Thursday 26 July 2018

DERVAISH KA HAAL


آج کے درویش
 االلہ کے اس قائم کردہ عالم میں کبھی کوئی ایسا وقت نہیں گذراجب رب ذوالجلال کے پیغام کو انسان تک پہچانے کے لیے یہ ارض کسی نبی و پیغمبر کے بغیر رہی ہو، اللہ تعالٰی کی ذات با برکات نے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کو اس زمین پہ اتارا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سارا علم بھی سکھایا۔ انبیاء کرام علھم السلام کے پے در پے سلسلہ کو انسان تک لانے اور لے جانے کا یہ مقصد حیات اصل میں اللہ سب انسانوں کوعلم کی آگاہی دینا تھا ، اس کا حکم ہے کہ مجھے اور میری حقیقت کو جانو، یہ جاننا علم کے ساتھ مشروط ہے۔ حالانکہ حضرت آدم کی تخلیق سے پہلے فرشتوں کا خیال تھا کہ حضرت ادم کیوں ہم سے علم میں زیادہ ہونگے ہم تو ہر وقت علام الغیوب کے دربار میں ہوتے ہیں، اسی خیال کا جواب فرشتگان کو جب یوں ملا،  "عَلَۤمَ ادم الاسماء" کہ ہم نے آدم علیہ السلام کو سارے نام و علم الہام کے ذریعہ سکھا دیے ہیں۔ تو اس بات پر فرشتے عاجزی و انکسار کرنے لگے۔ وہ کہنے لگ گئے اللہ کی ذات پاک، عالم اور دانا ہے جو اس کا علم ہے وہ ہم نہیں جانتے۔
علم کا حصول انبیاء، صدیقین،آئمہ کرام، شہداء اور اولیاء کرام کا وطیرہ رہا ہے، ہر وقت اپنے اپ کو جاننے  اور گرد وپیش کے احاطے کے ادراک میں یا یوں کہہ لیں کہ ان کی علمی تلاش و جستجو کبھی نا تو اختتتام کو پہنچے گی اور نا اس کا آخری سرا ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہر دور میں کوئی نبی، رسول یا پیغمبر کو کسی نا کسی امت کے لیے متمکن کیا تاکہ لوگ اس کو اچھے طریقے سے جان لیں، اس کی عبادت میں کوئی کوتاہی سرزد کر بھی دیں تو ان کو معافی مانگنا مشکل نا ہو۔اسی علم کے ذریعہ جب حضرت ادم علیہ السلام اپنے بیٹے ہابیل کے غم میں مبتلا تھے تو اللہ نے اپنے نبی کے پاس حضرت جبرائیل کو بھیجا ' اللہ آپکو ایک ایسا فرزند رشید عنائیت کرنے والا ہے جس کی پاک اولاد سے سیدالانبیاء حضرت محمد مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگا۔ یہ الہامی علم کی ہی ایک شکل ہے جس نے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تسکین و تسلی بخشی۔
وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کے دین کی اشاعت و تبلیغ کو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء نے حصہ لے کر اپنے اپ کو مقدس بنا لیا، جن کے مزار پُڑ انوار پہ اللہ کی تجلیاں رحمت بن کر برستی ہیں، جنہوں نے حضورنبی مرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں  مسجد اقصٰی میں نماز ادا کی۔ جو نبی علم کا مرکز ہے، منبہ ہے اور ساری کائناتوں کا محور ہے۔ ہر نبی کی کوئی نا کوئی دعا ہے اللہ پاک ہی نے عطا کی ہے، حضرت ادم علیہ السلام دعا مانگتتے، ربنا ظلمنا انفسنا و ترحمنا لنکوننا من الخسرین۔
حضرت نوح علیہ السلام یہ دعا مانگی، رب لا تذرعلی الارض من الکافرین دیارًا۔

ہمارے پیارے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعا ہے، رب زدنی علماً۔ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما، سبحان اللہ۔  
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری حیات طیبہ علم کی ترقی و ترویج میں گذری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں خود اصحابہ کرام کو تعلیم دی۔ ایک دن جماعت ہوتی جبکہ ایک دن چھٹی ہوتی، یہ آپ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طریقہ تعلیم تھا تاکہ اصحابہ پڑھائے گئے سبق کو اچھی طرح ازبر کر لیں۔ دینی علم کے ساتھ ساتھ اسی مسجد میں دنیاوی مضامین بھی پڑھائے گئے جن میں کیمیا، فزکس، فلسفہ،حیاتیات، طب، فلکیات اروریاضی وغیرہ شامل ہیں۔
