دل نادان تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا
ہے یہ شعر بھی مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے مرزا غالب نے انسانی فطرت کو خوب سوچ
سمجھ کر ہی ایسا کہا کہ انسان ہے تو نادان ہی کیونکہ جو کچھ بھی کارفرما ہے اس میں
غلطیاں تو بہت ہیں اسی لیے تو ہم کو غلطی کا پتلا کہا جاتا ہے اور یہ بات بہت
انداز سے درست بھی تو ہے۔ ارے میاں وقت کے دھارے کے ساتھ تو ہر چیز اپنی طاقت
کھونا شروع کر دیتی ہے تو ہم ٹھہرے گوشت پوست کے۔ کیوں نا گھسے گے اور خطا کریں گے۔
ویسے ہم غلطی کر کے ہی سیکھتے ہیں۔ مگر ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہم غلط ہیں۔
انہی غلط باتوں کے پیش نظر ہمیں جو درد ہوتا ہے ہمیں جو تکلیف لاحق ہوتی ہے بس ہم
یوں ہی کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہماری تو کوئی غلطی نہیں تھی یہ میاں کلو ہی نہیں
سمجھا اے ایسا کیا ہے ہمارے اندر ؟
ارے بھائی یہ
کوئی ڈر تو نہیں ہے جو تم مان نہیں رہے۔ چلو اگر کوئی کام نہ کر سکے یا یوں کہو کہ
ٹھیک نہ ہوا تو مان لو کہ کچھ نہ کچھ تو کہیں کوئی چلو آپ نہیں تو کوئی غلط ہے۔
دوسرے سے پوچھے گے تو وہ آپکو ہی غلط کہے گا ۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔
یہ کیسا قانون ہے کہ ایک ہی بندہ خراب اعمال سر انجام دیتا ہو اور دوسرا جو براہ
راست طور پہ شامل ہے وہ معصوم ہو یا شامل ہی نہ ہو۔ قرآن کریم کا بیان کہ ہم نے
انسان کو تقویم سے بنایا ہے یعنی بہت تناسب کے ساتھ تاکہ وہ خوبصورت لگے اور ایسا
ہونے میں شک ہی کیا ہے۔ ایک اور جگہ پہ یہ بھی فرمایا گیا کہ انسان کو ناامید پیدا
کیا گیا ہے۔ بلکہ جلدباز بھی کہا گیا۔ اور یہ تمام غلطیاں اسی جلد بازی کی وجہ سے
ہوتی ہیں۔جب قانون فطرت کی رو سے ہی ہمارے وجود میں غلطی کرنے کا احتمال ہے تو ہم
یہ بات ماننے پر کیوں تیار نہیں ہوتے کہ ' میں غلط ہوں'۔ ہمارا خود کا قصور ہوتا
ہے اور ہم اس کا ذمہ دار دوسرے لوگوں کو گردانتے ہیں۔
اس ساری بات کی
وجہ ہمارے اندرونی تضادات بھی ہیں اور اپنے خود ساختہ تفرقات بھی ہیں۔ اس کو ملنا
ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ملنا کہ وہ غریب ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہے وہ تو بلکہ ہم
پہ بوجھ ہی نا بن جائے اور ہمیں لینے کے دینے پڑ جائے۔ یہی تربیت ہم جب اہنے بچوں
کی کرتے ہیں اور نتیجہ گڑبڑ ہوتا ہے تو پھر چیختے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ۔ یہ جو
نفرت ہے نا بڑا ہی گناونا جرم ہے۔ پیسے کے پیچھے بھاگنے والے یہ بات نہیں سمجھتے
کہ اصل حاصل تو وہ رشتہ ہے جو آپﷺ نے بنایا ہے اور جسے قرآن پاک صلہ رحمی کہتا ہے۔ اب جو صلہ
رحمی کو نہ سمجھتا ہو تو وہ غلط نہیں ہے ہاں جی یہی غلطی ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ انسان جہاں اپنا فائدہ دیکھتا ہے تو
وہی پڑاو ڈال لیتا ہے مانتے ہیں انسان خود غرض ہے چالاک بھی ہے مگر ایک ہی پانچ
انگلیاں برابر نہیں ہوتیں تو انسان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔
جس طرح ایک مسلمان کا درجہ ایک مومن سے اور ایک مومن کا
درجہ ایک ولی سے کم ہے۔ پھر اس سے بھی اوپر درجے ہیں ابدال، قطب غوث اور صحابہ
کرام رضی اللہ عنھم اجمعین۔ کچھ لوگ ان میں ایسے بھی ہیں جس طرح شرعی ولی جس کو
اپنی ولایت کا معلوم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالٰٰ کی ذآت اس سے بہت خوش ہوتی ہے اور اس
کی ہر دعا قبول کی جاتی ہے۔ اللہ کی ذات اقدس کہتی ہے کہ میرے اولیائ اللہ سے جنگ
نہ کرنا کیوں میں ان سے بہت محبت رکھتا ہوں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ان اولیائ کرام
سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں تو ایسے لوگ جو ان پاک نفوس ہستیوں سے منسلک ہیں دور
ہیں پاس ہیں کچھ نہ کچھ تو حصہ رکھتے ہیں۔ اگر خالی مٹی کو گلاب کا ملاپ حاصل ہو
جائے تو وہ بھی کچھ خوشبو پا ہی لیتی ہے۔
پھر یہ سارا
معاملہ تو عطا کا ہے۔ مگر غلطی بھی انسان کے وجود کا حصہ ہے یہ بات نہیں ہے کہ ہم
یہ کہۓ کہ ہم سے تو غلطی سرزد ہی نہیں ہوتی یا ہوسکتی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سے غلطی
نہ ہو۔ ہم نہ تو نار سے ہیں اور نہ ہی نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔ ہمارا قالب مٹی کا
ہے اور یہ مٹی جس جگہ سے لی گئی ہے وہ جگہ قیاس کہلاتی ہہے۔ مطلب تاریک اور مایوسی
کی پناہ گاہ۔ یہ ٹھنکتی ہوئی مٹی اپنے اندر خوبیان اور خامیاں لیے ہوئے ہے۔ یعنی
کہ اس میں اگر ایک پہلو ٹھیک ہے تو دوسرا پہلو کمزور ہے۔ یا ہم اس کو اگر یوں کہیں
کہ اس میں ایک طرح توازن رکھا گیا ہے تو شاید ایسا کہنا کچھ غلط نہ ہو۔
ہر انسان کے
وجود میں کسی نہ کسی پہلو یا قدر کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوتی ہے
سوائے سوائے ایک ہستی پاک کے اور وہ ہیں ہمارے آقا و مولا سرور انبیاء خاتم
النبیبن حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی شفیع الذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ
وسلم آپ ایک کامل انسان ہیں آپ سرکارعالیﷺ کی ذات پاک میں کسی غلطی کو عمل دخل نہیں ہے۔
سُبحان اللہ والحمدللہ و لا الہ الی اللہ واللہ اکبر۔ آپﷺ ہم سب دنیا والوں کے لیے اصل میں ایک
کسوٹی ہیں۔ الحمد للہ رب العالمین۔
No comments:
Post a Comment