Thursday 26 May 2016

Ishq Ameen

امین عشقِ
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جب مرید کا تعلق، رشتہ اور نسبت مضبوطی کو تھام لے تو عشق کی منزل کا آغاز ہوتا ہے مگر یہ آغاز ابھی بلندی کو نہیں چھوتا۔ ایسی حالت میں مرید کی باطنی حالت اس کے برشد کے بغیر نہیں گزرتی۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے وجود میں ماہی بے آب ہونے لتا ہے۔ عشق کہنا اور کرنا تو شاید آسان ہو مگر اس کو نبھانا بہت مشکل ہے بلکہ اپنے آپکو آگ میں جلانے کے مترادف ہے۔ عشق، عاشق اور معشوق ایک ہی مادے پر ہیں۔ عاشق اپنے محبوب کی دید کے لیے ہر چیز قربان کر دیتا ہے۔
ایک اور قصہ محبت بھی ہے  جس کے لیے محبوب کی ضرورت ہوتی بھی اور نہ ہونا کوئی لازم و ملزوم نہیں۔ عشق کے لیے جب تک عاشق سامنے  نہ ہو اس وقت تک عشق ثابت نہیں ہوتا۔
عشق کی عین سے عیاں، عرض، عقب ش سے شق اور ق سے قل یعنی کہہ دو مراد لیا جاتا ہے۔ ق سے مراد قرار بھی ہے جو کہ عاشق کے دل میں کسی جگہ بھی وجود نہیں پکڑتا۔ عاشق تو بس دیوانہ وار اپنےاس معشوق کی دید میں بھسم ہوا چلا جاتا ہے۔ ہر شے میں وہ اپنے پیر جاناں کو ہی ڈھونڈتا ہے اس کی تلاش، نظر اور پہنچ کچھ بھی نہیں کہ وہ اس سے کوئی اور چیز دیکھے اور وہ مجبور لاچار کیا کرے غریب کس کو اپنا حال سنائے اور کون سنے گا اس کا اس کا یہ حال
کس کو سنائے حال ِ دل کوئی غمِ آشنا نہیں
ایدا دیا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں
اپنے یار کا دلدار کا غمخار کا چہرہ تکنا س کے ہر مرض کی دوا ہے۔ وہ خود میں تو کچھ نہیں ہوتا بس اپنا یار ہی بن جاتا ہے۔ جب کوئی غمِ آشنا نہیں ملتا تو وہ ہم کلامی پہ اُتر آتا ہے اور اس کی یہ کیفیت اسے ہر بات سے بیگانہ کر دیتی ہے۔دیوانگی اس کے دماغ میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔
اکثر یہ بات میں مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ جنگل کا رُخ ہی کیوں کرتے ہیں اس لیے کہ یاد الہٰی میں خوب وقت بسر کر سکیں۔ اپنے خدا و یاد کرنے کے علاوہ وہ محبتِ رسولﷺ اور دیدارِیار بھی کرسکیں۔
عاشق کی نشانی میں سے ہے کہ وہ ظاہر میں تو خاموش ہوتا ہے مگر باطن میں ایک طوفان لیے ہوتا ہے۔ مگر اس کی باطنی کیفیت اس کے ظاہر سے کچھ جدا نہیں ہوتی۔ عاشق کو کہیں بھی اور جانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی ہی جگہ پہ بیٹھ کر اپنے رہبر و راہنما کا دیدار کر سکتا ہے۔ ایک ہی جیسی طبیعتوں کے دو الگ کبھی الگ نہیں ہوتے۔ یہ دنیا کی نظر میں اایسے ہوسکتے ہیں مگر ان کی باطنی کیفیات ایک ہی جیسی ہوتیں ہیں۔
حضرت عالی شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں جانی کہ ان کے پاس وقت اور رقم کتنی ہے بس آن کی آن میں اپنے پیروموشد کے مزار اقدس کی تعمیر میں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ عشق مال نہیں دیکھتا عشق کہو تو کچھ بھی نہیں دیکھتا اور نا ہی جاننے کی کوششش کرتا ہے۔یہ نتیجوں سے بے خبر ہوتا ہے۔نتیجوں سے تو دنیا دار با خبر ہوتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے میں اپنے پیر کے سلسلہ کی اشاعت کے لیے رقم کس طرح اکٹھی کر پاو گا۔