علم انسان کو آگاہی اور شعور کے علاوہ حق، سچائی اور اصل کے ساتھ روشناس کراتا ہے۔ قرآن و حدیث اور سُنت کیا ہیں علم کا گہوارہ ہی تو ہیں، قرآن کریم ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ہے حدیث میں مکمل تفصیلات ہیں، سب باتیں جو قرآن میں اشارہ کے طور پہ ہیں ان کو احادیث میں پوری طرح کھل کر بیان کیا گیا ہے۔قابل غور بات تو یہ ہےکہ اللہ تبارک و تعالٰی ہمیں کس رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے یعنی وہ صبغۃ اللہ کیا ہے؟ اس کو جاننا ہم سب کے لیے ازحد ضروری ہے۔
آئیے اب پہلے صبغۃ اللہ کی بات کرتے ہیں۔  
اللہ کی ذات فرماتی ہے-" صبغۃ اللہ و من احسن من اللہ صبغۃ"- اللہ کا رنگ ہر رنگ سے افضل و برتر ہے۔ یہ رنگ تم اُن لوگوں میں دیکھو گے جو تزکیہ کا، تقوٰی کاارو رضائے الہٰی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ کا رنگ جاننا ہے تو سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرو، اصحابہ پاک کی حیات کو بغور دیکھو، اولیاء اللہ رحہما اللہ کی زندگیوں کا مشاہدہ کرو۔ رنگ یہ ہے کہ جو قرآن کہتا ہے اس کو من و عن مان کر اس پر عمل پیرا ہوجاو۔ اپنا رنگ نا پیش کروکیونکہ تمہارے ہمارے رنگ میں ملاوٹ ہے حسد و تکبر کی، بغض و عناد کی، تفریق کی، شہوت پرستی کی اور نفس خبیثہ کی۔
صبغۃ اللہ کا براہِ راست تعلق تصوف سے ہے اور یہاں اسلامی تصوف کی بات ہورہی ہے۔ اس تصوف کی بات نہیں کی جارہی جس میں آج کل کے درویش حضرات رنگ برنگ کے لباس پہن کر، مختلف ٹوپیاں پہن کر، آنکھوں میں گہرا سُرمہ لگا کر، مہنگی خوشبوئیں لگا کر،  اگربتی جلا کر، قوالی کی آواز پہ خواہ مخواہ جھوم کر،تعویذ گنڈوں، نذرانوں کے ذریعے اور ہر سانس پر اللہ ھُو کی صدا لگانے کو تصوف سمجھ بیٹھے ہیں۔ پیر صاحب کمرے میں رنگ برنگی لائٹیں جلائے ہوئے ہیں اور ان کا یکدم وجدانی کیفیت میں اجانا ملاقاتی کو حیراں کر

دیتا ہے۔عام لوگ اپنی پریشانیوں میں یہ بات نہیں سمجھ سکتے، مگر یہ ڈھونگی بابے اپنے آپ کو کوئی اونچی حضرت ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں، انہی لوٹا پیروں نے لوگوں کے عقائدِ اسلامی کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے، ملاقاتی اپنی تکلیف بیان کرتا ہے تو یہ اس کی تسلی و تشفی کرنے کی بجائے ایک ہی فقرہ گردانتے ہیں، ہاتھ کو ہوا میں بلند کرتے ہوئے " جا تیرا کام ہوجائےگا بس تجھے وہ ہی کرنا ہوگا جو ہم تمہیں کہیں گے، بس جا چلا جا"۔ اور کیا ہے کہ باہر ان کے جو ایجنٹ بیٹھے ہوتے ہیں وہ ان مصیبت کے ماروں کو چند ٹکوں کے عوض کھ جلانے کواور کچھ پینے کواور کچھ بہانے کو دے دیتے ہیں اور کچھ دبانے کو دے دیتے ہیں کہ اس کو کسی پرانی قبر مین دبانا۔
تصوف نام ہے اس صفت کا جس میں ہم انتہائئ خلوص و محبت کے ساتھ عجز و انکسار کا دامن تھامے ہوئے اللہ پاک کے دربار میں حاضر ہوں، اس کے ساتھ کبھی بھی شرع کا دامن نا چھوڑیں، کیا ان پیروں میں یہ خصوصیت ہے، ان کو تو بس اپنی شہرت عزیز ہے۔          
لفظ تصوف کا علاقہ چاہے صوف سے یا صوفس سے یا صفا سے مگر اس کی شرط تزکیہ نفس ہے۔ یہ عالم اشراق یا ہندووں کے یوگ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ یہ خالصتًا اسلامی ہے۔ مکمل اتباع رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصوف ہے۔ اپنے ارادوں اور خواہشوںکو رضائے الہٰی پر قربان کر دینے کا نام تصوف ہے۔ اپنی ہستی کو عشق اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں فنا کر دینا کہ اپنا نا تو کوئی وجود رہے اور نا پتا۔ اسی تصوف کو اپنا لینے کا نام صبغۃ اللہ ہے۔
اپنا ہر قدم، ہر جادہ، ہر سانس صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطراٹھے۔ اللہ کے دین کو سمجھو اور پھر اس میں ڈوب جاو تاکہ علم باطن کے حقدار کہلاو۔
علم کے دو مقامات ہیں، ایک علم سفینہ اور دوسرا علم سینہ۔  علم سفینہ کو تعلق کتابوں سے ہے۔ اس علم میں سائنسی ، فلسفیانہ اور تحقیقی مکالے اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ علم سفینہ میں صرف کتاب کا مطالعہ کرکے نہ تو نور حاصل ہوتا ہے، نہ ہی کسی کا تزکیہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو کوئی منزل ملتی ہے۔مگر علم سینہ میں  یہ بات باطنی نہج پہ منتقل ہوتی ہے۔ایک یہ بھی ہے کہ  جب تک کہ طالب صادق خود اس کی خواہش نا کرے یہ علم اس تک رسائی نہیں کرتا۔
