دو آدمیوں سلیم اور بشیر سے سنی اور میری سرکار کو پہلے گلے لگا کر پوچھا کہ کیا اب کوئی سکون ہوا چوہدری صاحب؟ سرکار نے فرمایا کہ نہین پھر گلے لگایا اور دریافت کیا کہ اب ؟ سرکار نے کہا کہ نہیں پھر تیسری بار جب گلے لگایا تو اس بار کہ میری سرکار کچھ کہتے تو ہمارے داداحضرتؒ نے فرمایا کہ اب کسی اور کی محبت کبھی چوہدری صاحب کے دل میں نہیں رہے گی۔ ہوا بھی ایسا ہی کہ سرکار کو صرف صرف حضرت الشاہ علاءالدین علیہ رحمہ کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں تھی۔ دوسرے سلاسل کے پیر عظام سے سرکار کو عقیدت تھی۔ جن میں حضرت پیر مکی صاحبؒ، حضرت بابا شاہ جمالؒ، حضرت سُلطان باہُوؒ، حضرت بابا چھتریؒ، حضرت بابا فریدالدین شکر گنجؒ، حضرت محکم الدین المعروف حجرہ شاہ مقیمؒ اورحضرت ابو شاہ نقیب ؒ۔  
اب اس دل کی محبت نے جو تلاطم مچایا تو میری سرکار کے لیے جھنگ لاہوری اور بھاٹی بن گیا۔ اُٹھے تو ارادہ ہو گیا کہ یار کی گلی ہیی اچھی ہے چل چلیے جتھے عشق نے ڈیرہ لایا اے۔ اسی ذوقشوق کو دیکھ کر اور اس کے علاوہ آپ کی نیت اورارادہ بھی تو اس میں کارفرما تھا جو آپ کو مزار پاک حضرت الشاہ علاءالدین ؒکو بنانے کی اجازت خود آپ کی سرکار نے دی۔ آپ سرکار کے کئی پیر بھائی اس بات پہ حسد میں مبتلا ہو گئے۔ اب یہاں کوئی کیا کرے کہ جب پیر صاحب کا آرڈر ہے وہ خود ہیکہتے ہیں کہ چوہدری صاحب آپ ہی ہمارا مزار بنائیں گے اس کے بعد آپ آزادہیں۔
سرکار نے بھی خوب ذمہ داری نبھائی۔ مزار مبارک کی کل تعمیر کے بعد ہی سُکھ کا سانس لیا۔ آپ کو اس کام میں بہت سے مراحل سے گزرنا پڑا مگر آپ سرکار سب کچھ سہتے رہے اور حکم پیر پہ ہی گامزن اپنے کام کے ساتھ کام رکھا۔ کسی کی نہیں سنی۔ حضرت الشاہ علاءالدینؒ کا وصال 1969 جنوری میں ہوا۔ میری سرکار نے چار برس اپنے پیر کی خدمت میں گزارے اور آپ کی سیرت و کردار کا ایک حصہ بن گئے۔ مرید ہمیشہ جزو پیر ہوتا ہے وہ یہ با جانتا ہو یا نہ جانتا ہو تو یہ ایک الگ بحث ہے۔ اگر ہم محبت و عشق کے دریا میں تیرنا جانتے ہیں تو یہ بات آسان ہے ورنہ تیراکی سکھا دی جاتی ہے۔
سلسلہ عالیہ کی بھاگ دور جب مکمل اپ کو سونپ دی گئی تو آپ نے خوب محنت و لگن سے اس کو آگے بڑھایا۔ سرکار اپنے گھر میں ہر ماہ کی گیارھویں تاریخ کو ختم پاک غوثیہ دلاتے جس میں چند اصحاب اور مریدین بھی آجاتے اور اپنی اپنی  عقیدت کے مطابق حصہ لیتے اور شیرنی بھی لاتے مغرب کی نماز کے بعد ختم پڑھا جاتا اوردعائے خیر کی جاتی۔ جس طرح کے کچھ لوگ اپ کی تعمیر و ترقی مزار جھنگ سے نالا تھے اسی طرح یہاں بھی معاملہ کچھ زیادہ مختلف نہ تھا ۔ میری سرکار کے سامنے تو کچھ نہ کہتے مگر گھر جا کر خوب پیٹتے کہ ہمیں کام ہوتے ہیں بھئی جن کا کھاتے ہو انہی کو باتیں بنتے ہو تو جاو کوئی اور در آستان ڈھونڈ لو اور ایسا ہی ہوا سرکار نے محفل ہی ختم کر دی۔ اب ان سمجھداروں سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا تم اللہ کے پیغام اور دعوت کو ایک عام اہمیت دیتے ہو کیا وہ کوئی تمہاری طرح کے عام سے آدمی ہیں کہ تم سارا دن دولت کمانے میں اور رات کھانا کھا کر تو خراٹوں میں گزار دیتے ہو، یار کوئی تو شرم ہوتی ہے جہان میں۔
کچھ تو محفل میں  اس لیے آتے تھے کہ شاید آج ہی کرم ہوجائے اور ہمیں کوئی بات مل جائے تو کچھ بس خاموش رہتے تھے اور دانشوروں کی طرح دوسرے پیر بھائیوں کو ڈانتے رہتے تھے کہ تم کیا کرتے ہوخود ہی پیر بنے ہوئے تھے۔ اب وہ بھی چُپ ہین کیا کر سکتے ہیں اب کس کو ڈانٹے گے پیر بھائی تو ہیں نہیں۔ اب ان کی کوئی بات نہیں بنتی اب مارے غصے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ان جیسوں کی کوشش ہےکہ کسی طرح سلسلہ ان کی مرضی کے ساتھ چلایا جائے۔ کیونکہ سرکار نے تو اپنی حیات طیبہ میں کسی کو بھی اجازت نہیں دی تھی اس لیے اب معاملہ مشکل بھی ہے اور ٹیڑھا بھی اب ان کی سمجھ، فہم و فراست کیا کرے وہ بہت ہی زیادہ پریشان ہیں۔ سلسلہ عالیہ قادریہ علائیہ شکوریہؒ کے یہ مرید جنہوں نے اپنے پیر کی زندگی میں کوئی ایسا فعل انجام نہیں دیا کہ وہ فخر کرتے تو اب کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔پہلے کوئی کام نہیں کیا اب سب کچھ پیر کا ہے کیونکہ پیر نے اپنی زندگی میں تو اجازت دینی نہیں تھی۔
اگر آپ کی نیت صرف اور صرف پیر کی ذات اور سلسلسہ عالیہ کی خدمت ہے تو پھر اپ کو کوئی عار نہیں۔ سلسلہ عالیہ میں آنکر میری سرکار کی تو اپنی 34 مرلے زمین تھی وہ بھی نہ رہی وہ صرف سلسلے کی خدمت کے لیے تھی۔ مگر پھر بھی آپ حضور عالیؒ کی شرکت ہی ہم سب کے لیے عافیت ہی عافیت ہے۔ سُبحان اللہ
  سرکار کی آخری آرامگاہ میانی صاحب قبرستان ہے۔