عاشق کی نشانی ایک یہ بھی ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے پاس کیا ہے کیا تھا اور کیا رہے گا وہ ان تمام باتوں سے بے خبر اپنے مقصد کی تکمیل میں سر پھینک کر لگا رہتا ہے۔ وہ دنیا و مافیہا کی کوئی پرواہ نہیں کرتا بس اپنے مرشد کی تصویر کو ہی سامنے رکھ کر اپنی عبادت کو اس کا محور بنا لیتا ہے۔ عاشق کو تو بس عاشق کی اک نظر چاہیے یہی عاشقوں کا زیور ہے سنگھار ہے زیبائش ہے زندگی ہے اور بقائے دوام ہے۔  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰٰعنہ کا عشقِ محمدﷺ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اسی طرح لیلٰی مجنوں کی لازوال محبت میں بھی کوئی شک نہیں۔ ہیررانجھا، سسی پنوں اور شیریں فرہاد کی داسناے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔عاشق اپنے معشوق کی ناراضگی اور بے رُخی سے ڈرتا ہے۔معشوق کے در سے کچھ ملے یا نہ ملے مگر وہ اسی ہونے اور کچھ نہ ہونے میں خوش ہوتا ہے۔ہلکی سی جدائی اس پہ بہت گراں گزرتی ہے۔ وہ تو بس اپنے محبوب کی توجہ چاہتا ہے اور اس کا اصل مستحق یہ شیدائی کبھی بھی اپنے مرشد عالی کے تصور سے الگ نہیں ہوتا۔
ہم اگر فلاح، سلامتی اور سر بلندی کو ڈھونڈے تو وہ ہمیں اسی در سے ملتی ہیں۔ عاشق کی رمز کو کوئی کوئی سمجھ سکتا ہے کیونکہ ان لوگوں کے اطوار    حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتے اس لیے بڑے جگرے اور دل گردے والا ہی ان کی باتوں کو جان سکتا ہے۔ایک ہی پیر کے دوسرے مرید اس عاشق نامدار کو ذرا کچھ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ وہ اس کے عمل میں جو پختگی پائی جاتی ہے اس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں مگر وہ عاشق اپنے پیرومرشد کی محبت میں جلا ہوا ہوتا ہے لہٰذا وہ کس طرح ان سے میل کھا سکتا ہے۔
عاشق کے دل سے نکلنے والی ہر بات انمول ہوتی ہے۔ وہ عشق میں ڈؤبی ہوئی جو ہوتی ہے پیر کی غیر خاضری لوگوں کو وہی لُطف دیتی ہے جو پیر کی مصاحبت میں تھا۔ اسی عشق کی جلتی ہوئی آگ کی بدولت اس کے دل میں اتنی قوت بھر جاتی ہے کہ وہ ایک ہی چھلانگ میں ساری منزلیں طے کر لیتا ہے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہو پاتی۔
عاشق دا کم رونا دھونا بن روون نہیں منظوری
دل رووے بھانویں اکھیاں روون وچہ عشق دے رون ضروری
اپنے محبوب کے سامنے حاضر ہونا ایک لازمی جزو ہےاگر ان دیوانوں کو یہ بات میسر نہیں تو ان کی زندگی آگے جا کر بھی عذاب ہی ہے۔ ان کو تو بس اپنے یار کی دید ہی درکار ہوتی ہے ان کے  لیے تو شاعر کہتا ہے
تیرا چلمنوں میں چھپنا اور چھپ کے جھانک لینا
یہ     تیرا   مذاق  ٹھہرا  میری  جان  پہ  بنی  ہے
ایسے عاشق کے لیے پیر کا مقام،علم اور عبادت امنت ہوتیں ہیں جو وہ بہت سنبھال کر رکھتا ہے۔ وہ دنیا والوں کو دکھانا چاہتا ہے کہ اس کی نظر میں مقام پیر و مرشد کیا ہے مگر دوسری طرف اس کا پیر یہ بات جانتے ہوئے کہ اس کا عاشق کیا تمنا لیے ہوئے ہے اس کی اسی اندر کی آگ کو اور بڑھاتا ہے۔عاشق کے پاس اپنے مرشد کے فیض کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
بے سرو سامانیم ناظم علی
نسبت خواجہ مہاراجہ دامانِ من
عاشق کا ایک ہی دُکھ ہے کہ میں رہتی دنیا میں اپنے پیر عالی کے عشق میں کامیاب نہ ہوسکا اور اس کو نبھا نہ سکا جس طرح کے حق تھا اس کے باوجود کہ وہ اس کام سے متصل ہوتا ہے پھر بھی ایک ہی تانگ اسے اس جہان فانی سے لے جاتی ہے اور وہ اپنے پیچھے کئی اور لوگ چھوڑ جاتا ہےجو اسی کوشش میں کے اپنے بڑے کی لاٹ کو جلائے رکھے۔