 علم سینہ سے متعلق ایک پردہ ہے جو جاہلوں کی انکھوں پہ پڑا ہوا ہے، وہ اس کو ریاکاری اور فریب کا نام ہی دیتے ہیں۔ نفس کے مجاہدات ہر مذہب میں موجود ہیں جن کا سہارا لے کر بعض جوگی عالم اسفل تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں، ایسے لوگ اہل استدراج کہلاتے ہیں اور

انہی شعبدہ بازوں نے لوگوں کوگمراہ کر رکھا ہے، اسی اصطلاح تصوف کو دورِ حاضر کے لوگوں نے بہت بگاڑ کے رکھ دیا ہے، آج کل کی تھیوسوفیکل جماعتیں سارا سارا دن تصوف پر بحث و مباحثہ کرتی ہیں، باقاعدہ کانفرنسز منعقد کیں جاتیں ہیں، ان مجالس میں موجود ہر کوئی اپنا جواب فلسفیانہ انداز میں ریکارڈ کرواتا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ ان لوگوں نے قوت ارادی کو روحانی قوت کا نام دے رکھا ہے۔ حالانکہ تصوف ہی روحانی قوت ہے۔ اسرارِ ولایت کو قوت ارادی سے جوڑنا ایک کم عقلی اور لاعلمی کی نشانی ہے۔
قوت ارادی ایک الگ بات ہے اس کو تصوف کے ساتھ یا روحانی قوت کے ساتھ مدغم کرکے بیان کرنے سے مسائل بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے۔ بات اپنے معنوی اور تاثیری اعتبار سے کسی اور سمت چل پڑتی ہے۔ اسی بات میں چند رنگبازوں کا کام نکل جاتا ہے۔ سفلی قوتوں کو کنٹرول کرنے والا ان کو روحانی قوت بتا کر عام لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے۔
جان بوجھ کراورموقع و محل کے بغیرکشف و کرامات دکھانے والا ولی کامل نہیں ہوتا اس بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ اب ڈاکٹر ہی کی مثال لیں تو اس کو مریض کی بیماری کا علم ہی نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے کہ اس کو کس قسم کی بیماری ہے اور وہ کیا دواکھائے تو صحت یاب ہوگا۔ اس ڈاکٹر صاحب نے یہ علم کتابیں پڑھ کر حاصل کیا جو علم سفینہ ہے اس نے یہ علم کسی کے سینہ سے یا باطنی انداز پہ نہیں لیا۔ اس کے پاس بیماری کی علامت، ہیئت اور علاج ہے وہ ظاہریت کا قائل ہے۔
ویسے بھی علم سینہ کے لیے عبادت و ریاضت، ذکر، مشاہدات اور مجاہدات کی کثرت ہے، اپنے نفس کے ٹیڑھے پن کو جب تک انسان جان نہیں لیتا، شیطان کی فریب کاریوں کو پہچان نہیں لیتا، اللہ کی رضا کو پا نہٰں لیتا، اپنے مُرشد اور سلسلہ عالیہ کے عین مطابق نہیں ہوجاتا تو اس وقت تک وہ ولایت کو قطعاً قطعاً نہیں جان پائے گا۔ تصوف نام ہی اپنی نفی کرنی ہے یہ نہیں کہ چند دن کی عبادت کی اور شہرت پہ خوشی سے پھولے نا سمائے۔
درویش کا معیار کشف و کرامت نہیں، درویشی لائن کے بندے پورے پورے اپنے نبی مکرم حضرت محمد مُصطٰٖفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پہ چلتے ہیں اور اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین کی حیات طیبہ کو اپناتے ہیں۔ مگر یہاں ہمارے خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں کچھ شعبدہ باز انہی صوفیاء کرام کے لباس میں اپنے آستانوں میں بیٹھے لوگوں کو مسمیرائز کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے روحانی قوت پا لی ہے۔ اسفنج کو دودھ میں ڈبو کر بالوں میں رکھ کر جب یہ لوتا پیر عورتوں اور مردوں کے سامنے دباتے

ہیں تو دودھ کی دھاریں نکلتی ہیں اور اندھیرے میں بیٹھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا منہ چمک  رہا ہے ارے بھائی یہ فاسفورس کا استعمال کرتے ہیں۔
روحانیت ایک مقام اور معیارکا نام ہے جس کی کوئی اور کسوٹی نہیں سوائے سیرت پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے اصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی پیروی کا ، اس کے بعد آئمہ کرام یعنی اہل بیت اطہار کا اور پھر یہی امانت اولیاء اللہ رحہما اللہ اجمعین کے پاس ہے، اب ان میں یہ ہستیاں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں یعنی حضرت سری سقطی، حضرت جنید بغدادی، حضرت ابو بکر شبلی، حضرت بایزید بسطامی، حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت داتا گنج بخش، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت

مادھو لعل حسین رحمہا اللہ علیھم اجمعین اور اتنے نام پاک ہیں کہ یہ پوسٹ اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ ان ہستیوں کے ناموں کی فہرست شروع کی جائے اور وہ ختم ہوجائے۔    
لوگ ان ہستیوں کے ساتھ رہے تو ان ہی جیسا طریقہ زندگی ان کا مقصد حیات بن گیا۔ ان ہی ہستیوں نے لوگوں کی زندگیوں پہ ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جن کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ قرآن پاک تو خود ان پاک نفوس کی سنگت کا کہتا ہے،
واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدواۃ والعشی یریدون وجھہ۔ اور اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ رکھوجو اپنے رب کوصبح و شام پکارتے ہیں،اور اس کی رضا مندی چاہتے ہیں۔
اب بات آئی کہ اولیاء کاملین اور ان شعبدہ بازوں میں کیا فرق ہے؟
یہ سوال ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہے اور ہر کوئی اس کو احسن طور پر جاننا چاہتا ہے کہ ہم اللہ کے اصل اور حقیقی بندوں کو کہاں تلاش کریں۔ ان کی کیا پہچان ہے۔ کرامت دکھانا اور کرشمے کرنا کسی طرح بھی کسی ولی کامل کو زیب نہیں دیتا۔ ولی اگر تو اصل ولی ہے تو وہ اپنے مریدوں کو یہ بتا کر خوش نہیں ہوتا کہ میں تمہیں ہوا میں اُڑ کر دکھا سکتہ ہوں میں پانی پہ بھی چل سکتا ہوں، یا کسی کا موبائل گم ہوگیا ہے تو مرید فوراً پیر کو بتاتے ہیں کہ یہ بتائیں کہ میرا موبائل کہاں گرا ہے یہ وہ باتیں ہیں جن باتوں نے ہر ایک بات آپس میں غلط ملط کردی ہے۔ لوگ پیر اس کو مانتے ہیں جو ان کو ان کے پرائزبانڈ کے لکی نمبر بتائے، ان کا لکی نمبر بتائے، ان کو یہ بتائے کہ دولت کس وظیفہ سے آئے گی، بس کسی طرح جادو ہوجائے، لوگ تو چاہتے ہیں کہ ایک دن مرید ہوئے تو دوسری طرف گھر دولت  و نعمے سے بھر جائے، اگر ہم کبھی اسلامی تاریخ کی کتب کھنگال لیں تو معلوم ہوکہ اکثر اصحابہ کرام سے کہا جاتا کہ تقوٰی اختیار کرو ، نماز اور ذکر سے میری مدد کرو۔ استقامت پکڑو یہ اسلامی تعلیم کا مرکزی محور ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی ایسا ورد بتائے جو کایا پلٹ ہو، تم نے اپنی کایا ہی پلٹنی ہے تو اپنا کردار بلند کرو، اپنے اخلاق کی ، اپنی عادات کی تصحیح کرو، اللہ کی دھیان لگاو، ان اوراد و وظائف کو مت ڈھونڈو اپنا حال، مقام اور وقت دیکھو کہ تم کس سمت جا رہے ہو، تم کس مذہب کے پیروکار ہو، تمہارا دین کیا کہتا ہے، کس کو اپنا ائیڈیل بناو گے تو دنیا اور آخرت سدھر جائے گی۔ نا کہ گھر میں زیور گُم ہوگیا تو چلے کسی بابا جی سے اپنا زائچہ کھینچوانے، نہیں یہ دین ہمیں نہیں سکھاتا، دین تو خود ایک زندگی کا نام ہے۔ایک تو تمہیں زندگی ماں اور باپ کے بطن سے ملی اور دوسری تمہیں تمہارا دین عطا کرتا ہے۔ دین کو تمہارا بھائی کہا گیا ہے۔

جو ولی ہےیا ایک عام مسلمان اگر شرع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہیں ہے تو پھر معاملہ گھمبیر ہے۔ کسی بھی ولی کی پہچان ہی شرع کی اوڑھنی کو اپنا لباس بنانا ہے۔ یہاں لوگ زیادہ سجادگی کی طرف بھاگتے ہیں لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد بزرگی مل جائے تو وہ بھی لوگوں کی راہنمائی کرے اور ان کو اللہ کا راستہ دکھائے۔ پیری فقیری لائن میں یہ باتیں سلوک کی راہ کہلاتی ہیں۔ یعنی راہِ شریعت اور راہِ طریقت۔ پہلی کا واسطہ طاہر سے جبکہ دوسری باطن سے ہے۔ جس نے پہلی کو اختیار نا کیا اس میں مہارت نا رکھی سکو برقرار نا رکھ پایا تو دوسری تو ہے ہی چھپی ہوئی، وہ اس باطنی کیفیت کو کیا سمجھے گا۔ جاہل فقیر شیطان کا مسخرہ ہے۔
شیطان کا کام انسان کو علم سے ہٹانا ہے، وہ اس لیے کہ وہ علم کے تمام راستوں سے واقف ہے، وہ یہ بات جانتا ہے کہ اگر انسان کو اللہ کا علم ہوگیا تو اس پر وہ تمام سلوک کی راہیں اسان ہوجائے گی جن کی وساطت سے وہ اللہ کو نا صرف کہ پالے گا بلکہ اس کو ایک الگ شان بھی عطا کی جائےگی۔ اللہ اپنی طرف آنے والوں کو ایک ہی طریقہ سے نہیں ملتا بلکہ اس نے اپنے ملنے والوں کے لیے مختلف راہ بنا رکھیں ہیں۔