 عاشق کی دنیا اپنی ہوتی ہے۔ وہ کسی سے بھی میل نہیں کھاتا۔ وہ سب کو ایک عام سی زندگی گزارتے ہوئے نظر آتا ہے مگر اس کی زندگی رازو نیاز سے بھرپور ہوتی ہے اس بات کا عام بندہ احاطہ نہیں کر سکتا۔ اپنے مُرشد عالی کے بغیر وہ یہ بے کلی کی اور بے چینی کی زندگی کانٹوں پہ بسر کرتا ہے۔
بقول شاعرۤ: بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوہ جاناناں
یہ عاشق لوگ جتنی اپنے محبوب کی قدر کرتے ہیں اتنا ہی ان کا عشق اُتم طریق پہ پرعان چڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیر کا منظور نظر سارے جہان کا منظور نظر ہوتا ہے۔اپنے پیر عالی مکرم کے در اقدس سے جو تجلیاں مریدین لے کر اُٹھتے ہیں وہ کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتیں بلکہ مرید کی حالت کے عین مطابق ایک نہ ایک دن رنگ ضرور لاتیں ہیں۔
عشق اور غربت چھپائے نہیں چھپتے۔ یہ دونوں انسان کے حال و مقام سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تم ہمارے دنیا سے گزر جانے کے بعد ہماری قبر پر آو گے تو ہم تمہارا انتظار نہیں بلکہ تمہیں اتا دییکھے  گےیہ ایک راز کی بات ہے جو ابھی سمجھ میں آنی ممکن نہیں۔
پیر اصل میں مرید کو جب دائمی نظر سے دیکھتا ہے تو مرید سب حالتوں سے فارغ البال ہوجاتا ہے مگر یہ کوئی منفی بات نہیں بلکہ مرید کو ایک اضافی حالت حاصل ہوتی ہے۔ عشق میں نظارہ لازم و ملزوم ہے بغیر اس نعمت کے عاشق مارا مارا پھرتا ہے اللہ نے بھی تو آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس بلا کر ہی عشق کی نظر سے دیکھا ہے۔
ظاہری آنکھ سے اپنے پیر کو تکنا کسی عبادت سے کم نہیں، تصور کے ذیعے اپنے پی ومرشد کا رخ انور دیکھنا اور حالتِ ظاہری میں دیکھنا بہت بڑا فرق ہے۔ کبھی بھی کوئی  عاشق اپنے معشوق کے پرے نہیں ہوتا جس طرح مٹی درخت کے بغیر نہیں یا جس گلاب کے ساتھ کانٹے نہیں تو وہ پھول نہیں کہلایا جا سکتا۔ عاشق اپنی ہی آگ میں جلا ہوا ہوتا ہے تو نہیں جلا وہ کس طرح عاشقی کی حد کو چھو سکتا ہے۔
عارفوں اور مشتاقین کے نزدیک فاصلہ اور غائبانہ حالت کی کوئی اہمیت نہیں وہ ان سب باتوں سے عاری ہوتا ہے۔پیر کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی وہ اپنے پیر سے یونہی مخاطب  ہوتا ہے جس طرح کہ وہ اس اکے حاضر میں ہوتا تھا۔ اپنے معشوق کے متلاشی یہ لوگ ہر وقت اسی کی ملاقات میں رہتے ہیں کبھی سرکار تو کبھی حضور کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں اکیلے میں رو رو کر فریادیں لگاتے ہیں تو کبھی جنگل بیلوں میں جا کر ان کی یاد میں ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں کون جانے یہ کب کہاں اور کس حالت میں ہوں۔
کدی آ وے ماہی گل لگ وے
تیری دید غریباں دا حج وے
 قبر پیر سے نکنے والی ہر شعاع اسی عاشق کا حصہ ہوتی ہے اور وہی اس کو سمجھتا ہے۔ یا پھر اس کو خواب میں آنکے بتایا جاتا ہے یا تصور میں آنکے بتا یا جاتا ہے کہ معاملے کو کس طرح نبھایا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب۔۔۔۔ ریحان بشیر قادری علائی شکوری ؒ


No comments:

Post a Comment