آج کل کے کچھ بد ظن لوگوں نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ پیر حضرات اپنے مریدین کو تعلیم کی طرف نہیں انے دیتے۔ یہ اپنے لوگوں کو پڑھالکھا نہیں بناتے۔ حالانکہ یہ بات اس امر کے بالکل بر خلاف ہے جو بات کہ میں نے پہلے بھی کسی پیرائے میں بیان کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو خود اپنے جانثار ساتھیون کو تعلیم دیا کرتے تھے تو یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولیاء کرام کا یہ مشن نا ہو، ہر ایک ولی نے اس تعلیمی مشن کو جاری رکھا ، اس کی ایک زندہ مثال تو خود پیرومُرشد اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ دامت برکاتہم کی ہے، جنہوں نے ہر ایک مرید کو علمی خزانہ اکٹھا کرنے کے لیے نا صرف اصرار کیا بلکہ آپؒ خود بھی بہت مطالعہ کے مشاق تھے۔
آپؒ نے قران کریم مع ترجمہ و تفسیر پہ بہت زور دیا اور آپؒ حدیث شریف کو پڑھنے اور اس کو خوب اچھی طرح سمجھنے پہ زور دیا کرتے۔ ان کے علاوہ جو کتب آپؒ کے زیر مطالعہ رہی ان میں غنیۃ الطالبین، سیرت فخرالعارفین حصہ اول تا سوئم، کیمیائے سعادت، بہار شریعت اور انبیاء کرام علیھم السلام کے حالات۔
ولی کا مشن ہی علم کا تعاقب ہے۔ دم ٹونے، ٹوٹکے، تعویذ گنڈہ نہیں بلکہ شرع کے عین زندگی گزارنے کی تربیت ہے۔قران و سنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کا سبق دینا ولی کی شان ہے، ولی کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔میں نے جب بھی اپنے پیرومُرشد کو دیکھا تو اپؒ ہمیشہ یہی سبق دیتےکہ یہ زندگی جادوگری نہیں ہے ہم یہاں اس لیے نہیں کہ

تم ہم سے کوئی جادو سیکھنے آئے ہو، مشکل آتی ہے تو اس کو برداشت کرنا سیکھو،ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم تمہارے حق میں دعا کریں گے وہ بھی تمہیں ہر بار کہنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم یہ بات جانتے ہیں کہ تم ضرورت مند ہو، گزارا اسانی سے نہیں ہوتا، مگر اللہ خیر ڈال دے گا پریشان نا ہوا کرو، وہ خالق و مالک ہے، وہ بھوکا نہیں سلائے گا،یہ روحانیت ہے کوئی طلسم کدہ نہیں ہے جو ایک پل میں سارا کچھ بدل جائے،ایسا کوئی کام نا کرو جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو۔ جن دوسرے لوگوں کو خوشحال دیکھ کر ہم سے آن کر سوال کرتے ہو، تو اللہ جس حال میں رکھے تو وہی حال بہتر ہے، جو اللہ چاہے تو وہی تمہارے لیے ٹھیک ہے، اس بات کو سمجھو۔
آپؒ فرمایا کرتے کہ دنیا میں رہتے ہو تو محنت سے جی مت چراو، خوب دل لگا کر کام کرو۔دل اور دماغ کو حاضر رکھ کر ہی کسی سے کوئی سوال کیا کرو، پہلے خوب اس کو اپنے اپ سے مذاکرہ کیا کرو مطلب یہ ہے کہ اچھی طرح سوچ سمجھ لیا کرو، پھر ہی بات شروع کیا کرو ورنہ خاموشی میں ہی بہتری ہے۔ ایک ٹائم ٹیبل بنا کر چلنا اچھا ہے کہ آج کیا کام کرنے ہیں۔ جب تمہارے اندر ترتیب ہوگی تو تمہیں کسی بات کا اندیشہ نہیں ہوگا۔ ہاں اگر تم سوچ کر کسی کام کو سٹارٹ کروگے تو کام نے تو خراب ہونا ہی ہے۔ جب بھی کوئی کاروبار شروع کرنا ہے تو پہلے رقم دیکھ لو اور اسی کے مطابق کاروبار کا آغاز کرو یہ نا کرنا کہ کام سے پہلے ہی قرض میں ڈوب جاو،قرض ایک بہت بڑی آفت ہے اس سے انسان کی عمر کم ہوجاتی ہے، بس اس سے بچنا تمہارے لیے ٹھیک ہے۔
ہر کام کو سنجیدگی سے کرو، پہلے خوب اچھی طرح سے ہر پہلو کا مشاہدہ کرلو، بار بار ہر ایک بات پہ اچھی طرح سے غورو خوض کروتاکہ بعد میں کسی ڈھونگی بابے کی تمہیں ضرورت نا رہے، ایک بہت ترقی پسند کاروباری اکثر کوں تمہارا مذاق اڑاتا ہے کیونکہ تم میں اور اس میں فرق غوروخوض کا ہے ، وہ اچھی طرح ہر ایک بات کا معائنہ کرتا ہے، تب کہیں جا کر اپنی رقم کا استعمال کرتا ہے۔
تلاش و جستجو اور کھوج کا سلسلہ اگر ختم ہے تو وہاں دم والے بابے کا بہت رُحجان ہوگا، میں اس بات کے خلاف نہیں ہوں کہ تم اسلام اور دین کا نام لینا ہی بند کردو، نہیں ایسی بات نہیں ہے، بلکہ ایسا وطیرہ ہو کہ اس زندگی کے اصل رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے تمہارے پاس وقت ہو، ہر باتت کو جب سنجیدگی سے سرانجام نا دوگے تو نتیجہ کیا ہوگا کہ
" ہاں یہ تو وہ جن ھوت ہی ہیں جو میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ باباجی سچ کہتے ہیں اچھا! پھر چلتے ہیں انہی باوا جی کے در پہ پہلے تو جا کر ماتھا رگڑتا ہوں اور معافی چاہتا ہوں۔"

میں آپ کو اپنا ایک ایسا واقعہ بتانے لگا ہوں کہ کچھ لوگ اس بات سے پوری طرح اتفاق کریں گے کیونکہ وہ اس کا ایک حصہ ہیں۔ یہ واقعہ یکم جولائی 2018 کا ہے، سلسلہ عالیہ میں ایک مرید ہیں جناب رضوان صاحب ان کی ایک بھابھی ہیں کہا جاتا ہے کہ ان موصوفہ کے پیچھے کچھ اشیا سفلی عالم کی ہیں ، گیارہویں شریف کے ختم پاک کے بعد میں ان کے ساتھ ان کے گھر مصطفٰی ٹاون چل پڑا کہ کہیں رضوان صاحب ناراض ہی نا ہوجائے ، خیر اللہ اللہ کرکے ان کے گھر گئے انکی بھابھی جو پہلے سلسلہ میں داخل ہونے کی بھرپور متمنی تھی، کاہشمند تھی میرے جانے اور دعوت دینے پہ کچھ بکھری ہوئی ، لڑکھڑائی ہوئی نظر ائی، یہ اب ان کا اپنا کردار تھا یا کسی نے ان کو سجھایا تھا ، واللہ ہو اعلم بالصواب۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کیا بہتری تھی۔
سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالٰی کی ذات فرماتی ہے،اور جب قیامت کے سارے معاملات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تم سے سچے وعدے کیے تھے سو میں نے بھی تم سے وعدے کیے تھے وہ سب جھوٹے وعدے تھے میں تو صرف تمہیں اپنی طرف بلاتا تھا اور تم میری بات مان لیا کرتے تھے یہ تمہاری غلطی تھی اب تم یہ ملامت مجھ پہ مت ڈالو میں تو خود تم سے بیزار ہوں۔
ایک اور جگہ پر قران کہتا ہے کہ شیطان کا وار اور خود شیطان کمزور ہے۔ وہ تو صرف حیلہ کرتا ہے اور ہم فوراً اس کی امامت میں چل پڑتے ہیں کیونکہ اس نے دنیا کو ہمارے سامنے سجا کر پیش کیا ہوتا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے لہٰذا جو بھی فیصلہ کرو وہ قران و سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق ہونا چاہیے۔
جی تو بات ہورہی تھی رضوان صاحب اور متعلقین کی ، جی تو جب میں ان کے گھر سے ہوکر ایا تو دودن بعد ہی معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے بہت سخت برہمی کا اظہار کیا ہے کہ جو بھی یہاں انہوں نے کہا جھوٹ کہا اور ایسے ہی کچھ بھی پاس نہیں ہے، ہمارے یہاں تو بہت ساری بلائیں ہیں بھوت پریت ہیں اور ہمیں راتوں کو ڈر لگتا ہے اور بچے ڈر جاتے ہیں کسی پیر صاحب کو بلایا بھی وہ سرکار تشریف لائے اور انہوں نے پڑھا ان کو تصرف غیبی سے آقاز آئی کہ ہاں ہم یہاں ہیں تم ہمارا صدقہ دو تو ہم نظر بھی آئیں گیں۔
اب میرے ساتھ کیا ہوا جو آپ کو سنانا چاہتا ہوں ہوا یوں کہ میں ان کے ہاں اتوار کو گیا تو پیر کی صبح میرا سو روپیہ گم ہوا، منگل والے دن شناحتی کارڈ گم ہوا، بدھ کو میری ایک کتاب نا ملے۔ یہ سب کیا ہے، کوئی روحانی پریشانی ہے؟ کوئی بھوت پریت ہے جو وہاں بیٹھ کر ساری چیزیں اٹھا کر لے جا رہا تھا؟ کیا یہ ان کے گھر جانے سے ہوا کہ ان ہی کا ردعمل

مجھ پر پڑ گیا؟ یا میری اپنی لاپرواہی تھی۔ جی بالکل آپ نے ٹھیک سمجھے یہ ہے لاپرواہی اور میں اگر اس کو ان کی کسی سفلی طاقت کا کام کہہ دوں تو لوگ اس پر بہت جلد یقین کر لیں گے۔
جو میں نے ان سے کہا " دیکھے یہ جن ہیں ان کا وجود ہے سب اس بات کو مانتے ہیں قران سے بھی ثابت ہے مگر جہاں ان کا وجود ہوتا ہے یہ وہاں کسی کو ارام سے نہیں رہنے دیتے، آپ لوگ بالکل نا ڈریں ارام سے رہے، نماز کی پابندی کریں، اور ان موصوفہ کو سلسلہ عالیہ میں داخل کرکے صرف درور شریف پڑھنے کو کہا، مگر ہمارے لوگوں کو جب تلک آپ کشت میں نا ڈالیں تو یہ باز نہیں آتے، حتٰی کہ بعض مریدین بھی بڑی بڑی پڑھائیاں مانگتے ہیں۔ کیا کریں ان لوگوں کا جو اس سادھی زندگی کو گزارنا عیب جانتے ہیں،
زندگی وہی جو قران کہتا ہے، مگر آج کل تو ایک غیر شخص تمہارے گھر آکر تمہاری بہن اور بیٹی کے سامنے بیٹھتا ہے اور تمہارے شرم گھاس کھانے گئی ہوئی ہے، کیوں تم لوگ مجبور ہو، ہر کسی نے حیا و شرم کو خیر باد کہہ دیا ہے سب ہی ایک نعرہ لگاتے ہیں۔
نیا دور ہے جی نئی باتیں ہیں جی اب ترقی کرنی ہے تو عورت کو تو کام کرنا ہوگا دیکھے جی آپ کو کچھ نہین پتا جی آپ ہیں پرانے آدمی یہ دیکھیں آپ کمپیوٹر چلا لیتے ہیں، ابھی میرا بیٹا آئے گا تو اپ کے سامنے انٹرنیٹ پہ سارے جہاں کی باتیں ایک منٹ میں بتا دے گا، اور تو اور میری بیٹی کو بہت آتا ہے سارا محلہ اسی سے اپنی ای میل کا کام کرواتا ہے جی۔  
کیا ہوگیا ہے کیا تم نے پہلے لوگوںکی باتیں بلا دی ہیں ترقی کے نام پہ ڈھینگے مارنے والے یہ لوگ اپنے اسلی دین ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم کو بول کر شارٹ کٹ کی طرف لپک رہے ہیں، اور بہت تیزی سے مختصر پڑھائیوں پہ لگے ہوئے ہیں کسی نے ایک ہزار دفعہ سورۃ الاخلاص کی مداومت کی تو اس نے یہ جانا کہ ا قران کریم کی تلاوت کی ضرورت نہیں رہی، استغفرواللہ ھو ربی، یا اللہ مجھے معاف کرنا۔ کسی نے اپنے ہی آپ یہ فیسلہ کر لیا کہ میں ایک دن میں سورۃ الحمد شریف سو بار پپڑھونگا تو مجھے دنیا کی سلطانی مل جائے گی۔
تمہاری کسوٹی، پرکھنے کا معیار جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور نا صرف کہ کرکے دکھایا ہے وہی معیار ہے اچھی سچی باتوں پر سر دھننے والوں کبھی اپنی زندگی میں انے والی مصیبت پہ صبر کرکے دیکھو، مگرتم اپنی ہی غلطی کرکے اللہ کو الزام دیتے ہو،میری ایک جاننے والی ہیں ان کو اپنے اوپر کسی قسم کا کوئی بھی اعتبار نہیں جو کچھ بھی ہے بس جی جو میں نے کہہ دیا بس جی وہی کرنا ہے انہوں نے۔ مگر کیا ہے کہ بعد میں پتا

چلتا ہے کہ جو کہا تھا وہ تو وہ صاحبہ کر نا سکی کہ ان کے ایک بھائی نے ان کو منع کردیا ، اچھا جی اب کوئی اور بتائے کہ کیا کروں، ان کا ایک کام تھا میں نے ان کو بہت سمجھایا کہ وہ خود اس شخص کے پاس چلی جائے جو ان کا اپنا خاوند ہے اور وہ اپنے اس فیصلے پر بضد رہیں کہ میں کیوں جاوں، وہ مجھ سے کہتی رہیں کہ میں کوئی ایسی پڑھائی دوں کہ جس سے ان کا خاوند خود چل کر آجائے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انہی عملوں سے بات بن جاتی ہے تو پھر تو ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا امتی نہیں ہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تم لوگ بھلا بیٹھے ہو کیا جو بھرپور معاملہ سرکاردوعالم صلی الہہ علیہ والہ وسلم فرماتے رہے تم نے اس کو فراموش کردیا ہے اور انہی کافروں والی حرکات کو اپنانا اپنا دین قرار دے دیا ہے۔ بابے نے کہہ دیا اور تم نے مان لی جو اصل بات تھی عمل وہ تو تم نے درگزر کردیا۔ کیا بابے کو اس بات کا ادراک ہے کہ تم کس عذاب سے گزروگے اس نے اپنی قبر میں جانا ہے تم نے اپنی قبر میں۔ تم اپنے سوالوں اور اعمال کے خود ذمہ دار ہو۔ شادی تم نے کی رہو بھی تم اور انسان ہونے کے ناطے سے تم سے کوئی غلطی سرزد نا ہو یہ ہو نہیں سکتا ، اب یہ غلطی بھی ا سی کے سر جس نے تمہیں یہ کہا کہ ہاں اس سے شادی کرلو یہ ٹھیک رہے گا۔ ہنڈیا چولہے پہ رکھ کر یہ تو نہیں ہوتا کہ اب سالن خود ہی پک جائے گا اس کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ کوشش اور ترکیب سے ہی سالن پکتا ہے اور یہ  بات پکاتے تو سبھی ہیں مگر ذائقہ اور لطف کسی کسی میں ملتا ہے، یہ بات ہے عقل و شعور کی۔
   جو عورت کہ گہری نہیں ، اس کو گھر چلانے کا شوق نہیں جو اپنے خاوند کے ارام وسکون کو مدنظر نہیں رکھتی اس نے الگ رہنے کی قسم کھا رکھی ہے، وہ کبھی کسی کی نا ہوسکی ہے اور نا ہوگی ، ایسے لوگ دنیا میں صرف گڑبڑ ہی کے حامی ہوتے ہیں، ان لوگوں کا انجام برا ہی ہوتا ہے، عورت وہ جو پیا من بھائے۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔ بات تب ہی بنتی ہے۔
ایسا مرد جس کو اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ کی ضرورتوں کا خیال نا ہو، اور وہ اللہ کی عبادت سے جی چراتا ہوتو ایسا ادمی اپنے اپکو خدا سمجھ لیتا ہے اور جب بات اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو اکثر بابوں کے دربار پہ نظر اتا ہے، کبھی کسی عالم جفر کے پاس، کبھی کسی علم الحروف والے کے پاس ، کبھی علم الاعداد والے کے پاس اور اسی طرح رمل بھی ایک عالم ہے۔
سب کاموں کا قبضہ قدرت اللہ کے ہاں ہے۔ اللہ ہی واحد و مالک کل کائنات کا رب ہے، وہ ہی یکتا ہے وہی کل شی قدیر ہے ، کون ہے جو اس کی مرضی کے بغیر چل سکتا ہے، کیا وہ آسمان سے بارش نہیں برساتا، کیا وہ گرمی و سردی کا ، بہار کا، فصل کے پک جانے کا،
پھولوں میں رس لانے کا، طرح طرح کی سبزیوں کا مالک و مولٰی نہیں ہے۔ چیزوں میں اگر الگ الگ لذت ہے تو اسی ے دم سے ہے۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ کوئی نہیں الہ سوائے اللہ کے جس کی کہ ہم عبادت کریں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر ہی تو ہر مسلمان کا یقین ہے تو کیوں کسی کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ اس نے جو قران میں کہا کیا وہ تمہارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اسی لیے تو تم نے سفلی بابوں ا سہارا لے رکھا ہے کہ جو بابے کے منہ سے نکل گیا وہ ہی حق ہوگیا۔ جو کسی ولی نے کہا وہ تمہیں از حد برا لگ گیا۔ وہ ولی بھی تو یہ کہتا ہے کہ نماز اور صبر سے مدد لو، تو کیا وہ غلط کہتا ہے، اس نے کہا کہ اپنی زندگی کو سادھا طور پر رکھو تم سے سوال کم ہونگے تو اس نے کوئی غلط کہہ دیا۔ بجائے اس کے ہ تم یہ وظیفہ کرو راتوں رات امیر ہوجاو گے، یہ اونٹ کی ہڈی اپنی چھت پہ لٹکا دو سب بلائے بھاگ جائے گی، کیا ہوگیا ہے کس عمل پہ اپنی قبر  میں جاو گے۔
بسم اللہ پڑھبے کی تو کسی کو توفیق نہیں ہوتی شاید ہی کسی کو یاد رہتی ہو کہ کھانا کھانے سے پہلے پڑھ لینی چاہیے۔ کن باتوں میں الجھ کر اپنا گردوپیش تباہ و برباد کرلیا ہے، کسی کا لیپ ٹوپ گم ہوگیا تو وہ بجائے ڈھونڈنے کے اور احتیاط کرنے کے فوری بابا جی حضور کے حاضر ہو کر رونا روتا ہے، پہلے کہاں تھے جب اس کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔
ہمارے ایک شفقت بابا جی ہیں ان کی ایک بڑی کارآمد بات میں نے پلے باندھی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں" گنڈ بنن تو رہیے نا تے چور کسی نوں کہییے نا"۔
" دین میں زوق و شوق اور سرشاری سے ہی کوئی مقام ملتا ہے اوراس سے اللہ اور اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں"- حضرت شاہ شکور علیہ الرحمۃ
 طالب حق کو توبہ کی راہ نہہیں چھوڑنی چاہیے"- حضرت شاہ شکور علیہ الرحمۃ
" نگاہِ مپرشد انسان کو ممتاز بنادیتی ہے جس کے لیے راہ شریعت کا شہسوار بننا پڑتا ہے"- حضرت الشاہ محمد علاء الدین علیہ الرحمۃ
"اپنے کاموں اور فرائض کو محبت، محنت اور مستعدی سے انجام دو"- حضرت الشاہ محمد علاء الدین علیہ الرحمۃ
" اللہ کی زمین بہت وسیع ہے صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جاتا ہے"- حضرت الشاہ محمد علاءالدین علیہ الرحمۃ

 " جو شخص کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے اور شیطانی حربوں سے بچتا ہے کامیاب ہے"- حضرت الشاہ محمد علاءالدین علیہ الرحمۃ
" اپنی ذات کے لیے کسی کو تکلیف نا دو، مخلصین ، محبیبیں اور غریبوں کا خیال رکھو"- حضرت الشاہ محمد علاءالدین علیہ الرحمۃ
 "جب تم لوگ عقل و ہوش و حواس کا ساتھ لیے بغیر کوئی بھی کام کروگے تو مات کھا جاوگے" – اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ
" دل اور دماغ کو اچھی طرح حاضر کرکے بات کیا کرو"- اعلٰحضرت شاہ محمد امین شاہ صاحب علیہ الرحمۃ
"عقلمند وہ ہے جو ہر معاملہ میں اللہ پر ہی توکل کرے" حضرت بابا فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمۃ
درویشوں کے حق میں ہمیشہ ننیک گمان رکھو تاکہ ان کی حمایت حاصل ہو" حضرت بابا فرید الدین علیہ الرحمۃ
   ریحان بشیر  

2 comments: